مندرجات کا رخ کریں

"جہاد ابتدائی" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
اضافہ نمودن بخش
سطر 10: سطر 10:
==تعریف==
==تعریف==
جہاد ابتدائی اس جہاد کو کہتے ہیں جس کا آغاز مسلمانوں کی طرف سے مشرکوں اور کافروں کو [[اسلام]]اور توحید کی طرف دعوت اور معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کے لئے کیا جاتا ہے۔<ref>صرامی، عدالت نژاد، «جهاد» ۱۳۸۶ش، ج۱۱، ص۴۳۴.</ref> حسین علی منتظری کے مطابق اسلام اور اس کی تعلیمات کو دوسری قوموں تک پہنچانا جہاد ابتدائی ہے جس کے ذریعے ظلم، ظالم کی حکمرانی کو ختم کرنا ہے اور  لوگوں کے اختیار اور انتخاب سے دین الہی کےلئے زمینہ سازی کرنا ہے۔<ref>منتظری، مجازات‌هاى اسلامى و حقوق بشر، ۱۴۲۹ق، ص۹۰.</ref>
جہاد ابتدائی اس جہاد کو کہتے ہیں جس کا آغاز مسلمانوں کی طرف سے مشرکوں اور کافروں کو [[اسلام]]اور توحید کی طرف دعوت اور معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کے لئے کیا جاتا ہے۔<ref>صرامی، عدالت نژاد، «جهاد» ۱۳۸۶ش، ج۱۱، ص۴۳۴.</ref> حسین علی منتظری کے مطابق اسلام اور اس کی تعلیمات کو دوسری قوموں تک پہنچانا جہاد ابتدائی ہے جس کے ذریعے ظلم، ظالم کی حکمرانی کو ختم کرنا ہے اور  لوگوں کے اختیار اور انتخاب سے دین الہی کےلئے زمینہ سازی کرنا ہے۔<ref>منتظری، مجازات‌هاى اسلامى و حقوق بشر، ۱۴۲۹ق، ص۹۰.</ref>
<ref> مؤمن، «جہاد ابتدایی در عصر غیبت»، ص۳۔</ref> اور یہ [[واجب کفائی]] ہے۔<ref> مفتح، «جہاد ابتدایی در قرآن و سیرہ پیامبر»، ص۸۔</ref> اکثر علمائے شیعہ اور خصوصا ابتدائی صدی ہجری کے فقہاء کا خیال ہے کہ جہاد ابتدائی تین گروہ سے [[واجب]] ہے۔ کفار، وہ اہل کتاب جو نہ ٹیکس دیتے ہیں اور نہ ہی اسلامی حکومت میں زندگی گزارنے کے قوانین کو قبول کرتے ہیں اور ایسے ہی باغی و جنگ کرنے والے۔<ref> بہرامی، نظام سیاسی اجتماعی اسلام، ۱۳۸۰ش، ص۱۳۹-۱۴۱۔</ref>


