چھلکے دار مچھلی
یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
کھپرے والی مچھلی یا چھلکے دار مچھلی، سے مراد وہ مچھلی ہے جس کا کھانا حلال ہے۔ امامیہ فقہ میں مچھلیوں کا چھلکے دار ہونا اس کی حلالیت کا معیار ہے۔ بعض فقہاء کے مطابق یہ حکم شیعہ امامیہ سے مختص احکام میں سے ہے۔ احادیث میں اسی معیار کے تحت بعض مچھلیوں کو حلال گوشت اور بعض مچھلیوں کو حرام گوشت قرار دیا گیا ہے۔
فقہاء کھانے میں استعمال کے ارادے سے بغیر چھلکے والی مچھلیوں کی خرید و فروخت کرنے کو حرام اور باطل سمجھتے ہیں۔ مجتہدین کے فتوے کے مطابق مچھلی کے بعض حصوں کا چھلکے دار ہونا اس کی حلالیت کے لیے کافی ہے۔ جن مچھلیوں کے چھلکے صرف خوردبین یا کسی آلہ کے ذریعے قابل روئیت ہو ان کے حلال ہونے کے بارے میں علماء میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔
تعارف
بعض عملی اور فقہی احکام |
---|
جس مچھلی کے بیرونی حصے پر کھرنڈ اور کھپرے موجود ہوں[1] اسے چھلکے دار مچھلی کہتے ہیں۔ اسلامی فقہ کے ابواب صید و ذباحہ (شکار اور ذبح) اور اطعمہ و اشربہ (کھانے پینے سے متعلق شرعی احکام) میں چھلکے دار مچھلی سے متعلق فقہی مسئلہ بیان ہوتا ہے۔[2] مچھلی کا چھلکا دار ہونا اس کے حلال ہونے کی نشانی ہے۔[3] شیعہ کتب احادیث میں چھلکے دار مچھلیوں کے بارے میں بعض احادیث بیان کی گئی ہیں۔[4]
فقہی حکم
امامیہ فقہاء چھلکے والی مچھلیوں کو حلال اور بغیر چھلکے والی مچھلیوں کو حرام سمجھتے ہیں۔[5] بغیر چھلکے والی مچھلیوں سے مراد وہ مچھلیاں ہیں جو فطرتاََ بغیر چھلکے کے ہوں۔[6] لہذا جن مچھلیوں کے اصالتاََ چھلکے ہوں لیکن کسی وجہ سے وہ اتر چکے ہوں، ان پر چھلکے دار مچھلی کا حکم جاری ہوگا۔[7]
بغیر چھلکے کی مچھلیوں کا کھانا حرام ہونے کی یہ وجہ بتائی گئی ہے کہ اس نوعیت کی مچھلیاں بنیادی طور پر گوشت خور یا مردار کھانے والی ہوتی ہیں لہذا ان کا گوشت چھلکے کے نہ ہونے کی وجہ سے آلودہ ہوتا ہے۔[8]
مچھلی کے انڈے کا حکم
اکثر فقہاء کے فتاویٰ کے مطابق مچھلی کے انڈوں (خاویار) کے کھانے کا حکم مچھلی ہی کے تابع ہے۔ لہذا جن مچھلیوں کا کھانا حلال ہے ان کے انڈوں کا کھانا بھی حلال ہے۔[9] بعض فقہاء نے اس کے حلال یا حرام ہونے کا ایک اور معیار بیان کیا ہے: اگر ان انڈوں کی بیرونی جلد کھردری اور سخت ہوں تو حلال ہے اور اگر یہ نرم ہوں تو ان کا کھانا حرام ہے؛[10] لیکن دیگر بعض علما کہتے ہیں کہ یہ معیار اس صورت میں ہے جب مچھلی کے حلال گوشت یا حرام گوشت ہونے کی تشخیص ممکن نہ ہو۔[11]
چھلکے دار مچھلی کی حلیّت شیعوں سے مخصوص حکم
بعض شیعہ فقہاء جیسے شیخ طوسی اور سید مرتضی چھلکے دار مچھلی کے حلال ہونے اور باقی سمندری حیوانات کے حرام ہونے کو شیعہ امامیہ سے مختص حکم جانتے ہیں۔[12] بعض فقہاء نے اس سلسلے میں تواتر احادیث،[13] اصحاب کے مابین شہرت[14] اور اجماع کا دعوا کرتے ہوے[15] اسے اصول مذہب شیعہ میں سے گردانا ہے۔[16]
