الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ (کتاب)

ویکی شیعہ سے
شرح اللمعۃ الدمشقیہ
مؤلفشہید ثانی (متوفی 966 ھ)
زبانعربی
موضوعفقہ
اسلوبفقہ تفریعی و فتوائی
ناشرجامعة‌ النجف الدیینة ، مجمع الفکر الاسلامی و ...


ألروضۃ البہیۃ فی شرح اللُّمعۃ الدّمشقیۃ، شرح لُمعہ کے نام سے مشہور، ایک جامع و غیر استدلالی فقہی کتاب ہے۔ جس کے مولف شہید ثانی (متوفی سنہ 965 ھ) کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ کتاب شہید اول کی کتاب اللُمعۃ الدمشقیۃ کی مہم ترین شروح میں سے ہے۔ یہ کتاب تحریر کے ابتدائی سالوں سے اب تک شیعہ فقہا کی توجہ کا مرکز رہی ہے اور اس پر سو سے زیادہ شروحات اب تک لکھی جا چکی ہیں۔ الروضۃ البہیۃ فقہ کے تمام ابواب پر مشتمل ہے۔ بہت سارے حوزات علمیہ کے مرحلۂ مقدمات میں نصابی کتاب کے عنوان سے پڑھائی جاتی ہے۔ یہ کتاب مختلف حالات میں مختلف ممالک میں چھپ چکی ہے۔ اور فارسی میں کئی ترجمے بھی موجود ہیں۔ حوزہ علمیہ قم کے نصاب کی کتابیں تدوین کرنے والے ادارے کی طرف سے اس کا خلاصہ بھی نشر ہوا ہے۔ یہ کتاب محقق کرکی کی کتاب جامع المقاصد اور شہید ثانی کی مسالک الافهام سے متاثر ہے۔

اہمیت اور خصوصیات

کتاب الرَّوضَۃُ البَہیَۃُ فی شرح اللُّمعَۃِ الدِّمِشقیَۃ شہید ثانی کی قلمی آثار میں سے ایک ہے جو شرح لمعہ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ کتاب شیعوں کی فقہی کتابوں میں سب سے زیادہ معتبر کتاب[1] اور شہید اول (متوفی ۷۸۶ھ) کی کتاب لمعہ کی شرح ہے۔ یہ کتاب تمام فقہی ابواب پر مشتمل ہے۔[2] آقابزرگ تہرانی (متوفی ۱۳۸۹ھ) اپنی کتاب موسوعۃ‌ الشہید الثانی میں لکھتے ہیں کہ کتاب الذریعہ کی چھٹی اور چودہویں جلد میں شرح لمعہ کی تقریبا 100 سے زیادہ شروحات اور حواشی کی فہرست موجود ہے۔[3]

بع محققین کے مطابق کتاب الروضۃ البہیۃ کا مصنف محقق کرکی (متوفی ۹۴۰ھ) کی کتاب جامع المقاصد سے متاثر تھا۔ اس بنا پر اس کتاب کو سمجھنے کے لئے جامع المقاصد اور خود شہید ثانی کی ایک اور کتاب مسالک الافہام کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔[4]

حوزات علمیہ کی تصابی کتاب

شرح لمعہ کی جامعیت، کثیر فقہی فروعات پر مشتمل ہونے نیز استنباط احکام کے دلائل کی طرف اجمالی توجہ دینے کی بنا پر [5] شہید ثانی کے بعد آنے والے فقہاء اس کتاب پر خاص توجہ دیتے تھے[6] یوں اس کتاب پر متعدد شرح اور حاشیے لکھے گئے ہیں۔[7] اسی طرح کتاب تقریبا تمام شیعہ حوزات علمیہ کی نصابی کتابوں میں بھی شامل رہی ہے۔[8] شرح لمعہ وہ پہلی فقہی کتاب ہے جو دینی طلاب فقہ کے باب میں پڑھتے ہیں۔ ایران کے دینی مدارس کے نصاب تعلیم میں اس کتاب کو چوتھے سال سے چھٹے سال تک طلاب کو پڑھائے جاتے ہیں۔[9] شرح لمعہ ایک استدلالی کتاب نہیں ہے اس بنا پر اکثر اوقات احکام کے دلائل کی طرف اشارہ نہیں کرتی البتہ بعض موارد میں ان دلائل کی طرف بھی مختصر اشارہ کرتی ہے۔[10]

