موقوفہ اودھ
موقوفہ اَوَدھ، وصیت اَوَدھ یا ہندوستان کی تنخواہ، سے مراد وہ رقم ہے جسے 19ویں اور 20ویں صدی عیسوی کو اَوَدھ شاہی خاندان کی طرف سے مستحق افراد میں تقسیم کرنے کے لئے نجف اور کربلا کے شیعہ مراجع تقلید کو دیا کرتے تھے۔ سنہ 1825ء کو ریاست اَوَدھ جو کہ برصغیر میں شمالی ہندوستان کے ایک علاقے میں شیعہ حکومت تھی، کی جانب سے برطانیہ ایسٹ انڈیا کمپنی کو ایک کروڑ 80 لاکھ روپیہ بطور قرض دیا گیا اس شرط کے ساتھ کہ شاہی خاندان کے افراد کی موت کے بعد اس رقم کے منافع میں سے سالانہ 1 لاکھ 20 ہزار روپیہ نجف اور کربلا کے شیعہ مجتہدین کو دیا جائے۔ شرعاً اس رقم پر وقف کا اطلاق نہیں ہوتا؛ لیکن اودھ شاہی خاندان کے وصیت نامہ کی وجہ سے موقوفہ اودھ کے نام سے مشہور ہے۔
یہ موقوفہ شیعہ فقہاء کے مالی منابع کو مشخص کرنے نیز ایران میں نہضت مشروطہ اور شیعیان عراق کی برطانیہ کے خلاف تحریک میں کلیدی کردار ادا کرنے کے حوالے سے حائز اہمیت ہے۔ اس موقوفہ کی ادائیگی کے ابتدائی سالوں میں برطانیہ نے اس کی تقسیم میں کوئی خاص مداخلت نہیں کی اور شیخ مرتضی انصاری جیسے علماء اسے دریافت کر کے لوگوں میں تقسیم کرتے تھے؛ لیکن سنہ 1852ء میں جب برطانیہ نے اَوَدھ حکومت کا خاتمہ کر کے اس موقوفہ کو اپنے اختیار میں لیا تو عتبات عالیات میں مقیم بعض علماء نے اس رقم کو لینے سے انکار کیا۔
بیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں برطانیہ نے اس رقم کے ذریعے عراق اور ایران کے سیاسی مسائل میں مداخلت کرنے کی کوشش کی تو اس وقت بھی بعض فقہاء نے اس رقم کو لینے سے انکار کیا تھا۔ تاہم آخوند خراسانی اور فتح اللہ غروی اصفہانی جیسے علماء برطانیہ کے خلاف اپنی جد و جہد جاری رکھنے کے باوجود اس رقم کو دریافت کر کے لوگوں میں تقسیم کرتے تھے۔ بیسویں صدی عیسوی کے اواسط میں پاکستان کی آزادی کے بعد اس رقم کی ادائیگی رفتہ رفتہ بند ہو گئی۔
اجمالی تعارف
موقوفہ اَوَدھ سے مراد وہ رقم ہے جسے برطانوی حکومت سنہ 1859 سے 1950ء تک اَوَدھ حکومت کی طرف سے عراق کے شیعہ مجتہدین کو ادا کرتی تھی۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی عیسوی کو ایرانی نژاد شیعہ سادات خاندان برصغیر کے شمال میں اَوَدھ نامی مقام پر حکومت کرتے تھے۔[1] تاریخی اسناد کے مطابق اَوَدھ حکومت برطانیہ کو قرض کے طور پر کچھ رقم دیتی ہے اور یہ قرارداد لکھتی ہے کہ شاہی خاندان کے افراد کی موت کے بعد اس رقم کا منافع ہر مہینے نجف اور کربلا میں مقیم شیعہ مجتہدین تک پہنچائی جائے۔ اس رقم کو «وثیقہ ہندی»، «خیریہ ہندیہ»، «پول ہند»، «تنخواہ ہند» یا «موقوفہ اَوَدھ» کے نام سے یاد کیا جاتا رہا ہے۔[2]
موقوفہ اَوَدھ کو عراق کے شیعہ فقہاء کے منابع مالی کی تعیین اور ایران میں نہضت مشروطیت میں کلیدی کردار ادا کرنے کے لحاظ سے اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔[3] انیسویں صدی عیسوی کے نصف صدی کے بعد برطانیہ نے اودھ حکومت کا خاتمہ کر کے اس موقوفہ کو بھی اپنے اختیار میں لے لی تو شیعہ علماء کے لئے یہ رقم استعماری فضلہ خواری کا مفہوم پیدا کیا۔[4]
