مندرجات کا رخ کریں

"شہادت فاطمہ زہرا" کے نسخوں کے درمیان فرق

حجم میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ،  13 اکتوبر 2022ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 3: سطر 3:
{{خانہ معلومات واقعہ
{{خانہ معلومات واقعہ
  |عنوان            = شادت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا
  |عنوان            = شادت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا
  |تصویر            = ایتہا الصدیقة الشہیدہ۔jpg
  |تصویر            = ایتہا الصدیقۃ الشہیدہ۔jpg
  |اندازہ تصویر    = 250px
  |اندازہ تصویر    = 250px
  |توضیح تصویر      = <small> [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا]] کے [[زیارت‌ نامہ]] کا خوشخط طغرا جس میں آپ کو [[شہید|شہیدہ]] کہہ کر خطاب کیا گیا ہے۔</small>
  |توضیح تصویر      = <small> [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا]] کے [[زیارت‌ نامہ]] کا خوشخط طغرا جس میں آپ کو [[شہید|شہیدہ]] کہہ کر خطاب کیا گیا ہے۔</small>
سطر 38: سطر 38:
== شہادت فاطمہ کی اہمیت==
== شہادت فاطمہ کی اہمیت==
== تاریخچہ==
== تاریخچہ==
[[حضرت فاطمہ(س)]] کی شہادت سے مراد یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ کی بیٹی کی رحلت فطری نہیں تھی بلکہ بعض [[صحابی|صحابہ پیغمبر]] کی طرف سے دی گئی اذیتیں، رنج و الم اور صعوبتیں آپ کی [[شہادت]] کا سبب بنیں۔ بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت یا فطری رحلت [[شیعہ]] و [[سنی]] اختلاف کا موضوع ہے۔<ref>مہدی، الہجوم، ۱۴۲۵ق، ص۱۴۔</ref> پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی رحلت کے بعد کے واقعات کے کچھ جزئیات کے علاوہ تقریبا تمام شیعہ اس بات پر متفق ہیں کہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی [[شہادت]] ہوئی ہے اور اس کا سبب جناب محسن علیہ السلام کے [[سقط جنین|ساقط ہونے]] کو قرار دیتے ہیں۔ اس کے برخلاف [[اہل‌ سنت]] کا خیال ہے کہ آپ کی رحلت فطری طور پر اپنے پدر بزرگوار کی رحلت کے صدمہ کی وجہ سے ہوئی ہے۔<ref>دیکھئے: المدیہش، فاطمة بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۳، ص۴۳۱-۵۵۰۔</ref>
[[حضرت فاطمہ(س)]] کی شہادت سے مراد یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ کی بیٹی کی رحلت فطری نہیں تھی بلکہ بعض [[صحابی|صحابہ پیغمبر]] کی طرف سے دی گئی اذیتیں، رنج و الم اور صعوبتیں آپ کی [[شہادت]] کا سبب بنیں۔ بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت یا فطری رحلت [[شیعہ]] و [[سنی]] اختلاف کا موضوع ہے۔<ref>مہدی، الہجوم، ۱۴۲۵ق، ص۱۴۔</ref> پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی رحلت کے بعد کے واقعات کے کچھ جزئیات کے علاوہ تقریبا تمام شیعہ اس بات پر متفق ہیں کہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی [[شہادت]] ہوئی ہے اور اس کا سبب جناب محسن علیہ السلام کے [[سقط جنین|ساقط ہونے]] کو قرار دیتے ہیں۔ اس کے برخلاف [[اہل‌ سنت]] کا خیال ہے کہ آپ کی رحلت فطری طور پر اپنے پدر بزرگوار کی رحلت کے صدمہ کی وجہ سے ہوئی ہے۔<ref>دیکھئے: المدیہش، فاطمۃ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۳، ص۴۳۱-۵۵۰۔</ref>


شیعہ ہر سال [[ایام فاطمیہ]] میں جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے لئے [[عزاداری]] کرتے ہیں۔<ref>مظاہری، فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص۳۶۵۔</ref> اسی مناسبت سے مشہور نقل کی بنیاد پر [[۳ جمادی‌الثانی]] کو روز شہادت فاطمہ کے عنوان سے <ref> شبیری، «شہادت فاطمہ(س)»، ج۱، ص۳۴۷۔</ref>  [[ایران]] میں سرکاری چھٹی رہتی ہے۔<ref>[https://aftabnews۔ir/fa/news/126651/ «ماجرای تعطیل شدن روز شہادت حضرت زہرا»]، سائٹ آفتاب‌ نیوز۔</ref> اور [[انجمن عزاداری|انجمن ہائے عزاداری]] سڑکوں پر نکلتی ہیں۔<ref>نمونے کے طور پر دیکھئے: [https://www۔farsnews۔ir/photo/13971030001209/ «حرکت دستہ عزاداری فاطمیہ مقدسہ زنجان»]، سائٹ  فارس خبر رساں ایجنسی؛ [https://fa۔shafaqna۔com/news/1082634/ «مراسم بزرگ عزاداری فاطمیہ با حضور۔۔۔»]، سائٹ شفقنا خبر رساں ایجنسی۔</ref> شیعہ حضرات کیونکہ [[عمر بن خطاب]] کو بی بی فاطمہ کی شہادت کا سبب مانتے ہیں لہذا عزاداری کی بہت سی مجلسوں میں اس کی مذمت کی جاتی ہے<ref> مظاہری، فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص۳۶۶۔</ref> اور کچھ لوگ اس پر [[لعنت]] بھیجتے ہیں۔ یہی بات شیعہ سنی اختلاف کو میدان فراہم کرتا ہے۔<ref>[https://www۔mehrnews۔com/news/4765248/ «نظر مراجع تقلید دربارہ توہین بہ مقدسات اہل‌سنت»]، سائٹ مہر خبر رساں ایجنسی</ref> شہادت فاطمہ زہرا اس بات کا سبب بھی بنا ہے کہ بعض شیعہ حضرات [[نہم ربیع الاول|9 ربیع‌ الاول]] کو کچھ روایات کی بنیاد پر عمر ابن خطاب کے مارے جانے کا دن سمجھیں اور اسے عید زہرا قرار دیں اور اس دن خوشی منائیں۔<ref>مسائلی، نہم ربیع، جہالت‌ ہا، خسارت‌ ہا، ۱۳۸۷ش، ص۱۱۷-۱۱۹۔</ref>
