ائمہ معصومین کی امامت

فاقد تصویر
حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
غیر سلیس
غیر جامع
تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے
(شیعہ ائمہ کی امامت سے رجوع مکرر)
شیعہ عقائد
‌خداشناسی
توحیدتوحید ذاتیتوحید صفاتیتوحید افعالیتوحید عبادیصفات ذات و صفات فعل
فروعتوسلشفاعتتبرک
عدل (افعال الہی)
حُسن و قُبحبداءامر بین الامرین
نبوت
خاتمیتپیامبر اسلام اعجازعدم تحریف قرآن
امامت
اعتقاداتعصمت ولایت تكوینیعلم غیبخلیفۃ اللہ غیبتمہدویتانتظار فرجظہور رجعت
ائمہ معصومینؑ
معاد
برزخمعاد جسمانی حشرصراطتطایر کتبمیزان
اہم موضوعات
اہل بیت چودہ معصومینتقیہ مرجعیت


ائمہ معصومین کی امامت سے مراد پیغمبر خاتم حضرت محمدؐ کے 12 جانشین کا آپ کے امت کی سرپرستی اور خاص الہی ولایت کو کہا جاتا ہے۔ شیعہ اعتقاد کے مطابق رسول خداؐ کے اہل بیتؑ میں سے صرف 12 افراد جو مقام عصمت کے مالک ہیں اس مقام پر فائز ہوسکتے ہیں۔ اسی بنا پر اس مذہب کو شیعہ امامیہ یا شیعۂ اثنا عشریہ کہلاتے ہیں۔

امامیہ کے اعتقاد کے مطابق ان بارہ افرد کو خدا نے ہی پیغمبر اکرم کی جانشین کے طور متعین کیا اور رسول اللہؐ نے انہیں لوگوں سے متعارف کرایا۔ دوسرے لفظوں میں ان بارہ اماموں کی امامت منصوص من اللہ ہیں اس حوالے سے امام کی انتخاب میں امت کو کوئی اختیار نہیں دی گئی ہے۔ جس طرح نبی اور رسول کو خدا خود ہی انتخاب کرتا ہے ان کے جانشینوں کو بھی خدا خود انتخاب کرتا ہے جیسا کہ حضرت موسی کے حوالے سے قرآن میں آیا ہے کہ خود حضرت موسی علیہ السلام خدا سے درخواست کررہا ہے کہ ہاروں کو میرا جانشین اور وزیر بنا دیں: وَاجْعَلْ لِي وَزِيراً مِنْ أَهْلِي هارُونَ أَخِي اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي كَيْ نُسَبِّحَكَ كَثِيراً ترجمہ: پروردگار! میرے خاندان سے میرے بھائی ہاروں کو میرا وزیر مقرر فرما دے اور ان کے توسط سے میری پشت مضبوط اور میرے کاموں(رسالت) میں اسے میرا شریک اور معاون قرار دے۔ حضرت موسی خود اپنی طرف سے اسے انتخاب نہیں کر رہا بلکہ خدا سے درخواست کررہا ہے کہ آپ انتخاب کریں۔

بارہ شیعہ ائمہ کی ترتیب:

ائمہ کی امامت کے دلائل کی زمرہ بندی کو ان سے متعلق منقولہ روایات و احادیث کی خصوصیات کی بنا پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: بعض روایات میں تاکید کی گئی ہے ائمہ کی تعداد 12 ہے اور وہ سب قریش میں سے ہیں اور بعض دوسری روایات و احادیث میں ائمۂ معصومینؑ کے اسماء گرامی بیان کئے گئے ہیں اور واضح کیا گيا ہے کہ وہ سب اہل بیت رسولؐ سے ہیں۔

پہلی قسم کی روایات

قسم اول وہ احادیث ہیں جن میں بیان ہوا ہے کہ پیغمبرؐ کے جانشین 12 ہیں اور وہ سب قریش میں سے ہی ہیں۔

