آیت ربا

ویکی شیعہ سے
(آیت رباء سے رجوع مکرر)
آیت ربا
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامآیت ربا
سورہبقرہ
آیت نمبر278-280
پارہ3
صفحہ نمبر47
شان نزولخاندان عمرو بن عمیر کا خاندان مغیرہ سے سود لینا؛ عباس بن عبدالمطلب، عثمان اور خالد بن ولید کا معاملہ سلف
محل نزولمدینہ
موضوعفقہی ـ اقتصادی
مضمونسود کا حرام ہونا، سودی اموال کی واپسی، زمانہ جاہلیت میں موجود سود کا خاتمہ
مرتبط موضوعاتخدا اور اس کے رسول سے جنگ کا اعلان، مقروض کو قرض واپس کرنے کی مہلت دینا


آیت ربا یا آیات ربا، سورہ بقرہ کی آیت نمبر 278 سے 280 کو کہا جاتا ہے جس میں سود کے حرام ہونے کا حکم، سود کھانے کے برے اثرات اور مقروض سے قرضہ واپس لانے سے متعلق بعض احکام بیان ہوئے ہیں۔ یہ آیات فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی ہیں جن کی بنا پر پیغمبر اسلامؐ نے زمانہ جاہلیت میں موجود سود کے خاتمے کا اعلان فرمایا۔

آیت کا متن اور ترجمہ

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ۔ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ، وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ


اے ایمان والو! خدا (کی نافرمانی) سے ڈرو۔ اور جو کچھ سود (لوگوں کے ذمے) باقی رہ گیا ہے۔ اسے چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا تو پھر خدا اور اس کے رسول سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ اور اگر اب بھی تم توبہ کرلو۔ تو تمہارا اصل مال تمہارا ہوگا (جو تمہیں مل جائے گا)۔ نہ تم (زائد لے کر) کسی پر ظلم کروگے اور نہ (اصل مال خوردبرد کرکے) تم پر ظلم کیا جائے گا۔ اور اگر (مقروض) تنگ دست ہے تو اسے فراخ دستی تک مہلت دینا ہوگی۔ اور اگر (قرضہ معاف کرکے) خیرات کرو۔ تو یہ چیز تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔



سورہ بقرہ: آیات 278 تا 280


شأن نزول

ربا اور سود سے مربوط آیات کے لئے تین شأن نزول بیان کی گئی ہیں۔

  1. یہ آیتیں خاندان عمرو بن عمیر کا خاندان مغیرہ سے سود لینے کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ فتح مکہ اور سود کے حرام ہونے کے بعد خاندان مغیرہ نے مکہ میں پیغمبر اسلامؐ کے نمائندے عتاب بن اسید کے پاس جا کر خاندان عمرو کی طرف سے ان سے سود لینے کی شکایت کی۔ عتاب نے پیغمبر اکرمؐ کو ایک خط لکھا اس وقت یہ آیات نازل ہوئیں جس میں سود لینے کو خدا اور رسول خدا سے اعلان جنگ قرار دیتے ہوئے اس سے منع کی گئی۔ ان آیات کے نازل ہونے کے بعد خاندان عمرو نے سود کے بغیر اپنا اصل مال لینے کے لئے خاندان مغیرہ کی طرف مراجعہ کیا؛ لیکن چونکہ فصل کی کٹائی کا موسم نہیں تھا اور دوسری طرف سے خاندان مغیرہ تنگدست تھے، انہوں نے خاندان عمرو سے مہلت مانگی۔ خاندان عمرو نے ان کی اس درخواست کو قبول نہیں کیا جس پر اسی سورت کی آیت نمبر 280 نازل ہوئی جس میں تنگدست مقروض کو مہلت دینے کا حکم دیا گیا ہے۔[1]
  2. مذکورہ آیات عباس بن عبد المطلب اور عثمان بن عفان کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو لوگوں سے کھجور کے موسم سے پہلے کھجور خردیتے تھے اور موسم آنے پر تمام کھجور لے لیتے تھے اور ان کے مالکوں کے پاس کچھ بھی نہیں رہتا تھا۔ اس بنا پر کھجوروں کے مالک کچھ مہلت مانگنے اور دو برابر دینے کی شرط پر کچھ کھجور اپنے لئے رکھ لیتے تھے۔ جب پیغمبر اکرمؐ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے عباس اور عثمان کو بلا کر اس کام سے منع کیا اور انہوں نے اپنا سرمایہ واپس لے لئے۔[2]
  3. عباس اور خالد بن ولید زمانہ جاہلیت میں مل کر تجارت کیا کرتے تھے اور یہ لوگ بیع سلف اور سود کا کاروبار کرتے تھے اور جب اسلام لایا تو اس وقت بھی سود کے بابت کافی دولت لوگوں کے ذمے واجب الادا تھے۔ پیغمبر اکرمؐ نے اعلان فرمایا: دور جاہلیت کے تمام سودی کاروبار ممنوع ہے اور اس سلسلے میں سب سے پہلے جن کو اس کام سے منع کرتا ہوں عباس بن عبد المطلب ہے۔[3]

