مندرجات کا رخ کریں

"آیت وسیلہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 32: سطر 32:
|اے ایمان والو اللہ سے ڈرو! اور اس تک پہنچنے کے لیے وسیلہ تلاش کرو۔ اور اس کی راہ میں جہاد کرو۔ تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔(۳۵)
|اے ایمان والو اللہ سے ڈرو! اور اس تک پہنچنے کے لیے وسیلہ تلاش کرو۔ اور اس کی راہ میں جہاد کرو۔ تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔(۳۵)
}}
}}
== مضامین ==<!--
== مضامین ==
واژہ وسیلہ در [[آیہ]] ۳۵ [[سورہ مائدہ]] را بہ رساندن خود و یا [[تقرب]] بہ چیزی از روی میل و رغبت معنا کردہ‌اند و حقیقت وسیلہ بہ سوی [[خداوند]] را رعایت راہ و روش او بہ وسیلہ علم و [[عبادت]] و جستجوی مکارم شریعت دانستہ‌اند؛<ref>راغب اصفہانی، مفردات، ۱۴۱۲ق، ذیل واژہ وسل۔</ref> بہ این معنا کہ اولا بہ احکام الہی علم پیدا شود و در ثانی بہ بندگی او بپردازند و در نہایت در پی عمل بہ مستحبات شریعت باشند۔<ref>موسوی ہمدانی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۵، ص۵۳۵۔</ref> [[علامہ طباطبایی]] وسیلہ در این آیہ را نوعی توصل معنوی میان انسان با خدا کہ منزہ از مکان و جسمانیت است، می‌داند؛ رابطہ‌ای کہ جز با [[عبادت|عبودیت]] ایجاد نمی‌شود و علم و عمل کہ در تعریف [[راغب اصفہانی]] بود را از لوازم وسیلہ قرار می‌دہد۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۵، ص۳۲۸۔</ref>
[[سورہ مائدہ]] کی 35ویں آیت میں وسیلہ سے مراد میل اور رغبت کے ساتھ اپنے آپ کو کسی چیز تک پہنچانا یا اس کا [[تقرب]] حاصل کرنا لیا گیا ہے۔ خدا تک پہنچنے کا وسیلہ خدا کے بتائے ہوئے راستوں پر کو پہچان کر ان پر گامزن ہونا یعنی [[عبادت]] اور شریعت کی پابندی قرار دی گئی ہے؛<ref>راغب اصفہانی، مفردات، ۱۴۱۲ق، ذیل واژہ وسل۔</ref> یعنی سب سے پہلے احکام الہی سے آگاہ ہو اور اس کے بعد اس علم کی روشنی میں خدا کی عبادت و بندگی انجام دے اور شریعت کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو۔<ref>موسوی ہمدانی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۵، ص۵۳۵۔</ref> [[علامہ طباطبائی]] اس آیت میں وسیلہ کو انسان اور خدا کے درمیان معنوی رابطہ قرار دیتے ہیں کیونکہ خدا جسم اور مکان نہیں رکھتا اور یہ رابطہ سوائے [[عبادت|عبودیت]] اور بندگی کے ایجاد نہیں ہو سکتا۔ علامہ مزید فرماتے ہیں کہ وسیلے کی تعریف میں [[راغب اصفہانی]] نے جو علم اور عمل کی بات کی ہے حقیقت میں یہ دونوں وسیلہ کے ذرایع ہیں نہ خود وسیلہ۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۵، ص۳۲۸۔</ref>
<br />
<br />
این آیہ رسیدن بہ [[رستگاری]] را در پیمودن سہ راہکار رعایت [[تقوا|تقوای الہی]]، انتخاب وسیلہ‌ای برای تقرب بہ [[پروردگار]] و [[جہاد]] در راہ خدا دانستہ است۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۴، ص۳۶۴۔</ref> برخی جہاد را در این آیہ بہ صورت عام کہ ہم شامل جہاد با کفار و ہم جہاد با نفس باشد، تفسیر کردہ‌ و معتقدند بیان جہاد در راہ خدا بعد از بیان انتخاب وسیلہ تقرب بہ خدا از قبیل ذکر خاص بعد از عام است یعنی جہاد از مصادیق وسایل تقرب بہ خداوند است۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۵، ص۳۲۸۔</ref>
اس آیت میں [[رستگاری]] اور نجات کو تین امور؛ [[تقوا|تقوای الہی]] کی رعایت، خدا تک پہنچنے کے لئے وسیلے کا انتخاب اور خدا کی راہ میں [[جہاد]] سے مشروط قرار دیتے ہیں ۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۴، ص۳۶۴۔</ref> بعض مفسرین اس آیت میں جہاد سے اس کا عمومی معنا مراد لیتے ہیں جس میں کفار اور مشرکین کے ساتھ جہاد اور نفس کے ساتھ جہاد دونوں کو شامل کرتا ہے۔ کیونکہ خدا تک پہنچنے کے وسیلے کے انتخاب کے بعد جہاد کا تذکرہ آنا حقیقت میں عام کے بعد خاص کے تذکرے کے قانون میں سے ہے کیونکہ خدا کی راہ میں جہاد حقیقت میں خدا تک پہنچنے کے ذرایع میں سے ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۵، ص۳۲۸۔</ref>