یہ احادیث شیعہ مصادر حدیث کے علاوہ درج ذیل سنی کتب میں بھی منقول ہیں:

رسول اللہؐ نے ان میں سے احادیث کے ضمن میں ان بارہ افراد کو "اثناعشر خلیفة "کے عنوان سے یاد کیا ہے مثلا آپؐ فرماتے ہیں:

يَكُونُ بَعدِي إثنا عَشَرَ خلَيفه كُلُّهُم مِن قُرَيش۔
ترجمہ: میرے بعد بارہ خلفاء اور جانشین ہونگے، جو سب قریش سے ہیں۔[1]۔[2]۔[3]
لا يزال هذا الدين عزيزاً منيعاً إلى إثنى عشر خليفة كلهم من قريش۔
ترجمہ: یہ دین بارہ خلفاء [کی خلافت] تک ہمیشہ عزیز اور سربلند ہے، اور وہ سب قریش میں سے ہیں۔[4]۔[5]۔[6]
لا يزال الدين قائما حتى يكون اثنا عشر خليفة من قريش۔
ترجمہ: یہ دین ہمیشہ کے لئے قائم و برقرار ہے حتی کہ بارہ جانشین تم پر حکومت کریں، جو سب قریش سے ہیں۔[7]۔[8] اور ان جیسی دوسری احادیث۔

ان احادیث کا اطلاق دوسروں پر نہيں ہوتا

اہل سنت کے بعض محققین نے اعتراف کیا ہے کہ احادیث نبوی میں بارہ افراد سے مراد اہل بیتؑ کے بارہ افراد ہیں؛ کیونکہ دوسروں پر ان احادیث کی تطبیق ممکن نہیں ہے۔ رسول خداؐ کے بعد کے خلفاء پر ان کی تطبیق نہیں ہوتی کیونکہ ان کی تعداد بارہ سے کم ہے اور نہ ہی بنو امیہ پر ان کا اطلاق ہوتا ہے کیونکہ ان کی تعداد بارہ سے زیادہ ہے؛ علاوہ ازیں بنو امیہ کے حکمران ظالم تھے اور پھر وہ ہاشمی بھی نہ تھے۔ بارہ جانشینوں پر دلالت کرنے والی یہ احادیث بنو عباس پر بھی صادق نہيں آتیں کیونکہ ان کی تعداد 12 سے بہت زیادہ تھی۔

چنانچہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ مان لیا جائے کہ ان احادیث نبوی کا مصداق بارہ ائمہ طاہرینؑ ہیں جو اہل بیتؑ رسولؐ سے ہیں۔ کیونکہ علم و جلالت اور پرہیزگاری اور تقوی اور حسب و نسب کے لحاظ سے دوسروں پر برتری رکھتے ہیں۔ حدیث ثقلین اور مشابہ احادیث بھی اس حقیقت کی تائید کرتی ہیں کہ 12 جانشینوں سے رسول خداؐ کی مراد 12 امام ہیں جن کا تعلق آپؐ کے اہل بیت سے ہے۔[9]

نیز قابل ذکر ہے کہ رسول اکرمؐ نے بعض مواقع پر اپنے بعد آنے والے ائمہ کو "اثنا عشر امیراً" کے عنوان سے یاد کیا ہے؛ بطور مثال؛ جابر بن سمرہ روایت کرتا ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا:

يكون بعدي اثنا عشر أميرا ثم لا أدري ما قال بعد ذلك فسألت القوم فقالوا قال كلهم من قريش۔
ترجمہ: میرے بعد 12 امیر ہونگے راوی کہتا ہے: اس کے بعد میں نہ سن سکا کہ آپؐ نے کیا فرمایا، چنانچہ میں نے حاضرین سے پوچھا اور انھوں نے کہا کہ آپؐ نے فرمایا: وہ سب قریش سے ہیں۔[10]۔[11]۔[12]