شیعہ ہر سال [[ایام فاطمیہ]] میں جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے لئے [[عزاداری]] کرتے ہیں۔<ref>مظاہری، فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص۳۶۵۔</ref> اسی مناسبت سے مشہور نقل کی بنیاد پر [[۳ جمادی‌الثانی]] کو روز شہادت فاطمہ کے عنوان سے <ref> شبیری، «شہادت فاطمہ(س)»، ج۱، ص۳۴۷۔</ref>  [[ایران]] میں سرکاری چھٹی رہتی ہے۔<ref>[https://aftabnews۔ir/fa/news/126651/ «ماجرای تعطیل شدن روز شہادت حضرت زہرا»]، سائٹ آفتاب‌ نیوز۔</ref> اور [[انجمن عزاداری|انجمن ہائے عزاداری]] سڑکوں پر نکلتی ہیں۔<ref>نمونے کے طور پر دیکھئے: [https://www۔farsnews۔ir/photo/13971030001209/ «حرکت دستہ عزاداری فاطمیہ مقدسہ زنجان»]، سائٹ  فارس خبر رساں ایجنسی؛ [https://fa۔shafaqna۔com/news/1082634/ «مراسم بزرگ عزاداری فاطمیہ با حضور۔۔۔»]، سائٹ شفقنا خبر رساں ایجنسی۔</ref> شیعہ حضرات کیونکہ [[عمر بن خطاب]] کو بی بی فاطمہ کی شہادت کا سبب مانتے ہیں لہذا عزاداری کی بہت سی مجلسوں میں اس کی مذمت کی جاتی ہے<ref> مظاہری، فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص۳۶۶۔</ref> اور کچھ لوگ اس پر [[لعنت]] بھیجتے ہیں۔ یہی بات شیعہ سنی اختلاف کو میدان فراہم کرتا ہے۔<ref>[https://www۔mehrnews۔com/news/4765248/ «نظر مراجع تقلید دربارہ توہین بہ مقدسات اہل‌سنت»]، سائٹ مہر خبر رساں ایجنسی</ref> شہادت فاطمہ زہرا اس بات کا سبب بھی بنا ہے کہ بعض شیعہ حضرات [[نہم ربیع الاول|9 ربیع‌ الاول]] کو کچھ روایات کی بنیاد پر عمر ابن خطاب کے مارے جانے کا دن سمجھیں اور اسے عید زہرا قرار دیں اور اس دن خوشی منائیں۔<ref>مسائلی، نہم ربیع، جہالت‌ ہا، خسارت‌ ہا، ۱۳۸۷ش، ص۱۱۷-۱۱۹۔</ref>
سطر 87: سطر 87:
شیعوں نے جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کا باعث بننے والے کچھ واقعات کو ثابت کرنے کے لئے اہل سنت کی حدیثی، تاریخی یہاں تک کہ کچھ فقہی کتابوں سے استدلال کیا ہے؛ مثلا کتاب [[الہجوم علی بیت فاطمہ (کتاب)|الہجوم علی بیت فاطمہ]] میں 84 راویوں اور مصنفین کی فہرست پیش کرکے اہل سنت کی کتابوں میں موجود، [[حضرت فاطمہؑ کے گھر پر حملہ|بی بی فاطمہ کے گھر پر حملہ]] کی روایتوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔<ref>مہدی، الہجوم، ۱۴۲۵ھ، ص۱۵۴-۲۱۷۔</ref> اس سلسلہ میں لکھی گئی سب سے پہلی کتاب، المغازی ہے جس کے مصنف موسی بن عقبہ (وفات: سنہ ۱۴۱ھ) ہیں۔<ref>مہدی، الہجوم، ۱۴۲۵ھ، ص۱۵۴-۱۵۵۔</ref>
شیعوں نے جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کا باعث بننے والے کچھ واقعات کو ثابت کرنے کے لئے اہل سنت کی حدیثی، تاریخی یہاں تک کہ کچھ فقہی کتابوں سے استدلال کیا ہے؛ مثلا کتاب [[الہجوم علی بیت فاطمہ (کتاب)|الہجوم علی بیت فاطمہ]] میں 84 راویوں اور مصنفین کی فہرست پیش کرکے اہل سنت کی کتابوں میں موجود، [[حضرت فاطمہؑ کے گھر پر حملہ|بی بی فاطمہ کے گھر پر حملہ]] کی روایتوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔<ref>مہدی، الہجوم، ۱۴۲۵ھ، ص۱۵۴-۲۱۷۔</ref> اس سلسلہ میں لکھی گئی سب سے پہلی کتاب، المغازی ہے جس کے مصنف موسی بن عقبہ (وفات: سنہ ۱۴۱ھ) ہیں۔<ref>مہدی، الہجوم، ۱۴۲۵ھ، ص۱۵۴-۱۵۵۔</ref>


[[حسین غیب‌ غلامی]] (پیدائش: ۱۳۳۸ش) نے بھی اپنی کتاب «إحراقُ بیت فاطمة فی الکتب المعتبرة عند أہل السنة» میں 20 سے زیادہ روایتیں اہل سنت کی کتابوں اور راویوں سے نقل کی ہیں۔<ref>غیب‌ غلامی، احراق بیت فاطمہ، ۱۳۷۵ش۔</ref> ان کی پہلی روایت، المُصَنَف ابن‌ ابی‌ شیبہ (وفات: ۲۳۵ھ) سے<ref> غیب‌ غلامی، احراق بیت فاطمہ، ۱۳۷۵ش، ص۷۹۔</ref> اور اس کتاب میں آخری روایت، متقی ہندی(وفات: ۹۷۷ھ) کی کتاب کَنزُ العُمال سے نقل کی گئی ہے۔<ref>غیب‌ غلامی، احراق بیت فاطمہ، ۱۳۷۵ش، ص۱۹۲۔</ref> اسی طرح «شہادت مادرم زہرا افسانہ نیست» کے عنوان سے لکھی گئی ایک کتاب میں خانہ زہرا س پر حملے کی روایت کو اہل سنت کی 18 کتب سے نقل کیا گیا ہے۔<ref>جمعی از نویسندگان، شہادت مادرم زہرا افسانہ نیست، ۱۳۸۸ش، ص۲۵-۳۲۔</ref> ان کتب میں [[روز بیعت|بیعت کے دن]] حضرت علی علیہ السلام سے بیعت لینے کی کوشش کے واقعے اور آپ کے گھر کو جلا ڈالنے کی دھمکی کو مختلف تعبیروں میں مختلف راویوں سے نقل کیا گیا ہے۔<ref>جمعی از نویسندگان، شہادت مادرم زہرا افسانہ نیست، ۱۳۸۸ش، ص۲۵-۳۲۔</ref>
[[حسین غیب‌ غلامی]] (پیدائش: ۱۳۳۸ش) نے بھی اپنی کتاب «إحراقُ بیت فاطمۃ فی الکتب المعتبرۃ عند أہل السنۃ» میں 20 سے زیادہ روایتیں اہل سنت کی کتابوں اور راویوں سے نقل کی ہیں۔<ref>غیب‌ غلامی، احراق بیت فاطمہ، ۱۳۷۵ش۔</ref> ان کی پہلی روایت، المُصَنَف ابن‌ ابی‌ شیبہ (وفات: ۲۳۵ھ) سے<ref> غیب‌ غلامی، احراق بیت فاطمہ، ۱۳۷۵ش، ص۷۹۔</ref> اور اس کتاب میں آخری روایت، متقی ہندی(وفات: ۹۷۷ھ) کی کتاب کَنزُ العُمال سے نقل کی گئی ہے۔<ref>غیب‌ غلامی، احراق بیت فاطمہ، ۱۳۷۵ش، ص۱۹۲۔</ref> اسی طرح «شہادت مادرم زہرا افسانہ نیست» کے عنوان سے لکھی گئی ایک کتاب میں خانہ زہرا س پر حملے کی روایت کو اہل سنت کی 18 کتب سے نقل کیا گیا ہے۔<ref>جمعی از نویسندگان، شہادت مادرم زہرا افسانہ نیست، ۱۳۸۸ش، ص۲۵-۳۲۔</ref> ان کتب میں [[روز بیعت|بیعت کے دن]] حضرت علی علیہ السلام سے بیعت لینے کی کوشش کے واقعے اور آپ کے گھر کو جلا ڈالنے کی دھمکی کو مختلف تعبیروں میں مختلف راویوں سے نقل کیا گیا ہے۔<ref>جمعی از نویسندگان، شہادت مادرم زہرا افسانہ نیست، ۱۳۸۸ش، ص۲۵-۳۲۔</ref>


== واقعہ کے بارے میں کچھ سوالات==
== واقعہ کے بارے میں کچھ سوالات==
کچھ مصنفین و محققین نے کچھ تاریخی سوالات اور اعتراضات کرکے حضرت علی اور حضرت فاطمہ علیہما السلام کے گھر میں آگ لگانے والی روایات میں خدشہ پیدا کیا ہے؛ مثلا یہ کہ اس زمانے میں مدینہ کے گھروں میں دروازے ہی نہیں ہوتے تھے، یا یہ کہ حضرت علی علیہ السّلام کی جانب سے فاطمہ س کے دفاع کے سلسلہ میں سوالات اٹھائے ہیں یا پھر جناب محسن کے شکم مادر میں ساقط ہونے کو م میں تردد کیا ہے۔ ان سوالات و اعتراضات کے مقابلہ میں تاریخ نویسوں اور محققین نے منجملہ [[سید جعفر مرتضی عاملی]] (وفات: ۱۴۴۱ھ) نے جوابات بھی دئے ہیں<ref>جنوبی کے طور پر دیکھئے: عاملی، مأساۃ الزہراء، ۱۴۱۸ھ، ج۱، ص۲۶۶-۲۷۷، ج۲، ص۲۲۹-۳۲۱۔</ref>