موقوفہ کی نوعیت
برطانوی کمانڈر کے مطابق سنہ 1825ء کو برطانیہ اور نپال کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ اَودھ حکومت نے 10 میلین روپیہ بلاعوض برطانوی حکومت کی مدد کی؛ لیکن برطانیہ نے برطانیہ ایسٹ انڈیا کپنی کے نام بطور قرض اس رقم کو قبول کیا۔ اس کے بعد اَوَدھ سلطنت نے اس رقم پر 8 لاکھ روپیہ مزید اضافہ کیا۔ قرض کی قرارداد کے مطابق یہ طے پایا کہ اصل رقم اودھ سلطنت کو واپس نہیں کی جائے گی؛ لیکن ہمیشہ کے لئے سالانہ 6 فیصد منافع اودھ سلطنت کے بیگمات اور ان افراد کو ادا کی جائے گی جن کے بارے میں وہ وصیت کریں گے۔ بعد میں اودھ خاندان کی زمینوں کی فروخت کے بابت 10 میلین روپیہ نیز برطانیہ کے مخصوص اکاونٹ میں جمع کیا گیا؛ تاہم یہ مشخص نہیں ہو سکا کہ یہ رقم بھی مذکورہ موقوفہ کی قرارداد میں تھی یا نہیں۔[7] بعض دیگر منابع کے مطابق اصل قرض 10 میلین اور اس کا منافع 5 فیصد ذکر کیا گیا ہے۔[8] مورخ اسماعیل رائین کے مطابق اصل موقوفہ کی قیمت 3 لاکھ ایرانی قِرانِ تھی۔[9]
موقوفہ اودھ کی مشروعیت
محققین کہتے ہیں کہ موقوفہ اَوَدھ درحقیقت ایک قرض کا منافع تھا جسے اودھ سلطنت نے برطانیہ کو دیا تھا۔ اس بنا پر اگرچہ صاحبْجواہر کے فتوے کے مطابق غیر مسلم سے ربا یا سود لینا مباح ہے، لیکن اسے وقف شرعی شمار نہیں یا جا سکتا؛ تاہم چونکہ اودھ سلطنت کے شادی خاندان کے وصیت نامہ میں وقف کا لفظ استعمال کیا گیا تھا یہ رقم موقوفہ کے نام سے مشہور ہوئی تھی۔[10]
عراق کے شیعہ مراجع میں موقوفہ کی تقسیم
بعض یادداشتوں کے مطابق نجف اور کربلا کے فقہاء موقوفہ اَوَدھ کو لینے سے انکار کرتے تھے۔[12] کہا جاتا ہے کہ شیخ انصاری نے بعض طلاب کی اصرار کے باوجود اس رقم کو قبول نہیں کیا۔[13] البتہ اس موقوفہ کی باقاعدہ ادائیگی سے متعلق دستیاب اسناد کے مطابق سنہ 1849ء سے نجف میں صاحب جواہر پھر ان کے بعد شیخ مرتضی انصاری اور کربلا میں طباطبائی خاندان کا ایک مجتہد بمبئی میں موجود اپنے نمائندوں کے ذریعے اس رقم کو برطانوی حکومت کے ذمہ داروں سے وصول کرتے تھے؛[14] لیکن تقریبا 1858ء کے بعد شیخ انصاری نے اس رقم کی عادلانہ تقسیم کے بارے میں برطانوی حکومت کے ساتھ ایک قرارداد پر دستخط کیا تاکہ اس کے بعد اس کی تقسیم میں خود شیخ انصاری کا کوئی کردار نہ رہے۔[15] اس کے بعد تقریبا 40 سال تک یہ رقم بغداد میں ہندوستان کے سفارت خانے سے براہ راست کربلا میں طباطبائی خاندان اور نجف میں بحر العلوم خاندان کو ادا کی جاتی تھی۔[16]