== مصادیق وسیلہ ==
== وسیلہ کے مصادیق ==<!--
[[مفسران]] منظور از وسیلہ را در این آیہ بسیار وسیع دانستہ و شامل ہر کاری و چیزی کہ باعث نزدیک شدن بہ خداوند گردد، می‌دانند و مہم‌ترین این وسایل را طاعت و عبادت خداوند و ترک [[معصیت]] معرفی کردہ‌اند۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۳، ص۲۹۳؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۱۱، ص۳۴۹۔</ref> برخی از مفسران با استناد بہ [[روایت|روایتی]] از [[امام علی(ع)]]<ref>ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ۱۴۰۴ق، ص۱۴۹۔</ref> وسایل [[تقرب]] بہ خداوند را در [[ایمان]] بہ خدا و رسولش، جہاد در راہ خدا، [[نماز]]، [[روزہ]]، [[زکات]]، [[انفاق]]، [[حج]]، [[عمرہ]]، [[صلہ رحم]]، [[صدقہ| صدقہ آشکار و مخفی]] و [[ذکر| ذکر خدا]] دانستہ‌اند۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۴، ص۳۶۴۔</ref>
[[مفسران]] منظور از وسیلہ را در این آیہ بسیار وسیع دانستہ و شامل ہر کاری و چیزی کہ باعث نزدیک شدن بہ خداوند گردد، می‌دانند و مہم‌ترین این وسایل را طاعت و عبادت خداوند و ترک [[معصیت]] معرفی کردہ‌اند۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۳، ص۲۹۳؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۱۱، ص۳۴۹۔</ref> برخی از مفسران با استناد بہ [[روایت|روایتی]] از [[امام علی(ع)]]<ref>ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ۱۴۰۴ق، ص۱۴۹۔</ref> وسایل [[تقرب]] بہ خداوند را در [[ایمان]] بہ خدا و رسولش، جہاد در راہ خدا، [[نماز]]، [[روزہ]]، [[زکات]]، [[انفاق]]، [[حج]]، [[عمرہ]]، [[صلہ رحم]]، [[صدقہ| صدقہ آشکار و مخفی]] و [[ذکر| ذکر خدا]] دانستہ‌اند۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۴، ص۳۶۴۔</ref>
<br />
<br />
[[شفاعت]] [[پیامبران]]، [[امامان]] و بندگان صالح خدا، ہمچنین پیروی از پیامبر و امام و سوگند دادن خدا بہ مقام پیامبران، امامان و صالحان بہ ویژہ [[پیامبر اسلام(ص)]] و [[اہل بیت| اہل بیت او]] را با استناد بہ آیات<ref>سورہ نساء، آیہ ۶۴؛ سورہ یوسف، آیہ ۹۷؛ سورہ توبہ آیہ ۱۱۴۔</ref> و روایات<ref>حویزی، تفسیر نور الثقلین، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۶۲۵-۶۲۶؛ سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۶۰۔</ref> از مصادیق وسیلہ در آیہ دانستہ‌اند۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۴، ص۳۶۴۔</ref>
[[شفاعت]] [[پیامبران]]، [[امامان]] و بندگان صالح خدا، ہمچنین پیروی از پیامبر و امام و سوگند دادن خدا بہ مقام پیامبران، امامان و صالحان بہ ویژہ [[پیامبر اسلام(ص)]] و [[اہل بیت| اہل بیت او]] را با استناد بہ آیات<ref>سورہ نساء، آیہ ۶۴؛ سورہ یوسف، آیہ ۹۷؛ سورہ توبہ آیہ ۱۱۴۔</ref> و روایات<ref>حویزی، تفسیر نور الثقلین، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۶۲۵-۶۲۶؛ سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۶۰۔</ref> از مصادیق وسیلہ در آیہ دانستہ‌اند۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۴، ص۳۶۴۔</ref>
 
-->
== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات2}}
{{حوالہ جات2}}

نسخہ بمطابق 11:02، 18 دسمبر 2020ء



آیت وسیلہ
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامآیت وسیلہ
سورہمائدہ
آیت نمبر35
پارہ6
محل نزولمدینہ
موضوعاعتقادی
مضمونخدا سے تقرب کے لئے وسیلہ کا انتخاب؛ توسل کی مشروعیت