ائمہ کی تعداد کی نقبائے بنی اسرائیل سے تشبیہ

چند حدیثوں میں رسول اللہؐ نے اپنے جانشینوں کی تعداد بتاتے ہوئے فرمایا ہے کہ ان کی تعداد حضرت موسیؑ کے بارہ نقیبوں (اور جانشینوں) کے برابر ہے:

انّ عدة الخلفاء بعد‌ي عدة نقباء موسى۔[13]

۔[14] یا

الخلفاء بعدى اثنا عشر کعدد نقباء بنى اسرائیل۔[15]۔[16]۔[17]

واضح رہے کہ بنو اسرائیل کے نقباء بھی بارہ تھے۔

دوسری قسم کی احادیث

حدیثوں کی دوسری قسم وہ حدیثیں ہیں جن میں رسول اللہؐ نے جانشینوں کی تعداد پر تاکید کرتے ہوئے ان کا نام و نشان بھی بتایا ہے اور انہیں اپنے خاندان اور اہل بیتؑ میں سے قرار دیا ہے۔ اس قسم کی روایات خود چند زمروں میں تقسیم ہوتی ہیں:

1۔ کچھ روایات میں امیرالمؤمنینؑ کو امام اول اور امام مہدی علیہ السلام کو امام آخر کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔ مثلا رسول اللہؐ نے فرمایا ہے:
الأئمة من بعدي اثنا عشر، أولهم أمير المؤمنين علي بن أبي طالب وآخرهم القائم، طاعتهم طاعتي، ومعصيتهم معصيتي، من أنكر واحدا منهم فقد أنكرني
ترجمہ: میرے بعد ائمہ بارہ ہونگے امام اول علی بن ابی طالب اور امام دوازدہم قائم، ان کی اطاعت میری اطاعت ہے اور ان کی نافرمانی میری نافرمانی ہے اور جو ان میں سے ایک کا انکار کرے اس نے میرا انکار کیا ہے۔[18]۔[19]۔[20]

رسول اللہؐ نے فرمایا:

الائمة بعدي اثنا عشر أولهم علي بن أبي طالب و آخرهم القائم، هم خلفائي وأوصيائي وأوليائي، وحجج الله على أمتي بعدي، المقر بهم مؤمن، والمنكر لهم كافر۔
ترجمہ: ائمہ میرے بعد بارہ افراد ہیں۔ اولین علی ابن ابی طالب ہیں اور آخرین حضرت قائم ہیں۔ وہ میرے جانشین، اوصیاء اور اولیاء اور میرے بعد میری امت پر اللہ کی حجت ہیں۔ ان کی امامت کا اقرار کرنے والے مؤمن ہیں اور ان کا انکار کرنے والے کافر ہيں۔[21]۔[22]

2۔بعض دیگر روایات میں رسول اکرمؐ نے اپنے بعد کے 9 ائمہ کو امام حسینؑ کی نسل سے، قرار دیا ہے جن میں آخری حضرت قائم ہیں۔

ابوذر رسول اکرمؐ سے نقل کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا:

الأئمة من بعدي اثنا عشر تسعة من صلب الحسين تاسعهم قائمهم " ثم قال (صلی الله عليه وآله): "ألا إن مثلهم فيكم مثل سفينة نوح من ركبها نجا ومن تخلف عنها هلك
ترجمہ: میرے بعد ائمہ 12 ہیں جن میں سے 9 حسینؑ کی نسل سے ہیں اور ان میں نویں ان کے قائم(عج) ہیں۔ جان لو اور آگاہ رہو کہ ان کی مثال کشتی نوحؑ کی مثال ہے، جو اس میں سوار ہوا نجات پاچکا اور جو اس سے دوری اختیار کرے وہ ہلاک ہوگیا۔[23]۔[24]

3۔بعض دیگر احادیث میں رسول خداؐ نے ائمہ کے مشترکہ اسماء کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد نبوی ہے:

الأئمة من بعدي اثنا عشر أولهم علي ورابعهم علي وثامنهم علي وعاشرهم علي وآخرهم مهدي
۔ ترجمہ: ائمہ میرے بعد بارہ ہیں پہلے علی، چوتھے علی، آٹھویں علی، دسویں علی اور آخری مہدی(عج) ہیں۔[25]

آپؐ نے ایک دوسری حدیث میں فرمایا:

ان الأئمة من بعدي اثني عشر من أهل بيتي، علي أولهم وأوسطهم محمد وآخرهم محمد ومهدي هذه الأمة الذي يصلي خلفه عيسى ابن مريم
۔ ترجمہ: میرے بعد ائمہ میرے اہل بیت کے بارہ افراد ہیں اول علی، اوسط محمد اور آخری اس امت کے مہدی ہیں، وہ جن کی امامت میں عیسی بن مریم نماز بجا لائیں گے۔[26]

4۔ روایات و احادیث کے چوتھے زمرے میں وہ احادیث شامل ہیں جن میں بارہ اماموں کے اسماء و القاب مکمل طور پر واضح کئے گئے ہيں۔[27]۔[28]۔[29] حدیث لوح[30] کے عنوان سے مشہور حدیث (و حدیث قدسی) میں بھی بارہ ائمہؑ کے نام ان کے اوصاف کے ساتھ مذکور ہیں۔۔[31]۔[32]۔[33]۔[34]

دوسری دلیل: عصمت

ائمہ کی امامت کی دوسری دلیل عصمت ہے۔ رسول خداؐ اور ائمہؑ سے منقولہ احادیث میں ائمہ اہل بیتؑ کو عصمت کی صفت سے متصف کیا گیا ہے۔ بعنوان نمونہ:

عن الاصبغ بن نباته، عن عبد الله بن عباس قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله يقول: أنا وعلي والحسن والحسين وتسعة من ولد الحسين مطهرون معصومون
۔ ترجمہ: اصبغ بن نباتہ عبداللہ بن عباس سے روایت کرتے ہیں: میں (ابن عباس) نے رسول اللہؐ کو فرماتے ہوئے سنا: میں، علی، حسن، حسین اور حسین کے 9 فرزند معصوم ہیں۔۔[35]۔[36]۔[37]۔[38]۔[39]

ان روایات کا تعلق درحقیقت اہل بیتؑ کی امامت سے متعلق عقلی برہان پر استوار ہے؛ کیونکہ عقلی لحاظ سے امام کو معصوم ہونا چاہئے اور چونکہ امت میں ائمہ اہل بیت کے سوا کوئی بھی عصمت کی خصوصیت کا مالک نہیں ہے اسی بنا پر ان کی امامت قطعی اور یقینی ہے۔

تیسری دلیل: افضلیت

بارہ ائمہ طاہرینؑ کی امامت کے اثبات کی ایک دلیل نفسانی کمالات میں ان ذوات مقدسہ کی افضلیت ہے۔ وضاحت یہ کہ: ائمہ طاہرین عصمت و طہارت اور علم و دانش اور دیگر خصوصیات میں منفرد مقام و منزلت رکھتے ہیں اور امت کے تمام افراد پر فوقیت اور برتری رکھتے ہیں چنانچہ وہی امامت اور ریاست عامہ کے مستحق ہیں اور ظاہر ہے کہ [عقل کے تقاضوں کے مطابق] ان کے ہوتے ہوئے دوسروں کو ان پر مقدم کرنا قبیح اور ناجائز ہے۔[40]