مؤلف

شرح لمعہ کا مؤلف زین‌الدین بن علی بن احمد عامِلی(متوفی 965ھ)، شہید ثانی کے نام سے معروف دسویں صدی ہجری کے شیعہ فقہاء میں سے ہیں۔[11] شہید ثانی کے دوسرے مشہور علمی آثار میں مسالک الافہام، مُنیَۃُ المُرید اور مُسَکِّنُ الفُؤاد شامل ہیں۔[12] مشہور شیعہ سوانح نگار سید محسن امین(متوفی 1371ھ) کے مطابق شہید ثانی کو حکومت عثمانی کے وزیر رستم‌ پاشاہ کے حکم سے شیعہ مذہب کی ترویج کے جرم میں شہید کیا گیا۔[13]

تاریخ تألیف

زین‌الدین عاملی نے شروع میں "کتاب لمعہ" پر ایک مختصر حاشیہ لکھا جو کسی قسم کی استدلال سے خالی تھا۔ اس کے بعد انہوں نے "الروضۃ البہیۃ" لکھنا شروع کیا۔[14]

یہ کتاب مؤلف کی شہادت سے تقریبا 8 سال پہلے لکھی گئی تھی۔[15] مولف کے ہاتھ سے لکھے ہوئے نسخہ کے مطابق اس کتاب کی تالیف کا آغاز سنہ 956ھ ربیع الاول کے اوائل میں ہوا۔ مولف نے جلد اول کے اختتام پر اس کی نگارش کی تاریخ 6 جمادی الثانی سنہ 956 ھ درج کی ہے۔[16] جبکہ دوسری جلد کے اختتام پر شنبہ 21 جمادی الاول سنہ 957 ھ تحریر کیا ہے۔[17] جو تقریبا 15 مہینے بنتے ہیں یعنی جلد اول تین ماہ اور جلد دوم ایک سال میں مکمل ہوئی ہے۔[18]

شرح لمعہ کی تألیف کے بعد شہید ثانی کے بعض شاگردوں نے اس کتاب کو خود مؤلف کے پاس پڑھی ہیں۔ شہید ثانی خود ایک نسخے کے اختتام پر تصریح کی ہیں کہ ابن صائغ اسے خود مؤلف کے یہاں پڑھی ہیں۔[19] ایک دوسرے نسخہ میں جس کی کتابت سید محمد بن احمد حسینی حلی نے کی، شہید نے اپنے پاس اس کی قرائت کی تاریخ جمادی الثانی سنہ 958ھ لکھ کر دستخط کیا ہے۔[20]

مشاہیر کا کلام

آقا بزرگ طہرانی[21]، سید محسن امین[22] وغیرہ نے اپنی کتب کے مختلف حصوں میں شرح لمعہ کی تمجید و تحسین کی ہے۔

ترتیب مطالب

شرح لُمعہ 51 فصلوں پر مشتمل ہے اور اس کی جلدوں کے عناوین کچھ یوں ہیں:

حواشی اور شروح

اس کتاب کی تقریبا 100 شرحوں اور حاشیوں کا تذکرہ الذریعہ میں ہوا ہے۔ جن میں سے اہم ترین شرح آقا جمال الدین خوانساری، سلطان العلماء اور صاحب المدارک کی شرحیں ہیں۔ مجموعی طور پر اس کتاب کی شروح اور حواشی کو دو زمروں میں تقسیم کیا جاتا ہے:

