معجزہ

ویکی شیعہ سے
(معجزے سے رجوع مکرر)

معجزہ، علم کلام کی ایک اصطلاح ہے، جو اس غیر معمولی کام کو کہا جاتا ہے جسے نبوت کے دعوے کے ساتھ انجام دیا جائے اور دوسرے لوگ اس کی انجام دہی سے عاجز ہوں۔ قرآن میں انبیاء کے بہت سے معجزات کا تذکرہ کیا گیا ہے اور مسلم علماء کے مطابق ہر نبی کا معجزہ اس کے زمانے کے تقاضوں کے مطابق ہوتا تھا۔ چند مشہور معجزات یہ ہیں: حضرت عیسیٰ کا مردوں کو زندہ کرنا، حضرت موسیٰ کے عصا کا اژدہا میں تبدیل ہونا، ید بیضاء اور حضرت ابراہیم کا آگ میں زندہ رہنا۔

مسلم علماء قرآن پاک کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ابدی معجزہ قرار دیتے ہیں۔ بعض شیعہ روایت کے منابع میں شیعہ ائمہ علیہم السلام کے معجزات ان کی امامت کو ثابت کرنے کے لیے نقل کیے گئے ہیں۔

شیعہ متکلمین کا خیال ہے کہ معجزہ علت کے اصولوں سے متصادم نہیں ہے، بلکہ ایک غیر معمولی واقعہ ہوتا ہے جس کے ذریعے ایک معمولی چیز جس کے لوگ عادی تھے کی جگہ کوئی اور چیز وجود میں آتی ہے، نہ یہ کہ یہ چیز بغیر علت کے وجود میں آگئی ہو۔ بلکہ یہ کسی فطری یا مافوق الفطرت علت یا دونوں کے امتزاج کے ذریعے وچود میں آتی ہے۔

تعریف

معجزہ علم کلام کی ایک اصطلاح ہے، جو اس غیر معمولی کام کو کہا جاتا ہے جسے نبوت کے دعوے کے ساتھ انجام دیا جائے اور دوسرے لوگ اس کی انجام دہی سے عاجز ہوں[1]۔ شیعہ متکلم اور فلسفی عبدالرزاق لاہیجی کے مطابق انبیاء کی نبوت کے دعوے میں سچائی کی شناخت کا واحد طریقہ ان کے ہاتھ پر معجزہ کا ظہور قرار دیتے ہیں۔[2] البتہ بعض علماء جیسے آیت اللہ جعفر سبحانی معجزات کو انبیاء کے دعووں کی سچائی کی شناخت کے طریقوں میں سے ایک طریقہ قرار دیتے۔[3]

معجزہ اور اس کی تعریف اور خصوصیات کے بارے میں بحث چونکہ نبوت کے مسئلے اور نبی کے قول کی سچائی سے متعلق ہے، اس بنا پر یہ علم کلام بحث شمار ہوتی ہے[4]۔ جبکہ دوسری طرف سے چونکہ یہ بحث قانون علیت کے ساتھ سازگار ہونے اور نہ ہونے سے بحث کی جاتی ہے اس بنا پر بعض فلسفیوں نے معجزہ اور قانون علت کے ساتھ اس کے رابطے کے بارے میں بحث کی ہے[5]۔ اسی طرح چونکہ معجزہ کو کائنات میں خدا کی بلاواسطہ مداخلت تصور کی جاتی ہے یہ مسئلہ کلام جدید میں بھی زیر بحث لاتے ہوئے فطری قوانین کے ساتھ معجزے کے رابطے کے بارے میں غور و خوض کیا جاتا ہے[6]۔ اس کے علاوہ الہیات اور کلام جدید میں چونکہ معجزہ کو کائنات میں خدا کا ایک خارق العادہ کام تصور کیا جاتا ہے، اس بحث کو خدا کے اثبات میں دلیل کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے۔[7]

لفظ معجزہ اور اس کے مشتقات قرآن میں 26 مرتبہ عجز اور ناتوانی کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں[8]، جن میں سے کوئی بھی معجزہ کے اصطلاحی معنی نہیں ہے اور اس اصطلاح کو اکثر طور پر متکلمین استعمال کرتے ہیں[9]۔ قرآن میں معجزہ کے اصطلاحی معنی کی طرف اشارہ کرنے کے لیے لفظ «بَیِّنہ(واضح دلیل)،[10] «آیه(واضح نشانی)»،[11] «برہان(واضح دلیل)»،[12] «سلطان(یقینی دلیل)»[13]، «بصیرت»[14] اور «عَجَب(حیرت انگیز)»،[15] وغیرہ کا استعمال کیا گیا ہے[16]۔