فلسفۂ امامت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ چونکہ امام پر لوگوں کی دینی اور دنیاوی رہبری و ہدایت کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے اسی لئے انہیں سب سے افضل اور برتر ہونا چاہئے تاکہ لوگ اس کو تمام کمالات میں اپنے لئے نمونۂ عمل قرار دیں اور اور اس کی پیروی کریں۔ اس امر کا لازمہ یہ ہے کہ امام طہارت و پاکیزگی اور شخصیت و عظمت کے لحاظ سے اعلی ترین انسانی اوصاف سے متصف ہو؛ اسی بنا پر بارہ ائمہ معصومین سے ہر ایک اپنے زمانے میں کامل ترین شخصیت کا مالک تھا اور عام و خاص ان کی عظمت و برتری کے معترف تھے حتی وہ لوگ جو ان سے مناظرہ اور مباحثہ کرتے تھے، ان کی علمی و معنوی عظمت کے سامنے حقارت اور کمتری کا احساس کرتے تھے اور خاضع و خاشع ہوجاتے تھے۔

ائمہ اثنا عشر کی برتری اور مشاہیر اہل سنت کے اعترافات

اہل سنت کے اکابرین و مشاہیر اور علماء نے ائمہ معصومین علیہم السلام کی افضلیت و برتری کی تصدیق کی ہے۔ یہ اعترافات دو قسموں پر منقسم کئے جاسکتے ہیں: بعض اعترافات بطور عام اہل بیتؑ نبیؐ کی عظمت و برتری پر دلالت کرتے ہیں اور بعض دیگر دوسروں پر ہر امام معصومؑ کی فوقیت کی دلیل ہیں۔ یہاں بعض نمونے پیش کئے گئے ہیں:

  • محى‌ الدین ابن عربى (متوفٰی 638 ہجری)
    محی الدین ابن عربی اہل بیتؑ کی برتری اور منزلت کے بارے میں کہتے ہیں: کوئی بھی مخلوق اس عالم خلقت میں اہل بیتؑ رسولؐ کے ہم وزن، معرض وجود میں نہیں آئی ہے۔ وہ سروری اور سیادت کے لائق و مستحق ہیں۔ ان کے ساتھ دشمنی حقیقی خسران اور گھاٹا ہے اور ان کی محبت حقیقی محبت ہے۔
[41]
فلا تعدل بأهل البيت خلقا فأهل البیي هم اهل السيادة
فبغضهم من الإنسان خسر حقيقي وحبهم عبادة'