بعض فقہاء اور محققین جیسے حسین علی منتظری، [[ناصر مکارم شیرازی]] اور نعمت اللہ صالحی نجف آبادی، اصل جہاد ابتدائی کو یہاں تک کہ معصومین کے زمانے میں بھی قبول نہیں کرتے اور ان کا خیال ہے کہ اسلام کے تمام جہاد، دفاعی تھے۔<ref> <ref> منتظری، حکومت دینی و حقوق انسان، ۱۳۸۷ش، ص۶۰؛ [http://makarem.ir/main.aspx?typeinfo=21&lid=0&mid=251208&catid=40232 «جہاد ابتدایی».]؛ صالحی نجف‌آبادی، جہاد در اسلام، ۱۳۸۶ش، ص۳۴-۳۵۔</ref> بعض فقہاء جیسے منتظری اور مکارم شیرازی مظلوموں کو بچانے اور اسلامی تبلیغ کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے جہاد کو در حقیقت دفاعی جہاد سمجھتے ہیں۔ <ref>[http://makarem.ir/main.aspx?typeinfo=21&lid=0&mid=251208&catid=40232 «جہاد ابتدایی»۔]؛ منتظری، پاسخ بہ پرسش‌ہایی پیرامون مجازات‌ہای اسلامی و حقوق بشر، ۱۳۸۷ش، ص۹۰۔</ref>
==اہمیت==
[[محمد تقی مصباح یزدی]] (۱۳۱۳-۱۳۹۹ش) جہاد ابتدائی کو ضروریات دین میں سے سمجھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے شیعہ اور سنی فقہا جہاد ابتدائی جائز ہونے پر متفق القول ہیں۔<ref>مصباح یزدی، جنگ و جهاد در قرآن، ۱۳۸۳ش، ص۱۳۹.</ref> بعض کے کہنے کے مطابق جہاد ابتدائی مشہور فقہاء کی نظر میں [[واجب کفائی]] ہے<ref>انصاری، الموسوعة الفقهیة المیسره، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۲۴؛ صرامی، عدالت نژاد، «جهاد» ۱۳۸۶ش، ج۱۱، ص۴۳۴.</ref> اورشیعہ اکثر علما بالخصوص پہلی صدی ہجری کے علماء کا کہنا ہے کہ کفار اور اہل کتاب (یہودی، عیسائی، زرتشت) کے ان لوگوں سے جہاد کرنا واجب ہے جو [[جزیہ]] نہیں دیتے ہیں اور اسلامی حکومت کے قوانین کو نہیں مانتے ہیں۔<ref>بهرامی، نظام سیاسی اجتماعی اسلام، ۱۳۸۰ش، ص۱۳۹-۱۴۱.</ref><br>
 
حسین علی منتظری،<ref>منتظری، حکومت دینی و حقوق انسان، ۱۳۸۷ش، ص۶۰؛ منتظری، پاسخ به پرسش‌هایی پیرامون مجازات‌های اسلامی و حقوق بشر، ۱۳۸۷ش، ص۹۰.</ref> [[ناصر مکارم شیرازی]]<ref>[http://makarem.ir/main.aspx?typeinfo=21&lid=0&mid=251208&catid=40232 «جهاد ابتدایی».]، پایگاه اطلاع‌رسانی دفتر حضرت آیت‌الله مکارم شیرازی.</ref> اور نعمت اللہ صالحی نجف آبادی،<ref>صالحی نجف‌آبادی، جهاد در اسلام، ۱۳۸۶ش، ص۳۴-۳۵.</ref> صدر اسلام کی جنگوں کو دفاعی جنگیں سمجھتے ہیں جو مظلوموں کی نجات اور اسلام کی تبلیغ کے راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی غرض سے لڑی جاتی تھیں۔
جبکہ مصباح یزدی کا کہنا ہے کہ مسلمان دنشوروں کی طرف سے صدر اسلام کی تمام جنگوں کو دفاعی جہاد قرار دینا موجودہ حالات کے تناظر میں مختلف ممالک میں قبول شدہ اور ان پر حاکم لیبرلیزم اور آزادی جیسی اقدار اور معیارات کے پیش نظر  اس کی توجیہ کرنا تھا۔<ref>مصباح‌ یزدی، اخلاق در قرآن، ۱۳۹۱ش، ج۳، ص۴۰۸.</ref>


==شرائط==
==شرائط==

نسخہ بمطابق 19:12، 8 فروری 2023ء

جہاد ابتدائی، اس جہاد کو کہا جاتا ہے جس کا آغاز مسلمانوں کی طرف سے اسلام کو پھیلانے اور عدل و انصاف کی بالادستی کے لئے کفار اور مشرکین کے خلاف کیا جاتا ہے۔

