"دیت" کے نسخوں کے درمیان فرق
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 70: | سطر 70: | ||
==دیت زیادہ ہونے کے موارد== | ==دیت زیادہ ہونے کے موارد== | ||
فقہ اسلامی کے مطابق اگر قتل بعض خاص شرائط میں واقع ہوجائے تو اس کی دیت اصل مقدار سے زیادہ ہوگی اور اس حکم کو تغلیظ دیہ کہا جاتا ہے۔ اضافہ ہونے والی مقدار کامل دیت کا ایک تہائی حصہ ہے یعنی قاتل ان خاص شرائط میں ایک کامل دیت کے علاوہ کامل دیت کی مقدار کا ایک تہائی حصہ بھی اس پر اضافہ ہوگا۔ یہ شرائط مندرجہ ذیل ہیں: | فقہ اسلامی کے مطابق اگر قتل بعض خاص شرائط میں واقع ہوجائے تو اس کی دیت اصل مقدار سے زیادہ ہوگی اور اس حکم کو تغلیظ دیہ کہا جاتا ہے۔ اضافہ ہونے والی مقدار کامل دیت کا ایک تہائی حصہ ہے یعنی قاتل ان خاص شرائط میں ایک کامل دیت کے علاوہ کامل دیت کی مقدار کا ایک تہائی حصہ بھی اس پر اضافہ ہوگا۔ یہ شرائط مندرجہ ذیل ہیں: | ||
*اگر قتل [[حرام | *اگر قتل [[حرام مہینے|حرام مہینوں]] یعنی [[رجب]]، [[ذیالقعدہ]]، [[ذیالحجہ]] اور [[محرم]] کے مہینوں میں واقع ہوجائے۔ | ||
*اگر قتل [[مکہ]] کے حرم میں واقع ہوجائے۔<ref>شیخ مفید، المقنعه، ۱۴۱۰ق، ص۷۴۳-۷۴۴؛ شهید ثانی، الروضه البهیه، مجمع الفکر الاسلامی، ج۴، ص۴۹۱؛ امام خمینی، تحریرالوسیله، دارالعلم، ج۲، ص۵۵۷.</ref> | *اگر قتل [[مکہ]] کے حرم میں واقع ہوجائے۔<ref>شیخ مفید، المقنعه، ۱۴۱۰ق، ص۷۴۳-۷۴۴؛ شهید ثانی، الروضه البهیه، مجمع الفکر الاسلامی، ج۴، ص۴۹۱؛ امام خمینی، تحریرالوسیله، دارالعلم، ج۲، ص۵۵۷.</ref> | ||
نسخہ بمطابق 13:19، 24 جولائی 2018ء
یہ تحریر توسیع یا بہتری کے مراحل سے گزر رہی ہے۔تکمیل کے بعد آپ بھی اس میں ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ اگر اس صفحے میں پچھلے کئی دنوں سے ترمیم نہیں کی گئی تو یہ سانچہ ہٹا دیں۔اس میں آخری ترمیم Hakimi (حصہ · شراکت) نے 6 سال قبل کی۔ |
بعض عملی اور فقہی احکام |
---|
یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
دیت وہ مال ہے جو کسی کو قتل کرنے یا بدن کے کسی عضو کو کاٹنے یا بدن پر زخم لگانے سے کسی فرد یا اس کے وارث پر واجب ہوتی ہے۔ دیت کے احکام فقہی کتابوں کے باب دیات میں بیان ہوئے ہیں۔ مختلف چوٹوں کے لیے اسلام میں مختلف مقدار میں دیت معین ہوئی ہے۔ جہاں پر دیت کی مقدار معین نہیں ہے وہاں پر ارش کے نام سے مجروح شخص کو کچھ مال دیا جاتا ہے۔ بعض صورتوں میں دیت عام مقدار سے زیادہ ہوتی ہے جیسے اگر جرم اور جنایت مکہ کے حرم میں واقع ہوئی ہو یا حرام مہینوں میں جرم کا ارتکاب ہوا ہو تو اس کو فقہ کی اصطلاح میں تغلیظ دیہ (دیت کو زیادہ کرنا) کہلاتا ہے۔