إن آل البیت حازوا الفضائل كلها علماً و حلماً و فصاحة و ذكاء و بدیهة و جوداً و شجاعة. فعلومهم لا تتوقف على تكرار درس ولا یزید یومهم فیها على ما كان بالأمس؛ بل هي مواهب من مولاهم. من أنكرها و أراد سترها كان كمن أراد ستر وجه الشمس. فما سألهم في العلوم مستفيد ووقفوا، ولا جرى معهم في مضمار الفضل قوم الا عجزوا وتخلفوا وكم عاينوا فی الجلاد والجدال اموراً فتلقوها بالصبر الجميل، وما استكانوا وما ضعفوا تقرّ الشقائق اذا هدرت شقائقهم وتصغي الأسماع إذا قال قائلهم ونطق ناطقهم سجايا خصهم بها خالقهم ... إلی أن قال ... وقد اشرق نور هذه السلسلة الهاشمية، والبيضة الطاهرة النبوية، والعصابة العلوية، وهم اثناعشر اماماً مناقبهم علية، و صفاتهم سنية، ونفوسهم شريفة ابيه، وأرومتهم كريمة محمدية. ثم ذكر اسمائهم الشريفة عليهم الصلوة والسلام وهم محمد الحجة بن الحسن الخالص بن علي الهادي بن محمد الجواد بن علي الرضا بن موسى الكاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علي زين العابدين بن الامام الحسين اخو الامام الحسن ولدي الليث الغالب علي بن أبي طالب (رضي الله عنهم أجمعين)۔ ترجمہ: بتحقیق کہ اہل علم و حلم، فصاحت و سخاوت، ذکاوت و بدیہہ گو‏ئی اور شجاعت کو اپنے وجود میں جمع کئے ہوئے تھے۔ پس ان کے علوم سبق دہرانے پر موقوف نہ تھے (اور کسی استاد سے حاصل نہیں ہوتے تھے) اور ان کے کل کے علم پر آج کوئی اضافہ نہیں ہوتا تھا؛ بلکہ وہ ان کے مولا (پروردگار عالمین) کے عطا کردہ تھے۔ جس نے ان کے علوم و فضائل کو چھپانا چاہا گویا اس نے سورج کو چھپانے کی کوشش کی ہے؛ کسی استفادہ کرنے والے (طالب علم) نے ان سے کوئی سوال نہیں کیا جس میں وہ جواب دینے سے بے بس ہوگئے ہوں اور کسی قوم نے بھی ان کے ساتھ فضل و علم و برتری کے میدان میں مقابلہ نہیں کیا مگر یہ کہ بےبس ہوکر پیچھے رہ گئی؛ اور کس قدر گستاخیاں جو ان کے حق میں ہوئیں اور بےادبیاں اور حملے جو انہيں دیکھنے پڑے اور انھوں نے ان کا صبر جمیل کے ساتھ سامنا کیا اور بیچارے نہیں ہوئے اور ضعف کا شکار نہيں ہوئے۔ ان کی گرج سنائی دینے لگتی ہے تو ہر دھاڑ گرج خاموش ہوجاتی ہے اور جب ان کی زبان درفشانی کے لئے کھلتی ہے تو اور گرج خاموش ہوجاتی ہے، سماعتیں سننے کے لئے بے چین ہوجاتے ہيں، جب ان میں سے کوئی بلونے والا بولنے لگتا ہے؛ یہ وہ اوصاف ہیں جن سے ان کے خالق نے انہیں مخصوص کردیا ہے... یہاں تک کہ کہتے ہیں ... اور بتحقیق کہ اس سلسلۂ ہاشمیہ، پاک نبوی خاندان اور جماعت علویہ کی روشنی پھیل چکی ہے وہ بارہ امام ہیں جن کے مناقب و فضائل اعلی اور ان کے اوصاف ارفع اور ان کے نفوس شریف اور بلند مرتبت اور ان کا حسب و نسب کریم اور محمدی ہے (علیہم الصلوۃ والسلام) اور وہ ہیں م ح م د الحجۃ بن الحسن الخالص بن علی الہادی ابن محمد الجواد ابن علی الرضا بن موسی الکاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علی زین العابدین بن امام حسین بھائی الامام الحسن کے، جو دو بیٹے ہیں لیث غالب علی بن ابی طالب کے (رضی اللہ عنہم اجمعین)۔[43]

مذہب شافعی کے پیشوا امام شافعی اہل بیتؑ رسولؐ سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں: اے اہل بیت محمدؐ آپ کی محبت، امر واجب ہے جس کو خدا نے قرآن میں نازل کیا ہے، یہی آپ کی قدر و عظمت کے لئے کافی ہے کہ جو آپ پر درود و سلام نماز کی قبولیت کی شرط قرار دی گئی ہے۔

[44]
يا أهلَ بيتِ رسولِ اللّهِ حُبُّکُم فَرضٌ مِنَ اللّهِ فِی القرآنِ أنزَلَهُ
كفاكم من عظیم القدر أنكممن لم یُصَلِّ علیكم لا صلاة له

جامعۃ الازہر کے استاد اور مشہور کتاب التفسیر والمفسرون کے مصنف محمد حسین ذہبی امیرالمؤمنینؑ کی ممتاز شخصیت کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے کہتے ہیں: كان علي عليه السلام بحرا من العلم، وكان قوى الحجة سليم الاستنباط، اوتي الحظ الاوفر من الفصاحة والخطابة والشعر، وكان ذا عقل ناضج وبصيرة نافذة الى بواطن الامور وكثيرا ما كان يرجع اليه الصحابة في فهم ما خفي، واستجلاء ما اشكل۔۔ ترجمہ: علی علم و دانش کا بحر بے ساحل تھے، قوی استدلال اور بہترین استنباط کے مالک تھے اور فصاحت و بلاغت میں انہیں بہت بڑا حصہ عطا ہوا تھا، وہ عقل کامل اور امور کے بواطن و حقائق میں بصیرت نافذہ کے مالک تھے اور بہت سے مسائل میں صحابہ مشکلات حل کرنے اور دینی و علمی مسائل سمجھنے کے لئے ان سے رجوع کرتے تھے اور اس ملجأ و مرجع سے اپنے مسائل حل کرنے کے لئے مدد لیتے تھے۔۔[45]