مضامین

ان آیات میں ربا اور سود کو یقینی اور قطعی طور پر حرام قرار دینے کے ساتھ ساتھ اس کے برے اثرات پر بھی بحث کی گئی ہے۔[4] سورہ بقرہ کی آیت نمبر 278 میں مؤمنوں کو مورد خطاب قرار دیتے ہوئے انہیں سود لینے سے منع کی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کے نزول کے وقت بعض مسلمان سود لیا کرتے تھے۔[5] اس آیت کو جس کی ابتداء مؤمنوں کو مورد خطاب قرار دینے سے اور اس کا اختتام خدا پر ایمان لانے کی تاکید سے ہوتا ہے، اس بات کی علامت قرار دی جا سکتی ہے کہ سود لینا ایمان کے ساتھ بالکل سازگار نہیں اور سود سے پرہیز کرنا ایمان کا لازمی جز ہے۔[6]
خدا نے ان آیات میں مومنین کو سود سے پرہیز کرنے اور جن کو قرض دی گئ ہے ان سے صرف اصل سرمایہ واپس لینے نیز اگر مقروض تنگدست ہو تو اسے مہلت دینے کا حکم دیا ہے۔ گویا اس کام سے خدا مؤمنین کو ظلم کرنے اور مورد ظلم واقع ہونے سے منع کرتا ہے۔[7]
سورہ بقرہ کی آیت نمبر 279 میں خدا نے سود کے حرام ہونے کے پابند نہ ہونے والے مسلمانوں کو سخت لہجے میں مورد خطاب قرار دیتے ہوئے ان کے اس کام کو خدا اور اس کے رسول کے ساتھ اعلان جنگ قرار دیا ہے۔[8] اس آیت میں لفظ "حرب" الف اور لام کے بغیر آیا ہے جو اس جنگ کی عظمت اور بزرگی کی علامت ہے۔[9]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. واحدی، اسباب النزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۹۵-۹۶؛ عنایہ، اسباب النزول القرآنی، ۱۴۱۱ق، ص۱۲۵۔
  2. واحدی، اسباب النزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۹۶۔
  3. واحدی، اسباب النزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۹۶؛ عنایہ، اسباب النزول القرآنی، ۱۴۱۱ق، ص۱۲۵۔
  4. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۲، ص۶۷۴؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۳۷۵۔
  5. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۲، ص۴۲۲۔
  6. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۲، ص۴۲۲؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۳۷۵۔
  7. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۲، ص۴۲۳۔
  8. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۳۷۵۔
  9. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۲، ص۴۲۳۔

مآخذ

  • واحدی، علی بن احمد، اسباب النزول القرآن، بیروت،‌ دار الکتب العلمیۃ، منشورات محمد علی بیضون، ۱۴۱۱ھ۔
  • عنایہ، غازی حسین، أسباب النزول القرآنی، بیروت، دار الجیل، ۱۴۱۱ھ۔
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۰ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، مصحح فضل اللہ طباطبایی یزدی، ہاشم رسولی، تہران، ناصر خسرو، ۱۳۷۲ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران،‌ دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۱ہجری شمسی۔