الہی ادیان کا مشترکہ اعتقاد

انگلستان کے دینی محقق اور کتاب «خدا کے بارے میں» کے مصنف مایکل پامر (ولادت: ۱۹۴۵ء) کے بقول تمام الہی ادیان معجزے پر اعتقاد رکھتے ہیں اور مختلف زمانوں میں اس کے واقع ہونے کے قائل ہیں۔[17] شہید مطهری مختلف قرآنی مستناد کی روشنی میں اصل معجزہ اور انبیاء کے ہاتھوں مختلف معجزات کے رونما ہونے کو[18] تردید ناپذیر اور دین اسلام کے ضروریات میں سے قرار دیتے ہیں۔[19]

معجز کا ارہاص اور کرامت کے ساتھ فرق

«اِرْہاص» علم کلام کی ایک اصطلاح ہے اور خارق العادہ امور پر مشتمل ہونے کی وجہ سے چہ بسا معجزہ کے ساتھ خلط کر جاتے ہیں؛ لیکن حقیقت میں مختلف حوالے سے ان دونوں کے درمیان فرق پایا جاتا ہے۔[20] کہا جاتا ہے کہ ارہاص کسی شخص کا نبوت اور رسالت پر مبعوث ہونے سے پہلے رونما ہونے والے خارق العادہ امور کو کہا جاتا ہے تاکہ اسے نبوت پر معوث ہونے کے لئے تیار کیا جا سکے؛[21] جبکہ معجزہ نبوت پر فائز ہونے کے دعوے اور تَحَدّی(چیلینج) کے ساتھ ہوتا ہے۔[22]

معجزہ اور کرامت میں بھی فرق ہے۔ کرامت سے مراد نبوت اور رسالت کے دعوے کے بغیر خارق‌ العادہ امور کی انجام دہی ہے؛ حالانکہ معجزہ کے شرائط میں سے ایک نبوت کا دعوا کرنا ہے اور معجزے میں خارق‌ العادہ کام نبوت کے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے بطور چیلینج انجام دیا جاتا ہے۔[23]

معجزہ اور جادو میں فرق

سحر اور معجزہ کے درمیان مختلف فرق بیان کئے گئے ہیں جو درج ذیل ہیں: بین سحر و معجزه، تفاوت‌هایی بیان کرده‌اند که برخی از آن‌ها به شرح زیر است:

  • ساحر محدود انسانی قدرت کے بل بوتے پر اپنا کام انجام دیتا ہے؛ حالانکہ معجزہ کا سرچشمہ خدا کی لامحدود اور بے نہایت قدرت ۔[24]
  • ساحر کچھ محدود امور جن کی اس نے پہلے سے تیاری اور مشق کی ہوئی ہوتی ہے انجام دے سکتا ہے لھذا ایسا نہیں ہے کہ ساحر اور جادوگر ہر قسم کے خارق‌ العاده‌ امور انجام دے سکے؛ لیکن معجزہ چونکہ خدا کی قدرت سے انجام دیا جاتا ہے لھذا اس میں کوئی محدودیت نہیں ہوتی اور اس کے لئے پیشگی ریاضت اور تیاری کی بھی ضروت نہیں ہوتی بلکہ جب چاہے خدا کی اجازت سے ہر قسم کے خارق العادہ امور انجام دے سکتا ہے۔[25]
  • معجزہ چونکہ خدا کے اذن اور اجازت سے انجام دیا جاتا ہے، لھذا یہ کسی قسم کے غلط یا فاسط مقاصد پر مشتمل نہیں ہوتا؛ حالانکہ سحر اور جادو مختلف مفاسد پر مشتمل ہو سکتا ہے جن میں لوگوں کو دھوکہ دینا یا لوگوں کو نقصان پہنچانا وغیرہ۔[26]
  • معجزہ خارق العادہ یا عام فطری امور سے ہٹ کر ہوتا ہے؛ لیکن سحر اور جادو خارق العادہ نہی ہے؛ بلکہ معمولی امور پر مشتمل ہوتا ہے جسے اکثر لوگ ریاضت اور تمرین کے ذریعے انجام دے سکتے ہیں۔[27]
  • ابن‌سینا اپنی کتاب الاشارات و التنبیہات میں معجزہ اور جادو دونوں کے سرچشمے کو نفس میں موجود ایک مضبوط طاقت قرار دیتے ہیں جو کائنات کے فطری امور میں تصرف کرنے کے ذریعے انجام دئے جاتے ہیں؛ اس فرق کے ساتھ کہ معجزہ پاک و پاکیزہ نفوس سے نیک امور کے لئے ظاہر ہوتا ہے جبکہ سحر اور جادو شریر نفوس سے ظاہر ہوتا ہے اور جادو گر کو غلط اور فاسد امور کی ترغیب دیتا ہے۔[28]