کچھ مصنفین و محققین نے کچھ تاریخی سوالات اور اعتراضات کرکے حضرت علی اور حضرت فاطمہ علیہما السلام کے گھر میں آگ لگانے والی روایات میں خدشہ پیدا کیا ہے؛ مثلا یہ کہ اس زمانے میں مدینہ کے گھروں میں دروازے ہی نہیں ہوتے تھے، یا یہ کہ حضرت علی علیہ السّلام کی جانب سے فاطمہ س کے دفاع کے سلسلہ میں سوالات اٹھائے ہیں یا پھر جناب محسن کے شکم مادر میں ساقط ہونے کو م میں تردد کیا ہے۔ ان سوالات و اعتراضات کے مقابلہ میں تاریخ نویسوں اور محققین نے منجملہ [[سید جعفر مرتضی عاملی]] (وفات: ۱۴۴۱ھ) نے جوابات بھی دئے ہیں<ref>جنوبی کے طور پر دیکھئے: عاملی، مأساۃ الزہراء، ۱۴۱۸ھ، ج۱، ص۲۶۶-۲۷۷، ج۲، ص۲۲۹-۳۲۱۔</ref>
=== کیا مدینہ کے گھروں میں دروازے نہیں ہوتے تھے؟===
=== کیا مدینہ کے گھروں میں دروازے نہیں ہوتے تھے؟===
کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ اس زمانے میں مدینہ کے گھروں میں دروازے ہی نہیں ہوتے تھے<ref>طبسی، حیاۃ الصدیقۃ فاطمة، ۱۳۸۱ش، ص۱۹۷۔ کتاب کے مصنف نے اس اعتراض کو ان کی طرف نسبت دی ہے جو تاریخ سے نابلد ہیں</ref> اور خود بخود یہ نتیجہ نکال لیا ہے کہ اس وجہ سے فاطمہ کے گھر کے دروازے کا جلایا جانا صحیح نہیں ہو سکتا۔ اس کے مقابلے میں [[سید جعفر مرتضی عاملی|جعفر مرتضی]] نے کتاب [[مأساۃ الزہراء (کتاب)|مأساۃ الزہراء]] میں ایسی کتب کا تذکرہ کیا ہے جن کی رو سے گھروں میں دروازوں کا ہونا اس زمانے میں ایک رائج بات تھی اور بی بی فاطمہ کے گھر میں بھی دروازہ کا ہوا تھا۔<ref>عاملی، مأساۃ الزہراء، ۱۴۱۸ھ، ج۲، ص۲۲۹-۳۲۱۔</ref>
کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ اس زمانے میں مدینہ کے گھروں میں دروازے ہی نہیں ہوتے تھے<ref>طبسی، حیاۃ الصدیقۃ فاطمۃ، ۱۳۸۱ش، ص۱۹۷۔ کتاب کے مصنف نے اس اعتراض کو ان کی طرف نسبت دی ہے جو تاریخ سے نابلد ہیں</ref> اور خود بخود یہ نتیجہ نکال لیا ہے کہ اس وجہ سے فاطمہ کے گھر کے دروازے کا جلایا جانا صحیح نہیں ہو سکتا۔ اس کے مقابلے میں [[سید جعفر مرتضی عاملی|جعفر مرتضی]] نے کتاب [[مأساۃ الزہراء (کتاب)|مأساۃ الزہراء]] میں ایسی کتب کا تذکرہ کیا ہے جن کی رو سے گھروں میں دروازوں کا ہونا اس زمانے میں ایک رائج بات تھی اور بی بی فاطمہ کے گھر میں بھی دروازہ کا ہوا تھا۔<ref>عاملی، مأساۃ الزہراء، ۱۴۱۸ھ، ج۲، ص۲۲۹-۳۲۱۔</ref>


=== حضرت علی اور دوسروں نے دفاع کیوں نہیں کیا؟===
=== حضرت علی اور دوسروں نے دفاع کیوں نہیں کیا؟===
سطر 102: سطر 102:


=== تاریخی مصادر میں آگ لگانے کے واقعہ کا تذکرہ نہ ہونا===
=== تاریخی مصادر میں آگ لگانے کے واقعہ کا تذکرہ نہ ہونا===
شہادت زہرا کے واقعہ کے سلسلہ میں ایک سوال اور ابہام یہ ہے کہ [[اہل‌سنت]] کی تاریخی اور حدیثی کتابوں میں جو نقل ہوا ہے وہ صرف گھر جلانے کی دھمکی ہے اور اس کی تصریح نہیں ہوئی ہے کہ یہ عمل انجام بھی پایا یا نہیں۔<ref> مہدی، الہجوم، ۱۴۲۵ق، ص۴۶۷؛ فضل‌اللہ، الزہراء القدوة، ۱۴۲۱ق، ص۱۰۹-۱۱۰۔</ref> اس کے باوجود متعدد مجموعوں کے محققین نے اصل حملے کے مآخذ کو اکٹھا کیا ہے؛ منجملہ کتاب الہجوم علی بیت فاطمہ<ref>مہدی، الہجوم، ۱۴۲۵ھ، ص۱۵۴-۲۱۷۔</ref> اور کتاب احراق بیت فاطمۃ۔<ref>غیب‌ غلامی، احراق بیت فاطمۃ، ۱۳۷۵ش۔</ref> ان مصادر میں صراحت کے ساتھ بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا کو چوٹ مارنے، آپ کے گھر میں گھسنے اور جناب محسن کے ساقط ہونے کا تذکرہ ہے۔<ref>سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس، ۱۴۲۰ھ، ج۱، ص۱۵۰؛ مسعودی، اثبات الوصیۃ، ۱۳۸۴ش، ص۱۴۶؛ طبری، دلائل الإمامۃ، ۱۴۱۳ھ، ص۱۳۴؛ عیاشی، تفسیر العیاشی، ۱۳۸۰ھ، ج۲، ص۶۷۔</ref>
شہادت زہرا کے واقعہ کے سلسلہ میں ایک سوال اور ابہام یہ ہے کہ [[اہل‌سنت]] کی تاریخی اور حدیثی کتابوں میں جو نقل ہوا ہے وہ صرف گھر جلانے کی دھمکی ہے اور اس کی تصریح نہیں ہوئی ہے کہ یہ عمل انجام بھی پایا یا نہیں۔<ref> مہدی، الہجوم، ۱۴۲۵ق، ص۴۶۷؛ فضل‌اللہ، الزہراء القدوۃ، ۱۴۲۱ق، ص۱۰۹-۱۱۰۔</ref> اس کے باوجود متعدد مجموعوں کے محققین نے اصل حملے کے مآخذ کو اکٹھا کیا ہے؛ منجملہ کتاب الہجوم علی بیت فاطمہ<ref>مہدی، الہجوم، ۱۴۲۵ھ، ص۱۵۴-۲۱۷۔</ref> اور کتاب احراق بیت فاطمۃ۔<ref>غیب‌ غلامی، احراق بیت فاطمۃ، ۱۳۷۵ش۔</ref> ان مصادر میں صراحت کے ساتھ بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا کو چوٹ مارنے، آپ کے گھر میں گھسنے اور جناب محسن کے ساقط ہونے کا تذکرہ ہے۔<ref>سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس، ۱۴۲۰ھ، ج۱، ص۱۵۰؛ مسعودی، اثبات الوصیۃ، ۱۳۸۴ش، ص۱۴۶؛ طبری، دلائل الإمامۃ، ۱۴۱۳ھ، ص۱۳۴؛ عیاشی، تفسیر العیاشی، ۱۳۸۰ھ، ج۲، ص۶۷۔</ref>


اہل سنت کے مصنفین کے ایک گروہ نے
اہل سنت کے مصنفین کے ایک گروہ نے
ان تاریخی بیانات کی [[سند]] کے درست ہونے میں شک کیا ہے۔<ref> نمونے کے طور پر دیکھئے: المدیہش، فاطمۃ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۵، ص۲۱-۳۵۔</ref> لیکن کچھ مقامات پر ان کا اعتراض سندی نہیں ہے؛ مثلا کتاب ''فاطمة بنت النبی'' کے وہابی مصنف نے [[حضرت فاطمہؑ کے گھر پر حملہ|حملہ کے واقعہ]]
ان تاریخی بیانات کی [[سند]] کے درست ہونے میں شک کیا ہے۔<ref> نمونے کے طور پر دیکھئے: المدیہش، فاطمۃ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۵، ص۲۱-۳۵۔</ref> لیکن کچھ مقامات پر ان کا اعتراض سندی نہیں ہے؛ مثلا کتاب ''فاطمۃ بنت النبی'' کے وہابی مصنف نے [[حضرت فاطمہؑ کے گھر پر حملہ|حملہ کے واقعہ]]