اکثر شیعہ فقہاء نے امام معصوم کی موجودگی، جہاد کے لئے مسلمانوں کی کافی طاقت اور آغاز جنگ سے پہلے کافروں کو اسلام کی دعوت دینے کو جہاد ابتدائی کی شرائط میں سے جانا ہے لیکن بعض فقہاء جیسے شیخ مفید (۳۳۶ھ یا ۳۳۸ھ ـ۴۱۳ھ)، آیت اللہ خوئی (۱۲۷۸-۱۳۷۱شمسی)، رہبر معظم (پیدائیش ۱۳۱۸شمسی)، حسین علی منتظری (۱۳۰۱-۱۳۸۸شمسی) اور آیت اللہ مؤمن (۱۳۱۶-۱۳۹۷شمسی) نے جہاد ابتدائی کے لئے امام معصوم کی موجودگی کو شرط نہیں جانا ہے۔
بعض فقہاء اور محققین پیغمبر اکرمؐ اور ائمہؑ کے زمانے کی تمام جنگوں کو دفاعی قرار دیتے ہوئے جہاد ابتدائی کے منکر ہیں۔ جبکہ ان کے مقابلے میں آیت اللہ مصباح یزدی اسلام کی تمام جنگوں کو دفاعی قرار دینے کا منشاء موجودہ دور کے تسلیم شدہ معیار اور اقدار کو صدر اسلام پر لاگو کرنا قرار دیتے ہیں۔

شیعہ علماء و مفسیرین نے جہاد ابتدائی کا عقیدے کی آزادی اور آیت «لا اکراہ فی الدین»[؟؟] کے ساتھ ضدیت کے شبہ کے جواب میں بیان کیا ہے کہ آیات جہاد کی روشنی میں کافروں اور مشرکوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا کیونکہ جہاد ابتدائی کا مقصد مظلومین کی حمایت، ظلم و جبر کا خاتمہ اور مذہب کے آزادانہ انتخاب کے لئے زمینہ فراہم کرنا ہے۔

تعریف

جہاد ابتدائی اس جہاد کو کہتے ہیں جس کا آغاز مسلمانوں کی طرف سے مشرکوں اور کافروں کو اسلاماور توحید کی طرف دعوت اور معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کے لئے کیا جاتا ہے۔[1] حسین علی منتظری کے مطابق اسلام اور اس کی تعلیمات کو دوسری قوموں تک پہنچانا جہاد ابتدائی ہے جس کے ذریعے ظلم، ظالم کی حکمرانی کو ختم کرنا ہے اور لوگوں کے اختیار اور انتخاب سے دین الہی کےلئے زمینہ سازی کرنا ہے۔[2]

اہمیت

محمد تقی مصباح یزدی (۱۳۱۳-۱۳۹۹ش) جہاد ابتدائی کو ضروریات دین میں سے سمجھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے شیعہ اور سنی فقہا جہاد ابتدائی جائز ہونے پر متفق القول ہیں۔[3] بعض کے کہنے کے مطابق جہاد ابتدائی مشہور فقہاء کی نظر میں واجب کفائی ہے[4] اورشیعہ اکثر علما بالخصوص پہلی صدی ہجری کے علماء کا کہنا ہے کہ کفار اور اہل کتاب (یہودی، عیسائی، زرتشت) کے ان لوگوں سے جہاد کرنا واجب ہے جو جزیہ نہیں دیتے ہیں اور اسلامی حکومت کے قوانین کو نہیں مانتے ہیں۔[5]

حسین علی منتظری،[6] ناصر مکارم شیرازی[7] اور نعمت اللہ صالحی نجف آبادی،[8] صدر اسلام کی جنگوں کو دفاعی جنگیں سمجھتے ہیں جو مظلوموں کی نجات اور اسلام کی تبلیغ کے راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی غرض سے لڑی جاتی تھیں۔ جبکہ مصباح یزدی کا کہنا ہے کہ مسلمان دنشوروں کی طرف سے صدر اسلام کی تمام جنگوں کو دفاعی جہاد قرار دینا موجودہ حالات کے تناظر میں مختلف ممالک میں قبول شدہ اور ان پر حاکم لیبرلیزم اور آزادی جیسی اقدار اور معیارات کے پیش نظر اس کی توجیہ کرنا تھا۔[9]

شرائط

مشہور علمائے شیعہ کے مطابق جہاد ابتدائی کی تین شرطیں ہیں:

  1. امام معصوم کی موجودگی: اس شرط کی بنا پر معصوم کی غیر موجودگی جیسے زمانۂ غیبت میں جہاد ابتدائی جائز نہیں ہے۔
  2. آغاز جہاد کے لئے مسلمانوں کا کافی مقدار میں طاقت و قدرت کا حامل ہونا۔
  3. آغاز جنگ سے پہلے کفار کو دعوت اسلام دینا اور اتمام حجت کرنا۔[10]

