خلود

ویکی شیعہ سے
(ہمیشگی زندگی سے رجوع مکرر)

خلود یا جاودانگی اسلامی تعلیمات کے مطابق آخرت میں ابدی زندگی کو کہا جاتا ہے جو الہی ادیان کے درمیان ایک مشترک نظریہ ہے۔ متعدد آیات اور اسلامی احادیث میں صراحت کے ساتھ خلود بیان ہوا ہے۔

اس نظریے کے مطابق تمام بہشتی مخلوق ہمیشہ کے لیے جنت میں رہیں گے۔ لیکن جہنم میں داخل ہونے والوں کا صرف ایک گروہ ہی اس میں رہے گا۔

جہنم میں کافروں کا ہمیشہ رہنے کے بارے میں مسلم علماء کا اتفاق ہے۔ معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ فاسق لوگ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے۔ لیکن شیعوں کا خیال ہے کہ ابدی عذاب ان کافروں کے لیے مخصوص ہے جن کو اسلام کی حقانیت معلوم ہونے کے باوجود اسلام مخالف رہے ہیں۔

بعض مسلمان فلسفیوں اور عرفا نے کہا ہے کہ جہنم میں خلود اور ہمیشگی خدا کی رحمت اور عدل سے مطابقت نہیں رکھتی اور ان کا عقیدہ ہے کہ یا تو خلود کا مطلب بہت لمبا عرصہ ہے یا پھر یہ کہ جہنم میں رہنے والے کچھ عرصے کے بعد مزید تکلیف نہیں اٹھائیں گے۔

دوسری طرف، دوسرے مسلمان علماء اور فلسفیوں نے روح کے تجرد اور جزا و سزا کو انسانی نفس کے ساتھ منحصر کرتے ہوئے خلود کے نظریے کی وضاحت کی ہے۔

خلود کی اہمیت اور مقام

خلود کا مطلب جاوید اور ابدی ہونا، ہمیشہ رہنا اور طویل عرصے تک زندہ رہنا ہے۔[1] موت کے بعد انسانی زندگی کا لافانی ہونا اسلام اور یہودیت اور عیسائیت سمیت دیگر بہت سے ادیان کی تعلیمات میں شامل ہے۔[2]

شیعہ مفسر اور متکلم جوادی آملی کے مطابق، شیعہ اور سنی علما سب خلود کو قبول کرتے ہیں، اور بعض اسے مذہب کے ضروریات میں شمار کرتے ہیں۔[3] ان کا مزید کہنا ہے کہ ادلہ اربعہ یعنی قرآن، حدیث، عقل اور اجماع خلود پر دلالت کرتی ہیں۔[4] جَہْم بن صَفْوان اور اس کے کچھ پیروکار جیسے بعض لوگ خلود کے مخالف تھے کیونکہ وہ جہنم اور جنت کے فانی ہونے پر یقین رکھتے تھے۔[5]

دینی متون میں خلود کی اہمیت

قرآن میں 85 بار خلود کے مترادف الفاظ استعمال ہوئے ہیں[6] جن میں سے «شَجَرۃُ الخُلد»[7] و «اَخلَدَ اِلی الْاَرض...»،[8] جیسی چند صورتوں کے علاوہ باقی سب جنت اور جہنم میں خلود کے بارے میں ہیں۔[9]

بعض احادیث کا اصل مضمون بھی اہل جنت اور دوزخیوں کا خلود ہے۔ ایک حدیث نبوی میں مذکور ہے کہ جب اہل جنت، جنت میں داخل ہوئے اور اہل جہنم آگ میں داخل ہوئے تو دونوں گروہوں کے درمیان ایک موذن کھڑا ہوتا ہے ندا دیتا ہے اے اہل جنت اور اے اہل جہنم، اب مزید کوئی موت نہیں ہے اور تم جہاں کہیں بھی ہو ہمیشہ رہنے والے ہو۔[10]