اور شہادت محسن کے سلسلہ میں [[تاریخ یعقوبی]] نقل کو صرف یہ کہہ کر مسترد کردیا ہے کہ اس کا مصنف [[رافضی]] ہے اور اس کی کوئی علمی حیثیت نہیں ہے۔<ref>المدیہش، فاطمۃ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۵، ص۸۰۔</ref> اسی طرح  ''العقد الفرید'' میں ابن عبد ربہ کے نقل کو کسی اشکال کا ذکر کئے بغیر، نقل مُنکَر کہہ کر آگے بڑھ گیا ہے اور کہا ہے کہ ممکن ہے وہ بھی شیعہ ہی ہوں اور اس بات کی تحقیق کی جانا چاہئے۔<ref> المدیہش، فاطمۃ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۵، ص۶۳۔</ref> اس نے  کتاب [[الامامۃ و السیاسۃ (کتاب)|الامامۃ و السیاسۃ]] کے نقل کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا ہے کہ اس کا مصنف ابن‌ قتیبہ دینوری نہیں ہے۔<ref>المدیہش، فاطمۃ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۵، ص۷۹-۸۰۔</ref> مدیہش حتی حضور علیہ السلام کے کلمات کا انکار کرنے کے لئے [[نہج البلاغہ]] کو آپ کتاب ہونے کا انکار کرتا ہے۔<ref> المدیہش، فاطمۃ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۵، ص۸۱۔</ref> اس سب کے باوجود، دھمکی کے سلسلہ میں کثرت روایات کے سبب اہل سنت کے مصنفین نے جلانے کی دھمکی دینے اور حضرت علیہ السّلام کے گھر کے سامنے اکٹھا ہونے کا انکار نہیں کیا ہے۔<ref>نمونہ کے طور پر دیکھئے: المدیہش، فاطمةۃ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۵، ص۲۱-۳۵۔</ref>
اور شہادت محسن کے سلسلہ میں [[تاریخ یعقوبی]] نقل کو صرف یہ کہہ کر مسترد کردیا ہے کہ اس کا مصنف [[رافضی]] ہے اور اس کی کوئی علمی حیثیت نہیں ہے۔<ref>المدیہش، فاطمۃ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۵، ص۸۰۔</ref> اسی طرح  ''العقد الفرید'' میں ابن عبد ربہ کے نقل کو کسی اشکال کا ذکر کئے بغیر، نقل مُنکَر کہہ کر آگے بڑھ گیا ہے اور کہا ہے کہ ممکن ہے وہ بھی شیعہ ہی ہوں اور اس بات کی تحقیق کی جانا چاہئے۔<ref> المدیہش، فاطمۃ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۵، ص۶۳۔</ref> اس نے  کتاب [[الامامۃ و السیاسۃ (کتاب)|الامامۃ و السیاسۃ]] کے نقل کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا ہے کہ اس کا مصنف ابن‌ قتیبہ دینوری نہیں ہے۔<ref>المدیہش، فاطمۃ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۵، ص۷۹-۸۰۔</ref> مدیہش حتی حضور علیہ السلام کے کلمات کا انکار کرنے کے لئے [[نہج البلاغہ]] کو آپ کتاب ہونے کا انکار کرتا ہے۔<ref> المدیہش، فاطمۃ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۵، ص۸۱۔</ref> اس سب کے باوجود، دھمکی کے سلسلہ میں کثرت روایات کے سبب اہل سنت کے مصنفین نے جلانے کی دھمکی دینے اور حضرت علیہ السّلام کے گھر کے سامنے اکٹھا ہونے کا انکار نہیں کیا ہے۔<ref>نمونہ کے طور پر دیکھئے: المدیہش، فاطمۃۃ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۵، ص۲۱-۳۵۔</ref>


=== قدیمی منابع میں وفات کی تعبیر===
=== قدیمی منابع میں وفات کی تعبیر===
سطر 113: سطر 113:


=== خلفاء سے حضرت علی کے اچھے تعلقات ===
=== خلفاء سے حضرت علی کے اچھے تعلقات ===
شہادت فاطمہ کا انکار کرنے کے لئے [[اہل‌ سنت]] کے دلائل میں سے ایک یہ ہے کہ [[خلفائے ثلاثہ]] اور حضرت علی اور آپ کے خانوادے کے درمیان بڑے اچھے تعلقات تھے۔ «فاطمة بنت النبی» نامی منتقل کتاب کے مصنف نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ پہلے اور دوسرے خلیفہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے بڑے محبت رکھتے تھے،<ref>دیکھئے: المدیہش، فاطمہ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۴، ص۳۵۷، تا آخر، و ج۵ از ابتدا تا ص۸۹۔</ref> اس کے باوجود مصنف نے آخر میں نتیجہ یہی نکالا ہے کہ بی بی فاطمہ نے [[واقعہ فدک]] کے بعد [[ابوبکر]] قطع تعلق کر لیا تھا اور ان کی [[بیعت]] بھی نہیں کی۔<ref>دیکھئے: المدیہش، فاطمہ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۴، ص۵۲۱-۵۲۳۔</ref> ایک سنت کے ایک مصنف محمد نافع نے «رحماء بینہم» کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں مصنف نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ [[خلفائے ثلاثہ]] کے حضرت علی علیہ السلام سے اچھے تعلقات تھے۔<ref>[https://www۔neelwafurat۔com/itempage۔aspx?id=lbb185806-154633&search=books «رحماء بینہم»]،  نیل و فرات سائٹ۔</ref> اسی طرح ندائے اسلام نامی سہ ماہی رسالہ کے مقالہ میں مصنف نے خلفاء اور حضرت علیہ السّلام کے حسن تعلق اور خلفاء کی عورتوں اور بیٹیوں کے فاطمہ زہرا سے اچھے تعلقات کی مثالیں دیکر مصنف نے کوشش کی ہے کہ یہ ظاہر کرتے کہ یہ تعلقات بی بی فاطمہ کی ترویج اور ان پر حملہ کرنے سے میل نہیں کھاتے ہیں۔<ref> مرجانی، [http://sunnionline۔us/farsi/2016/07/6823 «ارتباط و محبت خلفای ثلاثہ با علی و فاطمہ رضی‌ اللہ عنہما»]، سنی‌ آنلاین سائٹ۔</ref> شیعہ متکلم [[سید مرتضی]] (وفات: ۴۳۶ھ) حضرت علیہ السّلام کی جانب سے خلفاء کو مشورہ دینے سے یہ استفادہ کیا جاسکتا کہ آپ ان کے ساتھ تعاون کرتے تھے کیونکہ احکام الہٰی کی رہنمائی اور مسلمانوں کا دفاع کرنا ہر عالم پر واجب ہے۔<ref>سید مرتضی، الشافی فی الامامۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۳، ص۲۵۱۔</ref> اسی طرح «دانشنامہ روابط سیاسی حضرت علی(ع) با خلفاء» کے مصنف نے خلفاء کو حضرت علیہ السّلام کے 107 مشوروں کا جائزہ لیکر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ خلفاء کا حصہ علی علیہ السلام سے مشورہ لینا ان کے خلفاء سے اتفاق اور ہمدلی کا قرینہ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ان میں سے اکثر مشورے عام طریقے کے مشوروں کے تحت ہوئے ہیں نہ یہ کہ خلفاء نے حضرت علیہ السّلام کو اپنا وزیر یا مشیر بنایا ہو بلکہ حضرت علی سیاسی گوشہ نشینی کے دوران کسانی اور کنویں کھودنے میں مشغول تھے۔ اسی طرح اگر کچھ مواقع پر خلفاء حضرت علیہ السّلام سے مشورہ کرتے تھے تو وہ ناچاری اور مجبوری کی وجہ سے تھا