مستقل نام سے شائع شدہ کتب

  1. الابانۃ المرضیۃ فی شرح مبحث الوقت و القبلۃ‌، شیخ محمد تقى بن محمد كاظم تسترى۔
  2. صفاء الروضۃ‌، سید امیر محمد صالح بن حسن حائرى حسینى۔
  3. التعلیقۃ الأنیقۃ‌، مفتی سید محمد عباس موسوی لکھنوی۔
  4. فصل الخطاب الإبراہیمیۃ‌ میرزا ابراہیم سید علی خان مدنی۔
  5. الحدیقۃ النجفیۃ‌، ملا محمد تقى ہروى۔
  6. مخزن الأسرار الفقہیۃ‌، آقا محمد على بن آقا محمد باقر ہزار جریبى۔
  7. الزاہرات الزویۃ‌، شیخ على بن محمد بن زین الدین مہیئہ۔
  8. المناہج السویۃ‌، محمد بن حسن اصفہانى معروف بہ کاشف اللثام۔
  9. الہدایۃ السنیۃ فی شرح الروضۃ البہیۃ‌، سید ہادى بن ابو الحسن رضوى كشمیرى۔
  10. السحاب الرویۃ و النفخۃ المحمدیۃ و النسمۃ الغرویۃ‌، شیخ محمد بن یوسف جامعى۔
  11. الغرائب الربوبیۃ فی مقامات العبودیۃ‌، شیخ شریعتمدار استرآبادى۔
  12. مجمع الحواشی‌، روضۃ البہیۃ پر لکھے گئے حواشی کا مجموعہ ہے جس کی تدوین ملا حبیب اللہ کاشانی نے کی ہے۔
  13. مطالع البكور من الأیام و دہر الدہور‌، شیخ على بن محمد جعفر استر آبادى۔
  14. منہاج الأمۃ فی شرح الروضۃ البہیۃ‌، میرزا محمد بن احمد نراقى۔
  15. منہاج الملۃ فی تعیین الوقت و القبلۃ‌، ملا على بن عبد اللہ علیارى۔
  16. الموائد الحسینیۃ من الروضۃ البہیۃ‌، سید حسن بن احمد حسینى كاشانى۔[24]

بے نام کتب

ان شروح اور حواشی کو شرح الروضۃ البہیہ یا حاشیۃ الروضۃ البہیہ کے نام سے شائع کیا جاتا رہا ہے اور ان کو ان کے حاشیہ نگاروں اور شارحین کے ناموں سے پہچانا جاتا ہے:

  1. سید آقا تسترى، صاحب تعدید اللسان‌۔
  2. میرزا ابراہیم بن سلطان العلماء مرعشى آملى اصفہانى۔
  3. میرزا ابراہیم بن ملا صدر الدین محمد شیرازى۔
  4. امیر ابراہیم بن امیر معصوم قزوینى۔
  5. امیر ابو طالب نوۀ میر فندرسکی، معاصر با صاحب ریاض۔
  6. امیر ابو القاسم كبیر موسوى خوانسارى۔
  7. ملا احمد بن محمد تونى برادر ملا عبد اللہ تونی، صاحب الوافیة۔
  8. شیخ اسحاق تربتى مشہدى۔
  9. شیخ اسد اللہ بن اسماعیل دزفولى كاظم۔
  10. سید محمد باقر بن زین العابدین موسوى خوانسارى صاحب روضات الجنات۔
  11. شیخ محمد تقى بن ملا عباس نہاوندى۔
  12. ملا محمد جعفر شریعت مدار استر آبادى۔
  13. شیخ جعفر قاضى بن عبد اللہ بن ابراہیم حویزى كمرہ‌اى اصفہانى۔
  14. محقق آقا جمال الدین محمد بن حسین بن جمال الدین خوانسارى۔
  15. شیخ حسن بن سلام بن حسن جیلانى تیمجانى۔
  16. شیخ حسن بن محمد سبیتى عاملى۔
  17. شیخ حسن بن شہید ثانی، صاحب معالم۔
  18. سید احمد بن سید على اصغر شہرستانى (شرح وقت و قبلہ)۔
  19. شیخ احمد بن ابراہیم بن احمد درازى بحرانى۔
  20. ملا حسین تربتی۔
  21. سید حسین بن جعفر بن حسین موسوى خوانسارى۔
  22. ملا حسین بن حسن جیلانى بنانى صاحب حاشیة الذخیرة۔
  23. امیر محمد حسین بن امیر محمد صالح خاتون ‌آبادى۔
  24. ملا محمد حسین بن محمد قاسم قمشہ‌اى نجفى۔
  25. سلطان العلماء، حسین بن رفیع الدین محمد مرعشى آملى اصفہانى۔
  26. محقق خوانساری، حسین بن جمال‌الدین محمد۔
  27. سید حیدر على ہندى۔
  28. ملا محمد رفیع بن مزج جیلانى مشہدى۔
  29. مؤلف شیخ زین‌ الدین شہید ثانی۔
  30. ملا حسام‌ الدین محمد صالح بن احمد مازندرانى۔
  31. سید عبد الصمد بن احمد بن محدث جزائرى۔
  32. سید عبد اللہ بن نور الدین جزائرى۔
  33. ملا محمد على بن احمد قراچہ داغى۔
  34. محمد على بن آقا محمد باقر بہبہانی۔
  35. سید محمد على بن سید صادق رضوى مشہدى۔
  36. سید على بن سید عزیز اللہ بن عبد المطلب جزائرى۔
  37. محمد على بن محمد بن مرتضى طباطبایى۔
  38. ملا على قلى بن محمد خلخالى۔
  39. شیخ على بن نصراللہ لیثى، شاگرد شیخ بہائی۔
  40. محمد على بن محمد نصیر چہاردہى مدرسى۔
  41. امیر فخر الدین مشہدى خراسانى۔
  42. میرزا محمد معروف بہ دلیماج۔
  43. شیخ محمد بن حسن بن زین الدین شہید، معروف بہ شیخ محمد سبط۔
  44. آقا رضى‌ الدین محمد بن آقا حسین خوانسارى۔
  45. میرزا محمد بن سلیمان تنكابنى۔
  46. سید محمد بن امیر صالح خاتون‌ آبادى۔
  47. محمد بن عبد الفتاح تنكابنى سراب۔
  48. سید محمد بن على بن ابو الحسن عاملى، صاحب المدارک۔
  49. سید امیر رفیع‌ الدین محمد صدر بن محمد بن سید على معروف بہ خلیفہ السلطان۔
  50. سید محمد بن ہبة اللہ قزوینى۔
  51. سید مصطفى بن على نقوى لكھنوى۔
  52. ملا محمد بن مؤمن بن شاہ قاسم سبزوارى، معاصر شیخ حر عاملی۔
  53. میرزا نصر اللہ فارسى مدرس۔
  54. محمد نصیر بن عبد اللہ بن محمد تقی مجلسی۔
  55. شیخ یاسین بن صلاح ‌الدین بن على بحرانى۔
  56. سید میر محمد یوسف بن عبد الفتاح تبریزى۔
  57. میرزا ابو الحسن خان مجتہد فسایى۔
  58. محمد باقر بن محمد جعفر فشاركى۔
  59. میرزا محمد باقر ہرندى۔
  60. میرزا عبد العلى ہرندى۔
  61. ملا محمدعلى نورى۔
  62. اسماعیل بن نجف مرندى حسینى تبریزى۔
  63. شیخ جواد بن مبارك نجفى۔
  64. ملا حسین تربتی۔
  65. سید شفیع جابلقى۔
  66. سید محمد طاہر بن اسماعیل معروف بہ آغا میر، داماد شیخ انصاری۔
  67. شیخ عباس بن شیخ حسن كاشف ‌الغطاء۔
  68. سید على بن سید محمد بن محسن اعرجى كاظمى۔
  69. آقا محمد على بن آقا محمد باقر ہزار جریبى۔
  70. ملا محمد كاظم بن محمد صادق كاشانى اصفہانى۔
  71. سید محمد سیوشانى۔
  72. شیخ محمد بن یوسف عبد اللطیف جامعى عاملى۔
  73. علامہ میرزا مسیح بن محمد سعید رازى تہرانى۔
  74. سید مہدى قزوینى حلّى۔
  75. شیخ مہدى ملا كتاب نجفى۔
  76. محمد مہدى بن محمد ابراہیم كلباسى۔
  77. محمد نصیر بن ملا احمد نراقى۔
  78. شیخ عبد الغنى (شرح مسألۃ ترتیب الفوائت المنسیۃ)۔[25]

نشر و اشاعت

یہ کتاب بارہا ایران، مصر اور عراق میں زیور طبع سے ہوئی ہے۔ اس کی بہترین طباعت جامعۃ النجف الدینیہ کی ہے جس کے محقق سید محمد کلانتر ہیں۔ اس کی پہلی طباعت سنہ 1386 ہجری میں ہوئی تھی اور سنہ 1398 ہجری میں اس کی اشاعت کی تجدید ہوئی۔ یہ کتاب 19 جلدوں پر مشتمل تھی۔