اسلامی روایات میں مرد اور عورت نیز مسلمان اور غیر مسلمان کے کامل دیت کی مقدار میں فرق ہے البتہ بعض فقہاء اس فرق کے مخالف ہیں اور تمام انسانوں کا دیہ مساوی اور برابر ہونے کے قائل ہیں۔ ایرانی فوجداری قانون (قانون مجازات اسلامی) کی آخری ترمیم کے مطابق مرد اور عورت کی دیت میں فرق کو پورا کرنے کے لیے کچھ طریقے اپنائے گئے ہیں اور بعض ممالک میں ہر سال وہاں کی عدلیہ انسان کے دیت کی مقدار کو معین اور اعلان کرتی ہے۔
تعریف
اسلامی نکتہ نظر میں اگر کسی نے اپنے جیسے انسان کو قتل کیا یا اس کے کسی عضو کو کاٹا یا اسے ناکارہ بنادیا یا مجروح کیا تو وہ خود یا اس کے وارث مال کی ایک خاص مقدار اسے ادا کریں گے اور اس مال کو دیت کہا جاتا ہے۔[1]اسلامی منابع اور فقہی متون میں ہر قسم کے زخم اور چوٹ کے لیے دیت معین ہے اور اگر کہیں دیت کی مقدار بیان نہ ہوئی ہو تو جس شخص پر چوٹ آئی ہے اس کو ارش کے عنوان سے کچھ مال دیا جائے گا۔ [2]
اگر کوئی عضو پر ظاہری طور سے کوئی نقص نہیں آیا ہے لیکن اس کی منفعت اور کارآمدی ختم ہوچکی ہے تو ایسے نقص میں بھی دیت لگ جاتی ہے۔ جیسا کہ اگر کسی کی سونگھنے اور سماعت کی حس ختم ہوجائے۔[3]
دیت حقیقت میں غیر عمدی یا خطایی قتل اور جراحتوں کے تاوان کو پورا کرتی ہے لیکن اگر جرم عمدی ہو تو بھی جس شخص پر یہ جرم واقع ہوئی ہے وہ قصاصکرنے (اسی جیسے عمل کا مرتکب ہونا) کے بجائے دیت لے سکتا ہے۔ [4]
دیت کی آیت
قرآن مجید سورہ نساء کی آیت نمبر 92 میں دیت کے بارے میں اشارہ ہوا ہے اور یہ آیت آیہ دیہ سے بھی مشہور ہے۔ « اور کسی مومن کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی مومن کو قتل کردے مگر غلطی سے اور جو غلطی سے قتل کردے اسے چاہئے کہ ایک غلام آزاد کرے اور مقتول کے وارثوں کو دیت دے مگر یہ کہ وہ معاف کردیں پھر اگر مقتول ایسی قوم سے ہے جو تمہاری دشمن ہے اور(اتفاق سے) خود مومن ہے تو صرف غلام آزاد کرنا ہوگا اور اگر ایسی قوم کا فرد ہے جس کا تم سے معاہدہ ہے تو اس کے اہل کو دیت دینا پڑے گی اور ایک مومن غلام آزاد کرنا ہوگا اور غلام نہ ملے تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنا ہوں گے یہی اللہ کی طرف سے توبہ کا راستہ ہے اور اللہ سب کی نیتوں سے باخبر ہے اور اپنے احکام میں صاحب حکمت بھی ہے۔» [یادداشت 1]
دیت کی اقسام
انسان پر آنے والی چوٹوں کے پیش نظر دیت کو تین قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ جان کی دیت، اعضاء کی دیت اور منافع کی دیت۔ دوسروں پر وارد کی جانے والی چوٹ اور عمل کی بھی تین صورتیں ہوسکتی ہیں:
- عمد: جان بوجھ کر کسی پر کوئی چوٹ لگائے تو اسلامی قوانین میں ستم دیدہ شخص کو قصاص کرنے کا حق پہنچتا ہے لیکن قصاص کئے دیت بھی لے سکتا ہے۔
- شبہ عمد: مجرم اس کام کا قصد کیا ہے جس سے جنایت واقع ہوئی ہے لیکن جرم اور جنایت کا قصد نہیں کیا ہے۔ مثلا کسی کو ادب سکھانے کی قصد سے مارے اور اسی سبب وہ شخص مر جائے۔ تو یہاں پر مارنے کا قصد کیا تھا لیکن قتل کا قصد نہیں تھا۔
