فرائد الاصول (کتاب)
مشخصات | |
---|---|
مصنف | شیخ مرتضی انصاری |
موضوع | اصول فقہ |
زبان | عربی |
طباعت اور اشاعت | |
ناشر | مختلف |
فَرائِدُ الاُصول یا رسائل، اصول فقہ کی کتاب ہے جسے مشہور شیعہ فقیہ و اصولی شیخ مرتضی انصاری (1214ـ1281ھ) نے لکھا ہے۔ رسائل اصول فقہ کی ایک بہت اہم کتاب سمجھی جاتی ہے جس نے اس علم میں انقلاب پیدا کیا اور بعد میں آنے والے شیعہ اصولی اس سے بہت متاثر ہوئے۔
یہ کتاب صاحب کتاب کے زمانہ سے ہی علمائے شیعہ کی مورد توجہ کتاب رہی ہے اور اس کی تدریس و شرح بھی ہوتی رہی ہے۔ اس میں شیخ انصاری نے علم اصول کے لئے ایک نئے ڈھانچے کی تجویز پیش کی ہے اور جدید نظریات پیش کئے ہیں جن کو علمائے تشیع نے ان کی درستگی اور اہمیت کے لئے قبول کیا ہے۔
قطع و ظن اور اصول عملیہ جیسے مباحث منظم انداز میں بیان کرنا، قطع کی حجیت کا ذاتی ہونا، احتیاط میں علم اجمالی کا مؤثر ہونا، مصلحت سلوکیہ اور حجیت ظن جیسے مباحث اس کتاب کے ابتکارات میں سے ہیں۔
فرائد الاصول حوزہ علمیہ کے اعلی تعلیمی نصاب کا حصہ ہے۔ اس کتاب پر بہت زیادہ شرحیں اور حواشی لکھے گئے ہیں کہ جن کی تعداد تقریبا دو سو تک پہنچتی ہیں من جملہ ان میں آخوند خراسانی کی دُرَرُ الفوائد، محمد حسن آشتیانی کی بحر الفوائد، اور میرزا موسی تبریزی کی اوثق الوسائل کا نام لیا جا سکتا ہے۔
مصنّف
مرتضی بن محمّد امین انصاری جو شیخ انصاری کے نام سے معروف اور تیرہویں صدی ہجری کے شیعہ علما میں سے تھے۔[1] وہ صاحب جواہر کے بعد دنیائے تشیع کے مرجع تقلید تھے۔[2] شیخ انصاری کو «خاتم الفقہاء و المجتہدین» کا لقب دیا گیا ہے اور ان کے بعد آنے والے شیعہ علماء کو ان کا پیرو اور شاگرد سمجھا جاتا ہے۔[3]
فرائد الاصول یا رسائل اور مکاسب شیخ انصاری کی مشہور تصنیفات میں سے ہیں۔ یہ دونوں کتابیں حوزہ علمیہ کے طلاب کی درسی کتابوں میں شامل ہیں اور ان پر بہت زیادہ شرحیں بھی لکھی گئی ہیں۔[4]
کتاب کی اہمیت
کتاب رسائل یا فرائد الاصول اصول فقہ میں شیخ انصاری کی اہم ترین کتاب ہے جسے علم اصول کی بدیع اور مؤثر کتاب قرار دی جاتی ہے۔[5] سید محسن امین کے مطابق اس کتاب کے زیادہ تر مطالب ابتکاری ہیں اور مشہور علمائے تشیع نے اس پر حاشیہ لگایا ہے۔[6] آقا بزرگ تہرانی نے الذریعہ میں لکھا ہے کہ رسائل جس زمانہ میں تألیف ہوئی تبھی سے اس کی تدریس ہونے لگی اور خاص توجہ کا باعث بن گئی۔[7]
اس کتاب نے علم اصول کے ڈھانچے اور مضمون میں نوآوری کی وجہ سے اس علم میں بنیادی تحول پیدا کیا ہے۔ اس کا شمار ابھی بھی حوزہ علمیہ کے سطوح عالی کے متون میں ہوتا ہے۔[8] لبنان کے شیعہ عالم محمد جواد مغنیہ (1322-1400 ھ) نے لکھا ہے کہ شیخ انصاری کے بعد تمام اصولیوں نے اصول عملیۂ رسائل میں موجود ان کے اصولی نظریات سے استفادہ کیا ہے۔[9]
کتاب کی ساخت اور مضمون
فرائد الاصول، اصول فقہ کے پانچ مباحث کو شامل ہے جو یہ ہیں: قطع، ظن، برائت، استصحاب اور تعادل۔[10] یہ مباحث تین بخش یا مصنف کی تعبیر کے مطابق تین مقصد قطع، ظن اور شک، اسی طرح ایک خاتمہ پر مشتمل ہے:
مقصد اول: قطع: حجیت قطع یا یقین،[11] تَجَرّی[12] اور علم اجمالی اس بخش کے مباحث ہیں۔[13]