شہادت فاطمہ کا انکار کرنے کے لئے [[اہل‌ سنت]] کے دلائل میں سے ایک یہ ہے کہ [[خلفائے ثلاثہ]] اور حضرت علی اور آپ کے خانوادے کے درمیان بڑے اچھے تعلقات تھے۔ «فاطمۃ بنت النبی» نامی منتقل کتاب کے مصنف نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ پہلے اور دوسرے خلیفہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے بڑے محبت رکھتے تھے،<ref>دیکھئے: المدیہش، فاطمہ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۴، ص۳۵۷، تا آخر، و ج۵ از ابتدا تا ص۸۹۔</ref> اس کے باوجود مصنف نے آخر میں نتیجہ یہی نکالا ہے کہ بی بی فاطمہ نے [[واقعہ فدک]] کے بعد [[ابوبکر]] قطع تعلق کر لیا تھا اور ان کی [[بیعت]] بھی نہیں کی۔<ref>دیکھئے: المدیہش، فاطمہ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۴، ص۵۲۱-۵۲۳۔</ref> ایک سنت کے ایک مصنف محمد نافع نے «رحماء بینہم» کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں مصنف نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ [[خلفائے ثلاثہ]] کے حضرت علی علیہ السلام سے اچھے تعلقات تھے۔<ref>[https://www۔neelwafurat۔com/itempage۔aspx?id=lbb185806-154633&search=books «رحماء بینہم»]،  نیل و فرات سائٹ۔</ref> اسی طرح ندائے اسلام نامی سہ ماہی رسالہ کے مقالہ میں مصنف نے خلفاء اور حضرت علیہ السّلام کے حسن تعلق اور خلفاء کی عورتوں اور بیٹیوں کے فاطمہ زہرا سے اچھے تعلقات کی مثالیں دیکر مصنف نے کوشش کی ہے کہ یہ ظاہر کرتے کہ یہ تعلقات بی بی فاطمہ کی ترویج اور ان پر حملہ کرنے سے میل نہیں کھاتے ہیں۔<ref> مرجانی، [http://sunnionline۔us/farsi/2016/07/6823 «ارتباط و محبت خلفای ثلاثہ با علی و فاطمہ رضی‌ اللہ عنہما»]، سنی‌ آنلاین سائٹ۔</ref> شیعہ متکلم [[سید مرتضی]] (وفات: ۴۳۶ھ) حضرت علیہ السّلام کی جانب سے خلفاء کو مشورہ دینے سے یہ استفادہ کیا جاسکتا کہ آپ ان کے ساتھ تعاون کرتے تھے کیونکہ احکام الہٰی کی رہنمائی اور مسلمانوں کا دفاع کرنا ہر عالم پر واجب ہے۔<ref>سید مرتضی، الشافی فی الامامۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۳، ص۲۵۱۔</ref> اسی طرح «دانشنامہ روابط سیاسی حضرت علی(ع) با خلفاء» کے مصنف نے خلفاء کو حضرت علیہ السّلام کے 107 مشوروں کا جائزہ لیکر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ خلفاء کا حصہ علی علیہ السلام سے مشورہ لینا ان کے خلفاء سے اتفاق اور ہمدلی کا قرینہ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ان میں سے اکثر مشورے عام طریقے کے مشوروں کے تحت ہوئے ہیں نہ یہ کہ خلفاء نے حضرت علیہ السّلام کو اپنا وزیر یا مشیر بنایا ہو بلکہ حضرت علی سیاسی گوشہ نشینی کے دوران کسانی اور کنویں کھودنے میں مشغول تھے۔ اسی طرح اگر کچھ مواقع پر خلفاء حضرت علیہ السّلام سے مشورہ کرتے تھے تو وہ ناچاری اور مجبوری کی وجہ سے تھا
تاکہ مشکلات کی گرہیں کھل جائیں۔<ref>لباف، دانشنامہ روابط سیاسی حضرت علی(ع) با خلفا، ۱۳۸۸ش، ص۷۳-۷۶۔</ref>
تاکہ مشکلات کی گرہیں کھل جائیں۔<ref>لباف، دانشنامہ روابط سیاسی حضرت علی(ع) با خلفا، ۱۳۸۸ش، ص۷۳-۷۶۔</ref>


سطر 128: سطر 128:
== متعلقہ کتابیں==
== متعلقہ کتابیں==
شہادت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے سلسلہ میں مستقل طور پر کتابیں لکھی گئی ہیں۔ جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:
شہادت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے سلسلہ میں مستقل طور پر کتابیں لکھی گئی ہیں۔ جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:
*[[شیخ عباس قمی]] کی عربی کتاب [[بیت الاحزان فی مصائب سیدة النسوان (کتاب)|بیت الاحزان فی مصائب سیدة النسوان]] (تحریر کی تاریخ: ۱۳۳۰ھ)۔ اس کتاب کے ایک حصہ میں رحلت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ کے بعد فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی کے حوادث بیان ہوئے ہیں۔<ref>دیکھئے: «بیت‌الاحزان فی ذکر احوال سیدة نساء العالمین»، ص۶۰-۶۲۔</ref> اس کتاب کو فارسی ترجمہ «رنج‌ہا و فریادہای فاطمہ سلام اللہ علیہا» کے عنوان سے ہوا ہے
*[[شیخ عباس قمی]] کی عربی کتاب [[بیت الاحزان فی مصائب سیدۃ النسوان (کتاب)|بیت الاحزان فی مصائب سیدۃ النسوان]] (تحریر کی تاریخ: ۱۳۳۰ھ)۔ اس کتاب کے ایک حصہ میں رحلت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ کے بعد فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی کے حوادث بیان ہوئے ہیں۔<ref>دیکھئے: «بیت‌الاحزان فی ذکر احوال سیدۃ نساء العالمین»، ص۶۰-۶۲۔</ref> اس کتاب کو فارسی ترجمہ «رنج‌ہا و فریادہای فاطمہ سلام اللہ علیہا» کے عنوان سے ہوا ہے
* جعفر مرتضی عاملی (وفات ۱۴۴۱ھ) کی عربی کتاب [[مأساة الزہراء (کتاب)|مَأساةُ الزّہراء(س)، شُبَہات و رُدود ]] اس کتاب میں مصنف نے کوشش کی ہے ان شبہات کا جواب دیں جو بی بی فاطمہ کی زندگی کے آخری ایام اور آپ کی شہادت کے سلسلہ میں پائے جاتے ہیں۔ اس کتاب کا فارسی ترجمہ «رنج‌ہای حضرت زہرا سلام‌اللہ علیہا» کے عنوان سے انجام پایا ہے۔
* جعفر مرتضی عاملی (وفات ۱۴۴۱ھ) کی عربی کتاب [[مأساۃ الزہراء (کتاب)|مَأساۃُ الزّہراء(س)، شُبَہات و رُدود ]] اس کتاب میں مصنف نے کوشش کی ہے ان شبہات کا جواب دیں جو بی بی فاطمہ کی زندگی کے آخری ایام اور آپ کی شہادت کے سلسلہ میں پائے جاتے ہیں۔ اس کتاب کا فارسی ترجمہ «رنج‌ہای حضرت زہرا سلام‌اللہ علیہا» کے عنوان سے انجام پایا ہے۔