غیر امامیہ فقہاء مچھلیوں کے حلال ہونے کو ان کے چھلکے دار ہونے سے مختص نہیں کرتے۔ ابوحنیفہ کے نزدیک ہر قسم کی مچلھی حلال ہے۔ اسی طرح محمد بن ادریس شافعی اور مالک بن انس تمام قسم کے دریائی حیوانات کو حلال سمجھتے ہیں۔[17] اس بنا پر بعض فقہاء چھلکے دار مچھلیوں کی حلیت کو تمام مسلمانوں کا اجماعی حکم تسلیم کرتے ہیں اور غیر چھلکے دار مچھلی اور وہ دریائی حیوانات جو مچھلی محسوب نہیں ہوتے، ان کی حرمت کو اصحاب امامیہ کا اجماعی مسئلہ گردانتے ہیں۔[18]
احادیث کی رو سے چند مصادیق
بعض فقہاء نے مختلف روایات کی بنیاد پر حلال گوشت اور حرام گوشت مچھلیوں کے نام[19] اور اس سلسلے میں علما کے حکم کو جمع کیا ہے۔[20]
کچھوا، مینڈک اور کیکڑا سمندری جانور ہیں جن پر مچھلی کا اطلاق نہ ہونے اور ان کے چھلکے دار نہ ہونے کی وجہ سے احادیث میں حرام قرار دیا گیا ہے۔[21] اس کے علاوہ آزاد مچھلی(Salmon) (باریک چھلکے والی چھوٹی مچھلی)، نیلے ٹڈی یا کیکڑے، طِمْر اور طِمْرانی کو مچھلیوں کی حلال اقسام میں شمار کیا جاتا ہے۔[22]
بعض فقہاء جیسے شیخ طوسی[23] محقق حلی[24] اور کیدری مصنف کتاب "اصباح الشیعۃ بمصباح الشریعۃ"[25] نے احادیث سے استناد کرتے ہوئے بعض سمندری جانوروں جیسے بام مچھلی(Moray) زمّار یا زِمّیر کو مکروہ جانا ہے اور بعض دیگر فقہاء نے ان پر مچھلی کا نام صدق نہ آنے یا ان پر چھلکے نہ ہونے کی وجہ سے حرام گوشت حیوانات میں شمار کیا ہے۔[26] موخر الذکر گروہ نے کراہت پر دلالت کرنے والی احادیث کو تقیہ پر حمل کیا ہے۔[27] احادیث میں مذکور بعض حیوانات پر مچھلی کا اطلاق آنے کے حوالے سے اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔[28]
چھلکے کی مقدار اور اس کا مصداق
بعض مجتہدین کے فتوا کے مطابق مچھلی کے پورے جسم پر چھلکا موجود ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ اس کے بعض حصوں پر چھلکا ہو کافی ہے۔[29] مچھلی چھلکا دار ہے یا نہیں اس کا تعین کرنا مکلف کی ذمہ داری ہے[30] یا یہ کہ ماہرین اسے چھلکا دار کہے۔[31]
بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ اگر کسی مچھلی کے بارے میں شک ہوجائے کہ وہ چھلکا دار ہے یا نہیں، اس صورت میں حرمت کا حکم جاری ہوگا؛[32] مگر یہ کہ مسلمانوں کے بازار میں اسے خرید لی جائے[33] یا یہ کہ ایک عادل گواہ اس کے چھلکے دار ہونے کی گواہی دے۔[34] بنابرایں جو مچھلیاں غیر مسلموں کے بازاروں میں خرید و فروخت کی جاتی ہیں؛ مشکوک ہونے کی صورت میں ان کے کھانے سے پرہیز کیا جائے۔[35]
جن مچھلیوں کے چھلکے کو صرف ذرہ بین سے دیکھا جاسکتا ہے ان کی حلیت کے بارے میں فقہاء کے مابین اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ ازون برون(starry sturgeon) ، فیلماہی(Beluga Fish)، تاسماہی(Sturgeon Fish)،[36] شارک(Shark)[37] اور ماہی خاویار[38] ان مچھلیوں کے اقسام ہیں جن کے بارے میں مجتہدین سے شرعی سوالات کیے گئے ہیں۔