مقصد دوم: مباحث ظن: اس بخش کے دو اہم بحثیں یہ ہیں: امکان تعبد بہ ظنّ[14] اور وقوع تعبد بہ ظن[15] تحقق ظن کے بخش میں، قرآن کریم کے ظاہر الفاظ کی حجیت،[16] اور روایات،[17] قول حجیت اور اہل لغات،[18] اجماع منقول،[19] شہرت فتوایی[20] اور خبر واحد[21] سے بحث ہوئی ہے۔
مقصد سوم: مباحث شک: اس بخش میں، اصول عملیہ سے یعنی برائت، اشتغال یا احتیاط، تخییر[22] اور استصحاب[23] کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے۔
خاتمہ: تعادل و تراجیح: اس بخش میں بحث اس بات پر ہے کہ اگر دو دلیل آپس میں تعارض کر جائیں تو راہ حل کیا ہے اور کس بنیاد و معیار پر ایک دلیل کو دوسری دلیل پر ترجیح دیں گے۔[24]
ابتکار و نوآوری
شیخ انصاری نے فرائد الاصول میں علم اصول فقہ کے ڈھانچے کو بھی تبدیل کیا اور اس کے لئے باقاعدہ اور منطقی سانچہ پیش کیا، اسی طرح ان کی تجویز کردہ نظریات کی بھی ان سے پہلے کوئی مثال نہیں ہے۔[25] سید محسن امین نے اعیان الشیعہ میں اس کتاب کے زیادہ تر مطالب کو ابتکاری بتایا ہے۔[26]
شیخ انصاری سے پہلے اصولی کتابوں میں مباحث الفاظ کے بعد، ادلہ احکام جیسے قرآن و سنت و اجماع و ادلہ عقلی جیسے استصحاب و برائت بغیر کسی ملاک و معیار بغیر کسی تقدم و تأخر کے پیش کئے جاتے تھے۔[27] شیخ انصاری نے اس استدلال کے ساتھ کہ «مکلف جب احکام شرعی کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس کی نسبت یا شک کرتا ہے یا گمان و قطع»، الفاظ کے بعد تمام مسائل اصول کو تین مباحث قطع، ظن اور شک کے ذیل میں جمع کر دیا۔[28] ان کے بعد اصولیوں نے بھی اسی طریقہ کو اختیار کیا۔[29]
علم اصول کے دو قاعدہ «حکومت» اور «ورود» بھی شیخ انصاری ہی کے نظریاتی ابتکار ہیں۔ یہ دو قاعدہ تعارض کے ادلہ کو حل کرنے اور استنباط احکام شرعی میں اہم مقام رکھتے ہیں۔[30] کہا جاتا ہے کہ ان دونوں قواعد کی درستگی اور استنباط احکام فقہی میں ان کا اہم کردار اس بات کا سبب بنا کہ شیخ کے بعد تمام فقہا نے ان دو قواعد کو قبول بھی کیا اور ان سے استفادہ بھی کیا۔[31]
اصول عملیہ کو نظام مند بنانا، حجیت قطع کا ذاتی ہونا، احتیاط میں علم اجمالی کا تأثیر گزار ہونا، مصلحت سلوکیہ اور اصول دین میں حجیت ظن، ان تمام مباحث کو رسائل میں شیخ انصاری کے ابتکارات میں شمار کیا گیا ہے۔[32]
کتاب کی تعلیقات اور حواشی
آقا بزرگ تہرانی کے مطابق، شیخ انصاری کی رسائل انہیں کے زمانہ میں مورد توجہ قرار پائی اور اس پر بہت سی شرحیں اور حواشی لکھے گئے۔[33] انہوں نے الذریعہ میں فرائد الاصول کے حواشی کے بخش میں 65 شرحیں اور حواشی ذکر کئے ہیں۔[34] کہا جاتا ہے کہ الذریعہ میں دوسری جگہوں پر بھی شرحیں اور حواشی کی معرفی کرائی گئی ہے۔[35]
بعض دوسری تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ رسائل پر تقریبا دو سو حواشی اور شرحیں لکھی گئی ہیں۔[36]
رسائل کی بعض شرحوں میں تمام کتاب کی توضیح دی گئی ہے اور بعض دوسری شرحوں میں کتاب کے بعض مباحث کی شرح کی گئی ہے۔[37] ذیل میں رسائل کی مشہور شرحیں اور حواشی درج کی جا رہی ہیں:
- آخوند خراسانی کی دُرَرُ الفوائد۔
- محمد حسن آشتانی کی بحر الفوائد فی شرح الفرائد۔
- میرزا موسی تبریزی کی اَوثق الوسائل فی شرح الرّسائل۔
- آقا رضا ہمدانی کی الفوائد الرضویّہ علی الفرائد المترضویّہ۔
- سید ابو القاسم اشکوری کی جواہر العقول۔
- حاشیہ مولی احمد تفرشی، شیخ انصاری کے شاگرد۔