معجزہ کس طرح نبوت کے دعوے پر دلالت کرتا ہے؟

امامیہ اور معتزلہ کے مطابق نبوت کے دعوے پر معجزہ کی دلالت حسن و قبح عقلی کے قاعدے کو ماننے پر موقوف ہے؛[29] وہ اس طرح کہ اگرچہ خدا اس بات پر قادر ہے کہ کسی جھوٹے شخص کے ہاتھ کوئی معجزہ ظاہر کرائے لیکن یہ خدا کی حکمت کے خلاف اور محال ہے؛ کیونکہ یہ ایک قبیح اور ناپسند کام ہے اور خدا کی حکمت کا تقاضا ہے کہ اس سے ایسا قبیح اور ناپسند کام سرزد نہیں ہو گا۔ پس معجزہ متعلقہ شخص کی نبوت کے دعوے کی سچائی پر دلالت کرتی ہے۔[30] اشاعرہ اس بات کے معتقد ہیں کہ خدا کی سنت اس بات پر قائم ہے کہ اس کے انبیاء کی نبوت کا دعوا ہمیشہ معجزہ کے ساتھ ہو، اگرچہ معجزہ کسی جھوٹے شخص سے بھی ظاہر ہونا ممکن ہے لیکن یہ خدا کی سنت کے خلاف ہے۔[31]

شرائطِ معجزہ

کلامی کتابوں میں معجزے کی مختلف چند شرائط ذکر ہوئے ہیں ۔ان میں تین شرائط تمام کتابوں میں ذکر ہوئی ہیں:

  • خارق العاده یعنی غیر معمولی ہونا؛
  • دعوائے نبوت کے ساتھ ہونا؛
  • دعوی میں مطابقت ہونا اس کا معنا یہ ہے کہ معجزہ اسی بات پر ختم ہو جس کا معجزہ کرنے والے نے دعوی کیا ہو۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی کسی کنویں کے پانی کے زیادہ ہونے کا ادعا کرے اور کنویں کا پانی زیادہ ہونے کی بجائے کم ہو جائے تو یہ معجزہ نہیں ہوگا۔[32]

ہدفِ معجزہ

عقیدۂ اسلامی اور کلامی مآخذ کے مطابق معجزے سے پیغمبروں کا ہدف اپنے دعوائے نبوت کو ثابت کرنا ہوتا ہے تا کہ اس کے ذریعے لوگ ایمان لے آئیں اور انکی تعلیمات کی پیروی کر کے سعادت حاصل کریں۔[33]

معجزه اور قانون علیت

اصل علیت اور فعل اعجاز کا باہمی ارتباط کا مسئلہ بحث معجزے کے مسائل میں سے ہے۔ عالم کے اندر ہر نئی پیدا ہونے والی چیز علت کی وجہ سے وجود میں آتی ہے، لیکن اس علت کیلئے یہ ضروری نہیں کہ وہ معلوم بھی ہو۔ کوئی بھی نئی چیز کسی علت کے بغیر وجود میں نہیں آ سکتی ہے لیکن کسی غیر معلوم چیز کا علت ہونا ممکن ہے۔ اسکی دلیل یہ ہے کہ طبیعت انسان کے علم اور پہچان کا دائرہ کار طبیعی امور اور علمی تجربہ گاہوں تک ہی محدود ہے اور کبھی بھی وجودی یا عدمی غیر طبیعی امور کو یا انکے مؤثر ہونے کو تجرباتی وسائل و آلات کے ذریعے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ [34]