مشہور فقہائے شیعہ جیسے شیخ طوسی، قاضی ابن براج، ابن ادریس، محقق حلی، علامہ حلی، شہید ثانی اور صاحب جواہر کے مطابق جہاد ابتدائی کی شرط ہے کہ امام معصوم موجود ہو اور اس کی اجازت بھی ہو۔[11] اس کے باوجود بعض فقہاء جیسے شیخ مفید، ابوالصلاح حلبی، و سلار دیلمی نے جہاد ابتدائی کے لئے امام معصوم کے حضور کو شرط نہیں جانا ہے اور اس اعتبار سے اس کا زمانہ غیبت میں انجام دینا جائز سمجھا ہے۔[12] بعض فقہائے معاصر جیسے سید ابوالقاسم خوئی[13] اور محمد مؤمن نے بھی قرآن و آیات کی بنا پر حضور معصوم کی شرط کو غیر قابل اثبات جانا ہے اور ان کے خیال میں جہاد ابتدائی غیبت معصوم میں بھی تمام شرائط کے فراہم ہونے کے ساتھ واجب ہے۔[14]

آزادیٔ عقیدے کے ساتھ تعارض

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے جہاد ابتدائی، جبری طور پر عقیدے کو تھوپنے کا سبب ہے جو اس آیت «لاَ إِكْراہ في الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ»[؟؟][15] کہ دین میں کسی طرح کا جبر و اکراہ نہیں ہے، کے ساتھ تعارض رکھتا ہے۔[16] شیعہ مفسرین نے اس شبہہ کے جواب میں الگ الگ موقف اختیار کیا ہے جیسے:

  1. قرآن مجید کی صریح اور غیر صریح تمام آیات اس شرط پر متوقف ہیں کہ جہاد مظلومین کی مدد، برے حالات سے جنگ اور دین کو آزادی کے ساتھ انتخاب کرنے کا زمینہ فراہم کرے نہ یہ کہ دین کو جبری طور پر تھوپا جائے۔ بعض لوگوں نے اسی بنیاد پر تمام جہاد کو جہاد دفاعی قرار دیا ہے۔[17]
  2. آیات جہاد میں سے کسی ایک آیت میں بھی مسلمانوں پر واجب نہیں کیا گیا ہے کہ وہ مشرکوں سے جنگ کریں اور انہیں اسلام قبول کرنے پر مجبور کریں اور قبول نہ کرنے کی صورت میں انہیں قتل کر دیں۔[18]
  3. جہاد ابتدائی، اجبرای طور پر دین تھوپنے کا نام نہیں ہے بلکہ دین اسلام کی فرمانروائی اور حکومت کا نام ہے۔[19] محمد تقی مصباح یزدی کے مطابق پروردگار کا حق ہے کہ سارے عالم میں اس کی عبادت کی جائے پس اس کے بندوں کا ایک گروہ اس بات پر مأمور ہو کہ حق اللہ کی ادائگی کے واسطے جہاد ابتدائی کرے اور وہ لوگ جو شرک و کفر کی راہ پر چل رہے ہیں اور ظلم و فساد کا راستہ اختیار کئے ہوئے ہیں ان سے جنگ کرے تاکہ دین خدا کی حکومت قائم ہو سکے۔[20]