- خطاء محض: نہ جرم کا قصد کیا ہے اور نہ ہی اس کام کا قصد کیا تھا جس سے جرم واقع ہوئی ہے مثلا شکار کی قصد سے فائر کیا تھا اور وہ گولی کسی انسان کو لگی اور مرگیا۔ [5]
نفس یا جان کی دیت
اگر کسی شخص کو جان بوجھ کر (عمداً) مارا جائے تو قاتل قصاص ہوگا[6]مگر یہ کہ مقتول کے وارث اور اولیاء دم(خوان خواہان) دیہ پر راضی ہوجائیں۔[7] اس صورت میں اور قتل شبہ عمد یا خطاء محض ہونے کی صورت میں جان کی دیت مندرجہ ذیل موارد میں ایک ہے اور قاتل ان میں سے جو بھی چاہے دیت کے طور پر دے سکتا ہے۔[8]
- سو ایسے اونٹ جن کی عمر پانچ سال پوری ہو؛
- دو سو صحیح اور متعارف گائے؛
- ایک ہزار گوسفند جو صحیح سالم ہو؛
- دو سو حُلّہ جو بُرد یمانی کے دو کپڑوں پر مشتمل ہے؛
- ایک ہزار دینار (ایک ہزار مثقال سکہ دار سونا)؛
- دس ہزار درہم (دس ہزار مثقال سکہ چاندی)۔[9]
قتل عمد میں دیت ادا کرنے کی مدت ایک سال ہے جو قاتل کے مال سے ادا کی جاتی ہے۔[10]قتل شبه عمد کی دیت بھی مذکورہ امور میں سے ہی ایک ہے صرف فرق اتنا ہے کہ اونٹ کی عمر میں کچھ تخفیف ہے اور ادا کرنے کی مدت بھی دو سال ہے جو قاتل کے مال سے ادا ہوتی ہے۔[11]قتل خطاء محض کی دیت بھی مندرجہ بالا امور میں سے ہی ایک ہے صرف اونٹ کی عمر میں کچھ تخفیف کے ساتھ ساتھ ادا کرنے کی مدت بھی تین سال ہے[12] جسے عاقلہ[13] اپنے مال سے ادا کرے گی اور قاتل سے کوئی چیز نہیں لینگے۔[14]
جنین کو ضایع کرنے کی صورت میں بھی انسان کی دیت واجب ہوتی ہے جو جنین کے جسمی تکاملی حالات کے مطابق مختلف ہوتی ہے۔[یادداشت 2][15] اور اگر عورت خود بچے کا سقط کرائے تو اس طفل کی دیت اس کے وارث کو ادا کرے۔[16]
اعضا کی دیت
فقہ اسلامی کے ایک کلی قاعدہ کے مطابق انسانی بدن کے اصلی اعضا جو ایک ہیں جیسے زبان، تو ان کی دیت کامل ہے لیکن جو اعضا دو ہیں جیسے کان، آنکھ وغیرہ تو اگر دونوں پر آسیب پہنچے تو دیت کامل ہوگی لیکن اگر ایک عضو پر آسیب آجائے تو نصف دیت ثابت ہوگی۔[17] صرف بیضتین اور دونوں لبوں کی دیت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔[یادداشت 3][18]
بعض وہ اعضاء جن کی دیت کامل ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
- کمر کو اس طرح سے توڑنا کہ شخص بیٹھ نہ سکے؛[19]
- تمام دانتوں کو نابود کرنا؛[20]
- دونوں ہاتھ یا دونوں پاؤں کی ساری انگلیوں کو کاٹنا؛[21]
- ریڑھ کی ہڈی کا مغز کاٹنا؛[22]
- ہنسلی کی دونوں ہڈیوں(گردن کے نیچے اور سینے کے اوپر کی دونوں ہڈیاں جو شانے سے ملی ہیں) کو توڑنا؛[23]
- سر یا داڑھی کے بال کو اس طرح سے نوچنا کہ دوبارہ بال نہ آگ سکیں اور احتیاط واجب کی بنا پر چاروں پلکوں کے بال نوچے اور دوبارہ سے نہ اگیں۔[24]