معجزات انبیا کا باہمی فرق

دینی منابع کے مطابق انبیا کے مختلف معجزات تھے اگرچہ وہ تمام غیر عادی ہونے مشترک تھے۔ یہ اختلاف مختلف زمانوں میں لوگوں کی معولامات اور معارف میں اختلاف کی وجہ سے ہے۔ حکمت الہی کا تقاضا یہ ہے کہ ہر زمانے میں اسکے انبیا کا معجزہ اسی قسم سے ہو کہ جس میں اس زمانے کے لوگ مہارت رکھتے ہوں۔ جیسا کہ حضرت حضرت موسی کے زمانے میں جادو کا فن اپنے عروج میں تھا اور اہل فن بخوبی سحر کو غیر سحر سے تشخیص دیتے تھے۔ عصا کو حضرت حضرت موسی کا معجزہ قرار دیا تا کہ جادوگر اس کے مشابہ لانے سے عاجز ہوں اور اس کے ذریعے دوسروں پر اسکی حجت اور دلیل تمام ہو سکے۔ اسی طرح حضرت حضرت عیسی کے زمانے میں طب کو رونق حاصل تھی، حضرت عیسی کو مردے زندہ کرنے، پیدائشی نابینا کو بینا کرنے کا معجزہ دیا تا کہ اسکی دیگر موجود طبیبوں پر برتری ظاہر ہو سکے اور ان لوگوں کا حضرت حضرت عیسی کے افعال کے غیر عادی ہونے کا اقرار حضرت حضرت عیسی کے ادعا پر شاہد اور ان لوگوں پر اسکی حجت تمام کرے۔[35] رسول اکرم (ص) کے زمانے میں عربی زبان میں فصاحت و بلاغت اپنے عروج پر تھی، ادبا اور شعرا باہمی رقابت کرتے تھے نیز شعر کو اس زمانے میں حجاز کے اندر ایک خاص مقام حاصل تھا۔ ان لوگوں کے سامنے قرآن کے معجزہ کی تاثیر کے دلائل میں سے ایک یہی امر تھا۔

اقسام

بعض مفکریں معجزے کی دو اقسام کے قائل ہیں :

اس قسم کے معجزات کی یہ خصوصیت ہے کہ عام لوگ اور دانشور حضرات بھی اسے درک کرتے ہیں اور لوگوں کیلئے اس میں زیادہ جاذبیت پائی جاتی ہے۔ لیکن جادوگری جیسے غیر عادی کاموں سے اسے تشخیص دینا زیادہ مشکل ہوتا ہے بلکہ اس کی تشخیص اس فن کے مخصوص افراد کی آگاہی اور تبحر علمی کی ضرورت مند ہوتی ہے۔ جیسا کہ عصائے حضرت موسی کے معجزے میں جادو کے نہ ہونے کی تشخیص جادوگروں اور اس فن کے لوگوں سے ظاہر ہوتی ہے۔

  • عقلی معجزات: عقلی معجزه ایسا کام ہے کہ جو حواس خمسۂ ظاہریہ کے حیطہ سے باہر ہے۔ اسے صرف عقل کے ذریعے ہی جانا جا سکتا ہے۔ معجزات کی یہ قسم دانشوروں کے ذریعے دریافت ہوتی ہے جیسے غیب کی خبر دینا۔[36]