بعض مراجع تقلید کے مطابق مچھلی کے چھلکے بغیر ذرہ بین کے دکھائی دینا چاہیے اور عرف میں اسے چھلکا کہا جائے۔[39] اسی بنا پر آیت اللہ تبریزی کا عقیدہ ہے کہ خاویار مچھلی کا چھلکا دار ہونا ثابت نہیں ہے۔[40] بعض مجتہدین جیسے آیت اللہ بہجت نے چھلکے کو ذرہ بین کے ذریعے دیکھے جانے کو کافی جانا ہے۔[41] آیت اللہ مکارم شیرازی نے شارک مچھلی کی حلیت کی بابت سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں عرف[42] یا اہل خبرہ کی تشخیص[43] کو ان کے حلال ہونے میں کافی ہے۔
بعض محققین کے مطابق مچھلی کے حلال ہونے کا دار و مدار اس کا چھلکا دار ہونا ہے چاہے اسے ذرہ بین کے ذریعے تشخیص دی جائے یا عام طریقے سے۔[44]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ جمعی از مؤلفان، مجلہ فقہ اہل بیت(ع)، قم، ج9، ص268۔
- ↑ مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہلبیت، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، 1426ھ، ج2، ص291۔
- ↑ ملاحظہ کریں: خمینی، تحریر الوسیلۃ، قم، ج2، ص155۔
- ↑ ملاحظہ کریں: صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ،1413ھ، ج3، ص323؛ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، 1409ھ، ج24، ص129؛ طوسی، تہذیب الأحکام، 1407ھ، ج9، ص2۔
- ↑ ملاحظہ کریں: شریف مرتضی، الانتصار، 1415ھ، ص400؛ محقق حلی، شرائع الإسلام، 1408ھ، ج3، ص169۔
- ↑ غفاری، ترجمہ و شرح من لا یحضرہ الفقیہ، 1409ھ، ج4، ص444۔
- ↑ علامہ حلی، قواعد الأحکام، 1413ھ، ج3، ص324؛ غفاری، ترجمہ و شرح من لا یحضرہ الفقیہ، 1409ھ، ج4، ص444؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، 1410ھ، ج7، ص263۔
- ↑ علت حرام گوشت بودن ماہیان بدون پولک چیست؟، سایت مشرق۔
- ↑ ملاحظہ کریں: علامہ حلی، تحریر الأحکام الشرعیۃ، مشہد، ج2، ص160؛ شہید اول، اللمعۃ الدمشقیۃ، 1410ھ، ص235۔
- ↑ دیلمی، المراسم العلویۃ، 1404ھ، ص207۔
- ↑ علامہ حلی، تحریر الأحکام الشرعیۃ، مشہد، ج2، ص160؛ شہید اول، اللمعۃ الدمشقیۃ، 1410ھ، ص235۔
- ↑ طوسی، المبسوط، 1378ھ، ج6، ص276؛ شریف مرتضی، الانتصار، 1415ھ، ص400۔
- ↑ کوہکمرہای، «تحقیق بر التنقیح الرائع»، 1404ھ، ج4، ص31۔
- ↑ اردبیلی، مجمع الفائدۃ، 1403ھ، ج11، ص187۔
- ↑ راوندی، فقہ القرآن، 1405ھ، ج2، ص249۔
- ↑ ابنادریس حلی، السرائر، 1410ھ، ج3، ص99۔
- ↑ فاضل مقداد، کنز العرفان، 1425ھ، ج1، ص328۔
- ↑ اردبیلی، مجمع الفائدۃ، 1403ھ، ج11، ص187۔
- ↑ ملاحظہ کریں: مفید، المقنعۃ، 1413ھ، ص576؛ طوسی، النہایۃ، 1400ھ، ص576؛ طوسی، المبسوط، 1378ھ، ج6، ص276؛ محقق حلی، شرائع الإسلام، 1408ھ، ج3، ص169؛ علامہ حلی، تبصرۃ المتعلمین، 1411ھ، ص163۔
- ↑ فاضل آبی، کشف الرموز، 1417ھ، ج2، ص361۔
- ↑ شہید اول، اللمعۃ الدمشقیۃ، 1410ھ، ص235۔
- ↑ شیخ بہایی، جامع عباسی، 1429ھ، ص754۔
- ↑ طوسی، النہایۃ، 1400ھ، ص576۔
- ↑ محقق حلی، شرائع الإسلام، 1408ھ، ج3، ص169۔
- ↑ کیدری، إصباح الشیعۃ، 1416ھ، ص387۔
- ↑ ابنادریس حلی، السرائر، 1410ھ، ج3، ص99۔
- ↑ شہید اول، الدروس الشرعیۃ، 1417ھ، ج3، ص8۔
- ↑ ملاحظہ کریں: شعرانی، ترجمہ و شرح تبصرۃ المتعلمین، 1416ھ، ج2، ص634۔
- ↑ مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہلبیت، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، 1426ھ، ج2، ص291۔
