مندرجات کا رخ کریں

شارع کا ذوق

ویکی شیعہ سے

شارع کا ذوق یا شرع کا ذوق، شارع کے طرز تفکر کو کہا جاتا ہے جسے مجتہد مختلف احکام میں شارع کے اصولوں اور موقف کے مجموعے سے حاصل کرتا ہے۔ مجتہد یا فقیہ اس قاعدے کے ذریعے ایسے موارد کے بارے میں شارع کا نقطہ نظر دریافت کرتا ہے جہاں شارع نے اظہار نظر نہیں کیا ہے۔ یہ اصطلاح شیعہ متاخر فقہاء میں عام ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے اس اصطلاح کو سید محمد جواد حسینی آملی (1160-1228ھ) نے "اصحاب کا ذوق" کے عنوان سے استعمال کیا، ان کے بعد صاحب جواہر نے اسے استعمال کیا، یوں آہستہ آہستہ یہ اصطلاح فقہی کتابوں میں رائج ہوئی۔

شارع کا ذوق اور اسے کشف کرنا شرعی احکام، خاص کر جدید اور مستحدثہ مسائل کے استنباط میں ایک اہم اور ضروری مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ ایسے معاملات میں کسی حکم کو ثابت کرنا جہاں کتاب، سنت یا دیگر ذرائع سے کوئی دلیل موجود نہ ہو، اور اسی طرح کسی حکم کے موضوع کی وضاحت کرنا فقہ میں شارع کے ذوق کے اہم استعمالات میں شمار ہوتے ہیں۔

شارع کے ذوق کو سمجھنے کے لیے شرعی احکام اور مختلف مسائل میں شارع کے اصول و مبانی اور موقف سے واقف ہونا اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی حجیت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اگر یہ کسی شرعی حکم پر قطع و اطمینان کا باعث بنے تو معتبر اور حجت ہے لیکن اگر صرف ظن (گمان) پیدا ہونے کا سبب بنے تو اس کی حجیت اور معتبر ہونے پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔

"شریعت کا ذوق"، "مشہور کا سلیقہ،" "فقہ کا ذوق،" اور "شریعت کی روح" جیسی اصطلاحات بھی بعض اوقات "شارع کے ذوق" کی جگہ استعمال ہوتی ہیں۔

مفہوم شناسی

"شارع کا ذوق" یعنی شارع کا طرز تفکر جسے مجتہد مختلف احکام کے بارے میں شارع کے مجموعی اصولوں اور موقف سے حاصل کرتا ہے اور اس کے ذریعے وہ ایسے موارد کے بارے میں شارع کا نقطہ نظر دریافت کرتا ہے جہاں شارع نے اظہار نظر نہیں کیا ہے۔[1] ایک اور تعریف کے مطابق اس سے مراد کسی ماہر فقیہ کے فقہی احکام کے مبانی اور اصولوں سے اخذ کردہ فہم و فراست اور سمجھ بوجھ ہے جس کے ذریعے وہ ایسے مواقع پر استدلال کرتا ہے جہاں کوئی مخصوص دلیل یا عمومی اصول و قواعد موجود نہیں ہوتے۔[2]

کاشف الغطا معرفت کی ایک اور قسم کی طرف اشارہ کرتا ہے جو مجتہد کے ذوق سلیم اور تمام دلائل میں سعی و کوشش کے بعد حاصل ہوتی ہے۔[3] بعض علماء نے اس معرفت کو شارع کا ذوق قرار دیا ہے، حالانکہ کاشف الغطا نے اس کی تصریح نہیں کی ہے۔[4]


"شارع کا ذوق"[5] "شریعت کا ذوق"،[6] "مشہور کا سلیقہ"،[7] "فقہ کا ذوق،"[8] جیسی اصطلاحات بھی بعض اوقات "شارع کے ذوق" کی جگہ استعمال ہوتی ہیں۔ بعض فقہا نے اس کی جگہ "روحِ شریعت" کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے۔[9]

تاریخچہ

"شارع کے ذوق" کی اصطلاح متأخر شیعہ فقہا کے درمیان رواج پائی ہے[10] اور چونکہ فقیہ اسے کسی شرعی حکم کو اخذ کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے، اس لیے علم اصول کی بعض نئی کتابوں میں بھی اس پر توجہ دی گئی ہے اور اس کی حجیت کے شرائط اور اسے دریافت کرنے اور حاصل کرنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔[11]