معجزات انبیا

معجزات حضرت ابراہیم

  • آگ کا ٹھنڈا ہونا
قُلْنا یا نارُ کونی‏ بَرْداً وَ سَلاماً عَلی‏ إِبْراهیم ۶۹،انبیاء
ہم نے کہا اے آگ! ٹھنڈی ہوکر اور حضرت ابراہیم کے لئے سلامتی کا باعث بن جا۔
  • پرندوں کے ٹکڑوں کا زندہ کرنا:
وَ إِذْ قالَ إِبْراهیمُ رَبِّ أَرِنی‏ کیفَ تُحْی الْمَوْتی‏ قالَ أَوَ لَمْ تُؤْمِنْ قالَ بَلی‏ وَ لکنْ لِیطْمَئِنَّ قَلْبی‏ قالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّیرِ فَصُرْهُنَّ إِلَیک ثُمَّ اجْعَلْ عَلی‏ کلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْءاً ثُمَّ ادْعُهُنَّ یأْتینَک سَعْیاً وَ اعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَزیزٌ حَکیم
اے رسول (ص) وہ واقعہ یاد کرو۔ جب حضرت ابراہیم (ع) نے کہا: اے پروردگار! مجھے دکھلا کہ تو مُردوں کو کیوں کر زندہ کرتا ہے؟ خدا نے فرمایا: کیا تمہارا (اس پر) ایمان نہیں ہے؟ کہا: کیوں نہیں؟ (ایمان تو ہے) مگر چاہتا ہوں کہ (آنکھوں سے دیکھوں) تاکہ (دل) کو اطمینان ہو جائے (اور اسے قرار آئے) فرمایا: چار پرندے لو۔ اور انہیں اپنے پاس اکٹھا کرو اور اپنے سے مانوس بناؤ۔ پھر (انہیں ٹکڑے ٹکڑے کرکے) ہر پہاڑ پر ایک ٹکڑا رکھ دو۔ پھر انہیں آواز دو۔ تو وہ دوڑتے ہوئے تمہارے پاس آئیں گے اور خوب جان لو کہ خدا زبردست اور حکمت والا ہے۔ (260انبیاء)

معجزاتِ حضرت موسی

فرعون، کافروں اور بنی اسرائیل پر حجت تمام کرنے کیلئے قرآن کریم نے حضرت حضرت موسی کے درج ذیل چند معجزوں کی طرف اشارہ کیا ہے:

  • نو معجزے[37]: عصا، ید بیضاء، طوفان، ٹڈیوں اور خون کی بارش، پھلوں کی کمی، قحط، قمل(ایک جاندار جس نے فصلوں کو تباہ کر دیا، مینڈک، دریائے نیل میں شگاف کا پڑنا۔
  • فَأَرْسَلْنا عَلَیهِمُ الطُّوفانَ وَ الْجَرادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفادِعَ وَ الدَّمَ آیاتٍ مُفَصَّلاتٍ فَاسْتَکبَرُوا وَ کانُوا قَوْماً مُجْرِمینَ

پھر ہم نے بھیجا ان پر عذاب، طوفان، ٹڈی دل، جوؤں، مینڈکوں اور خون (کی صورت میں) یہ کھلی ہوئی نشانیاں تھیں مگر وہ پھر بھی تکبر اور سرکشی ہی کرتے رہے اور وہ بڑے ہی مجرم لوگ تھے۔ (133)

  • نیل میں شگاف پڑنا اور قوم کا گزر جانا:
فَأَوْحَینا إِلی‏ مُوسی‏ أَنِ اضْرِبْ بِعَصاک الْبَحْرَ فَانْفَلَقَ فَکانَ کلُّ فِرْقٍ کالطَّوْدِ الْعَظِیمِ
سو ہم نے حضرت موسی کو وحی کی کہ اپنا عصا دریا پر مارو۔ چنانچہ وہ دریا پھٹ گیا اور (پانی کا) ہر حصہ ایک بڑے پہاڑ کی طرح ہوگیا۔(63 شعراء)
  • چشموں کا پھوٹنا:
وَ إِذِ اسْتَسْقی‏ مُوسی‏ لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِعَصاک الْحَجَرَ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتا عَشْرَةَ عَیناً قَدْ عَلِمَ کلُّ أُناسٍ مَشْرَبَهُمْ..
اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب حضرت موسی نے اپنی قوم کے لئے (خدا سے) پانی مانگا۔ تو ہم نے کہا اپنا عصا چٹان پر مارو جس کے نتیجہ میں بارہ چشمے پھوٹ نکلے اس طرح ہر گروہ نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کر لیا۔ (ہم نے کہا) خدا کے دیئے ہوئے رزق سے کھاؤ پیو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو۔ (60 بقرہ)
  • مقتول بنی­ اسرائیل کا زندہ ہونا:
إِذْ قالَ مُوسی‏ لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ یأْمُرُکمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً
اور (اس وقت کو یاد کرو) جب حضرت موسی نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو۔...۔ (67بقرہ)
  • سایہ دار بادل:
وَ ظَلَّلْنا عَلَیکمُ الْغَمام
اور ہم نے (صحرا) میں تماہرے اوپر بادل کا سایہ کیا (57بقرہ)۔
  • نزول منّ و سلوی:
وَ أَنْزَلْنا عَلَیکمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوی‏ کلُوا مِنْ طَیباتِ ما رَزَقْناکم...
...اور ہم نے تم پر من و سلوی نازل کیا جو کچھ ہم نے تمہیں پاکیزہ رزق دیا ہے اس میں سے کھاؤ....۔(57 بقرہ)
  • بنی ­اسرائیل کے سروں پر کوہ طور کا ٹھہرنا:
وَ إِذْ أَخَذْنا مِیثاقَکمْ وَ رَفَعْنا فَوْقَکمُ الطُّورَ...
...اور یاد کرو جب ہم نے تمہارے سروں پر طور اٹھا(لٹکا) کر تم سے عہد لیا.....(63بقرہ)