حوالہ جات

  1. مختاری، مقدمہ فقہ ۴ درسنامہ فقہ برای طلاب پایہ چہارم، ۱۳۹۷ش، صفحہ بیست۔
  2. عالم‌زادہ نوری، راہ و رسم طلبگی، ۱۳۹۱ش، ج۳، ص۹۶۔
  3. ناطقی، مقدمۃ التحقیق موسوعۃ الشہید الثانی، ۱۴۳۴ق، ص۲۰۔
  4. مختاری، مقدمہ فقہ ۴ درسنامہ فقہ برای طلاب پایہ چہارم، ۱۳۹۷ش، صفحہ بیست و یک۔
  5. سبحانی، موسوعۃ طبقات الفقہاء، القسم الثانی، ۱۴۲۰ق، ج۲، ص۳۶۱۔
  6. ناطقی، مقدمۃ التحقیق موسوعۃ الشہید الثانی، ۱۴۳۴ق، ص۱۶۔
  7. مختاری، الشہید الاول حیاتہ و آثارہ، ۱۴۳۰ق، ص۳۷۴۔
  8. ناطقی، مقدمۃ التحقیق موسوعۃ الشہید الثانی، ۱۴۳۴ق، ص۱۶۔
  9. عالم‌زادہ نوری، راہ و رسم طلبگی، ۱۳۹۱ش، ج۳، ص۹۶۔
  10. عالم‌زادہ نوری، راہ و رسم طلبگی، ۱۳۹۱ش، ج۳، ص۱۰۳۔
  11. امین، اعیان الشیعہ، دارالتعارف، ج۷، ص۱۴۳۔
  12. امین، اعیان الشیعہ، دارالتعارف، ج۷، ص۱۵۵۔
  13. امین، اعیان الشیعہ، دارالتعارف، ج۷، ص۱۵۷۔
  14. ناطقی، مقدمۃ التحقیق موسوعۃ الشہید الثانی، ۱۴۳۴ق، ص۱۶۔
  15. ناطقی، مقدمۃ التحقیق موسوعۃ الشہید الثانی، ۱۴۳۴ق، ص۱۸۔
  16. شهید ثانی، الروضة البهیة، تصحیح کلانتر، ج۴، ص ۳۲۳
  17. شهید ثانی، الروضة البهیة، تصحیح کلانتر، ج۱۰، ص ۳۲۹
  18. تهرانی، الذریعہ، ۱۴۰۳ق، ج۶، ص۹۰؛ ج۱۱، ص۲۹؛ ج۱۴، ص۴۹؛ خوانساری، روضات الجنات، ج۳، ص ۳۷۷
  19. شهید ثانی، الروضة البهیة، نسخہ شماره ۴۸۸۶ کتابخانهٔ مجلس شورای اسلامی، بہ کتابت سید علی بن صائغ، پایان ج ۱ بہ نقل از دانشنامہ جهان اسلام، مدخل الروضة البهیة
  20. شهید ثانی، الروضة البهیة، نسخہ شماره ۲۰۱۷۲ کتابخانهٔ ملی، بہ کتابت سید محمد بن احمد حسینی حلی، پایان ج ۱ بہ نقل از دانشنامہ جهان اسلام، مدخل الروضة البهیة
  21. آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ، ج11، ص290. آقا بزرگ طہرانی، وہی ماخذ، ج13، ص292۔
  22. امین، اعیان الشیعہ، دار التعارف، ج۱، ص۱۴۵؛ ج۷، ص۱۵۵.
  23. مکی عاملی، شرح اللمعة، ۱۳۸۶ق، فهرست کتاب.
  24. آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ، مجلدات 3، 4، 6، 12، 15، 16، 20، 21، 23۔
  25. آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ، مجلدات 6، 7، 12 و 13۔

مآخذ

  • آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، بیروت، دارالاضواء، ۱۴۰۳ھ۔
  • امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعۃ، بیروت، دارالتعارف، بی‌تا۔
  • سبحانی، جعفر، موسوعۃ طبقات الفقہاء، قم، مؤسسۃ الامام الصادق(ع)، ۱۴۲۰ھ۔
  • شہید ثانی، زین‌الدین بن علی، شرح اللمعۃ، تصحیح سید محمد کلانتر، ۱۳۸۶ھ۔
  • عالم‌زادہ نوری، محمد، راہ و رسم طلبگی، قم، ولاء منتظر، ۱۳۹۱ہجری شمسی۔
  • مختاری، رضا، الشہید الاول حیاتہ و آثارہ، در جلد المدخل از موسوعۃ الشہید الاول، قم، مرکز العلوم و الثقافۃ الإسلامیۃ، ۱۴۳۰ھ۔
  • مختاری، رضا، مقدمہ فقہ ۴ درسنامہ فقہ برای طلاب پایہ چہارم، قم، نشر دانش حوزہ، ۱۳۹۷ہجری شمسی۔
  • ناطقی، علی‌اوسط، مقدمۃ التحقیق موسوعۃ الشہید الثانی، ج۶، قم، المرکز العالی للعلوم و الثقافۃ الإسلامیۃ، ۱۴۳۴ھ۔