امام کاظم کے مناظرے

ویکی شیعہ سے
(مناظرات امام کاظم (ع) سے رجوع مکرر)

مناظرات امام کاظمؑ کے عنوان سے تاریخی اور حدیثی کتب میں امام کاظمؑ کے کچھ مناظرے اور گفتگو نقل ہوئے ہیں جو آپ نے بنی عباس کے خلفاء اور دوسرے ادیان و مذاہب کے علماء کے ساتھ انجام دئے۔

یہودی اور عیسائی علماء کے ساتھ آپ کی گفتگو زیادہ تر ان کے سوالات کے جواب میں ہوئی ہے اور اس کے نتیجہ میں انہوں نے دین اسلام کو قبول کرلیا۔ اسی طرح مہدی عباسی سے ایک گفتگو میں آپ نے فدک کا مطالبہ کیا اور ہارون عباسی نے جب رسول خداؐ کو چچا زاد کہا تو آپ نے جواب میں آنحضرت کو اپنا پدر بزرگوار قرار دیا۔

ابو حنیفہ سے گفتگو

ایک روایت کے مطابق ایک بار ابو حنیفہ ایک مسئلہ کے بارے میں امام صادقؑ سے ملاقات کو آئے۔ لیکن اتفاق سے آپ کے فرزند موسی بن جعفرؑ سے ملاقات ہوئی جو کہ اس وقت پانچ سال کے تھے۔ ابو حنیفہ نے وہ سوال ان سے پوچھ لیا جو امام صادقؑ سے پوچھنے آئے تھے: گناہ خدا کی طرف سے ہے یا بندہ کی طرف سے؟ امام کاظمؑ نے فرمایا: یا تو اللہ کی طرف سے ہے اور اس میں بندے کا کوئی دخل نہیں ہے اس صورت میں اللہ بندے کو اس کام کی سزا نہیں دے سکتا جس میں اس کا کوئی دخل ہی نہیں تھا۔ یا گناہ خدا کی طرف سے بھی ہے اور بندہ کی طرف سے بھی اور اس صورت میں خدا گناہ کا طاقتور شریک ہے۔ اور طاقتور شریک کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کمزور شریک کو اس گناہ کی سزا دے جو دونوں نے مل کر انجام دیا ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ گناہ بندے کی طرف سے ہے اور اس میں خدا کا دخل نہیں ہے، اس صورت میں چاہے تو خدا بندے کو بخش دے گا اور چاہیے تو سزا دے دے۔ اور خدا وہ ہے جس کی مدد ہر حال میں مطلوب ہوتی ہے۔ نقل ہے کہ ابو حنیفہ نے یہ جواب سن کر امام صادقؑ کے گھر سے چلے گئے اور کہا یہی جواب میرے لئے کافی ہے۔[1]

ایک بار امام صادقؑ کے سامنے ابو حنیفہ نے امام کاظمؑ پر اشکال کیا کہ آپ کے صاحبزادے کو میں نے دیکھا کہ نماز پڑھ رہے تھے اور لوگ ان کے سامنے سے نکل کر جا رہے تھے اور وہ لوگوں کو اس کام سے روک بھی نہیں رہے تھے۔ امام صادقؑ نے پوچھا کہ کیا ابو حنیفہ کے بات صحیح ہے؟ تو آپ نے جواب دیا: جی، میں جس کے لئے نماز پڑھتا ہوں وہ مجھ سے ان کے مقابل زیادہ نزدیک ہے جو میرے آگے سے گزر رہے تھے اور قرآن کی آیت:(نَحْنُ أَقْرَ‌بُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِ‌يدِ[؟؟][2]: ہم رگ گردن سے زیادہ اس سے نزدیک ہیں۔ سے استدلال کیا۔[3]