معجزات حضرت عیسی

قرآن کریم نے حضرت عیسی کے چند معجزوں کی جانب اشارہ کیا ہے: مردوں کو زندہ کرنا، اندھوں کو بینا کرنا، پیدائشی بہرے اور برص کے مریضوں کو شفا دینا، غیب کی خبریں دینا، پرندے کے مجسمے میں زندگی پیدا کرنا:

وَ رَسُولاً إِلی‏ بَنی‏ إِسْرائیلَ أَنِّی قَدْ جِئْتُکمْ بِآیةٍ مِنْ رَبِّکمْ أَنِّی أَخْلُقُ لَکمْ مِنَ الطِّینِ کهَیئَةِ الطَّیرِ فَأَنْفُخُ فیهِ فَیکونُ طَیراً بِإِذْنِ اللَّهِ وَ أُبْرِئُ الْأَکمَهَ وَ الْأَبْرَصَ وَ أُحْی الْمَوْتی‏ بِإِذْنِ اللَّهِ وَ أُنَبِّئُکمْ بِما تَأْکلُونَ وَ ما تَدَّخِرُونَ فی‏ بُیوتِکمْ إِنَّ فی‏ ذلِک لَآیةً لَکمْ إِنْ کنْتُمْ مُؤْمِنین

اور اسے بنی اسرائیل کی طرف اپنا رسول بنائے گا۔ (اور جب وہ مبعوث ہوگا تو کہے گا کہ) میں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے معجزہ لے کر آیا ہوں کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندہ کی صورت بناتا ہوں اور اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ خدا کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے۔ اور میں خدا کے حکم سے مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو شفا دیتا ہوں اور مردوں کو زندہ کرتا ہوں۔ اور جو کچھ تم کھاتے ہو۔ اور اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو وہ تمہیں بتاتا ہوں بے شک اس میں تمہارے لئے (خدا کی قدرت اور میری نبوت کی) بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان لانے والے ہو۔ (49)

ختمی مرتبت کے معزات

آپ کے بعض معجزے عقلی اور بعض حسی ہیں ۔آپ کے چند معجزات درج ذیل ہیں:

  • شق القمر: شیعہ اور اہل سنت مفسروں نے ذکر کیا ہے کہ رسول خدا کی مکی زندگی میں قریش نے معجزے کا تقاضا کیا تو آپ نے چاند کی طرف اشارہ کیا اسی وقت چاند دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔[38][39]
اِقْتَربَتِ السّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ وَ اِنْ یرَوا آیةً یعْرِضُوا وَ یقُولُوا سِحْرٌ مُسْتَمِرُّ
قیامت کی گھڑی قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا اور اگر ہو کسی نشانی کو دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ تو مستقل جادو ہے (جو پہلے سے چلا آ رہا ہے)(1،2 قمر)۔

ایک روز رسول خدا نے حضرت علی کو کسی کام ست روانہ کیا جب وہ واپس آئے تو وقت نماز عصر تھا۔ پیغمبر کو علم نہیں تھا کہ حضرت علی کے نماز عصر کے پڑھ لی ہے۔ اپؐ حضرت علی کی گود میں سر رکھ کر سو گئے۔ اسی دوران نزول وحی شروع ہو گئی۔ یہ سلسلہ سورج کے غروب کے قریب تک جاری رہا۔ اختتام وحی پر پیغمبر نے حضرت علی سے استفسار کیا نماز عصر بجا لائے ہو۔ حضرت علی نے اپنی گود میں آپؐ کے سونے کا تذکرہ کیا اور کہا کہ میں آپکو بیدار نہیں کر سکا۔ رسول اللہ نے بارگاہ الہی میں علی کی نماز کیلئے سورج کے پلٹنے کی دعا کی۔ سورج وقت فضیلت کی مقدار تک پلٹ آیا اور حضرت علی نے نماز پڑھی۔[40][41]