بعض دیگر یادداشتوں کے مطابق برطانوی سفارت خانے کی طرف سے اس رقم کو تقسیم کرنے والوں پر خوردبرد کا الزام لگانے کے بعد اکثر مراجع نے اس رقم کو لینے سے انکار کیا؛[17] لیکن بعض محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ بیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں یہ الزام سید ابو القاسم طباطبائی اور سید محمد بحر العلوم اور چہ بسا عراق کے دوسرے مجتہدین اور ایران اور عثمانی حکمرانوں کی طرف سے بھی یہ الزام لگایا جاتا تھا۔[18] مورخین کے مطابق اس زمانے کے نجف کے تین برجستہ مراجع فاضل شربیانی، حسین خلیلی اور سید کاظم یزدی نے اس موقوفہ کو قبول کرنے سے انکار کیا۔[19] آقا ضیاء عراقی اور محمد تقی شیرازی کو بھی منجملہ ان علماء میں شمار کرتے ہیں جنہوں نے اس رقم کو لینے سے انکار کیا؛[20] لیکن کربلا کے تین مجتہدین سید اسماعیل صدر، محمد باقر طباطبائی اور ملا حسین مازندرانی نے عبد اللہ مازندرانی کے ہمراہ اس رقم کو قبول کیا۔[21]
اسی طرح بعض کے برخلاف جو کہتے تھے کہ عراق کے علماء استعمار کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے موقوفہ اودھ کی رقم لینے سے انکار کرتے تھے،[22] مورخین اس بات کے معتقد ہیں کہ آخوند خراسانی[23] اور شیخ الشریعہ اصفہانی جو صریحاً برطانیہ کے خلاف ہونے والی تحریکوں کی حمایت اور قیادت کرتے تھے بھی اس رقم کو لے کر مستحقین میں تقسیم کرتے تھے۔[24] ان شواہد کے مطابق سنہ 1933ء کے بعد برطانیہ اس نتیجے پر پہنچا کہ کہ شیعہ مراجع تقلید کے منظم اور پیچیدہ سسٹم کو «ذر و زیور» کی چمک دمک سے ختم یا کنٹرول کرنا ممکن نہیں، موقوفہ اودھ میں مداخلت سے باز آئے۔[25]
موقوفہ اودھ میں مجتہدین کا حصہ
اودھ قرض قرارداد کے مطابق شاہی بیگمات اپنے اموال کے ایک تہائی حصے کو وصیت کرنے کا حق رکھتی تھیں اور باقی دو تہائی حصہ نجف اور کربلا کے مجتہدین کا حق تھا۔ مذکورہ قرارداد کے مطابق موقوفہ اودھ کا منافع جو عراق بھیجا جاتا تھا 1 لاکھ 20 ہزار روپیہ یعنی تقریبا 10000 پونڈ تھا۔ جبکہ شیخ انصاری تک شرعی وجوہات کی مد میں پہنچنے والی سالانہ مقدار زیادہ سے زیادہ 9000 پونڈ تھی۔[26] البتہ بعض کے مطابق ہندوستان میں برطانیہ کے کونسلیٹ میں آقا نجفی قوچانی کی تقرری کی دوران یہ رقم 24 ہزار روپیہ تھی جس کا آدھ حصہ نجف اور آدھ حصہ کربلا بھیجا جاتا تھا۔[27]
موقوفہ اودھ کی ادائیگی کا شیڈول
محققین کے مطابق موقوفہ اَودھ کی ادائیگی مختلف ادوار میں عراق میں برطانوی سفارت خانے کے ذریعے مختلف طریقوں سے ہوتی رہی ہے اور اس سلسلے میں شیعہ مراجع کا برتاؤ بھی مختلف رہا ہے۔ اس موقوفہ کی ادائیگی سے متعلق اہم واقعات کو درج ذیل شکل میں درجہ بندی کیا جا سکتا ہے۔ سانچہ:موقوفہ اودھ کی ادائیگی کا شیڈول
حوالہ جات
- ↑ ابوالحسنی، «موقوفہ اود۔۔۔قسمت اول»، ص24۔
- ↑ ابوالحسنی، «موقوفہ اود۔۔۔قسمت اول»، ص24؛ Nakash, The Shi'is of Iraq, p۔228-229۔
- ↑ ابوالحسنی، «موقوفہ اود۔۔۔قسمت اول»، ص24۔
- ↑ ابوالحسنی، «موقوفہ اود۔۔۔قسمت اول»، ص24۔
- ↑ «The Coin Galleries: Awadh»; Coin India.