- گردن کو اس طرح سے توڑنا کہ خم ہوجائے اور قد کوتاہ ہوجائے۔[25]
- عورتوں کا سینہ یا پستان: ان دونوں کو نقصان پہنچائے تو عورت کی کامل دیت (مرد کی دیت کا نصف) ثابت ہوگی لیکن ہر ایک کے لیے نصف دیہ۔[26]
- مرد کی دونوں بیضے:[27]
- مرد کا آلت تناسل اور عورت کی شرمگاہ کے اطراف کا گوشت[28] اگر عورت کا افضاء ہوجائے یعنی خون حیض کی نالی اور پیشاب کی نالی ایک ہوجائے؛ تو اس صورت میں فقها نے کامل دیت کا حکم دیا ہے۔[29]
منافع کی دیت
اسلامی فقہ میں انسانی جسم کے بعض منافع اور کارآمدی کو نقصان پہنچانے کی بھی دیت معین ہوئی ہے جیسے، سوچنے کی صلاحیت ختم کرنا، یا سماعت، بصارت وغیرہ کو لطمہ پہنچائے اگرچہ عضو سالم ہو تو بھی دیت معین ہوئی ہے۔
شیعہ فقہ کے منابع کے مطابق بعض منافع مندرجہ ذیل ہیں:
- ذائقہ کی صلاحیت: امامیہ فقہا کے مطابق ذائقہ کی صلاحیت ختم کرنے کی کامل دیت ہے۔[30] بعض نے چبانے کی صلاحیت ختم کرنے پر بھی کامل دیت کا حکم دیا ہے۔[31]لیکن اکثر فقها ایسی آسیب اور نقصانات کے لیے ارش کے قائل ہوئے ہیں۔[32]
- آواز: آواز پر لطمہ وارد کرنے کی بھی کامل دیت ہے[33]اور اگر آواز کے علاوہ زبان کی حرکت بھی ختم ہوجائے تو زبان کی دیت کا دو تہائی حصہ بھی اس پر اضافہ ہوگا۔[34]
- جنسی انزال: اگر کسی کی جنسی رابطہ اور انزال کی طاقت کو ختم کرے تو اس پر بھی کامل دیت ثابت ہوگی۔[35]
- بول کو کنٹرول نہ کرسکنا: اگر ایسا لطمہ وارد کرے جس سے بول روک نہ سکے تو اس پر بھی کامل دیت ثابت ہوگی۔[36]
دیت زیادہ ہونے کے موارد
فقہ اسلامی کے مطابق اگر قتل بعض خاص شرائط میں واقع ہوجائے تو اس کی دیت اصل مقدار سے زیادہ ہوگی اور اس حکم کو تغلیظ دیہ کہا جاتا ہے۔ اضافہ ہونے والی مقدار کامل دیت کا ایک تہائی حصہ ہے یعنی قاتل ان خاص شرائط میں ایک کامل دیت کے علاوہ کامل دیت کی مقدار کا ایک تہائی حصہ بھی اس پر اضافہ ہوگا۔ یہ شرائط مندرجہ ذیل ہیں:
- اگر قتل حرام مہینوں یعنی رجب، ذیالقعدہ، ذیالحجہ اور محرم کے مہینوں میں واقع ہوجائے۔
- اگر قتل مکہ کے حرم میں واقع ہوجائے۔[37]
عاقلہ
حوالہ جات
- ↑ هاشمیشاهرودی، فرهنگ فقه، ۱۳۹۴ش، ج۳، ص۶۷۱
- ↑ محقق حلی، شرائع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۲۴۴؛ نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ق، ج۴۳، ص۱۶۸؛ امام خمینی، تحریرالوسیله، دارالعلم، ج۲، ص۵۷۰
- ↑ هاشمیشاهرودی، فرهنگ فقه، ۱۳۹۴ش، ج۳، ص۶۷۱-۶۷۲
- ↑ محقق حلی، شرائع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۲۲۸؛ امام خمینی، تحریرالوسیله، دارالعلم، ج۲، ص۵۵۴
- ↑ هاشمی شاهرودی، فرهنگ فقه، ۱۳۹۴ش، ص۶۷۲
- ↑ شیخ مفید، المقنعه، ۱۴۱۰ق، ص۷۶۰؛ نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ق، ج۴۲، ص۱۱؛ امام خمینی، تحریرالوسیله، دارالعلم، ج۲، ص۵۰۸.