  • قرآن کریم: قرآن مجید معجزات پیغمبر اسلام میں سے بزرگ ترین معجزہ ہے۔ یہ معجزه مختلف جہات سے اعجاز کا حامل ہے اور چند جہت سے دیگ معجزات پر برتری رکھتا ہے:
  • دیگر معجزات تنہائی اثبات نبوت کیلئے کافی نہیں ہیں بلکہ یہ ثابت ہو کہ معجزہ لانے والے نے نبوت کا ادعا کیا ہے اور اس میں نبوت کی دیگر شرائط پائی جاتی ہیں تا کہ معجزہ اس کے دعوے کی صداقت پر دلیل بن سکے۔ لیکن قرآن کریم تنہائی اظبات نبوت کیلئے کافی ہے کیونکہ وہ تمام امور کر صراحت کے ساتھ بیان کرتا ہے اور کسی دوسری چیز کی ضرورت نہیں ہے ۔
  • دیگر معجزات اپنے زمانے سے مخصوص اور صرف مشاہدہ کرنے والوں کیلئے معجزہ ہیں اور دوسروں کیلئے نبوت کو ثابت نہیں کرتے ہیں۔ مگر یہ کہ کوئی معجزہ تواتر یا کسی ذریعے سے قطعی طور پر ثابت ہو جائیں جیسے عصائے حضرت موسی، ید بیضا، مردوں کو زندہ کرنا، سنگریزوں کا تسبیح کرنا یا انکی مانند دیگر معجزات جبکہ قرآن ہر زمانے، ہر کسی کیلئے روز قیامت تک کیلئے معجزہ ہے۔
  • ہر سورت تنہا معجزہ ہے، دوسرے معجزوں کے برعکس جو کہ مجموعی طور پر اور اسکے تمام اجزا کے موجود ہونے کی صورت میں معجزہ شمار ہوتے ہیں۔
  • دیگر معجزات صرف ایک جہت سے معجزہ ہوتے ہیں لیکن مختلف جہات سے معجزہ ہے۔[42]