* عبدالزہراء مہدی، پندرہویں صدی کے صاحب قلم کی کتاب الہجوم، اس میں 150 شیعہ راویوں اور صاحبان قلم کی 260 تاریخی روایتیں اور بیانات قلمبند ہوئے ہیں جن میں سے ہر ایک میں شہادت فاطمہ کے اسباب میں سے کچھ سبب بیان ہوئے ہیں۔<ref>مہدی، الہجوم، ۱۴۲۵ھ، ص۲۲۱-۳۵۶۔</ref>  
* عبدالزہراء مہدی، پندرہویں صدی کے صاحب قلم کی کتاب الہجوم، اس میں 150 شیعہ راویوں اور صاحبان قلم کی 260 تاریخی روایتیں اور بیانات قلمبند ہوئے ہیں جن میں سے ہر ایک میں شہادت فاطمہ کے اسباب میں سے کچھ سبب بیان ہوئے ہیں۔<ref>مہدی، الہجوم، ۱۴۲۵ھ، ص۲۲۱-۳۵۶۔</ref>  
اسی طرح اہل سنت کے صاحبان قلم نے خلفاء اور اہل بیت علیہ السلام کے حسن تعلق اور شہادت حضرت فاطمہ کے انکار نہیں کچھ کتابیں لکھی ہیں:  
اسی طرح اہل سنت کے صاحبان قلم نے خلفاء اور اہل بیت علیہ السلام کے حسن تعلق اور شہادت حضرت فاطمہ کے انکار نہیں کچھ کتابیں لکھی ہیں:  
* «فاطمة الزہراء بنت رسول اللہ و ام الحسنین»، مولف: عبدالستار الشیخ۔ یہ کتاب اہم مسلمان شخصیات کے تعارف ناموں کے کئی جلد پر مشتمل مجموعہ کا ایک حصہ ہے، اور یہ حصہ حضرت فاطمہ زہرا(س) سے مخصوص ہے۔ مصنف نے اس میں روز بیعت کے واقعات اور [[حضرت فاطمہؑ کے گھر پر حملہ|خانہ زہرا میں آتشزدگی]] کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا ہے۔ اس کتاب میں صرف میراث النبی(ع) کے عنوان سے [[واقعہ فدک]] کی طرف اشارہ ہوا ہے اور مصنف نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ فدک کے سلسلہ میں فاطمہ اور ابوبکر کے درمیان کوئی اختلاف نہیں تھا<ref>الشیخ، فاطمة الزہراء، دار القلم، ص۲۹۹-۳۱۸۔</ref> اور یہ کہ اس پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ فاطمہ زہرا(س)، [[خلیفہ اول]] و [[خلیفہ دوم|دوم]] ناراض تھیں اور یہ بات کی فاطمہ نے عیادت کے دن ان دونوں سے بات نہیں کی، ایک راوی کے ذہن کی ایجاد ہے۔<ref> الشیخ، فاطمة الزہراء، دار القلم، ص۳۱۹-۳۲۶۔</ref> مصنف کے لحاظ سے یہ مسئلہ علمائے [[شیعہ]] کا گھڑا ہوا ہے<ref>الشیخ، فاطمة الزہراء، دار القلم، ص۳۲۷۔</ref>
* «فاطمۃ الزہراء بنت رسول اللہ و ام الحسنین»، مولف: عبدالستار الشیخ۔ یہ کتاب اہم مسلمان شخصیات کے تعارف ناموں کے کئی جلد پر مشتمل مجموعہ کا ایک حصہ ہے، اور یہ حصہ حضرت فاطمہ زہرا(س) سے مخصوص ہے۔ مصنف نے اس میں روز بیعت کے واقعات اور [[حضرت فاطمہؑ کے گھر پر حملہ|خانہ زہرا میں آتشزدگی]] کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا ہے۔ اس کتاب میں صرف میراث النبی(ع) کے عنوان سے [[واقعہ فدک]] کی طرف اشارہ ہوا ہے اور مصنف نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ فدک کے سلسلہ میں فاطمہ اور ابوبکر کے درمیان کوئی اختلاف نہیں تھا<ref>الشیخ، فاطمۃ الزہراء، دار القلم، ص۲۹۹-۳۱۸۔</ref> اور یہ کہ اس پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ فاطمہ زہرا(س)، [[خلیفہ اول]] و [[خلیفہ دوم|دوم]] ناراض تھیں اور یہ بات کی فاطمہ نے عیادت کے دن ان دونوں سے بات نہیں کی، ایک راوی کے ذہن کی ایجاد ہے۔<ref> الشیخ، فاطمۃ الزہراء، دار القلم، ص۳۱۹-۳۲۶۔</ref> مصنف کے لحاظ سے یہ مسئلہ علمائے [[شیعہ]] کا گھڑا ہوا ہے<ref>الشیخ، فاطمۃ الزہراء، دار القلم، ص۳۲۷۔</ref>
* «بین الزہراء و الصدیق حقیقة و تحقیق»، مولف: بدر العمرانی۔ یہ کتاب 2014ء میں شائع ہوئی اور خلیفہ اول[[ابوبکر]] کا [[فاطمہ]] رابطہ اس کتاب کا موضوع ہے۔<ref>[https://www۔alkotoby۔com/بين-الزہراء-والصديق «بین الزہراء و الصدیق»]، سائٹ الکتبی۔</ref>
* «بین الزہراء و الصدیق حقیقۃ و تحقیق»، مولف: بدر العمرانی۔ یہ کتاب 2014ء میں شائع ہوئی اور خلیفہ اول[[ابوبکر]] کا [[فاطمہ]] رابطہ اس کتاب کا موضوع ہے۔<ref>[https://www۔alkotoby۔com/بين-الزہراء-والصديق «بین الزہراء و الصدیق»]، سائٹ الکتبی۔</ref>
* «دفاعاً عن الآل و الاصحاب»؛ اس کتاب کا کوئی خاص مصنف نہیں ہے اور ایک ہزار صفحات پر مشتمل یہ کتاب جمعیة الآل و الاصحاب کی جانب سے سنہ ۱۴۳۱ھ نہیں [[بحرین]] میں چھپی ہے۔<ref>[https://www۔arabicbookshop۔net/difaan-an-al-al-wa-al-ashab/208-436 «اطلاعات کتاب دفاعا عن الآل و الأصحاب»]، سائٹ عربک بک شاپ۔</ref> کلی طور سے اس کتاب کا موضوع ان شبہات و اعتراضات کا جواب دینا ہے جو اہل سنت کے عقائد سے متعلق ہیں۔ سس کتاب کا ایک حصہ شہادت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے مخصوص ہے۔<ref>[https://fnoor۔com/main/articles۔aspx?article_no=23991 «کتاب دفاعا عن الآل و الرسول»]، فیصل نور سائٹ۔</ref>
* «دفاعاً عن الآل و الاصحاب»؛ اس کتاب کا کوئی خاص مصنف نہیں ہے اور ایک ہزار صفحات پر مشتمل یہ کتاب جمعیۃ الآل و الاصحاب کی جانب سے سنہ ۱۴۳۱ھ نہیں [[بحرین]] میں چھپی ہے۔<ref>[https://www۔arabicbookshop۔net/difaan-an-al-al-wa-al-ashab/208-436 «اطلاعات کتاب دفاعا عن الآل و الأصحاب»]، سائٹ عربک بک شاپ۔</ref> کلی طور سے اس کتاب کا موضوع ان شبہات و اعتراضات کا جواب دینا ہے جو اہل سنت کے عقائد سے متعلق ہیں۔ سس کتاب کا ایک حصہ شہادت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے مخصوص ہے۔<ref>[https://fnoor۔com/main/articles۔aspx?article_no=23991 «کتاب دفاعا عن الآل و الرسول»]، فیصل نور سائٹ۔</ref>


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
سطر 142: سطر 142:
{{مآخذ}}
{{مآخذ}}
* ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہرہ، دار احیاء الکتب العربیہ، ۱۳۸۵ھ/۱۹۶۵ء۔
* ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہرہ، دار احیاء الکتب العربیہ، ۱۳۸۵ھ/۱۹۶۵ء۔
* ابن‌حجر عسقلانی، احمد بن علی، لسان المیزان، بیروت، دار البشائر الإسلامية، ۲۰۰۲ء۔
* ابن‌حجر عسقلانی، احمد بن علی، لسان المیزان، بیروت، دار البشائر الإسلاميۃ، ۲۰۰۲ء۔
* ابن‌عبد ربہ، احمد بن محمد، العقد الفرید، تحقیق مفید محمد قمیحہ و عبدالمجید ترحینی، بیروت، درالکتب العلمیة، ۱۴۰۷ھ/۱۹۸۷ء۔
* ابن‌عبد ربہ، احمد بن محمد، العقد الفرید، تحقیق مفید محمد قمیحہ و عبدالمجید ترحینی، بیروت، درالکتب العلمیۃ، ۱۴۰۷ھ/۱۹۸۷ء۔
* ابن‌قتیبہ دینوری، عبداللہ بن مسلم، المعارف، تحقیق ثروت عکاشہ، قاہرہ، الہیئة المصریة العامة للکتاب، ۱۹۶۰ء۔
* ابن‌قتیبہ دینوری، عبداللہ بن مسلم، المعارف، تحقیق ثروت عکاشہ، قاہرہ، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، ۱۹۶۰ء۔
* ابن‌‌تیمیہ، محمد بن عبدالحلیم، منہاج السنة النبویة، تحقیق محمد رشاد سالم، ریاض، جامعة الامام محمد بن سعود الإسلامیة، ۱۴۰۶ھ۔
* ابن‌‌تیمیہ، محمد بن عبدالحلیم، منہاج السنۃ النبویۃ، تحقیق محمد رشاد سالم، ریاض، جامعۃ الامام محمد بن سعود الإسلامیۃ، ۱۴۰۶ھ۔
* اللہ‌اکبری، محمد، ازدواج ام‌کلثوم و عمر از نگاہ فریقین، در مجلہ طلوع، شمارہ ۲۳، پاییز ۱۳۸۶ش۔
* اللہ‌اکبری، محمد، ازدواج ام‌کلثوم و عمر از نگاہ فریقین، در مجلہ طلوع، شمارہ ۲۳، پاییز ۱۳۸۶ش۔
*اللہ اکبری، محمد، «محسن بن علی»، در مجلہ طلوع، شمارہ ۲۹، پاییز ۱۳۸۸ش۔
*اللہ اکبری، محمد، «محسن بن علی»، در مجلہ طلوع، شمارہ ۲۹، پاییز ۱۳۸۸ش۔
* المدیہش، ابراہیم بن عبداللہ، فاطمة بنت النبی سیرتہا، فضائلہا،‌ مسندہا، ریاض، دار الآل و الصحب، ۱۴۴۰۔
* المدیہش، ابراہیم بن عبداللہ، فاطمۃ بنت النبی سیرتہا، فضائلہا،‌ مسندہا، ریاض، دار الآل و الصحب، ۱۴۴۰۔
*«[http://www۔noormags۔ir/view/fa/articlepage/892514 بیت‌الاحزان فی ذکر احوال سیدة نساء العالمین]»، بقیة‌اللہ، شمارہ۸۵، ربیع‌الثانی، ۱۴۱۹ھ۔
*«[http://www۔noormags۔ir/view/fa/articlepage/892514 بیت‌الاحزان فی ذکر احوال سیدۃ نساء العالمین]»، بقیۃ‌اللہ، شمارہ۸۵، ربیع‌الثانی، ۱۴۱۹ھ۔
* بیہقی، احمد بن حسین، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشریعہ، تحقیق عبدالمعطی قلعجی، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۰۵ھ/۱۹۸۵ء۔
* بیہقی، احمد بن حسین، دلائل النبوۃ ومعرفۃ أحوال صاحب الشریعہ، تحقیق عبدالمعطی قلعجی، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۰۵ھ/۱۹۸۵ء۔
* تبریزی، جواد، صراط النجاة، قم، مکتب حضرت آیت‌اللہ العظمی التبریزی، ۱۴۱۸ھ۔ این کتاب در اصل صراط النجاة آیت‌اللہ خوئی است کہ با تعلیقات آیت‌اللہ تبریزی منتشر شدہ است۔  
* تبریزی، جواد، صراط النجاۃ، قم، مکتب حضرت آیت‌اللہ العظمی التبریزی، ۱۴۱۸ھ۔ این کتاب در اصل صراط النجاۃ آیت‌اللہ خوئی است کہ با تعلیقات آیت‌اللہ تبریزی منتشر شدہ است۔  
* جمعی از نویسندگان، شہادت مادرم زہرا افسانہ نیست، بےجا، انتشارات امیر کلام، ۱۳۸۸ش۔
* جمعی از نویسندگان، شہادت مادرم زہرا افسانہ نیست، بےجا، انتشارات امیر کلام، ۱۳۸۸ش۔
* «حرکت دستہ عزاداری فاطمیہ مقدسہ زنجان»، فارس خبر رساں ایجینسی، تاریخ درج مندرجات: ۳۰ دی ۱۳۹۷ش، تاریخ رجوع: ۲۹ آبان ۱۴۰۰ش۔
* «حرکت دستہ عزاداری فاطمیہ مقدسہ زنجان»، فارس خبر رساں ایجینسی، تاریخ درج مندرجات: ۳۰ دی ۱۳۹۷ش، تاریخ رجوع: ۲۹ آبان ۱۴۰۰ش۔
* حسینی، سید ہادی، «مقدمہ مترجم»، در کتاب نام خلفا بر فرزندان امامان، نوشتہ سید علی شہرستانی، قم، انتشارات دلیل ما، ۱۳۹۰ش۔
* حسینی، سید ہادی، «مقدمہ مترجم»، در کتاب نام خلفا بر فرزندان امامان، نوشتہ سید علی شہرستانی، قم، انتشارات دلیل ما، ۱۳۹۰ش۔
* دفاعا عن الآل و الأصحاب، بحرین، جمعیة الآل و الأصحاب، ۱۴۳۱ھ۔
* دفاعا عن الآل و الأصحاب، بحرین، جمعیۃ الآل و الأصحاب، ۱۴۳۱ھ۔
* ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، بیروت، مؤسسة الرسالة، ۱۴۰۵ھ۔
* ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، ۱۴۰۵ھ۔
* سید رضی، نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم، دار الہجرة، ۱۴۱۴ھ۔
* سید رضی، نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم، دار الہجرۃ، ۱۴۱۴ھ۔
*سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس، قم، الہادی، ۱۴۲۰ھ۔
*سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس، قم، الہادی، ۱۴۲۰ھ۔
* سید مرتضی، علی بن حسین، الشافی فی الامامہ،  تحقیق سید عبدالزہراء حسینی، تہران، مؤسسة الصادق(ع)، چاپ دوم، ۱۴۱۰ھ۔  
* سید مرتضی، علی بن حسین، الشافی فی الامامہ،  تحقیق سید عبدالزہراء حسینی، تہران، مؤسسۃ الصادق(ع)، چاپ دوم، ۱۴۱۰ھ۔  
* شبیری، سید محمدجواد، «شہادت فاطمہ(س)»، دانشنامہ فاطمی(س)، تہران، پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، چاپ اول، ۱۳۹۳ش۔
* شبیری، سید محمدجواد، «شہادت فاطمہ(س)»، دانشنامہ فاطمی(س)، تہران، پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، چاپ اول، ۱۳۹۳ش۔
* شہرستانی، سید علی، التسمیات بین التسامح العلوی و التوظیف الأموی، مشہد، مؤسسة الرافد، ۱۴۳۱ھ۔
* شہرستانی، سید علی، التسمیات بین التسامح العلوی و التوظیف الأموی، مشہد، مؤسسۃ الرافد، ۱۴۳۱ھ۔
* شہرستانی، محمد بن عبدالکریم، الملل و النحل، تحقیق محمد بدران، قم، انتشارات شریف رضی، ۱۳۶۴ش۔
* شہرستانی، محمد بن عبدالکریم، الملل و النحل، تحقیق محمد بدران، قم، انتشارات شریف رضی، ۱۳۶۴ش۔
* شیخ، عبدالستار، فاطمة الزہراء بنت رسول للہ و ام الحسنین، دمشق، دار القلم، ۱۴۳۶ھ۔
* شیخ، عبدالستار، فاطمۃ الزہراء بنت رسول للہ و ام الحسنین، دمشق، دار القلم، ۱۴۳۶ھ۔