- ↑ Hastings, Summary of the operations in India, p.9–10
- ↑ Hastings, Summary of the operations in India, p۔9–10۔
- ↑ Nakash, The Shi'is of Iraq, p۔210-211۔
- ↑ رائین، حقوقبگیران انگلیس، 1373ش، ص101۔
- ↑ علیاکبری و کیباخی، «موقوفہ اود۔۔۔»، ص35-36۔
- ↑ «Coll 17/3 Iraq۔ Oudh Bequest»; qatar digital library۔
- ↑ اسماعیلی، «حوزہ نجف در برابر ہجوم استعمار»، ص57۔
- ↑ رضانژاد، «پیشگامان تقریب»، ص97؛ «خاطرہای از شیخ اعظم انصاری»، ص69۔
- ↑ علیاکبری و کیباخی، «موقوفہ اود۔۔۔»، ص37؛ Nakash, The Shi'is of Iraq, p.212-213
- ↑ علیاکبری و کیباخی، «موقوفہ اود۔۔۔»، ص39-40۔
- ↑ Litvak, A Failed Manipulation, p۔71
- ↑ اسماعیلی، «حوزۀ نجف در برابر ہجوم استعمار»، ص57؛ ابوالحسنی، «موقوفہ اود۔۔۔قسمت اول»، ص24۔
- ↑ Nakash, The Shi'is of Iraq, p۔214
- ↑ Litvak, A Failed Manipulation, p۔73-74
- ↑ ابوالحسنی، «جان ناآرام ہند»، ص25؛ رمضاننرگسی، «اندیشہ و منش سیاسی۔۔۔»، ص142؛ Nakash, The Shi'is of Iraq, p۔210
- ↑ Litvak, A Failed Manipulation, p۔79
- ↑ ابوالحسنی، «تصویر یک اصلاح طلب»، ص14؛ ابوالحسنی، «موقوفہ اود۔۔۔قسمت اول»، ص24۔
- ↑ Nakash, The Shi'is of Iraq, p۔215-217; Litvak, A Failed Manipulation, p۔74-78۔
- ↑ Litvak, A Failed Manipulation, p۔74-78 & 84-86; Nakash, The Shi'is of Iraq, p۔215-217& 227-228۔
- ↑ Litvak, A Failed Manipulation, p۔84-86; Nakash, The Shi'is of Iraq, p۔227-228
- ↑ Litvak, A Failed Manipulation, p۔70-71; Nakash, The Shi'is of Iraq, p۔210; ابوالحسنی، «جان ناآرام ہند»، ص20۔
- ↑ اسماعیلی، «حوزہ نجف در برابر ہجوم استعمار»، ص57۔
مآخذ
- ابوالحسنی(منذر)، علی، «موقوفہ اود؛ ریشہ و روند تاریخی/ قسمت اول»، زمانہ، شمارہ 20، ارديبہشت 1383ش۔
- «مصاحبہ با حجۃ الاسلام والمسلمین واعظ زادۀ خراسانی»، حوزہ، دورہ ہفتم، شمارہ 41، آذر و دی 1369ش۔
- ابوالحسنی(منذر)، علی، «تصویر یک اصلاح طلب: سید محمد کاظم طباطبایی یزدی، صاحب عروہ، پرچمدار عرصہ جہاد و اجتہاد»، زمانہ، شمارہ 15، آذر 1382ش۔
- اسماعیلی، اسماعیل، «حوزہ نجف در برابر ہجوم استعمار»؛ حوزہ، شمارہ 84، بہمن و اسفند 1376ش۔
- اکبری، محمدعلی؛ کیباخی، بہناز، «موقوفہ ی اود (سدہ ی ہجدہ تا بیست میلادی)»، مطالعات تاریخ اسلام، شمارہ 18، پاییز 1392ش۔
- رایین، اسماعیل؛ حقوقبگیران انگلیس در ایران، بینا، بیجا، 1373ش۔
- طالعی، عبدالحسین، «اسناد مکتوبات وصایا: شرح حال چند تن از عالمان خاندان شیخ انصاری»، کتاب شیعہ، شمارہ 3، بہار و تابستان 1390ش۔
- کسروی، تاریخ مشروطۀ ایران، تہران، بینا، 1330ش۔
- «Coll 17/3 'Iraq۔ Oudh Bequest»; qatar digital library۔
- Hastings, Marquis, Summary of the operations in India: with their results: from 30 April 1814 to 31 Jan, London, J۔L۔ Cox, 1823۔
- Litvak, Meir, A Failed Manipulation: The British, the Oudh Bequest and the Shī'ī 'Ulamā' of Najaf and Karbalā, British Journal of Middle Eastern Studies, Vol۔27, No۔1, May, 2000۔
- Nakash, Yitzhak, The Shi'is of Iraq Paperback, US, Princeton University Press, 2003۔
- «The Coin Galleries: Awadh»; Coin India۔