متعلقہ مضمون

حوالہ جات

  1. مفید، النکت الاعتقادیه، ۱۴۱۳ق، ص۳۵.
  2. لاہیجی، سرمایہ ایمان، ۱۳۷۲ہجری شمسی، ص۹۳-۹۴.
  3. برای نمونه نگاه کنید به سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، مؤسسة النشر الاسلامی، ج۳، ص۳۹۱؛ خرازی، بدایة المعارف الالهیة، ۱۴۲۲ق، ج۱، ص۲۴۴.
  4. مطهری، مجموعه آثار، ۱۳۹۰ش، ج۴، ص۳۵۹.
  5. پیترسون و دیگران، عقل و اعتقاد دینی، ۱۳۹۳ش، ص۲۸۹.
  6. پیترسون و دیگران، عقل و اعتقاد دینی، ۱۳۹۳ش، ص۲۸۷-۲۸۹.
  7. برای نمونه نگاه کنید به هیک، فلسفه دین، ۱۳۹۰ش، ص۷۴؛ پامر، درباره خدا، ۱۳۹۳ش، ص۳۱۰-۳۱۱.
  8. راغب اصفهانی، المفردات فی غریب القرآن، ذیل واژه «عجز».
  9. سبحانی، دانشنامه کلام اسلامی، ۱۳۸۷ش، ص۶۷.
  10. سوره اعراف، آیه۷۳؛ سوره حدید، آیه۲۵؛ سوره فاطر، آیه۲۵.
  11. سوره غافر، آیه۷۸.
  12. سوره نساء، آیه ۱۷۴؛ سوره قصص، آیه۳۲.
  13. سوره ابراهیم، آیه۱۱؛ سوره دخان، آیه۱۹.
  14. سوره انعام، آیه۱۰۴.
  15. سوره جن، آیه۱؛ سوره کهف، آیه۹.
  16. مطهری، مجموعه آثار، ۱۳۹۰ش، ج۴، ص۳۵۹؛ قدردان قراملکی، معجزه در قلمرو عقل و قرآن، ۱۳۸۱ش، ص۳۵-۳۹.
  17. پامر، درباره خدا، ۱۳۹۳ش، ص۳۰۹.
  18. مطهری، مجموعه آثار، ۱۳۹۰ش، ج۴، ص۳۶۳.
  19. مطهری، مجموعه آثار، ۱۳۹۰ش، ج۴، ص۳۶۲.
  20. فیاض لاہیجی، سرمایہ ایمان در اصول اعتقادات، ۱۳۷۲ش، ص۹۴.
  21. فیاض لاہیجی، سرمایہ ایمان در اصول اعتقادات، ۱۳۷۲ش، ص۹۴؛ تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۱۱.
  22. تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۱۱.
  23. فیاض لاہیجی، سرمایہ ایمان در اصول اعتقادات، ۱۳۷۲ش، ص۹۴؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۳، ص۴۵.
  24. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۴ش، ج۱۳، ص۲۴۲.
  25. نراقی، انیس الموحدین، ۱۳۶۹ش، ص۱۰۴؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۴ش، ج۱۳، ص۲۴۲.
  26. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۴ش، ج۱۳، ص۲۴۲-۲۴۳.
  27. نراقی، انیس الموحدین، ۱۳۶۹ش، ص۱۰۴.
  28. ابن‌سینا، الاشارات و التنبیهات، نشر البلاغة، ص۱۶۰.
  29. علامہ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۷، ص۲۲۲-۲۲۳؛ سبحانی، محاضرات فی الالہیات، ۱۴۲۸ق، ص۲۶۱۔
  30. علامہ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۷، ص۲۲۲-۲۲۳۔
  31. علامہ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۷، ص۲۲۳۔
  32. نک: مفید، الارشاد، ص۱۲۶-۱۲۹
  33. مصباح یزدی، آموزش عقائد، ص۲۱۹-۲۲۳
  34. مصباح یزدی، آموزش عقائد، ص۲۲۶-۲۲۷
  35. طیب حسین، ج۱، ص۴۲
  36. معجزه شناسی، سعیدی روشن، ص۱۰۴
  37. اسراء 101
  38. قمی، ج۲، ص۳۴۱
  39. ابن شہر آشوب، ج۱، ص۱۶۳
  40. ابن عطیہ، ج۱، ص۷۹۱
  41. مسعودی، ابو الحسن، ص۱۵۳
  42. طیب حسین، ج‏۱، ص۴۱

مآخذ

  • ابن شہر آشوب، مناقب، تحقیق: بقاعی، بیروت۔
  • ابن عطیہ، ابهی المراد، بیروت، مؤسسہ اعلمی، ۱۴۲۳ھ۔
  • جرجانی، میر سید شریف، التعریفات، تہران، ناصر خسرو، ۱۴۱۲ھ۔
  • ربانی گلپایگانی، محاضرات فی الالهیات، قم، مؤسسہ امام صادق، ۱۴۲۸ھ۔
  • رضائی، محمد علی، پژوہشی در اعجاز علمی قران، رشت، کتاب مبین، ۱۳۸۱ہجری شمسی۔
  • سعیدی روشن، محمد باقر، معجزه شناسی، قم، بی‌نا۔
  • سجادی، فرہنگ معارف اسلامی، تہران، دانشگاه تہران، ۱۳۷۳ہجری شمسی۔
  • طیب، عبدالحسین، اطیب البیان فی تفسیر القرآن، تہران، اسلامیہ، ۱۳۷۸ہجری شمسی، چاپ دوم۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسر قمی، تحقیق: سید طیب موسوی جزائری، چاپ دارالکتاب، قم، ۱۳۶۷ہجری شمسی، چاپ چهارم۔
  • مسعودی، ابوالحسن، اثبات الوصیہ للامام علی‌بن ابیطالب، قم، انصاریان، ۱۴۲۳۔
  • مصباح یزدی، محمد تقی، آموزش عقائد، تہران، شرکت چاپ و نشر بین الملل، ۱۳۷۷ہجری شمسی۔
  • مفید، النکت الاعتقادیہ، قم، الموتمر العالمی، ۱۴۱۳ھ۔
  • مفید، الارشاد فی معرفۃ الحجج علی العباد، قم، کنگره شیخ مفید، ۱۴۱۳ھ۔
  • مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۴ہجری شمسی۔