اصحاب رقیم

ویکی شیعہ سے
(واقعہ اصحاب رقیم سے رجوع مکرر)

اصحاب‌ رَقيم‌ سے مراد ایک ایسا گروہ ہے جن کا نام کسی تختی پر لکھا ہوا تھا۔ اکثر شیعہ مفسرین اصحاب رقیم کو اصحاب کہف کا دوسرا نام قرار دیتے ہیں۔

البتہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ اصحاب رقیم تین اشخاص پر مشتمل تھے جو کسی غار میں قید ہو گئے تھے۔ اس موقع پر ان میں سے ہر ایک نے اپنے نیک کاموں کا تذکرہ کرتے ہوئے خدا سے استغاثہ کیا جس کے نتیجے میں وہ وہاں سے آزاد ہو گئے۔

وجہ تسمیہ

رقیم اور مرقوم کے معنی لکھے ہوئے کے ہیں۔[1] و خط[2] بعض لوگ "رقیم" کو رومن لفظ قرار دیتے ہیں جس کے معنی لوح یا تختی[3] جبکہ بعض دوسرے اسے سریانی زبان میں کسی مکان کا نام قرار دیتے ہیں۔[4] قرآن میں سورہ کہف کی آیت نمبر 9 أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا (ترجمہ: کیا تمہارا خیال یہ ہے کہ کہف و رقیم والے ہماری نشانیوں میں سے کوئی تعجب خیز نشانی تھے) میں اصحاب کہف کی داستان کے صمن میں اس لفظ کو ذکر کیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے اکثر مفسرین "رقیم" کو تختی یا لوح قرار دیتے ہیں جس پر اصحاب کہف یا کسی اور دوسرے گروہ کی داستان لکھی ہوئی تھی۔

اصحاب رقیم کا قصہ

اصحاب رقیم سے مراد کون لوگ ہیں، مفسرین کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے:

مشہور داستان

تفصیلی مضمون: اصحاب کہف

اکثر مفسرین بعض احادیث سے استناد کرتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ اصحاب رقیم، اصحاب کہف کا دوسرا نام ہے۔ اس حوالے سے وہ یہ دلیل دیتے ہیں چونکہ اصحاب کہف کا نام ایک لوح یا تختی پر لکھ کر اس غار کے دھانے پر نصب کیا گیا تھا اسی لئے انہیں اصحاب رقیم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔[5] البتہ اس لوح کی ماہیت کہ آیا یہ لوہے کی بنی ہوی تھی یا لکڑی کی نیز یہ کہ یہ کہاں نصب تھی، محل اختلاف ہے۔ بعض مفسرین رقیم کو اصحاب کہف کی آسمانی کتاب، قریہ، درہم‌، ان کا کتا اور وہ غار جس میں اصحاب کہف نے پناہ لیا تھا [6]وغیرہ سے تعبیر کرتے ہیں۔[7]

ضحاک بن مزاحم سے منقول ہے کہ "رقیم" روم میں ایک شہر کا نام ہے جہاں ایک غار ہے جس میں 21 لاشیں ہیں گویا گہری نیندھ سوئے ہوئے ہوں۔[8]

غیر مشہور داستان

بعض اور احادیث کے مطابق اصحاب رقیم تین جوانوں پر مشتمل تھے جو ایک دفعہ کسی غار میں داخل ہوئے اور غار کا دھانہ بند ہونے کی وجہ سے اسی میں محصور ہو گئے۔ وہاں سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا آخر کار انہوں نے فیصلہ کیا کہ ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے نیک اعمال کا ذکر کرنے کے ذریعے خدا سے استغاثہ کریں شاید غار کا دھانہ کھل جائے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور ان کا یہ عمل خدا کو پسند آیا یوں غار کا دھانہ کھل گیا اور وہ تینوں وہاں سے باہر آگئے۔[9]

غیر مشہور داستان کی تفصیل

شیخ صدوق کی ایک راویت کے مطابق تین اشخاص کہیں جا رہے تھے اتنے میں بارش شروع ہو گئی تو انہوں نے بارش سے بچنے کیلئے کسی غار میں پناہ لئے۔ ابھی وہ غار میں داخل ہی ہوئے تھے کہ غار کا دھانہ بند ہو گیا۔ ان میں سے ایک نے کہا یہاں سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اس سے پہلے انجام دیئے گئے نیک اعمال کو یاد کرنے کے ذریعے خدا سے مدد طلب کریں۔

ان میں سے ایک نے کہا: ایک دفعہ میں نے چاول کے ایک پیمانے کے عوض کوئی مزدور اجرت پر لیا، کام انجام دینے کے بعد وہ مزدور مزدوری لئے بغیر چلا گیا تھا یوں یہ چاول میرے پاس رہ گیا، میں نے وہ چاول کاشت کیا جس کے محصول سے میں نے ایک گائیں خریدلیا۔ کچھ مدت بعد وہ مزدور آ گیا اور نے اپنی مزدوری کا مطالبہ کیا تو میں وہ گائیں ان کے حوالے کیا۔ اس نے کہا میری مزدوری تو چاول کا ایک پیمانہ تھا۔ میں نے کہا یہ گائیں وہی چاول کا ایک پیمانہ ہے۔