- ↑ گلپایگانی، مجمع المسائل، 1409ھ، ج3، ص63۔
- ↑ بہجت، استفتاءات، 1428ھ، ج4، ص376۔
- ↑ حکیم، منہاج الصالحین، 1410ھ، ج2، ص367۔
- ↑ تبریزی، استفتاءات جدید، قم، ج2، ص393۔
- ↑ خویی، صراط النجاۃ، 1416ھ، ج2، ص406؛ بجنوردی، القواعد الفقہیۃ، 1419ھ، ج3، ص41۔
- ↑ تبریزی، صراط النجاۃ، 1427ھ، ج5، ص406۔
- ↑ گلپایگانی، مجمع المسائل، 1409ھ، ج3، ص63-64۔
- ↑ تبریزی، استفتاءات جدید، قم، ج1، ص402؛ بہجت، استفتاءات، 1428ھ، ج4، ص376؛ مکارم شیرازی، استفتاءات جدید، 1427ھ، ج1، ص286؛ صافی گلپایگانی، جامع الأحکام، 1417ھ، ج1، ص286۔
- ↑ تبریزی، صراط النجاۃ، 1427ھ، ج5، ص406؛ گلپایگانی، مجمع المسائل، 1409ھ، ج3، ص63۔
- ↑ تبریزی، استفتاءات جدید، قم، ج2، ص390۔
- ↑ تبریزی، صراط النجاۃ، 1427ھ، ج5، ص406۔
- ↑ بہجت، استفتاءات، 1428ھ، ج4، ص376۔
- ↑ استفتاءات جدید مکارم، ج1، ص: 282
- ↑ مکارم شیرازی، استفتاءات جدید، 1427ھ، ج1، ص286۔
- ↑ جمعی از مؤلفان، مجلہ فقہ اہلبیت(ع)، ج43، ص237۔
مآخذ
- ابنادریس حلی، محمد بن منصور، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1410ھ۔
- اردبیلی، احمد بن علی، مجمع الفائدۃ و البرہان فی شرح إرشاد الأذہان، تحقیق آقا مجتبی عراقی و علیپناہ اشتہاردی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1403ھ۔
- بجنوردی، سید حسن، القواعد الفقہیۃ، تحقیق مہدی مہریزی و محمدحسن درایتی، قم، نشر الہادی، 1419ھ۔
- بہجت، محمدتقی، استفتاءات، قم، دفتر حضرت آیتاللہ بہجت، 1428ھ۔
- تبریزی، جواد، استفتاءات جدید، قم، بیجا، بیتا۔
- تبریزی، جواد، صراط النجاۃ، قم، دارالصدیقہ الشہیدہ، 1427ھ۔
- جمعی از مؤلفان، مجلہ فقہ اہلبیت(ع)، فارسی، قم، موسسہ دائر المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہلبیت(ع)، بیتا۔
- حرّ عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ، قم، مؤسسہ آلالبیت(ع)، 1409ھ۔
- حکیم، سید محسن، منہاج الصالحین (المحشی)، بیروت، دارالتعارف للمطبوعات، 1410ھ۔
- خمینی، سید روحاللہ، تحریر الوسیلۃ، قم، مؤسسہ مطبوعات دارالعلم، بیتا۔
- خویی، سید ابوالقاسم، صراط النجاۃ (المحشی)، قم، مکتب نشر المنتخب، 1416ھ۔
- دیلمی، سلار، المراسم العلویۃ و الأحکام النبویۃ، تحقیق محمود بستانی، قم، منشورات الحرمین، 1404ھ۔
- راوندی، قطبالدین، فقہ القرآن للراوندی، قم، انتشارات کتابخانہ آیتاللہ مرعشی، 1405ھ۔
- شریف مرتضی، علی بن حسین موسوی، الانتصار فی انفرادات الإمامیۃ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1415ھ۔
- شعرانی، ابوالحسن، تبصرۃ المتعلمین فی أحکام الدین، ترجمہ و شرح، تہران، منشورات إسلامیۃ، چاپ پنجم، 1419ھ۔
- شہید اول، محمد بن مکی، الدروس الشرعیۃ فی فقہ الإمامیۃ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1417ھ۔
- شہید اول، محمد بن مکی، اللمعۃ الدمشقیۃ فی فقہ الإمامیۃ، محمدتقی و علی اصغر مروارید، بیروت، دارالتراث، 1410ھ۔