- محمد جواد موسوی اصفہانی کی توضیح الفرائد۔[38]
فرائد الاصول کے منظوم نسخے
فرائد الاصول کو متعدد مرتبہ شعری شکل بھی دی گئی ہے۔ الذریعہ میں اس کے دو نمونہ بہ نام نظمُ فرائد الاصول درج کئے گئے ہیں کہ جن میں سے ایک علی قزوینی خوینی (وفات 1318 ہجری) نے لکھا ہے اور دوسری علی حیدر شروگی (1237-1314ھ) نے لکھا ہے۔[39] مقالہ «پژوہشی در آثار و تألیفات شیخ مرتضی انصاری» میں ان دو کتابوں کے علاوہ، الدُرَّۃ المُنتَظِمہ کا نام بھی آیا ہے جو موسی شرارہ عاملی (1267-1304ھ) کی لکھی ہوئی ہے۔[40]
مختلف نسخے اور طباعت
فرائد الاصول کے بہت سے خطی نسخے مختلف کتب خانوں میں موجود ہیں۔ ان میں سے چند نسخے اس شمارہ کے 2983 و 2990 و 7348 و 7394 کتابخانہ آستان قدس رضوی [41] میں موجود ہیں۔ سید موسی شبیری زنجانی کے مطابق کتاب رسائل کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ شیخ انصاری نے اس میں بہت زیادہ تجدید نظر کیا ہے۔ بعض موارد میں «ان قلت» اور «قلت» کے درمیان ہماہنگی نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ چیزیں گذشتہ ادوار سے متعلق ہیں حالانکہ گذشتہ ادوار سے متعلق مباحث کو اس کتاب سے حذف کرنا چاہئے تھا۔[42] کتاب کی تحریر مکمل ہونے کے بعد شیخ انصاری کی درخواست پر میرزائے شیرازی کے توسط سے اس کتاب کی پروف ریڈینگ ہوئی اور پہلی بار خود شیخ انصاری کی زندگی میں ان اصلاحات کے ساتھ شایع ہوئی[43] جو آیت اللہ شبیری زنجانی کے مطابق رسائل کی سب سے صحیح نسخہ ہے۔[44] اسی طرح یہ کتاب مختلف انتشارات کے ذریعے منظر عام پر آئی ہے جن میں مجمع الفکر الاسلامی کی چار جلدی اور جامعہ مدرسین قم سے وابستہ دفتر انتشارات اسلامی کی دو جلدی چاپ ہے۔
رسائل کو حوزہ علمیہ کے نصاب میں شامل کرنے پر تنقید
حوزہ علمیہ کے درسی متون کی اصلاحی منصوبے میں حوزہ علمیہ کے درسی نظام میں شیخ انصاری کی رسائل و مکاسب کو شامل کرنے پر کافی تنقید ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں ہونے والے اعتراضات میں سے ایک یہ ہے کہ ان دونوں کتابوں کو مصنف نے درسی نصاب کے عنوان سے نہیں لکھا تھا لہذا انہیں درسی نصاب میں شامل کرنے کے لئے ان میں اصلاح کی ضرورت ہے۔[45] اسی طرح بلند و بالا مطالب پر مشتمل ہونے کی وجہ سے یہ کتابیں طلاب کے تحصیلی مراحل کے متناسب نہیں ہے۔ موضوعات کو پیش کرنے میں مناسب طریقہ کار کا فقدان اس سلسلے میں ہونے والے دیگر اعتراضات میں سے ہے۔[46]
حوالہ جات
- ↑ امین، اعیانالشیعہ، 1403ھ، ج10، ص117۔
- ↑ امین، اعیانالشیعہ، 1403ھ، ج10، ص118۔
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، 1389ش، ج14، ص437۔
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، 1389ش، ج14، ص437۔
- ↑ قافی، «الرسائل»، ص743، 744۔
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، 1403ھ، ج10، ص118۔
- ↑ آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، بیروت، ج6، ص152۔
- ↑ قافی، «الرسائل»، ص743، 744۔
- ↑ مغنیہ، علم اصول الفقہ فی ثوبہ الجدید، 1975م، ص449۔
- ↑ آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، بیروت، ج16، ص132۔
- ↑ دیکھئے شیخ انصاری، فرائد الاصول، 1428ھ، ج1، ص29۔
- ↑ دیکھئے شیخ انصاری، فرائد الاصول، 1428ھ، ج1، ص37۔