حوزہ علمیہ قم کے ایک فقیہ اور استاد حیدر حب اللہ نے کہا ہے کہ انہوں نے یہ اصطلاح اہل سنت فقہ میں نہیں دیکھی ہے اور سید محمد جواد حسینی عاملی (1160-1228ھ) کو پہلا فقیہ پایا ہے جنہوں نے اپنی کتاب مفتاح الکرامہ میں شارع کے ذوق کے لئے اصحاب کے ذوق کی اصطلاح استعمال کی ہے۔[12] حسینی عاملی کے بعد صاحب جواہر نے جواہر الکلام[13] میں اس اصطلاح کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا،[14] اور پھر یہ ان کے بعد کے فقہا کے درمیان خاص طور پر آقا رضا ہمدانی،[15] سید ابو القاسم خویی،[16] سید محسن حکیم[17] اور امام خمینی،[18] جیسے فقہاء کی کتابوں میں مقبول ہوا اور توجہ حاصل کی۔[19]

اہمیت

صاحب جواہر نے شارع کے ذوق کو سمجھنے اور کشف کرنے کو اللہ تعالی کی ایک نعمت قرار دیا ہے جسے اللہ نے اس ذوق کو حاصل کرنے والے کو عطا کیا ہے۔[20] شارع کا ذوق اور اس کو کشف کرنا اجتہاد اور دینی احکام کے استنباط میں ایک اہم اور ضروری مسئلہ سمجھا گیا ہے، خاص طور پر نئے متعارف کردہ اور مستحدثہ مسائل اور احکام میں۔[21]

حوزہ علمیہ قم کے درس خارج کے اساتذہ کے ایک گروپ نے محمد مہدی شب زندہ دار کی زیر نگرانی مدرسوں کے لیے درسی کتاب کے طور پر مرتب کی جانے والی کتاب الفائق فی الاصول، میں ایک باب شرع کے ذوق پر بحث کے لیے مختص کیا ہے، جس میں اس کی تعریف، اسے دریافت کرنے کے طریقے اور اس کی حجیت کو بیان کیا ہے۔[22] اس کتاب میں شارع کے ذوق کو ان ذرائع میں سے ایک قرار دیا ہے جن کی مدد سے شرعی دلیل قائم ہونے والے کسی مسئلے کے حکم کو کسی ایسے مسئلے تک سرایت دی جا سکتی ہے جس پر کوئی دلیل قائم نہیں ہوئی ہے۔[23] کہا جاتا ہے کہ فقہا کو دینی احکام بالخصوص جدید اور مستحدثہ شرعی مسائل کے استنباط کے لئے حکم کی سرایت اور توسیع کے ذرائع اور طریقوں کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔[24]

فقہ کے ایرانی محقق مہدی مہریزی نے بھی سنہ 1994ء میں شائع ہونے والی کتاب "کتابشناسی اصول فقہ شیعہ" کے دیباچے میں شارع کے ذوق اور اس جیسے مسائل کو ان مسائل میں شمار کیا ہے جو شرعی حکم کے استنباط میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ علم اصول فقہ کے کم فائدہ مند مسائل پر بحث کرنے کے بجائے ان مسائل پر زیادہ توجہ دینی چاہئے۔[25]

شارع کے ذوق کو سمجھنے کے طریقے

شارع کے ذوق کو سمجھنے اور اسے حاصل کرنے کے کچھ طریقے درج ذیل ہیں:

  • شرعی احکام، مبانی و اصول اور شارع کے موقف کو سیکھنا اور ان پر احاطہ حاصل کرنا:[26] شارع کا ذوق جاننے کے لیے مجتہد کو یا تو تمام شرعی احکام اور مختلف امور میں شارع کے موقف پر عبور حاصل ہونا چاہیے، یا اگر وہ کسی خاص مسئلے کے بارے میں شارع کا ذوق جاننا چاہتا ہے تو اسے فقہ کے اسی باب میں یا اس مسئلے سے مربوط ابواب اور شارع کے موقف پر عبور حاصل ہونا چاہیے۔[27]
  • اگر شارع نے کسی ایسی چیز جس کی ایک بالائی حد اور ایک پائین ترین حد ہے، اور شارع نے اس کے پائین ترین درجے کے بارے میں حکم جاری کیا ہو تو اس حکم سے ان کا ذوق اخذ کیا جا سکتا ہے اور اس چیز کی بالائی حد تک اس حکم کی توسیع کی جا سکتی ہے۔[28] مثال کے طور پر، مرجع تقلید کی شرائط میں سے ایک ان کا عادل ہونا ہے۔ لیکن اس پر کوئی ایسی لفظی دلیل موجود نہیں جو یہ واضح کر سکے کہ عدالت تقلید کی صرف ابتدا میں شرط ہے یا اس کا استمرار اور تسلسل بھی ہونا ضروری ہے۔ اس حوالے سے بعض نے اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے، کہ شارع نے امام جماعت کے لیے شروع میں بھی عادل ہونا ضروری سمجھا ہے اور اسی طرح عدل کے استمرار اور تسلسل کو بھی شرط قرار دیا ہے، اس حکم کے تناظر میں یہ بات کہی گئی ہے کہ اس سے شارع کا ذوق معلوم ہوتا ہے کہ مرجع تقلید جو کہ امام جماعت سے زیادہ اہم اور حساس منصب ہے اس کے لیے ابتداء اور استمرار دونوں میں عدالت شرط ہونی چاہئے۔[29]
  • شریعت کے بیان میں شارع کے طریقہ کار کو سمجھنا؛[30] مثال کے طور پر نماز میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہونے والے مرد اور عورت کے درمیان فاصلہ کے حکم کے بارے میں مختلف روایات نقل ہوئی ہیں جن میں سے ہر ایک میں ایک مخصوص فاصلہ جیسے؛ ایک بالشت، یا ایک ہاتھ، یا ایک قدم کا فاصلہ رکھنے کا کہا گیا ہے۔[31] سید محمد محقق داماد کہتے ہیں کہ ان فاصلوں کی رعایت کرنا واجب نہیں ہوسکتا، کیونکہ ایک طرف، بتائے گئے فاصلے غیر معین اور متفرق ہیں؛ دوسری طرف واجبات (جیسے نماز کے لیے شرعی مسافت اور زکوٰۃ میں نصاب کی حد) میں شارع کے ذوق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ واجب احکام کے شرعی اسناد میں اس قدر اختلاف اور افتراق نہیں پایا جاتا ہے۔[32]

فقہ میں شارع کے ذوق کا استعمال

وہ صورتیں جن میں شرعی حکم استباط کرنے کے لئے شارع کا ذوق کام آتا ہے ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • ایسے معاملات میں حکم ثابت کرنا جہاں کتاب، سنت یا دیگر ادلہ میں سے کوئی دلیل نہ ہو؛[33] بعض اوقات شارع کے ذوق کے ذریعے کسی ایسے مورد کا حکم جس پر شرعی دلیل قائم ہو، ایسے مورد پر لاگو کیا جاتا ہے جس پر کوئی شرعی دلیل نہ ہو؛[34] مثال کے طور پر، سید ابو القاسم خوئی نے دوسروں کو حرام میں مبتلا کرنے کی حرمت کے بارے میں کہا ہے کہ، مسلمان کو نجس تیل بیچنا اسے حرام میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے؛ اس لیے اسلامی قانون میں اسے حرام قرار دیا گیا ہے؛ لہذا شارع کے ذوق سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ کلی طور پر دوسرے کو حقیقی حرام میں مبتلا کرنا بذات خود بھی حرام ہے۔[35]
  • حکم کے موضوع کی وضاحت اور بیان:[36] بعض اوقات حکم کے موضوع میں ابہام اور تردید پائی جاتی ہے اور اس کے حدود معین نہیں ہوتے، یہاں پر شارع کے ذوق کی طرف رجوع کر کے اس موضوع کو واضح کیا جاسکے؛[37] مثال کے طور پر دو حقیقی بہنوں سے ایک ساتھ نکاح کی حرمت کے مسئلے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں ناجائز تعلقات (زنا) کے ذریعے پیدا ہوئی ہوں، تو کیا اس صورت میں بھی ان پر یہ حکم لاگو ہوگا یا نہیں؟،[38] اس بارے میں ابہام پایا جاتا ہے۔[39] سید محسن حکیم کا نظریہ ہے کہ اگرچہ شارع نے زنا کے معاملات میں شرعی نسب کی نفی کی ہے، لیکن ان کے ذوق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شادی میں حقیقی نسب معیار نہیں ہے؛ بلکہ عرفی نسب معیار ہے، اس لیے دو بہنیں، جن میں سے ایک یا دونوں ناجائز طریقے سے پیدا ہوئی ہیں، عرف اور معاشرے میں بہنیں سمجھی جاتی ہیں اور ان دونوں سے ایک ساتھ نکاح کرنا حرام ہے۔[40]
  • مختلف احتمالات کے درمیان کسی دلیل کی دلالت کو ایک معنی کے ساتھ مقید اور محدود کرنا؛[41] مثال کے طور پر ایک حدیث کی بنیاد پر کہ جس میں امام صادقؑ سے غذائی اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کے حکم کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپؑ نے فرمایا: "اگر اشیائے خورد و نوش کی وافر مقدار موجود ہو تو کوئی حرج نہیں اور اگر خوراک کی قلت ہو اور لوگ مشکل میں پڑ جائیں تو یہ کام ناپسند اور ناگوار ہے۔"[42] امام خمینی نے کتاب البیع میں کہا ہے کہ اس روایت میں ناپسندیدگی کا معنی فقہی اصطلاح والا مکروہ نہیں ہے؛ کیونکہ شارع کے ذوق کے مطابق یہ بات بہت بعید معلوم ہوتی ہے کہ ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے لوگوں کو ان کی ضرورت کے اشیائے خورد و نوش کی قلت ہو اور وہ مشکل میں پڑ جائیں اور ایسے میں یہ کام مکروہ ہو اور حرام نہ ہو۔[43]