یہودی اور عیسائی علماء سے گفتگو

یہودی علماء سے گفتگو

قرب الاسناد کی ایک طویل روایت کے مطابق ایک دن کچھ یہودی امام صادقؑ کے پاس آئے اور کہا کہ انبیاء کے جانشین اور اوصیاء، بغیر سیکھا ہوا علم رکھتے ہیں کیا آپ کے پاس ایسا علم ہے؟ آپ نے اپنے فرزند موسی بن جعفرؑ کو بلایا جو کہ ابھی صرف پانچ سال کے تھے اور ان کے سینہ پر ہاتھ پھیرا اور ان کے لئے دعا کی، پھر یہودیوں سے کہا جو پوچھنا ہو ان سے پوچھ لو۔ انھوں نے رسول خدا کے معجزوں کے بارے میں سوال کئے۔ اس روایت کے مطابق امام کاظمؑ نے آنحضرت کے متعدد معجزات کو تفصیل سے بیان فرمایا۔ یہودی کہنے لگے کہ ہم کیسے یقین کرلیں کہ رسول کے معجزات ویسے تھے جیسے آپ نے بیان کئے؟ آپ نے کہا کہ ہم کیسے یقین کرلیں کہ جناب موسیٰؑ کے معجزے ویسے ہی تھے جیسے آپ لوگ بیان کرتے ہیں؟ وہ کہنے لگے کہ ہم نے انہیں سچ بولنے والوں کے بیانات سے لیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میرے کہے کو اس وجہ سے قبول کرو کہ ایک ایسے بچے نے کہا ہے جس نے نہ کسی سے علم حاصل کیا ہے اور نہ ہی روایتیں نقل کرنے والوں نے اسے بتایا ہے بلکہ اللہ نے اس کی تلقین کی ہے۔ یہودیوں نے شہادتین پڑھی اور ائمہ شیعہ کی امامت کے گواہی دی۔ اس موقع پر امام صادقؑ نے امام کاظمؑ کی پیشانی کا بوسہ لیا اور فرمایا: أَنْتَ الْقَائِمُ مِنْ بَعْدِي (تم میرے بعد کے امام ہو)۔[4]

بریہہ سے مناظرہ

راہب سے امام کاظمؑ کی گفتگو
  • راہب:‌ درخت طوبی کی جڑیں حضرت موسیؑ کے گھر میں ہیں یا آپ کے بقول حضرت محمدؐ کے گھر میں ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کی شاخیں ہر گھر میں موجود ہوں۔
    • امام کاظمؑ: سورج کی طرح ہے جس کا نور تمام گھروں میں پہنچ گا جاتا ہے جبکہ سورج خود سے آسمان میں ہے۔
  • جنت کے پھل اور کھانے کیسے نہ ختم ہوں گے اور نہ ہی کم ہوں گے؟
    • چراغ کی لو کی طرح ہے۔ اس سے جتنے بھی چراغ جلائے جائیں اس کے نور میں کمی نہیں ہوتی۔
  • کیا جنت میں وسیع سایہ ہے؟
    • سورج نکلنے سے پہلے ساری جنت ایک وسیع سایہ میں ہے آیہ (أَ لَمْ‌تر إِلی رَبِّک کیفَ مَدَّ الظِّلَّ) میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔
  • جنت میں کیا کھاتے ہیں کہ انہیں نہ پیشاب کی حاجت محسوس ہوتی ہے اور نہ بیت الخلا کی۔
    • ماں کے شکم میں بھی بچہ کھاتا پیتا ہے اور پھر بھی نہ پیشاب کرتا ہے اور نہ پاخانہ؟
  • اہل بہشت کے یہاں کچھ خدمت گزار ہیں جو ان کی ہر خواہش کو پورا کرتے ہیں جبکہ ان کو حکم نہیں دیا گیا ہوتا!
    • جب بھی انسان کو کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے تو اس کے اعضاء و جوارح کو محسوس ہوجاتا ہے اور وہ اعضاء اس خواہش کے مطابق عمل کرنے لگتے ہیں جبکہ ان کو کوئی حکم نہیں دیا گیا ہوتا۔
  • جنت کی کنجی سونے کی ہے یا چاندی کی؟
    • انسان کی زبان، جنت کی کنجی ہے جب اس پر«لا اله الا الله» جاری ہوتا ہے۔[5]