خلود اور آسمان و زمین کا دوام

مفسرین کے درمیان اختلافی مسائل میں سے ایک سورہ ہود کی آیات 107 اور 108 کی اہل جہنم اور جنت کے بارے میں تفسیر ہے جس میں "خالدین فیہا؛ اس میں ہمیشہ ہیں"، کے بعد یہ عبارت آئی ہے: "مادامت السموات و الارض الا ماشاء ربک؛ جب تک آسمان اور زمین باقی ہیں؛ جب تک تمہارا رب نہ چاہے۔" ان دو آیات کے ظہور نے اہل جنت اور جہنم کی بقا کو زمین و آسمان کی بقا اور خدا کی مشیت پر منحصر کر دیا ہے۔[11]

اِبن‌قَیِّم جوزی[12] اور محمد رشید رضا جیسے افراد کا کہنا ہے کہ اہل جہنم کا خلود اللہ تعالی کی مشیت سے وابستہ ہے یعنی اگر خدا چاہے تو وہ جہنم کی آگ سے نجات پائیں گے۔[13] بعض دوسرے لوگوں نے اس آیت کی تفسیر برزخ جنت اور جہنم سے کی ہے۔[14]

علامہ طباطبائی تفسیر المیزان میں قرآن کی دوسری آیات سے استفادہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قیامت کے آسمان اور زمین اس دنیا کے آسمانوں اور زمین سے مختلف ہیں اور آخرت کے آسمان اور زمین لافانی ہیں۔ لہٰذا اس میں کوئی تضاد نہیں ہے اور خلود اپنی جگہ برقرار ہے۔[15]

بہشت میں جاویدانگی

اہل جنت کے خلود اور ہمیشگی کے بارے میں سوائے جَہْم بن صَفْوان اور اس کے بعض پیروکاروں[16] کے علاوہ کسی نے شک نہیں کیا ہے۔[17] ان کا عقیدہ بھی بہشت اور جہنم کے فانی ہونے کے عقیدے سے نکلا ہے۔[18]جنت اور جہنم کی ہمیشگی کے لیے بہت سی آیات مثلاً مائدہ کی آیت نمبر 119، سورہ واقعہ آیت نمبر 33 سورہ ہود آیت نمبر 108 وغیرہ سے استناد کیا گیا ہے۔[19]

قرآن کے شیعہ مفسر جوادی آمُلی کے مطابق جنت والوں اور جہنم والوں میں فرق یہ ہے کہ جنت میں رہنے والا ہر فرد جنت میں ہمیشہ رہنے والا ہے۔ لیکن تمام جہنمی لوگ جہنم میں ہمیشہ نہیں رہیں گے، اور جہنمی لوگوں میں سے کچھ جہنم سے نکل جائیں گے؛[20] کیونکہ اللہ تعالی نے اہل جنت سے ابدیت کا وعدہ کیا ہے، اور خدا کے لئے وعدہ خلافی کرنا ناممکن ہے۔[21]

جہنم میں خلود

قرآن مجید کی چالیس سے زیادہ آیات جہنم میں لوگوں کی ہمیشگی کے بارے میں ہیں۔ بعض آیات جیسے سورہ نساء کی آیت نمبر 169، احزاب کی آیت نمبر 65 اور سورہ جن کی آیت نمبر 23، جو کافروں، ظالموں، اور خدا اور رسول کے نافرمانوں کے بارے میں ہیں، جن میں "خالدین فیہا" کے بعد "ابداً" کی عبارت آئی ہے۔[22]کلی طور پر قرآن میں کفار،[23] مشرک،[24] اور منافقوں.[25] کو جہنم کی آگ میں ہمیشہ رہنے کی دھمکی دی گئی ہے:

جہنم میں خلود کے بارے میں بہت سی احادیث مذکور ہیں۔ علامہ طباطبائی کے مطابق عذاب میں ہمیشہ مبتلا رہنے کے متعلق اہل بیتؑ سے منقول روایات استفاضہ حد تک پہنچ چکی ہیں۔[26]