- ↑ محقق حلی، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال والحرام، ۱۴۰۸، ج۴، ص۲۲۸؛ امام خمینی، تحریرالوسیله، دارالعلم، ج۲، ص۵۵۴.ِ
- ↑ شهید ثانی، الروضه البهیه فی شرح اللمعه الدمشقیه، مجمع الفکر الاسلامی، ج۴، ص۴۸۷؛ نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ق، ج۴۳، ص۴.
- ↑ محقق حلی، شرائع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۲۲۸؛ نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ق، ج۴۳، ص۴؛ شهید ثانی، الروضه البهیه، مجمع الفکر الاسلامی، ج۴، ص۴۷۷-۴۸۸؛امام خمینی، تحریرالوسیله، دارالعلم، ج۲، ص۵۵۴.ِ
- ↑ شهید ثانی، الروضه البهیه، مجمع الفکر الاسلامی، ج۴، ص۴۷۷-۴۸۸؛ محقق حلی، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال والحرام، ۱۴۰۸، ج۴، ص۲۲۸؛ امام خمینی، تحریرالوسیله، دارالعلم، ج۲، ص۵۵۵.
- ↑ محقق حلی، شرائع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۲۲۹؛ شهید ثانی، الروضه البهیه، مجمع الفکر الاسلامی، ج۴، ص۴۸۸؛ امام خمینی، تحریرالوسیله، دارالعلم، ج۲، ص۵۵۶-۵۵۷.
- ↑ امام خمینی، تحریرالوسیله، دارالعلم، ج۲، ص۵۵۷.
- ↑ محقق حلی، شرائع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۲۲۹.
- ↑ نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ق، ج۴۳، ص۲۵.
- ↑ شیخ صدوق، المقنع، ۱۴۱۵ق، ص۵۰۹؛ حر عاملی، الفصولالمهمة فی الاصولالائمة، ۱۳۷۶ق، ج۲، ص۵۳۴-۵۳۵؛ امام خمینی، تحریرالوسیله، دارالعلم، ج۲، ص۵۹۷.
- ↑ امام خمینی، تحریرالوسیله، دارالعلم، ج۲، ص۵۹۸.
- ↑ شیخ مفید، المقنعه، ۱۴۱۰ق، ص۷۵۴.
- ↑ شیخ مفید، المقنعه، ۱۴۱۰ق، ص۷۵۵؛ هاشمیشاهرودی، فرهنگ فقه، ۱۳۹۴ش، ج۳، ص۶۷۴.
- ↑ شیخ صدوق، المقنع، ۱۴۱۵ق، ص۵۱۱.
- ↑ محقق حلی، شرائع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۲۴۹.
- ↑ امام خمینی، تحریرالوسیله، دارالعلم، ج۲، ص۵۸۰.
- ↑ محقق حلی، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال والحرام، ۱۴۰۸، ج۴، ص۲۵۱.
- ↑ امام خمینی، تحریرالوسیله، دارالعلم، ج۲، ص۵۸۶.
- ↑ امام خمینی، تحریرالوسیله، دارالعلم، ج۲، ص۵۷۰.
- ↑ نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ق، ج۴۳، ص۲۴۳.
- ↑ شیخ صدوق، المقنع، ۱۴۱۵ق، ص۵۱۱؛ محقق حلی، شرائع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۲۵۱.
- ↑ شهید ثانی، الروضه البهیه، مجمع الفکر الاسلامی، ج۴، ص۵۱۴.
- ↑ محقق حلی، شرائع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۲۵۲.
- ↑ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۷، ص۱۴۹.
- ↑ علامه حلی، تحریر الاحکام، ۱۳۷۸ق، ج۵، ص۶۱۲.
