قبرستان مَعلاۃ شہر مکہ کے قدیمی قبرستانوں میں سے ہے جو قبرستان حَجون (یا حُجون) اور ایرانیوں کے نزدیک قبرستان ابو طالب کے نام سے مشہور ہے۔ آخری صدیوں میں اسے مقبرہ بنی ہاشم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ عبد المطلب، ابو طالب، حضرت خدیجہ (س)، یاسر اور سمیہ (اسلام کے پہلے شہداء) اسی قبرستان میں مدفون ہیں۔ یوں مدینہ میں قبرستان بقیع کے بعد یہ قبرستان دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے حجاج خاص کر شیعوں کی توجہ کا مرکز قرار پاتا ہے اور یہ قبرستان مکہ مکرمہ میں شیعوں کی زیارت گاہوں میں شمار ہوتا ہے۔
یہ قبرستان جو مَعْلاۃ، مقبرۃ المَعْلاۃ، جَنّۃ المَعْلاۃ، مقبرہ قریش یا مقبرہ بنی ہاشم نے نام سے مشہور ہے، حَجون نامی ایک پہاڑی کے دامن میں واقع ہے اور آج کل مکہ کے شمال مشرق میں مسجدالحرام اور کوہ حجون کے دوراہے پر واقع ہے۔[1]
زمانہ جاہلیت اور ظہور اسلام کے اوائل میں اس قبرستان کا احاطہ کوہ حجون کے دائیں طرف سے درہ ابی دُب اور بائیں طرف سے درہ صُفی السبّاب تک پھیلا ہوا تھا جو بتدریج کوہ حجون، اذاخِر اور خُرْمان کے احاطے تک پہنچ گیا ہے۔[2] چونکہ کوہ حَجون مکہ سے باہر واقع تھا، بعض جغرافیہ دانوں مانند مقدسی اور ابن خرداذبہ نے اس کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا ہے یا مانند یاقوت حموی[3] صرف کلیات کے ذکر کرنے پر اکتفا کیا ہے اسی وجہ سے اور مقبرۃ العلیا کے ساتھ نزدیک ہونے کی وجہ سے اس کی صحیح حدود معین نہیں ہو سکتی ہے۔[4]
اس قبرستان میں مدفون شخصیات
کوہ حَجون کے بارے میں سب سے قدیمی معلومات جُرہمیان کے زمانے کے اشعار میں ملتا ہے[5] لیکن حجون پر قبرستان کا اطلاق شاید قُصَی بن کلاب، پیغمبر اکرم (ص) کے پانچویں جد امجد کے دفن ہونے کے بعد ہوا ہے۔ کیونکہ وہ پہلے شخص ہیں جو اس پہاڑ کے دامن میں دفن ہوئے۔[6] اس کے بعد سے مکہ کے مکینوں نے اس درہ کے دائیں بائیں اپنے اموات کو دفن کرنا شروع کیا ہے۔[7] اس طرح ظہور اسلام سے قریب یہ جگہ ایک معتبر قبرستان میں بدل گئی مخصوصا یہ کہ پیغمبر اسلام (ص) کے اجداد، عبد مناف، ہاشم اور عبد المطلب یہاں مدفون تھے اور ایک روایت کے مطابق پیغمبر اکرم (ص) کی مادر گرامی حضرت آمنہ بھی اسی قبرستان میں مدفون ہیں۔[8] پیغمبر اکرم (ص) کے چچا ابو طالب ایک شعر میں اس قبرستان اور اس میں مدفون شخصیات پر فخر کرتے ہیں۔[9]
اس قبرستان میں بزرگ صحابہ کرام، تابعین اور اولیاء خدا کے دفن ہونے کی وجہ سے اس مقام کو حاصل ہونے والی معنوی اہمیت اور قداست اور معصومین کی جانب سے اس مقام پر دعا اور زیارت پڑھنے کی تاکید کے باوجود اس مقام اور اس میں مدفون شخصیات کی کما حقہ معرفی نہیں ہوئی ہے۔[10] حالانکہ ساتویں صدی ہجری میں فیروز آبادی نے اپنے ایک رسالہ إثارۃ الحجون لزیارۃ الحجون میں یہاں مدفون 38 مرد صحابی اور 7 خاتون صحابیات کا نام لیا ہے۔[11]
نویں صدی ہجری کے معروف مصنف ابن فہد نے بھی اپنی کتاب میں مکہ کے بعض معروف قاضیوں، محدثین، قاریوں، بزرگوں، امیروں، اور وڈیروں کا تذکرہ کیا ہے جن میں سے اکثر اسی قبرستان میں مدفون تھے۔[13]
گیارہویں صدی ہجری میں اولیا چلبی[14] نے حجون میں 75 قبور کا تذکرہ کیا ہے جن کے اوپر گنبد بنائی ہوئی تھی منجملہ ان قبور میں عبد المطلب، ابو طالب، میمونہ (رسول خدا کی زوجہ) اور شیخ علاء الدین نقشبندی کا مزار شامل ہے۔
مزار حضرت خدیجہ
تیرہویں صدی میں فراہانی[15] جبکہ چودہویں صدی میں رفعت باشا[16] کے مطابق اس زمانے میں بھی قبرستان حجون مسلمانوں کیلئے اور خاص کر ابو طالب کا مقبرہ شیعوں کی توجہ کا مرکز تھا۔
آرامگاہ حضرت خدیجہ (س)