اکثر شیعہ متکلمین کافروں کا جہنم میں ہمیشہ رہنے پر عقیدہ رکھتے ہیں۔[27] جبکہ جاحظ اور عبداللہ بن حسن عنبری کا کہنا ہے کہ عذاب میں جاویدانگی صرف ان کافروں سے مختص ہے جو اسلام دشمنی میں کافر ہیں ورنہ حقیقت ان پر عیاں ہو چکی ہے؛ لیکن اگر کوئی بہت کوشش کرے اور اس پر حق کے دلائل آشکار نہ ہو اور اسی وجہ سے وہ اسلام قبول نہ کرے تو وہ اس کے لئے عذر ہے اور اس کی سزا جہنم میں ختم ہوگی۔[28]

معتزلہ کا خیال تھا کہ فاسق اگرچہ نہ تو کافر ہے اور نہ ہی مومن اسی لئے اس کی جگہ منزلۃٌ بینَ الْمنزلتَین ہے اور وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ رہے گا۔[29] دوسری طرف شیعہ متکلمین کا عقیدہ ہے کہ جہنم میں ہمیشگی، کافروں کے لیے مخصوص ہے[30] اور فاسق آگ میں ہمیشہ نہیں رہیں گے اور سورہ نساء کی آیت نمبر 14 جیسی آیات میں خلود کو لمبا عرصہ ٹھہرنا مراد لیتے ہیں یا انہیں کافروں کے لیے مخصوص سمجھتے ہیں۔[31] تفتازانی کے مطابق اشاعرہ کا بھی یہی عقیدہ تھا۔[32]

لامحدود عذاب کی مخالفت

مسلم علماء میں سے، مفکرین کا ایک گروہ جو زیادہ صوفیانہ اور فلسفیانہ رجحانات رکھتا ہے، عذاب میں ہمیشگی کے مخالف ہے[33] جن میں محیی الدین ابن‌عربی[34] عبدالرزاق کاشی،[35] داوود قیصری،[36] اور ملاصدرا[37] شامل ہیں۔ ملا صدرا نے لکھا ہے کہ ابدی عذاب کے طرفدار نہیں جانتے ہیں کہ اللہ کی رحمت عام اور وسیع ہے جو ہر چیز کو پہنچتی ہے۔[38]

البتہ انہوں نے کتاب عرشیہ[39] میں جہنم کے عذاب جہنم کو دائمی قرار دیا ہے[40] اور اَسفار میں کہا ہے کہ کافروں کی آگ میں ہمیشگی صرف ان کے غلط عقائد کی وجہ سے ہے؛ کیونکہ عقیدہ کی خرابی، روح کی خرابی کا سبب بنتی ہے اور آخرکار اس کی تباہی کا سبب بنتی ہے؛ عملی خرابی کے برخلاف کیونکہ اس کے حل ہونے کا امکان ہے۔[41]

ابن‌عربی اور ان کے بعض پیروکاروں کی نقد میں کہا گیا ہے کہ یہ رائے جہنم میں عذاب اور ہمیشگی کے بارے میں پائی جانے والی قرآنی آیات کے سیاق و سباق سے مطابقت نہیں رکھتی اور اہل اسلام کے اجماع کے خلاف ہے۔[42]

جاودانگی و نفس شناسی

انسانی روح یا نفس کی جاودانگی اور ابدیت کا موت کے بعد کی ابدی زندگی اور خلود کے ساتھ مکمل مربوط ہے۔[43] جوادی آملی کہتے ہیں کہ خلود کے بارے میں موجود تمام سوالات کا حل روح کا تَجَرُّد، ثبات اور اسے موت نہ آنے کو ماننے میں ہے۔.[44]

فلسفیوں اور دینی علما نے لافانییت اور جاودانگی کی وضاحت کے لیے کئی طریقے آزمائے ہیں:

مسلمان اور شیعہ علمائے کرام کی اکثریت نے جسم میں روح کی واپسی کے ذریعے انسان کے ابدیت اور ہمیشگی کو بیان کیا ہے۔[45] لوگوں کے ایک گروہ نے، چونکہ وہ انسان کو ایک وہی جسم اور بدن سمجھتے تھے، اس لیے جاودانگی کو اعادۂ معدوم یعنی ختم شدہ شخص کا واپس آنے کے دریچے سے دیکھا ہے۔[46]

ایک اور گروہ نے جاودانگی کو جسم مثالی یا جسم لطیف کے زوائے سے دیکھا ہے۔[47] یہ جسم مادی جسم سے بعض چیزوں میں مشابہت رکھتا ہے اور بعض فرق بھی ہیں اور ان فرق کے سبب مادی جسم کو موت آنے کے بعد بھی یہ ہمیشہ رہتا ہے۔[48] بعض مسلم اور غیر مسلم مفکرین نے جاودانگی کی وضاحت کے لئے تناسخ کا سہارا لیا ہے۔[49]

حوالہ جات

  1. بیہقی، تاج المصادر، 1375شمسی، ج1، ص13؛ زبیدی، تاج العروس،1414ھ، ج8، ص61.
  2. بلانیان و دہقانی محمودآبادی، «خلود در عذاب»، ص177.
  3. جوادی آملی، تسنیم، 1388شمسی، ج8، ص386۔
  4. جوادی آملی، تسنیم،‌ 1388شمسی، ج8، ص389۔
  5. اشعری، مقالات الاسلامیین، 1400ھ، ص474۔
  6. رضایی ہفتادر، «ارزیابی نظریہ انقطاع عذاب جہنم»، ص34.
  7. سورہ طہ، آیہ 120۔
  8. سورہ اعراف، آیہ 176۔
  9. عبدالباقی، المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم
  10. بخاری، الصحیح، 1401ھ، ج7، ص199
  11. جوادی آملی، تسنیم، 1395شمسی، ج39، ص387۔
  12. ابن قیم الجوزیہ، حادی الارواح، 1392ھ، ص404۔
  13. رشیدرضا، تفسیر المنار، 1371ھ، ج8، ص69۔
  14. جوادی آملی، تسنیم، 1395شمسی، ج39، ص415۔
  15. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج11، ص107-108۔
  16. اشعری، مقالات الاسلامیین، 1400ھ، ص474.
  17. جوادی آملی، تسنیم،‌ 1388شمسی، ج8، ص388۔
  18. اشعری، مقالات الاسلامیین، 1400ھ، ص474۔
  19. جوادی آملی، تسنیم‌، 1395شمسی، ج39، ص408۔
  20. جوادی آملی، تسنیم،‌ 1388شمسی، ج8، ص385-386۔
  21. جوادی آملی، تسنیم،‌ 1388شمسی، ج8، ص384۔
  22. عبدالباقی، المعجم المفہرس، ذیل ریشہ «خلد»۔
  23. سورہ آل‌عمران، آیہ 116؛ سورہ بینہ، آیہ 6، سورہ احزاب،آیہ 64-65۔
  24. سورہ بینہ، آیہ 6؛ سورہ فرقان، آیہ 68-69۔
  25. سورہ توبہ، آیہ68، سورہ مجادلہ، آیہ 14-17۔
  26. طباطبائی، المیزان، 1417ھ، ج1، ص412۔