دوسرے نے کہا: خدایا میرے والدین بڑھاپے کی حالت میں تھے اور میں ہر رات ان کیلئے دودھ لے جاتا تھا۔ ایک دن میں دیر سے ان کے یہاں پہنجا تو وہ دونوں سو چکے تھے۔ میں انہیں نیندھ سے بیدار کرنا مناسب نہیں جانا اور دوسری طرف سے انہیں دودھ دئے بغیر اپنی بیوی بچوں کیلئے بھی دودھ لے کر جانا مناسب نہیں جانا یوں پوری رات ان کے سرہانے بیٹھا رہا تاکہ وہ دونوں بیدار ہوں اور دودھ پی لیں۔

تیسرے شخص نے کہا: خدایا میں نے اپنی چچا زاد لڑکی سے ایک غلط مطالبہ کیا تھا جسے اس نے ایک شرط پر قبول کیا کہ میں اس کی مالی مدد کروں۔ جب میں نے اسے مطلوبہ رقم ادا کیا تو اس نے مجھ سے کہا خدا سے ڈرو اور اس کام سے منصرف ہو جاؤ، میں نے وہ رقم اس لڑکی کو بخش دیا اور اس سے غلط مطالبہ واپس لے لیا۔

ان میں سے ہر ایک اپنے نیک اعمال کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ کہتے کہ خدایا اگر میرا یہ کام تیرے خوف اور تیری رضا کیلئے تھا تو ہمیں یہاں سے باهر نکل جانے میں ہماری مدد فرما۔ جب بھی ان میں سے ہر ایک مذکورہ کم انجام دیتا غار کا دروازہ تھوڑا کھل جاتا یوں آخری شخص کی طرف سے یہ کام انجام دئے جانے کے بعد غار کا دھانہ مکمل طور پر کھل گیا اور وہ تینوں وہاں سے باہر آگئے۔[10]

حوالہ جات

  1. جوہری، الصحاح، ۱۴۱۰ق، ج۵، ص۱۹۳۶۔
  2. راغب اصفہانی، مفردات، ۱۴۱۲ق، ص۳۶۲۔
  3. الاتقان، ج۱، ص۲۹۳: بہ نقل از علی اسدی، دانشنامہ دانشنامہ موضوعی قرآن۔
  4. واژہ‌ہای دخیل، ص۲۲۴: بہ نقل از علی اسدی، دانشنامہ دانشنامہ موضوعی قرآن۔
  5. عیاشی، تفسیر، ۱۳۸۰ق، ج۲، ص۳۲۱؛ قمی، تفسیر، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۳۱، ابن ہشام، السیرہ النبویہ، ۱۳۵۵ق، ج۱، ص۳۲۴؛ قمی، تفسیر، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۳۱؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۰۸ق، ج۶، ص۶۹۷۔
  6. طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۰۸ق، ج۶، ص۶۹۷۔
  7. طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۱۵، ص۲۷۴-۲۴۹؛ طوسی، التبیان، بیروت، ج۷، ص۱۱۔
  8. قرطبی، الجامع لاحکام، ۱۳۷۲ق، ج۱۰، ص۳۵۸-۳۵۶؛ زمخشری، الکشاف، ج۴، ص۷۰۴-۷۰۵۔
  9. طوسی، امالی، ۱۴۰۱ق، ص۴۰۸-۴۰۹؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۴، ص۴۲۷-۴۲۶؛ سورآبادی، قصص قرآن، ۱۳۷۴ق، ص۲۱۱-۲۱۳۔
  10. شیخ صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ص۱۸۴-۱۸۵۔

مآخذ

  • ابن ہشام، عبدالملک، السیرۃ النبویہ، بہ کوشش مصطفی سقا و دیگران، قاہرہ، ۱۳۵۵ق-۱۹۳۶م.
  • جوہری، اسماعیل بن حماد، الصحاح؛ تاج اللغہ و صحاح العربیہ، تصحیح: احمد عبدالغفور عطار، دارالعلم للملایین، بیروت، ۱۴۱۰ق.
  • راغب اصفہانی، حسن بن محمد، مفردات الفاظ القرآن، تصحیح: صفوان عدنان داودی، دارالعلم-الدارالشامیہ، لبنان-سوریہ، ۱۴۱۲ق.
  • سورآبادی، ابوبکر، قصص قرآن مجید، تہران، ۱۳۷۴ق.
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، تصحیح: علی اکبر غفاری، جامعہ مدرسین، قم، ۱۳۶۲ش.
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، بہ کوشش رسولی محلاتی و فضل اللہ یزدی طباطبایی، بیروت، ۱۴۰۸ق-۱۹۸۸م.
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، دارالمعرفہ، بیروت، ۱۴۱۲ق.
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان، بہ کوشش احمد حبیب قصیر عاملی، داراحیاء التراث العربی.
  • طوسی، محمد بن حسن، امالی، بہ کوشش محمدصادق بحرالعلوم، بیروت، ۱۴۰۱ق-۱۹۸۱م.
  • عیاشی، محمد، التفسیر، بہ کوشش ہاشم رسولی محلاتی، تہران، ۱۳۸۰ق.
  • قرطبی، محمد، الجامع لاحکام القرآن، بیروت، ۱۳۷۲ق.
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر، بہ کوشش طیب موسوی جزایری، نجف، ۱۳۸۷ق.
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، ۱۴۰۳ق-۱۹۸۳م.