* شیخ مفید، محمد بن محمد، الاختصاص، تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمود محرمی زرندی، قم، الموتمر العالمی لالفیة الشیخ المفید، ۱۴۱۳ھ۔
* شیخ مفید، محمد بن محمد، الاختصاص، تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمود محرمی زرندی، قم، الموتمر العالمی لالفیۃ الشیخ المفید، ۱۴۱۳ھ۔
* صفدی، خلیل بن ایبک، الوافی بالوفیات، بیروت، دار إحياء التراث، ۱۴۲۰ھ۔
* صفدی، خلیل بن ایبک، الوافی بالوفیات، بیروت، دار إحياء التراث، ۱۴۲۰ھ۔
* طبرسی، حسن بن علی، مناقب الطاہرین، تحقیق حسین درگاہی، تہران، رایزن، ۱۳۷۹ش۔  
* طبرسی، حسن بن علی، مناقب الطاہرین، تحقیق حسین درگاہی، تہران، رایزن، ۱۳۷۹ش۔  
* طبری، محمد بن جریر بن رستم، دلائل الامامة، قم، مؤسسہ بعثت، ۱۴۱۳ھ۔
* طبری، محمد بن جریر بن رستم، دلائل الامامۃ، قم، مؤسسہ بعثت، ۱۴۱۳ھ۔
* طبسی، محمدجواد، حیاة الصدیقة فاطمة، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۱ش۔
* طبسی، محمدجواد، حیاۃ الصدیقۃ فاطمۃ، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۱ش۔
* طوسی، محمد بن حسن، تلخیص الشافی، تحقیق حسین بحرالعلوم، قم، انتشارات محبین، ۱۳۸۲ش۔
* طوسی، محمد بن حسن، تلخیص الشافی، تحقیق حسین بحرالعلوم، قم، انتشارات محبین، ۱۳۸۲ش۔
* عاملی، سید جعفر مرتضی، مأساة الزہراء، بیروت، دارالسیرة، ۱۴۱۸ھ/۱۹۹۷ء۔
* عاملی، سید جعفر مرتضی، مأساۃ الزہراء، بیروت، دارالسیرۃ، ۱۴۱۸ھ/۱۹۹۷ء۔
*عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، تحقیق سید ہاشم رسولی محلاتی، تہران، المطبعة العلمیة، چاپ اول، ۱۳۸۰ھ۔
*عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، تحقیق سید ہاشم رسولی محلاتی، تہران، المطبعۃ العلمیۃ، چاپ اول، ۱۳۸۰ھ۔
* غیب‌غلامی، حسین، إحراق بیت فاطمہ فی الکتب المعتبرة عند أہل السنة، نشر مؤلف، ۱۳۷۵ش۔
* غیب‌غلامی، حسین، إحراق بیت فاطمہ فی الکتب المعتبرۃ عند أہل السنۃ، نشر مؤلف، ۱۳۷۵ش۔
* فتال نیشابوری، محمد بن احمد، روضة الواعظین و بصیرة المتعظین، قم،‌ انتشارات رضی، چاپ اول، ۱۳۷۵ش۔
* فتال نیشابوری، محمد بن احمد، روضۃ الواعظین و بصیرۃ المتعظین، قم،‌ انتشارات رضی، چاپ اول، ۱۳۷۵ش۔
* فضل‌اللہ، سید محمدحسین، الزہراء القدوة، گردآوری حسین احمد الخشن، بیروت،‌ دار الملاک، ۱۴۲۱ھ۔
* فضل‌اللہ، سید محمدحسین، الزہراء القدوۃ، گردآوری حسین احمد الخشن، بیروت،‌ دار الملاک، ۱۴۲۱ھ۔
* قاضی عبدالجبار بن احمد، تثبیت دلائل النبوة، تحقیق عبدالکریم عثمان، قاہرہ، دارالمصطفی، ۲۰۰۶ء۔
* قاضی عبدالجبار بن احمد، تثبیت دلائل النبوۃ، تحقیق عبدالکریم عثمان، قاہرہ، دارالمصطفی، ۲۰۰۶ء۔
* کاشف‌الغطاء، محمدحسین، جنة المأوی، تحقیق سید محمدعلی قاضی طباطبائی، قم، انتشارات دلیل ما، ۱۴۲۹ھ۔
* کاشف‌الغطاء، محمدحسین، جنۃ المأوی، تحقیق سید محمدعلی قاضی طباطبائی، قم، انتشارات دلیل ما، ۱۴۲۹ھ۔
* کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیة، ۱۴۰۷ھ۔
* کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، ۱۴۰۷ھ۔
* لباف، علی، دانشنامہ روابط سیاسی حضرت علی علیہ‌السلام، تہران، منیر، ۱۳۸۸ش۔
* لباف، علی، دانشنامہ روابط سیاسی حضرت علی علیہ‌السلام، تہران، منیر، ۱۳۸۸ش۔
* «ماجرای تعطیل شدن روز شہادت حضرت زہرا»، سایت آفتاب‌نیوز، تاریخ درج مندرجات: ۱۷ اردیبہشت ۱۳۹۰ش، تاریخ رجوع: ۲۹ آبان ۱۴۰۰ش۔
* «ماجرای تعطیل شدن روز شہادت حضرت زہرا»، سایت آفتاب‌نیوز، تاریخ درج مندرجات: ۱۷ اردیبہشت ۱۳۹۰ش، تاریخ رجوع: ۲۹ آبان ۱۴۰۰ش۔
سطر 184: سطر 184:
* مرجانی، حبیب‌اللہ، [http://sunnionline۔us/farsi/2016/07/6823 «ارتباط و محبت بین خلفای ثلاثہ و حضرت علی و فاطمہ رضی‌اللہ عنہما»]، فصلنامہ ندای اسلام، شمارہ ۵۴، زاہدان، دار العلوم، ۱۳۹۶ش۔
* مرجانی، حبیب‌اللہ، [http://sunnionline۔us/farsi/2016/07/6823 «ارتباط و محبت بین خلفای ثلاثہ و حضرت علی و فاطمہ رضی‌اللہ عنہما»]، فصلنامہ ندای اسلام، شمارہ ۵۴، زاہدان، دار العلوم، ۱۳۹۶ش۔
* مسائلی،‌ مہدی، نہم‌ ربیع: جہالت‌ہا خسارت‌ہا، چاپ دوم، قم، انتشارات وثوق، ۱۳۸۷ش۔
* مسائلی،‌ مہدی، نہم‌ ربیع: جہالت‌ہا خسارت‌ہا، چاپ دوم، قم، انتشارات وثوق، ۱۳۸۷ش۔
*مسعودی، علی بن حسین، اثبات الوصیة، قم، انصاریان، ۱۳۸۴ش۔  
*مسعودی، علی بن حسین، اثبات الوصیۃ، قم، انصاریان، ۱۳۸۴ش۔  
* مظاہری، محسن‌حسام، فرہنگ سوگ شیعی، ویراست یکم، تہران، نشر خیمہ، ۱۳۹۵ش۔
* مظاہری، محسن‌حسام، فرہنگ سوگ شیعی، ویراست یکم، تہران، نشر خیمہ، ۱۳۹۵ش۔
* مقدس اردبیلی، احمد بن محمد، اصول دین، تحقیق محسن صادقی، قم، مؤسسہ بوستان کتاب، ۱۳۸۷ش۔
* مقدس اردبیلی، احمد بن محمد، اصول دین، تحقیق محسن صادقی، قم، مؤسسہ بوستان کتاب، ۱۳۸۷ش۔
سطر 191: سطر 191:
* «نظر مراجع تقلید دربارہ توہین بہ مقدسات اہل‌سنت»،  مہر خبر رساں ایجنسی، تاریخ درج مندرجات: ۱۵ آبان ۱۳۹۸ش، تاریخ رجوع: ۲۹ آبان ۱۴۰۰ش۔
* «نظر مراجع تقلید دربارہ توہین بہ مقدسات اہل‌سنت»،  مہر خبر رساں ایجنسی، تاریخ درج مندرجات: ۱۵ آبان ۱۳۹۸ش، تاریخ رجوع: ۲۹ آبان ۱۴۰۰ش۔
* نیشابوری، مسلم بن حجاج، المسند الصحیح، تحقیق محمد فؤاد عبدالباقی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بےتا۔  
* نیشابوری، مسلم بن حجاج، المسند الصحیح، تحقیق محمد فؤاد عبدالباقی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بےتا۔  
* یوسفی غروی، محمدہادی، موسوعة التاریخ الاسلامی، قم، مجمع الفکر الاسلامی، چاپ پنجم، ۱۴۳۸ھ۔
* یوسفی غروی، محمدہادی، موسوعۃ التاریخ الاسلامی، قم، مجمع الفکر الاسلامی، چاپ پنجم، ۱۴۳۸ھ۔
{{چپ‌چین}}
{{چپ‌چین}}
*  
*  
17

ترامیم