  27. ملاحظہ کریں: علامہ حلی، کشف المراد، 1427ھ، ص561؛ تفتازانی، شرح المقاصد، 1371شمسی، ج5، ص134، جرجانی، شرح المواقف، 1370شمسی، ج8، ص307؛ فاضل مقداد، اللوامع الالہیہ، 1387شمسی، ص441۔
  28. فخر رازی، المحصل، 1411ھ، ص566؛ تفتازانی، شرح المقاصد، 1371شمسی، ج5، ص131؛ جرجانی، شرح المواقف، 1370شمسی، ج8، ص308-309۔
  29. اشعری، مقالات الاسلامیین، 1400ھ، ص474؛ بغدادی، الفرق بین الفرق، ص115، 118-119؛ نیز: قاضی عبدالجبار، شرح الاصول الخمسہ، 1408ھ، ص650۔
  30. ملاحظہ کریں: مفید، اوائل المقالات، 1330شمسی، ص14؛ مفید رسالہ شرح عقاد الصدوق، 1330شمسی، ص55؛ طوسی، تجرید الاعتقاد، 1407ھ، ص304، علامہ حلی، کشف المراد، 1427ھ، ص561؛ فاضل مقداد، اللوامع الالہیہ، 1387شمسی، ص441- 443
  31. ملاحظہ کریں: طوسی، تجرید الاعتقاد، 1407ھ، ص304؛ علامہ حلی، کشف المراد، 1427ھ، ص561-563؛ فاضل مقداد، اللوامع الالہیہ، 1387شمسی، ص443-445
  32. تفتازانی، شرح المقاصد، 1371شمسی، ج5، 135
  33. ساطع و رفیعا، «مقایسہ دیدگاہ امام خمینی در باب خلود با سایر آرا مخالف و موافق»، ص79۔
  34. ابن عربی، الفتوحات المکیہ، ج1، ص114، 303۔
  35. کاشی، شرح فصوص الحکم، 1383شمسی، ص123۔
  36. قیصری، شرح فصوص الحکم، 1375شمسی، ص726۔
  37. ملاصدرا، اسفار، 1981م، ج2، ص347-349؛ ملاصدرا، الشواہد الربوبیہ، 1386شمسی، ص385۔
  38. ملاصدرا، المبدأ و المعاد، 1354شمسی، ص 460
  39. ملاصدرا، العرشیہ، 1420ھ، ص95۔
  40. آشتیانی، شرح حال و آرای فلسفی ملاصدرا، 1378شمسی، ص255-256
  41. ملاصدرا، اسفار، 1981م، ج4، ص307-310
  42. ثقفی تہرانی، روان جاوید، 1386شمسی، ج1، ص152-156۔
  43. پورحسن، «بررسی انتقادی براہین علیہ جاودانگی و بقای نفس»، ص8-9۔
  44. جوادی آملی، تسنیم، 1388شمسی، ج8، ص392۔
  45. کریم‌زدہ قراملکی، «جاودانگی انسان از دیدگاہ قرآن»، ص71۔
  46. کریم‌زدہ قراملکی، «جاودانگی انسان از دیدگاہ قرآن»، ص69۔
  47. کریم‌زدہ قراملکی، «جاودانگی انسان از دیدگاہ قرآن»، ص70۔
  48. کریم‌زدہ قراملکی، «جاودانگی انسان از دیدگاہ قرآن»، ص70۔
  49. کریم‌زدہ قراملکی، «جاودانگی انسان از دیدگاہ قرآن»، ص71۔