مآخذ، ابن شہر آشوب، المناقب، ۱۳۷۹ش، ج۴، ص۳۱۱-۳۱۲

شیخ صدوق اور کچھ دوسرے لوگوں نے ہشام بن حکم سے روایت کی ہے کہ عیسائیوں کے ایک بزرگ بریہہ اپنے ساتھ کچھ عیسائیوں کو لیکر ہشام کے پا س آئے اور ان سے مناظرہ کیا۔ ہشام اس مناظرہ میں کامیاب ہوگئے۔ ہشام کے ساتھ بریہہ، عراق سے مدینہ گئے تاکہ امام صادقؑ سے ملاقات کرسکیں۔ امام صادق ؑ کے دروازے پر ان کی ملاقات آپ کے فرزند امام کاظمؑ سے ہوئی۔ کچھ کتابوں کے مطابق، ہشام نے بریہہ کی داستان امام کو سنائی۔ پھر امام کاظم اور بریہہ کے درمیان ایک گفتگو انجام پائی۔ اس گفتگو کی وجہ سے بریہہ اور ان کی ایک خدمت گزار خاتون دونوں مسلمان ہوگئے۔[6]ہشام نے ان دونوں کی داستان اور ان کے مسلمان ہونے کا واقعہ امام صادق ؑ کو بتایا تو آپ نے یہ آیت پڑھی: ذُرِّيَّةً بَعْضُها مِن بَعْضٍ وَاللهُ سَميعُ عَليمُ[؟؟] : یہ ایک نسل ہے جس میں ایک کا سلسلہ ایک سے ہے اور اللہ سب کی سننے والا اور جاننے والا ہے (آل عمران/۳۴) [7] امام کاظمؑ نے بریہہ سے پوچھا اے بریہہ تمہیں اپنی کتاب کا کتنا علم ہے؟ اس نے کہا کہ مجھے اپنی کتاب کا علم ہے۔ امام نے پوچھا کہ اس کی تاویل سے کتنی آگاہی ہے؟ جواب دیا اتنی آگاہی ہے کہ اس پر اعتماد ہے۔ امام نے انجیل کے کچھ پڑھے۔ بریہہ نے کہا حضرت مسیح اسی طرح انجیل کی تلاوت کرتے تھے جیسے آپ کررہے ہیں۔ اس طرح کی تلاوت خود مسیح کے علاوہ کوئی نہیں کرتا۔ مجھے پچاس سال سے آپ یا آپ جیسے کی تلاش تھی۔[8]

راہب سے گفتگو

مناقب ابن شہر آشوب میں ایک روایت کے ضمن میں ایک راہب سے امام کاظمؑ کی گفتگو کا ذکر آیا ہے۔ اس حدیث کے مطابق امام کاظمؑ حکومت وقت سے گریزاں تھے اور اس طرح شام کےایک گاؤں میں پہنچے۔ وہاں پر ایک راہب کو جب یہ پتہ چلا کہ امام کاظمؑ، مسلمان ہیں تو اس نے ان سے کچھ سوالات کئے اور امام کے جوابات سننے کے بعد ان کی تصدیق کی اور مسلمان ہو گیا۔[9]