آیہ وسیلہ، سورہ مائدہ کی آیت نمبر 35 کو کہا جاتا ہے جس میں انسان کی نجات اور رستگاری کو تقوای الہی، خدا تک پہچنے کے لئے وسیلے کی تلاش اور اس کی راہ میں جہاد کے ساتھ مشروط کیا ہے۔

مفسرین اس آیت میں وسیلہ سے مراد خدا اور پیغمبر اکرمؐ پر ایمان، عمل صالح، نماز، روزہ، پیغمبر اکرم اور ائمہ معصومین کی شفاعت اور خدا کو انبیاء اور ائمہ معصومین کے مقام و منصب کی قسم دینا قرار دیتے ہیں۔

آیت کا متن اور ترجمہ

یا أَیہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہَ وَابْتَغُوا إِلَیہِ الْوَسِیلَۃَ وَجَاہِدُوا فِی سَبِیلِہِ لَعَلَّکمْ تُفْلِحُونَ ﴿۳۵﴾[؟؟]


اے ایمان والو اللہ سے ڈرو! اور اس تک پہنچنے کے لیے وسیلہ تلاش کرو۔ اور اس کی راہ میں جہاد کرو۔ تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔(۳۵)


مضامین

سورہ مائدہ کی 35ویں آیت میں وسیلہ سے مراد میل اور رغبت کے ساتھ اپنے آپ کو کسی چیز تک پہنچانا یا اس کا تقرب حاصل کرنا لیا گیا ہے۔ خدا تک پہنچنے کا وسیلہ خدا کے بتائے ہوئے راستوں پر کو پہچان کر ان پر گامزن ہونا یعنی عبادت اور شریعت کی پابندی قرار دی گئی ہے؛[1] یعنی سب سے پہلے احکام الہی سے آگاہ ہو اور اس کے بعد اس علم کی روشنی میں خدا کی عبادت و بندگی انجام دے اور شریعت کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو۔[2] علامہ طباطبائی اس آیت میں وسیلہ کو انسان اور خدا کے درمیان معنوی رابطہ قرار دیتے ہیں کیونکہ خدا جسم اور مکان نہیں رکھتا اور یہ رابطہ سوائے عبودیت اور بندگی کے ایجاد نہیں ہو سکتا۔ علامہ مزید فرماتے ہیں کہ وسیلے کی تعریف میں راغب اصفہانی نے جو علم اور عمل کی بات کی ہے حقیقت میں یہ دونوں وسیلہ کے ذرایع ہیں نہ خود وسیلہ۔[3]
اس آیت میں رستگاری اور نجات کو تین امور؛ تقوای الہی کی رعایت، خدا تک پہنچنے کے لئے وسیلے کا انتخاب اور خدا کی راہ میں جہاد سے مشروط قرار دیتے ہیں ۔[4] بعض مفسرین اس آیت میں جہاد سے اس کا عمومی معنا مراد لیتے ہیں جس میں کفار اور مشرکین کے ساتھ جہاد اور نفس کے ساتھ جہاد دونوں کو شامل کرتا ہے۔ کیونکہ خدا تک پہنچنے کے وسیلے کے انتخاب کے بعد جہاد کا تذکرہ آنا حقیقت میں عام کے بعد خاص کے تذکرے کے قانون میں سے ہے کیونکہ خدا کی راہ میں جہاد حقیقت میں خدا تک پہنچنے کے ذرایع میں سے ہے۔[5]

وسیلہ کے مصادیق

حوالہ جات

  1. راغب اصفہانی، مفردات، ۱۴۱۲ق، ذیل واژہ وسل۔
  2. موسوی ہمدانی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۵، ص۵۳۵۔
  3. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۵، ص۳۲۸۔
  4. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۴، ص۳۶۴۔
  5. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۵، ص۳۲۸۔

مآخذ

  • ابن شعبہ حرانی، حسن بن علی، تحف العقول، تصحیح علی‌اکبر غفاری، قم، انتشارات اسلامی، ۱۴۰۴ق۔
  • حویزی، عبدعلی بن جمعہ، تفسیر نور الثقلین، تصحیح ہاشم رسولی، قم، اسماعیلیان، ۱۴۱۵ق۔
  • راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات الفاظ قرآن، لبنان - سوریہ،‌ دار العلم- الدار الشامیۃ‌، ۱۴۱۲ق۔
  • سیوطی، عبدالرحمن، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، قم، کتابخانہ حضرت آیت‌اللہ مرعشی نجفی، ۱۴۰۴ق۔
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۰ق۔
  • طباطبایی، محمدحسین، ترجمہ تفسیر المیزان، مترجم محمدباقر موسوی ہمدانی، قم، جامعہ مدرسین، ۱۳۷۴ش۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، تہران، ناصر خسرو، ۱۳۷۲ش۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسر الکبیر، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، ۱۴۲۰ق۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران،‌ دار الکتب الاسلامیۃ، ۱۳۷۱ش۔