مآخذ

  • آشتیانی، سید جلال‌الدین، شرح حال و آرای فلسفی ملاصدرا، دفتر تبلیغات اسلامی، قم 1378ہجری شمسی۔
  • ابن عربی، محمد بن علی، الفتوحات المکیہ، بیروت،‌دار صادر، [بی تا].
  • ابن قیم جوزیہ، حادی الارواح الی بلاد الافراح، چاپ سید جمیلی، بیروت شاکر، قاہرہ 1392/1972، ج22، چاپ احمد محمد شاکر و احمد عمر ہاشم، قاہرہ 1989.
  • اشعری، علی بن اسماعیل، مقالات الاسلامیین و اختلاف المصلین، چاپ ہلموت ریتر، ویسبادن 1400/1980.
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، الصحیح، [چاپ محمد ذہنی افندی]، استانبول 1401/1981.
  • بغدادی، عبدالقاہر بن طاہر، الفرق بین الفرھ، چااپ محمد محیی الدین عبدالحمید، قاہرہ.
  • بیہقی، احمد بن علی، تاج المصادر، چاپ ہادی عالم زادہ، تہران 1366-1375 ہجری شمسی۔
  • تفتازانی، مسعود بن عمر، شرح المقاصد، چاپ عبدالرحمان عمیرہ، قاہرہ 1409/1989، چاپ افست قم 1370-1371ہجری شمسی۔
  • ثقفی تہرانی، محمد، روان جاوید: در تفسیر قرآن مجید، تہران 1376ہجری شمسی۔
  • جرجانی، علی بن محمد، شرح المواقف، چاپ محمد بدرالدین نعسانی حلبی، مصر 1325/1907، چاپ افست قم 1370ہجری شمسی۔
  • جوادی آملی، عبداللہ، تسنیم، انتشارات اسراء، قم. سال‌ہای مختلف.
  • رشیدرضا، محمد، تفسیر القرآن الحکیم الشہیر بتفسیر المنار، [تقریرات درس] شیخ محمد عبدہ، ج8، قاہرہ 1371/1952.
  • زبیدی، محمد بن محمد، تاج العروس من جواہر القاموس، چاپ علی شیری، بیروت 1414/1994.
  • طباطبایی، محمد حسین، تفسیر المیزان، دفتر نشر اسلامی، قم، 1417ھ۔
  • طوسی، نصیرالدین محمد بن محمد، تجرید الاعتقاد، چاپ محمدجواد حسینی جلالی، قم 1407.
  • عبدالباقی، محمد فؤاد، المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم، قاہرہ 1364، چاپ افست تہران 1397ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، تحقیق: حسن حسن‌زادہ آملی، دفتر نشر اسلامی، قم، 1427ھ۔
  • فاضل مقداد، مقداد بن عبداللہ، اللوامع الالہیہ فی المباحث الکلامیہ، چاپ محمدعلی قاضی طباطبائی، قم 1387ہجری شمسی۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، کتاب المحصل، چاپ حسین اتای، قاہرہ 1411/1911.
  • قاضی عبدالجبار بن احمد، شرح الاصول الخمسۃ، چاپ عبدالکریم عثمان، قاہرہ 1408/1988.
  • قرطبی، محمد بن احمد، التذکرۃ فی احوال الموتی و امور الآخرۃ، چاپ سید الجمیلی، بیروت 1406/1986.
  • قیصری، داوود بن محمود، شرح فصوص الحکم، چاپ جلال الدین آشتیانی، تہران 1375ہجری شمسی۔
  • کاشی، عبدالرزاق، شرح فصوص الحکم، چاپ مجید ہادی زادہ، تہران 1383ہجری شمسی۔
  • مفید، محمد بن محمد، اوائل المقالات فی المذاہب و المختارات و یلی‌ہا رسالۃ شرح عقائد الصدوق او تصحیح الاعتقاد، چاپ عباسقلی(ص) وجدی (واعظ چرندابی) تبریز 1330ہجری شمسی۔
  • ملاصدرا شیرازی، صدرالدین محمد بن ابراہیم، الشواہد الربوبیۃ فی المناہج السلوکیۃ، با حواشی ملاہادی سبزواری، چاپ جلال الدین آشتیانی، قم 1386ہجری شمسی۔
  • ملاصدرا شیرازی، صدرالدین محمد بن ابراہیم، العرشیہ، مؤسسۃ التاریخ العربی، بیروت، 1420ھ۔
  • ملاصدرا شیرازی، صدرالدین محمد بن ابراہیم، المبدأ و المعاد، چاپ جلال الدین آشتیانی، تہران 1354ہجری شمسی۔
  • ملاصدرا شیرازی، صدرالدین محمد بن ابراہیم، اسفار (الحکمۃ المتعالیۃ فی الاسفار العقلیۃ الاربعۃ)، بیروت 1981.