عباسی خلفاء سے گفتگو

مہدی عباسی سے گفتگو

امام کاظمؑ اور مہدی عباسی کے درمیان کچھ گفتگوئیں ہوئی ہیں ان میں سے ایک فدک کے بارے میں ہے اور ایک قرآن کے اندر شراب کی حرمت کے بارے میں ہے۔ امام کاظمؑ نے شراب کے حرام ہونے کے سلسلے میں سورہ اعراف کی 33ویں آیت اور سورہ بقرہ کی 22ویں آیت سے استدلال کیا۔ [10] جب مہدی عباسی نے اپنے اوپر موجود قرض کو قرض والوں کو واپس کیا یا تو امام کاظمؑ نے اس سے فدک کا مطالبہ کیا۔[11] فدک درحقیقت ایک گاؤں یاایک باغ تھا جو پیغمبر اسلام نے اپنی وفات سے پہلے ہی اپنی بیٹی حضرت فاطمہ زہراؑ کو بخش دیا تھا۔ [12] اور وفات پیغمبرؐ کے بعد ابوبکر نے اس کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ [13] اس کے بعد یہ باغ، بعد کے خلفاء کے قبضہ میں رہا۔[14] مہدی عباسی نے امام سے کہا کہ فدک کی سرحدوں کو معین کریں تو امام نے اس کی ایسی سرحدیں بیان کیں جو عباسی حکومت کی سرحدوں کی برابر تھیں۔[15] البتہ کتاب مناقب میں فدک کے مطالبہ کو ہارون عباسی کے دوران میں ذکر کیا گیا ہے کہ وہاں پر امام نے اس کی سرحدیں عدن ،سمرقند، افریقیہ اور سیف البر، قرار دیں تھیں۔ ہارون نے کہا کہ اس طرح تو ہمارے لئے کچھ بھی نہیں بچے گا۔ امام نے کہا کہ مجھے معلوم تھا کہ تم کچھ واپس نہیں کرو گے۔[16]

ہارون عباسی سے گفتگو

ہارون عباسی نے پیغمبر اسلامؐ کی قبر پر اپنے حسب نسب کا اظہار کرنے کے لئے رسول اللہؐ کو چچا زاد کہہ کر پکارا۔ امام نے رد عمل کے طور پر پیغمبر اسلامؐ کو پدر بزرگوار کہا۔[17]

اسی طرح ایک روایت کے مطابق ہارون نے امام کاظمؑ سے کہا کہ آپ لوگوں کو یہ اجازت کیوں دیتے ہیں کہ آپ کو فرزند پیغمبرؐ کہیں جب کہ آپ حضرت علیؑ کی اولاد ہیں نہ کہ پیغمبرؐ کی۔ امام نے جواب میں کہا کہ اے خلیفہ اگر پیغمبرؐ زندہ ہوتے اور تمہاری بیٹی کا رشتہ مانگتے تو کیا تم یہ رشتہ کر دیتے؟ ہارون نے کہا ہاں بالکل اور اس رشتے کی بنیاد پر عرب اور عجم پر فخر کرتا۔ آپ نے کہا لیکن کسی بھی صورت میں پیغمبر میری بیٹی کا رشتہ نہیں مانگ سکتے تھے کیونکہ وہ میرے نانا ہیں۔ ہارون نے دوبارہ کہا آخر اپنے آپ کو پیغمبر کی اولاد کس طرح کہتے ہیں جبکہ پیغمبر کی کوئی اولاد بیٹے کی صورت میں نہیں تھی؟ امام نے ہارون کو پیغمبر اسلامؐ کی قبر کی قسم دی اور کہا کہ اس کا جواب مجھ سے نہ مانگو۔ لیکن ہارون نے قبول نہیں کیا اور اصرار کیا کہ آپ ثابت کریں کہ آپ رسول خداؐ کے فرزند ہیں۔

آپ نے قرآن کی آیت پڑھی: وَمِن ذُرِّ‌يَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَىٰ وَهَارُ‌ونَ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ﴿٨٤﴾ وَزَكَرِ‌يَّا وَيَحْيَىٰ وَعِيسَىٰ وَإِلْيَاسَ ۖ كُلٌّ مِّنَ الصَّالِحِينَ[؟؟]: اور پھر ابراہیمؑ کی اولاد میں داؤدؑ، سلیمانؑ، ایوبؑ یوسفؑ، موسٰیؑ، اور ہارونؑ قرار دئیے اور ہم اسی طرح نیک عمل کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں۔ اور زکریاؑ، یحیٰیؑ، عیسٰیؑ اور الیاسؑ کو بھی رکھا جو سب کے سب نیک کرداروں میں تھے۔ (سورہ انعام/۸۴-۸۵)۔ اور فرمایا کہ حضرت عیسیؑ کے باپ نہیں تھے۔ لیکن اللہ نے ان کو حضرت مریمؑ کی طرف سے حضرت ابراہیمؑ کی اولاد شمار کیا ہے۔ ہم بھی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی طرف سے پیغمبر سے منسوب ہیں۔ پھر آیت مباہلہ کی تلاوت کی۔[18]