- شہید ثانی، زینالدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، قم، کتابفروشی داوری، 1410ھ۔
- شہید ثانی، زینالدین بن علی، مسالک الأفہام إلی تنقیح شرائع الإسلام، قم، مؤسسۃ المعارف الإسلامیۃ، 1413ھ۔
- شیخ بہایی، بہاءالدین، جامع عباسی و تکمیل آن محشی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ جدید، 1429ھ۔
- صافی گلپایگانی، لطفاللہ، جامع الأحکام، قم، انتشارات حضرت معصومہ(س)، 1417ھ۔
- صدوق، محمّد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1413ھ۔
- طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الإمامیۃ، تحقیق سید محمدتقی کشفی، تہران، مکتبہ المرتضویہ، چاپ سوم، 1387ھ۔
- طوسی، محمد بن حسن، النہایۃ فی مجرد الفقہ و الفتاوی، بیروت، دارالکتب العربی، چاپ دوم، 1400ھ۔
- طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، تحقیق حسن الموسوی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، تبصرۃ المتعلمین فی أحکام الدین، تحقیق محمدہادی یوسفی غروی، تہران، مؤسسہ چاپ و نشر، 1411ھ۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، تحریر الأحکام الشرعیۃ علی مذہب الإمامیۃ، مشہد، مؤسسہ آلالبیت(ع)، بیتا۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، قواعد الأحکام فی معرفۃ الحلال و الحرام، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1413ھ۔
- غفاری، علیاکبر و محمدجواد صدر بلاغی، ترجمہ و شرح من لا یحضرہ الفقیہ، تہران، نشر صدوق، 1409ھ۔
- فاضل آبی،حسن بن ابیطالب، کشف الرموز فی شرح مختصر النافع، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ سوم، 1417ھ۔
- فاضل مقداد، مقداد بن عبداللہ سیوری، التنقیح الرائع لمختصر الشرائع، قم، انتشارات کتابخانہ آیۃ اللہ مرعشی نجفی، 1404ھ۔
- فاضل مقداد، مقداد بن عبداللہ، کنز العرفان فی فقہ القرآن، قم، انتشارات مرتضوی، 1425ھ۔
- کیدری، محمد بن حسین، إصباح الشیعۃ بمصباح الشریعۃ، قم، موسسہ امام صادق(ع)، 1416ھ۔
- گلپایگانی، سید محمدرضا، مجمع المسائل للگلبایگانی، قم، دارالقرآن الکریم، چاپ دوم، 1409ھ۔
- مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہلبیت، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہلبیت(ع)، قم، مؤسسہ دائرہ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہلبیت(ع)، 1426ھ۔
- مجلسی، محمدباقر، بحار الأنوار الجامعہ لدرر اخبار الائمہ الاطہار، بیروت، مؤسسہ الطبع و النشر، 1410ھ۔
- محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الإسلام فی مسائل الحلال و الحرام، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، 1408ھ۔
- مفید، محمد بن محمد بن نعمان، المقنعہ، قم، کنگرہ جہانی شیخ مفید، 1413ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، استفتاءات جدید، قم، انتشارات مدرسہ امام علی بن ابی طالب(ع)، 1427ھ۔
- «علت حرام گوشت بودن ماہیان بدون پولک چیست؟»، سایت مشرق، تاریخ انتشار:1395/11/10ہجری شمسی، تاریخ اخذ: 1398/10/25ہجری شمسی۔