شرعی حکم کے استنباط میں شارع کے ذوق کے استعمال کی مثالیں

بعض فقہی اقوال جن پر فقہاء نے شارع کے ذوق کا حوالہ دیا ہے وہ درج ذیل ہیں:

  • سید ابو القاسم خوئی نے شارع کے ذوق پر انحصار کرتے ہوئے مرجع تقلید کے لئے مرد ہونے کو شرط قرار دیا ہے۔[44] ان کا کہنا ہے کہ ایک طرف، مرجعیت کا منصب تقاضا کرتا ہے کہ مقلدین مختلف معاملات میں اپنے مرجع تقلید کی طرف رجوع کریں، اور دوسری طرف، شارع کے ذوق سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خواتین سے پردے میں رہنے اور گھریلو کاموں میں مشغول رہنے کی توقع رکھتا ہے اور وہ اس بات سے راضی نہیں ہے کہ خواتین اپنے تقلید کرنے والوں یا نامحرموں کے سامنے آجائیں۔[45]
  • فقہاء کی نظر میں اگر کوئی شخص اپنا مال امانت میں کسی امانت دار کے پاس رکھتا ہے اور وہ مالک کے لیے مفت میں اس کی حفاظت کرتا ہے، اگر مال ضائع ہو جائے اور اس کے ضائع ہونے میں اس کا کوئی کردار نہ ہو تو وہ اس مال کا ضامن نہیں ہے۔[46] اب اس بارے میں کہ کیا اس مال کا مالک یہ شرط لگا سکتا ہے کہ مال ضائع ہونے کی صورت میں امانت دار اس کا ضامن ہو گا؟ صاحب جواہر نے کہا ہے کہ یہ شرط درست نہیں اور شارع کے ذوق کے خلاف ہے۔[47]
  • بعض فقہاء کے نزدیک کسی اجنبی مرد کے نطفہ سے عورت کا حمل ٹھہرانا یا دوسرے لفظوں میں کسی اجنبی سے رابطہ کے بغیر اس کا نطفہ براہ راست عورت کے رحِم میں ڈالنا حرام ہے۔[48] ناصر مکارم شیرازی نے کتاب انوار الفقاہۃ کے مکاسب والے حصے میں اس کام کی ممانعت کو نسلوں کے اختلاط کی ممانعت میں شارع کے ذوق سے اخذ کیا ہے۔[49]

شارع کے ذوق کی حجیت

کہا جاتا ہے کہ شارع کا ذوق یا شریعت کا ذوق، حجیت یا اعتبار کے لحاظ سے دو طرح کا ہوتا ہے:[50] یا تو اس کی وجہ سے شرعی حکم پر یقین اور اطمینان حاصل ہوتا ہے، اس صورت میں وہ حجت اور معتبر ہے، یا یہ ظن اور شک کا باعث بنتا ہے، ایسی صورت میں، اس کی حجیت یا اعتبار کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے۔[51]

شارع کا ذوق معتبر ہونے کے فرضیے

کہا جاتا ہے کہ شارع کے ذوق کے ذریعے شرعی حکم کا حصول تین فرضیوں کو ماننے سے مشروط ہے:

  1. شارع کی طرف سے ہر جگہ اور تمام واقعات کے لیے ایک حکم ہے؛
  2. ہر قانون ساز کی فطرت یہ ہے کہ وہ کوئی ایسا حکم جاری نہیں کرتا ہے جو اس کے اپنے ذوق اور ترجیحات کے خلاف ہو۔
  3. شارع کے ذوق کے ذریعے پہنچنے والے حکم میں کوئی مضبوط رکاوٹ یا مزاحم نہیں ہونا چاہیے۔[52]

حوالہ جات

  1. جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص230۔
  2. جمعی از نویسندگان، فرہنگ نامہ اصول فقہ، 1389شمسی، ص715۔
  3. کاشف الغطاء، كشف الغطاء عن مبہمات الشریعۃ الغراء، 1422ھ، ج1، ص188۔
  4. قادری، «مذاق شرع در کیفیت و اعتبار»، ص80-81۔
  5. نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج30، ص195؛ امام خمینی، کتاب البیع، 1410ھ، تراث الشیخ الاعظم، ج4، ص298۔
  6. مہریزی، کتابشناسی اصول فقہ شیعہ، 1373شمسی، ص34۔
  7. شیخ انصاری، کتاب المکاسب، تراث الشیخ الاعظم، ج2، ص28۔
  8. شیخ انصاری، کتاب المکاسب، تراث الشیخ الاعظم، ج2، ص28۔
  9. ملاحظہ کرین: علوی، القول الرشید فی الاجتہاد و التقلید (تقریرات درس آیت اللہ سید شہاب الدین مرعشی نجفی)، 1422ھ، ج1، ص427۔
  10. جمعی از نویسندگان، فرہنگ نامہ اصول فقہ، 1389شمسی، ص715۔
  11. برای نمونہ نگاہ کنید بہ جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص230۔
  12. حب اللہ، «الاجتہاد المذاقی أو مذاق الشارع ومزاج الشریعۃ»، الموقع الرسمی لحیدر حب اللہ۔
  13. نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج1، ص303 و ج2، ص329 و ج15، ص196 و ج27، ص217 و ج30، ص310۔
  14. حب اللہ، «الاجتہاد المذاقی أو مذاق الشارع ومزاج الشریعۃ»، الموقع الرسمی لحیدر حب اللہ۔
  15. ہمدانی، مصباح الفقیہ، 1376شمسی، ج5، ص253 و ص130۔
  16. خویی، موسوعۃ الامام الخوئی، 1417ھ، ج1، ص185 و 187 و 200 و 292 و ج21، ص345 و ج30، ص379۔
  17. حکیم، مستمسک العروۃ الوثقی، 1391ھ، ج2، ص424 و ج4، ص154 و ج9، ص129 و ج14، ص259
  18. امام خمینی، کتاب البیع، 1410ھ، ج1، ص243 و ج2، ص544 و ج3، ص414 و ج4، ص298۔
  19. حب اللہ، «الاجتہاد المذاقی أو مذاق الشارع ومزاج الشریعۃ»، الموقع الرسمی لحیدر حب اللہ۔
  20. نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج30، ص195۔
  21. اثنا عشری، «مقدمہ»، در کتاب الفائق فی الاصول، تآلیف جمعی از نویسندگان، 1444ھ، ص4۔
  22. جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص230۔
  23. جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص177-178۔
  24. جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص177۔
  25. مہریزی، کتابشناسی اصول فقہ شیعہ، 1373شمسی، ص33-34۔
  26. جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص231۔
  27. جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص231۔
  28. جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص232۔
  29. خویی، موسوعۃ الامام الخوئی، 1417ھ، ج1، ص185۔
  30. علیدوست، عشایری منفرد، «استناد فقہی بہ مذاق شریعت در بوتہ نقد»، ص20۔
  31. برای نمونہ نگاہ کنید بہ حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1416ھ، ج5، ص123-127۔
  32. جوادی آملی، مؤمن، کتاب الصلاۃ (تقریرات درس سیدمحمد محقق داماد)، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج3، ص26۔
  33. جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص233۔
  34. جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص233۔
  35. خویی، موسوعۃ الامام الخوئی، 1417ھ، ج35، ص181۔
  36. جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص234۔
  37. جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص234۔
  38. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج5، ص551۔
  39. جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص234۔
  40. حکیم، مستمسک العروۃ، 1391ھ، ج14، ص259۔
  41. حب اللہ، «الاجتہاد المذاقی أو مذاق الشارع ومزاج الشریعۃ»، الموقع الرسمی لحیدر حب اللہ۔
  42. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج5، ص165۔
  43. امام خمینی، کتاب البیع، 1410ھ، ج3، ص607-608۔
  44. غروی تبریزی، کتاب الاجتہاد و التقلید (تقریرات درس آیت اللہ سید ابو القاسم خویی)، 1410ھ، ص226۔
  45. غروی تبریزی، کتاب الاجتہاد و التقلید (تقریرات درس آیت اللہ سید ابوالقاسم خویی)، 1410ھ، ص226۔
  46. نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج27، ص216۔
  47. نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج27، ص217۔
  48. نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج27، ص217۔
  49. مکارم شیرازی، انوار الفقاہۃ (المکاسب)، 1426ھ، ص59۔
  50. جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص237۔
  51. جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص237۔
  52. جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص230۔