اسی طرح ابن شہر آشوب نے ہارون کے ساتھ امام کاظمؑ کی گفتگو نقل کی ہے۔ یہ گفتگو مکہ میں ہوئی۔ اس روایت کی بنیاد پر ہارون نے حج ادا کرنے کے لئے بغداد سے مکہ کا ایک رسمی سفر کیا۔ اس سفر میں کسی کو یہ حق حاصل نہیں تھا کہ خلیفہ سے آگے بڑھے اور نگہبان راستوں کو خلیفہ کے لئے کھول دیتے تھے۔ لیکن ایک اعرابی خلیفہ سے آگے بڑھ گیا اور ہارون سے آگے بڑھ کر رکن کے مقام پر کھڑا ہو گیا اور حجر اسود کو بوسہ دے دیا اس کے علاوہ دوسرے مناسک حج بھی انجام دئے۔ آخر کار کعبہ کے دربان نے بہت سختی سے اس سے کہا اے اعرابی، خلیفہ سے آگے مت بڑھو۔ اس نے جواب میں کہا کہ اللہ نے اس جگہ پر تمام انسانوں کو برابر قرار دیا ہے اور کہا: «سواءً العاكِفُ فیه و البادِ»۔

ہارون نے حج کے مناسک کو انجام دینے کے بعد اعرابی کو بلایا لیکن وہ اعرابی، ہارون کے پاس نہیں آیا اور ہارون کے قاصد سے کہا: مجھے خلیفہ سے کوئی کام نہیں ہے لیکن اگر اسے مجھ سے کوئی کام ہے تو وہ خود یہاں پر آئے۔ ہارون اس کے پاس آیا اور ان کے درمیان ایک گفتگو انجام پائی۔ ہارون نے کہا کیا اجازت ہے کہ میں بیٹھ جاؤں اس نے جواب میں کہا یہ گھر نہ تمہارا ہے نہ میرا ہے، لہذا بیٹھنا چاہو تو بیٹھ جاو تو بیٹھ جاو اور چاہو تو واپس چلے جاو۔ ہارون بیٹھ گیا اور اس سے پوچھا کہ تم کو کس چیز نے اتنا جراتمند بنا دیا ہے کہ جو تم خلیفہ سے آگے بڑھ جاتے ہو۔ اس نے کہا کیونکہ خلیفہ اور میں اس مقام پر برابر ہیں۔ ہارون ناراض ہو گیا اور کہا میں تجھ سے ایک سوال پوچھتا ہوں اگر تو نے اس کا جواب نہیں دیا تو میں تمہیں سزا دوں گا اور اس سے پوچھا کہ تمہارے واجبات کیا ہیں: اس نے کچھ اعداد بتائے: «۱، ۵، ۱۷، ۳۴، ۹۴، ۱۳۵، ۱۲ میں سے۱، ۴۰ میں سے۱،۲۵۰ میں سے۱، اور عمر میں سے۱»

ہارون نے کہا یہ اعداد جو تم نے بتائے ہیں اگر تو نے نہ بتایا کہ یہ اعداد اور گنتیاں کیا ہیں تو میں صفا اور مروہ کے درمیان تمہاری گردن اڑادوں گا۔ ہارون کے خادم نے کہا خلیفہ محترم اس مقام سے ڈرئے ایسا نہ ہو کہ اس کو حرم امن الہی میں مار ڈالیں۔ اعرابی ہنس پڑا۔ ہارون نے اس کے ہنسنے کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب میں کہا مجھے تعجب ہے کہ تم دونوں میں زیادہ جاہل کون ہے۔ وہ ہے جو نہ آئی ہوئی اجل (موت) کو بخش دیتا ہے یا وہ زیادہ جاہل ہے کہ جو دوسرے کی سرنوشت کو جلدی لانے کی کوشش میں ہوتا ہے جبکہ لوگوں کی سرنوشت سے بے خبر ہے۔