حوالہ جات

  1. صرامی، عدالت نژاد، «جهاد» ۱۳۸۶ش، ج۱۱، ص۴۳۴.
  2. منتظری، مجازات‌هاى اسلامى و حقوق بشر، ۱۴۲۹ق، ص۹۰.
  3. مصباح یزدی، جنگ و جهاد در قرآن، ۱۳۸۳ش، ص۱۳۹.
  4. انصاری، الموسوعة الفقهیة المیسره، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۲۴؛ صرامی، عدالت نژاد، «جهاد» ۱۳۸۶ش، ج۱۱، ص۴۳۴.
  5. بهرامی، نظام سیاسی اجتماعی اسلام، ۱۳۸۰ش، ص۱۳۹-۱۴۱.
  6. منتظری، حکومت دینی و حقوق انسان، ۱۳۸۷ش، ص۶۰؛ منتظری، پاسخ به پرسش‌هایی پیرامون مجازات‌های اسلامی و حقوق بشر، ۱۳۸۷ش، ص۹۰.
  7. «جهاد ابتدایی».، پایگاه اطلاع‌رسانی دفتر حضرت آیت‌الله مکارم شیرازی.
  8. صالحی نجف‌آبادی، جهاد در اسلام، ۱۳۸۶ش، ص۳۴-۳۵.
  9. مصباح‌ یزدی، اخلاق در قرآن، ۱۳۹۱ش، ج۳، ص۴۰۸.
  10. عمید زنجانی، فقہ سیاسی، ج۳، ۱۳۷۷ش، ص۱۳۹۔
  11. جاوید، «حقوق بشر معاصر و جہاد ابتدایی در اسلام معاصر»، ص۱۲۹-۱۳۴۔
  12. جاوید، «حقوق بشر معاصر و جہاد ابتدایی در اسلام معاصر»، ص۱۲۷-۱۲۹۔
  13. رییس‌ زادہ، «خویی، ابوالقاسم»، ص۵۱۸۔
  14. مؤمن، «جہاد ابتدایی در عصر غیبت»، ص۵۱۔
  15. سورہ بقرہ، آیہ ۲۵۶۔
  16. کامیاب، «بررسی شبہہ جہاد ابتدایی در تفسیر آیہ لا اکراہ فی الدین»، ص۸۔
  17. کامیاب، «بررسی شبہہ جہاد ابتدایی در تفسیر آیہ لا اکراہ فی الدین»، ص۲۷۔
  18. کامیاب، «بررسی شبہہ جہاد ابتدایی در تفسیر آیہ لا اکراہ فی الدین»، ص۲۸۔
  19. کامیاب، «بررسی شبہہ جہاد ابتدایی در تفسیر آیہ لا اکراہ فی الدین»، ص۱۶۔
  20. کامیاب، «بررسی شبہہ جہاد ابتدایی در تفسیر آیہ لا اکراہ فی الدین»، ص۱۶۔

مآخذ

  • بہرامی، قدرت اللہ، نظام سیاسی اجتماعی اسلام، قم، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی، ۱۳۸۰ہجری شمسی۔
  • جاوید، محمد جواد، و علی محمد دوست، «حقوق بشر معاصر و جہاد ابتدایی در اسلام معاصر»، در پژوہش‌ نامہ حقوق اسلامی، سال یازدہم، ش۲، پاییز و زمستان ۱۳۸۹ہجری شمسی۔
  • «جہاد ابتدایی»، سایت دفتر آیت اللہ مکارم شیرازی، تاریخ بازدید: ۲۲ تیر ۱۳۹۶ہجری شمسی۔
  • رئیس‌ زادہ، محمد، «خویی، ابوالقاسم»، دانشنامہ جہان اسلام، بنیاد دایرۃ المعارف اسلامی، ۱۳۷۵ہجری شمسی۔
  • صالحی نجف‌ آبادی، نعمت‌ اللہ، جہاد در اسلام، تہران، نشر نی، ۱۳۸۶ہجری شمسی۔
  • کامیاب، حسین، و احمد قدسی، «بررسی شبہہ جہاد ابتدایی در تفسیر آیہ لا اکراہ فی الدین»، در مجلہ مطالعات تفسیری، ش۱۱، پاییز ۱۳۹۱ہجری شمسی۔
  • عمید زنجانی، عباس علی، فقہ سیاسی، تہران، امیر کبیر، ۱۳۷۷ہجری شمسی۔
  • منتظری، حسین علی، پاسخ بہ پرسش‌ ہایی پیرامون مجازات‌ ہای اسلامی و حقوق بشر، قم، ارغوان دانش، ۱۳۸۷ہجری شمسی۔
  • مفتح، محمد ہادی، «جہاد ابتدایی در قرآن و سیرہ پیامبر»، در مجلہ علوم حدیث، ش۵۶، تابستان ۱۳۸۹ہجری شمسی۔
  • مؤمن، محمد، «جہاد ابتدایی در عصر غیبت»، در مجلہ فقہ اہل بیت، ش۲۶، تابستان ۱۳۸۰ہجری شمسی۔