- ↑ دیکھئے شیخ انصاری، فرائدالاصول، 1428ھ، ج1، ص69۔
- ↑ دیکھئے شیخ انصاری، فرائدالاصول، 1428ھ، ج1، ص105۔
- ↑ دیکھئے شیخ انصاری، فرائد الاصول، 1428ھ، ج1، ص125۔
- ↑ دیکھئے شیخ انصاری، فرائد الاصول، 1428ھ، ج1، ص139۔
- ↑ دیکھئے شیخ انصاری، فرائد الاصول، 1428ھ، ج1، ص160۔
- ↑ دیکھئے شیخ انصاری، فرائد الاصول، 1428ھ، ج1، ص173۔
- ↑ دیکھئے شیخ انصاری، فرائد الاصول، 1428ھ، ج1، ص179۔
- ↑ دیکھئے شیخ انصاری، فرائد الاصول، 1428ھ، ج1، ص231۔
- ↑ دیکھئے شیخ انصاری، فرائد الاصول، 1428ھ، ج1، ص237۔
- ↑ دیکھئے شیخ انصاری، فرائد الاصول، 1428ھ، ج2، ص17۔
- ↑ دیکھئے شیخ انصاری، فرائدالاصول، 1428ھ، ج3، ص9۔
- ↑ دیکھئے شیخ انصاری، فرائد الاصول، 1428ھ، ج4، ص9۔
- ↑ مخلصی، «نوآوریہای شیخ مرتضی انصاری در دانش اصول»، ص77۔
- ↑ امین، اعیانالشیعہ، 1403ھ، ج10، ص118۔
- ↑ مخلصی،«نوآوریہای شیخ مرتضی انصاری در دانش اصول»، ص91۔
- ↑ مخلصی، «نوآوریہای شیخ مرتضی انصاری در دانش اصول»، ص92۔
- ↑ مخلصی،«نوآوریہای شیخ مرتضی انصاری در دانش اصول»، ص92۔
- ↑ مخلصی، «نوآوریہای شیخ مرتضی انصاری در دانش اصول»، ص77۔
- ↑ مخلصی، «نوآوریہای شیخ مرتضی انصاری در دانش اصول»، ص88۔
- ↑ مہریزی، «سیری در فرائدالاصول»، ص10۔
- ↑ آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، بیروت، ج6، ص152۔
- ↑ آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، بیروت، ج6، ص152-162۔
- ↑ قافی، «الرسائل»، ص746۔
- ↑ انصاری، «پژوہشی در آثار و تألیفات شیخ مرتضی انصاری»، 108-115۔
- ↑ قافی، «الرسائل»، ص746۔
- ↑ قافی، «الرسائل»، ص746۔
- ↑ آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، بیروت، ج24، ص219۔
- ↑ انصاری، «پژوہشی در آثار و تألیفات شیخ مرتضی انصاری»، ص108۔
- ↑ انصاری، «پژوہشی در آثار و تألیفات شیخ مرتضی انصاری»، ص107
- ↑ شبیری زنجانی، جرعهای از دریا، ج1، ص142.
- ↑ شبیری زنجانی، جرعهای از دریا، ج1، ص112.
- ↑ شبیری زنجانی، جرعهای از دریا، ج1، ص142.
- ↑ مہریزی، «سیری در فرائد الاصول»، ص271-272۔
- ↑ مہریزی، «سیری در فرائدالاصول»، ص271-272۔
مآخذ
- آقا بزرگ تہرانی، محمد محسن، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، بیروت، دار الاضواء، چاپ دوم، بے تا۔
- امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، دار التعارف، 1403ھ۔
- انصاری قمی، ناصر الدین، «پژوہشی در آثار و تألیفات شیخ مرتضی انصاری»، آینہ پژوہش، شمارہ 27، 1373 ہجری شمسی۔
- شیخ انصاری، مرتضی، فرائد الاصول، قم، مجمع الفکر الاسلامی، چاپ نہم، 1428ھ۔
- شبیری زنجانی، سید موسی، جرعہ ای از دریا، قم، مؤسسہ کتابشناسی، 1389ہجری شمسی۔
- قافی، حسین، «الرسائل»، در دانشنامہ جہان اسلام، ج19، تہران، بنیاد دایرۃ المعارف اسلامی، چاپ اول، 1393 ہجری شمسی۔
- مخلصی، عباس، «نوآوریہای شیخ مرتضی انصاری در دانش اصول»، فقہ، شمارہ 1، 1373 ہجری شمسی۔
- مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، تہران، انتشارات صدرا، 1389ہجری شمسی۔
- مغنیہ، محمد جواد، علم اصول الفقہ فی ثوبہ الجدید، بیروت، دار العلم الملایین، چاپ اول، 1975ء۔
- مہریزی، مہدی، «سیری در فرائد الاصول»، آینہ پژوہش، شمارہ 27، 1373 ہجری شمسی۔