ہارون نے کہا کہ اچھا اب ان اعداد کی وضاحت کرو:

اس نے کہا ایک سے مراد دین اسلام ہے اور دن میں پانچ وقت کی واجب نمازیں ہیں جو کہ 17رکعتیں ہوتی ہیں اور ان میں 34سجدے اور 94 تکبیریں اور 135 تسبیح ہیں۔

12 میں سے 1: سے مراد، ماہ رمضان کے روزے ہیں جو بارہ مہینوں میں سے ایک مہینے کے واجب ہوتے ہیں۔

40 میں سے1: سے مراد یہ ہے کہ ہر 40دینار پر ایک دینار، زکات کے طور پر واجب ہوتا ہے اور ہر 205درہم میں سے پانچ درہم مستحقین کو دینا ہوتے ہیں۔

ساری عمر میں1: سے مراد حج ہے کہ جب مسلمان مستطیع ہوجائے تو اس کو ایک بار حج کرنا ہوتا ہے۔

ایک میں1: سے قصاص، مراد ہے۔

ہارون نے کہا خدا کی قسم میں اچھی طرح سمجھ گیا۔ پھر حکم دیا کہ دینار کی ایک تھیلی اس کو دی جائے تو اس شخص نے کہا اے خلیفہ اس دینار کی تھیلی کو مجھے کیوں بخش رہے ہیں؟ کیا اس وجہ سے کہ میں نے اچھی گفتگو کی تھی یا اس وجہ سے کہ میں نے آپ کے مسئلہ کا جواب دے دیا؟ ہارون نے کہا تمہارے کلام کی شیرینی کی وجہ سے۔

اعرابی نے کہا اے خلیفہ اب میں ایک سوال پوچھتا ہوں۔ اگر تم نے جواب دے دیا تو یہ دینار کی تھیلی تمہاری۔ اور اگر نہ دیا تو تم ان کو حکم دینا کہ مجھے ایک اور تھیلی دیں۔ ہارون نے قبول کرلیا۔ اعرابی نے پوچھا اے خلیفہ خُنَفْساء اپنے بچہ کو اپنی پستان سے دودھ پلاتی ہے یا اس کے منہ میں دانہ بھراتی ہے۔ ہارون نے کہا مجھ جیسے خلیفہ سے ایسا سوال پوچھ رہے ہو۔ اعرابی نے کہا ہاں میں نے کچھ لوگوں سے سنا ہے کہ پیغمبرؐ سے نقل ہوا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی قوم کا حاکم اور خلیفہ ہو جائے تو ضروری ہے کہ اس کی عقل تمام لوگوں کی عقل کے برابر ہے۔ اور تم اس قوم کے خلیفہ اور پیشوا ہو لہذا ضروری ہے کہ جو بھی تم سے پوچھا جائے اس کا جواب دو۔

ہارون نے کہا مجھے نہیں معلوم ہے۔ کیا تمیں خود اس سوال کا جواب معلوم ہے۔ اگر تم نے جواب دے دیا تو یہ دونوں تھیلیاں تمہاری ہو جائیں گی۔

اعرابی نے کہا اللہ کچھ حیوانوں کو نہ پستان سے رزق دیتا ہے اور نہ دانے کے ذریعے، بلکہ ان کے رزق انھیں کے اندر پائے جاتے ہیں کہ وہ رحم مادر سے باہر نکلتے ہی اپنے ہی اندر سے رزق پاتے ہیں اور بڑھتے رہتے ہیں اور ان کی زندگی زمین اور خاک سے چلتی ہے جیسا کہ خنسفاء ہے کہ جو خود اپنے پستان سے رزق پاتا ہے۔ ہارون نے کہا آج تک میں نے اس طرح کا مسئلہ کسی سے نہیں سنا۔ اعرابی نے دینار کی دو تھیلیاں اٹھائیں اور کعبہ کے قریب موجود غریبوں میں تقسیم کردیں۔