مآخذ

  • اثنا عشری، حسین، «مقدمہ»، در کتاب الفائق فی الاصول، تآلیف جمعی از نویسندگان، قم، مؤسسۃ النشر للحوزات العلمیۃ، 1444ھ۔
  • امام خمینی، سید روح اللہ، کتاب البیع، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، 1410ھ۔
  • جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، قم، مؤسسۃ النشر للحوزات العلمیۃ، چاپ ہشتم، 1444ھ۔
  • جمعی از نویسندگان، فرہنگ نامہ اصول فقہ، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامى، 1389ہجری شمسی۔
  • جوادی آملی، عبد اللہ و محمد مؤمن، کتاب الصلاۃ (تقریرات درس سیدمحمد محقق داماد)، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، بی تا.
  • حب اللہ، حیدر، «الاجتہاد المذاقی أو مذاق الشارع ومزاج الشریعۃ»، الموقع الرسمی لحیدر حب اللہ، تاریخ بازدید: 30 شہریور 1403ہجری شمسی۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، 1416ھ۔
  • حکیم، سید محسن، مستمسک العروۃ، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1391ھ۔
  • خویی، سید ابو القاسم، موسوعۃ الامام الخوئی، قم، إحیاء آثار الإمام الخوئی، 1417ھ۔
  • شیخ انصاری، مرتضی، کتاب المکاسب، قم، تراث الشیخ الأعظم، بی تا.
  • طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروۃ الوثقی، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1417ھ۔
  • علوی، سید عادل، القول الرشید فی الاجتہاد و التقلید (تقریرات درس آیت اللہ سید شہاب الدین مرعشی نجفی)، قم، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی، 1422ھ۔
  • علی دوست، ابو القاسم و محمد عشایری منفرد، «استناد فقہی بہ مذاق شریعت در بوتہ نقد»، نشریہ حقوق اسلامی، شمارہ 22، پاییز 1388ہجری شمسی۔
  • غروی تبریزی، میرزاعلی، کتاب الاجتہاد و التقلید (تقریرات درس آیت اللہ سید ابوالقاسم خویی)، قم، دار الہادی، 1410ھ۔
  • فاضل لنکرانی، محمد، احکام پزشکان و بیماران، قم، مركز فقہى ائمہ اطہار(ع)، 1427ھ۔
  • قادری، سید رضی، «مذاق شرع در کیفیت و اعتبار»، نشریہ فقہ (کاوشی نو در فقہ اسلامی)، شمارہ 4، زمستان 1392ہجری شمسی۔
  • کاشف الغطاء، شیخ جعفر، كشف الغطاء عن مبہمات الشریعۃ الغراء، قم، دفتر تبليغات اسلامی حوزہ علميہ قم، 1422ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الكتب الإسلامیۃ، 1407ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، انوار الفقاہۃ (المکاسب)، قم، مدرسۃ الامام علی بن ابی طالب(ع)، 1426ھ۔
  • مہریزی، مہدی، کتاب شناسی اصول فقہ شیعہ، قم، کنگرہ جہانی بزرگداشت دویستمین سال میلاد شیخ اعظم انصاری، 1373ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1362ہجری شمسی۔
  • ہمدانی، رضا، مصباح الفقیہ، قم، المؤسسۃ الجعفریۃ لإحیاء التراث، 1376ہجری شمسی۔