- ↑ علامه حلی، قواعد الاحکام، ۱۴۱۹ق، ج۳، ص۶۸۹؛ علامه حلی، تحریر الاحکام، ۱۳۷۸ق، ج۵، ص۶۱۲.
- ↑ نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ق، ج۴۳، ص۳۱۱؛ امام خمینی، تحریرالوسیله، دارالعلم، ج۲، ص۵۹۲.
- ↑ امام خمینی، تحریرالوسیله، دارالعلم، ج۲، ص۵۹۳.
- ↑ علامه حلی، تحریر الاحکام، ۱۳۷۸ق، ج۵، ص۶۱۲.
- ↑ شهید ثانی، الروضه البهیه، مجمعالفکر الاسلامی، ج۴، ص۵۲۷.
- ↑ شهید ثانی، الروضه البهیه، مجمعالفکر الاسلامی، ج۴، ص۵۲۷.
- ↑ شیخ مفید، المقنعه، ۱۴۱۰ق، ص۷۴۳-۷۴۴؛ شهید ثانی، الروضه البهیه، مجمع الفکر الاسلامی، ج۴، ص۴۹۱؛ امام خمینی، تحریرالوسیله، دارالعلم، ج۲، ص۵۵۷.
نوٹ
مآخذ
- امام خمینی، روحالله، تحریرالوسیله، قم، دارالعلم، ۱۳۷۹ش.
- حر عاملی، محمد بن حسن، الفصولالمهمة فی الاصولالائمة، محقق: محمد قائنی، قم، موسسه معارف اسلامی امام رضا(ع)، ۱۳۷۶ق.
- سبحانی تبریزی، جعفر، رسایل و مقالات، قم، موسسه امام صادق، بیتا.
- شهید ثانی، زینالدین بن علی، الروضه البهیه فی شرح اللمعه الدمشقیه، قم، مجمع الفکر الاسلامی، بیتا.
- شیخ صدوق، محمد بن علی، المقنع، قم، پیام امام هادی(ع)، ۱۴۱۵ق.
- شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، المقنعه، قم، موسسه نشر اسلامی، ۱۴۱۰ق.
- صانعی، یوسف، مساواة الدیة بین الرجل و المرأة والمسلم و الکافر، قم، میثم تمار، ۱۴۲۷ق.
- طوسی، محمد بن حسن، الخلاف، قم، موسسه نشر اسلامی، بیتا.
- طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی الفقه الامامیة، محقق: محمدباقر بهبودی، تهران، مکتبة المرتضویه، ۱۳۸۷ق.
- عباسی، عاطفه، «نقد و بررسی نابرابری دیه زن و مرد در نظام حقوقی جمهوری اسلامی ایران»، در: پژوهشنامه زنان، پژوهشگاه علوم انسانی و مطالعات فرهنگی، سال هشتم، شماره دوم، تابستان ۱۳۹۶ش.
- علامه حلی، حسن بن یوسف، تحریر الاحکام الشرعیة علی مذهب الامامیة، محقق: ابراهیم بهادری، مصحح: جعفر سبحانی، قم، موسسه امام صادق(ع)، ۱۳۷۸ق.
- علامه حلی، حسن بن یوسف، قواعد الاحکام فی معرفة الحلال و الحرام، قم، موسسه نشر اسلامی، ۱۴۱۹ق.
- محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال والحرام، محقق: عبدالحسین بقال، قم، اسماعیلیان، ۱۴۰۸ق.
- مروج، حسین، اصطلاحات فقهی، قم، نشر بخشایش، ۱۳۷۹ش.
- نجفی، محمد حسن، جواهر الکلام، محقق: ابراهیم سلطانینسب، بیروت، دار الاحیاءالتراثالعربی، ۱۳۶۲ق.
- هاشمیشاهرودی، سید محمود، فرهنگ فقه، قم، موسسه دایرةالمعارف اسلامی، ۱۳۹۴ش.
خطا در حوالہ: "یادداشت" نام کے حوالے کے لیے ٹیگ <ref>
ہیں، لیکن مماثل ٹیگ <references group="یادداشت"/>
نہیں ملا یا پھر بند- ٹیگ </ref>
ناموجود ہے