ہارون نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس شخص کے بارے میں تحقیق کرو اور اس کا نام معلوم کرو۔ اور جس وقت ہارون کو چلا کہ وہ موسی بن جعفر تھے تو کہا خدا کی قسم مجھے پہلے سے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ ایسے شخص کو شجرہ طیبہ کا پھل ہونا چاہیے۔[19]

حوالہ جات

  1. ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ۱۴۰۴ھ۔ ص۴۱۱-۴۱۲؛‌مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ھ۔ ج۱۰، ص۲۴۷۔
  2. سورہ ق آیت:16)
  3. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ۔ ج۳، ص۲۹۷۔
  4. حمیری، قرب الإسناد، مؤسسہ آل‌البیت، ۳۱۷ - ۳۳۰۔
  5. ابن شہر آشوب، المناقب، ۱۳۷۹ش، ج۴، ص۳۱۱-۳۱۲۔
  6. صدوق، توحید، ۱۳۹۸ھ۔ ص۲۷۰-۲۷۵؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ھ۔ ج۲۶، ص۱۸۰، ۱۸۳-۱۸۴۔
  7. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ۔ ج۱، ص۲۲۷۔
  8. صدوق، توحید، ۱۳۹۸ھ۔ ص۲۷۰-۲۷۵؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ھ۔ ج۲۶، ص۱۸۰، ۱۸۳-۱۸۴۔
  9. ابن شہر آشوب، المناقب، ۱۳۷۹ش، ج۴، ص۳۱۱-۳۱۲۔
  10. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ۔ ج۶، ص۴۰۶؛ حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۰۹ھ۔ ج۲۵، ص۳۰۱۔
  11. طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۴۰۷ھ۔ ج۴، ص۱۴۹۔
  12. سبحانی، فروغ ولایت، ۱۳۸۰ش، ص۲۱۹۔
  13. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ۔ ج۱، ص۵۴۳؛ شیخ مفید، المقنعۃ، ۱۴۱۰ھ۔ ص۲۸۹ و ۲۹۰۔
  14. بلاذری، فتوح البلدان، ۱۹۸۸ء، ص۴۱
  15. قرشی، حیاۃ الامام موسی بن جعفر، ۱۴۲۹ھ۔ ص۴۷۲۔
  16. ابن شہرآشوب، ج۴، ص۳۲۰-۳۲۴۔
  17. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۸۵ش، ج۶، ص۱۶۴۔
  18. صدوق، عيون أخبار الرضا، ۱۳۷۸ھ۔ ج۱، ص۸۴-۸۵۔
  19. ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ش، ج۴، ص۳۱۲-۳۱۳۔

مآخذ

  • ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، ۱۳۸۵ھ۔
  • ابن شعبہ حرانی، حسن بن علی، تحف العقول، تصحیح علی‌اکبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۰۴ھ۔
  • ابن شہرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، قم، نشر علامہ، ۱۳۷۹ھ۔
  • حرعاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسہ آل البیت لاحیاء التراث، ۱۴۰۹ھ۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، فتوح البلدان، بيروت، دار و مکتبۃ الہلال، ۱۹۸۸ء۔
  • سبحانی، جعفر، فروغ ولایت: تاریخ تحلیلی زندگانی امیر مؤمنان علی(ع)، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، ۱۳۸۰ہجری شمسی۔
  • صدوق، محمد بن علی، التوحید، تصحیح ہاشم حسینی، قم، جامعہ مدرسین، ۱۳۹۸ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، تصحیح: حسن موسوی خرسان، قم، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ھ۔
  • قرشی، باقر شریف، حیاۃ الإمام موسی بن جعفر علیہما‌السلام، تحقیق مہدی باقر القرشی، مہر دلدار، ۱۴۲۹ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، داراحیاءالتراث العربی، ۱۴۰۳ھ۔
  • مفید، محمد بن محمد بن نعمان، المقنعۃ، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، ۱۴۱۰ھ۔