مذکورہ مقبروں کے علاوہ اس قبرستان میں موجود سب سے اہم مقبرہ حضرت خدیجہ (س) کی قبر ہے جو آٹھویں صدی ہجری میں بنائی گئی تھی۔[17] اس مبقرہ کو جسے سلسلہ عثمانی کے بادشاہ سلطان سلیمان قانونی نے مرمت اور اس پر گنبد تعمیر کروائی تقریبا سنہ 950 ہجری تک خراب نہیں ہوئی تھی۔ نئی بلڈنگ بنانے تک حضرت خدیجہ (س) کے مزار کے اوپر لکڑی کا ایک صندوق بنا ہوا تھا۔ یہ آرامگاہ اس پر موجود کتیبوں کے مطابق سنہ ۱۲۹۸ میں مرمت ہوئی ہے۔[18] تیرہویں صدی ہجری میں فراہانی[19] نے اس مقبرے کے لکڑی کے ضریح پر لگے ہوئے مخملی کپڑے اور اس آرامگاہ کے متولی اور خادم اور یہاں پڑھی جانے والی زیارت نامے تک کی خبر دی ہے۔
اہمیت
ظہور اسلام کے بعد ابو طالب اور حضرت خدیجہ (س) کے دفن ہونے کے بعد مسلمانوں کے ہاں اس قبرستان کی اہمیت دوچنداں ہو گئی۔[20] باوجود یہ کہ متقدم منابع[21] میں حضرت خدیجہ (س) کی یہاں دفن ہونے کے بارے میں تصریح موجود ہے، فاسی (نویں صدی کے مورخ)[22] نے اس بارے میں شک و تردیک کا اظہار کیا ہے۔ ایک روایت کی مطابق حضرت خدیجہ کا یہاں دفن ہونا آٹھویں صدی ہجری میں ایک خواب کے ذریعے تعیین ہوا ہے۔[23]
حجوی کی فضیلت میں پیغمبر اکرم (ص) کی طرف سے ایک حدیث کو نقل کیا گیا ہے اسی وجہ سے یہاں پر اموات کو دفن کرنے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے خاص کر اس کے بائیں سمت میں۔[24]
حجون اور اس میں مدفون شخصیات کی مدح سرائی اور ان کی شان میں کہے جانے والے اشعار بھی دیگر قبرستانوں کے مقابلے میں اس قبرستان کی اہمیت کا سبب بنا ہے۔[25]
اسلام کے ابتدائی دور میں رونما ہونے والے بعض واقعات کی وجہ سے حجون زیادہ سے زیادہ مورد توجہ قرار پایا۔ ان واقعات میں سے ایک قرآن کے مطابق اس مقام پر جنّات کے ایگ گروہ کا پیغمبر اکرم (ص) سے مقلاقات اور ان کا اسلام قبول کرنا ہے۔[26] اسی بنا پر بعد میں حجون کے نزدیک مسجد جن نامی ایک مسجد بنائی گیئ جو آج تک باقی ہے۔[27]
فتح مکہ کے وقعت پیغمبر اکرم (ص) کا حجون کے مقام پر قیام کرنے کی وجہ سے بھی اس قبرستان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔[28]
پہلی صدی ہجری میں حجون کبھی کبھار سیاسی مقاصد کیلئے بھی استعمال ہوا کرتا تھا منجملہ ان میں سے ایک حکمیت کے مسئلے میں شکست کے بعد ابو موسی اشعری کا وہاں سکونت اختیار کرنا بھی ہے۔[29]تھمب نیل بنانے کے دوران میں نقص: قبرستان ابوطالب کا قدیمی منظر
ابن جبیر نے چھٹے صدی میں حجون میں موجود عمارتوں کے آثار کو دیکھا تھا جسے ابن زبیر اور اس کو سولی پر چڑھائے جانے کی یاد میں بنائی گئی تھی۔ اس کے مطابق اہل طائف نے اس عمارت کو ویران کیا کیونکہ وہاں پر ان کے ہمشہری اور ہم قبیلہ حجاج بن یوسف ثقفی پر لعنت بھیجی جاتی تھی۔[30]
وہابیوں کے ہاتھوں انہدام
قبرستان حجون میں واقع گنبد اور عمارتوں کو سنہ ۱۳۰۵ شمسی میں بقیع کے انہدام کے بعد، وہابیوں کے ہاتھوں منہدم ہوا جس پر دنیا بھر کے مسلمانوں نے صدائے احتجاج بلند کی۔[31] اس کے مقابلے میں وہابیوں نے اپنے اس کام کو شرعی طور پر توجیہ کرنے کی کوشش کی اور اس قبرستان کو پیغمبر اکرم (ص) کی اہل بیت (ع) سے منسوب ہونے کو ہی انکار کیا۔[32] لیکن ان کا یہ کام مسلمانوں کی دل آذاری کو کم نہ کر سکے۔[33]
موجودہ کنڈیشن
یہ قبرستان اس وقت پر کوہ حجون کے دامن میں دیوار کے اندر موجود ہے لیکن اس کا شمالی حصہ پہاڑ کے دامن میں واقع ہونے کی وجہ سے اس کے گرد کوئی دیوار نہیں ہے۔ قبرستان کے اندر بھی لوہے کی باڑ کے ذریعے اس کا شمالی حصہ (جس میں قبور بنی ہاشم اور پیغمبر اکرم (ص) کے اجداد کی قبر ہے) کو جنوبی حصے سے جدا کیا گیا ہے۔[34]
قبرستان کے دروازے پر کسی قبر پر نصب کئے گئے پتھر سے پتہ چاتا ہے کہ یہ قبرستان سنہ 1383 ہجری میں دوبارہ تعمیر ہوا ہے۔ اس وقت کوہ حجون کو کھود کر پہاڑ کی جانب اس قبرستان کو توسیع دی جا رہی ہے۔[35]