  • ابن صباغ مالکی (متوفٰی 855 ہجری)

ابن‌ صباغ مالکى اپنی کتاب الفصول المہمہ میں لکھتے ہیں:... فمنها علم الفقه وهو مرجع الاحكام ومنبع الحلال والحرام فقد كان علي عليه السلام مطلعا علي غوامض احكامه منقادا جامحا بزمامه مشهودا له فيه بعلو محله ومقامه ترجمہ: علی علیہ السلام کے لئے مختص علوم میں سے ایک فقہ کا علم تھا اور علیؑ حلال اور حرام کے تمام احکام کا منبع و مرجع تھے پس علی علیہ السلام فقہ کے پیچیدہ احکام پر عبور رکھتے تھے اور امور کے حقائق سے آگاہ تھے؛ ہر حکم کو اپنے موقع و مقام کے مطابق شہوداً (اور وضوح کامل کے ساتھ) جانتے تھے۔[46]

امام علی بن الحسینؑ کے ہم عصر محمد بن مسلم الزہری (متوفٰی 124 ھ) جو تابعین کے زمرے میں آتے ہیں اور اہل سنت کے سات فقہاء کے علوم کے حافظ سمجھے جاتے ہیں امام سجادؑ کی علمی مرتبت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ما رأیت أفقه من زین العابدین۔ ترجمہ: میں نے ہرگز زین العابدین سے بڑا فقیہ اور عالم و دانا شخص نہیں دیکھا۔[47]

امام محمد باقر علیہ السلام کے ہم عصر، عبداللہ بن عطاء مکی امام باقرؑ کا رفیع علمی مرتبہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:ما رأيت العلماء عند أحد قط أصغر منهم عند أبي جعفر محمد بن علي ابن الحسين عليهم السلام، ولقد رأيت الحكم بن عتيبة - مع جلالته في القوم - بين يديه كأنه صبي بين يدي معلمه۔ ترجمہ: میں نے ہرگز علماء اور اہل دانش کو اتنا حقیر اور چھوٹا نہیں پایا جتنا کہ میں نے انہیں ابو جعفرؑ کے سامنے چھوٹا اور حقیر پایا؛ میں نے حکیم بن عتیبہ جیسے بڑے عالم کو ـ جو لوگوں کے درمیان بڑے علمی مدارج کا مالک تھا ـ ابو جعفر کے سامنے نو آموز بچے کی مانند پایا جو اپنے استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کئے بیٹھا ہو۔[48]۔[49]

  • مالک بن انس (متوفٰی 174 ہجری)
    مالک بن انس رئیس مذهب مالکى مى‌گوید: ما رأت عین ولا سمعت اذن ولا خطر على قلب بشر أفضل من جعفر بن محمد الصادق علماً وعبادةً وورعاً۔ ترجمہ: علم و عبادت اور زہد و پرہیزگاری کے لحاظ سے نہ کسی آنکھ نے کسی کو دیکھا جو جعفر بن محمد صادق سے افضل ہے، نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں کبھی اس کا خیال ابھرا۔[52]

(متوفٰی 638 ہجری)

  • ابو عثمان عمر بن بحر (متوفٰى 255 ہجری)

ابو عثمان عمر بن بحر کہتے ہیں: وجعفر بن محمد الذي ملأ الدنيا علمه وفقهه. ويقال: أن أبا حنيفة من تلامذته، و كذلك سفيان الثوري ترجمہ: اور جعفر بن محمد|امام صادق (علیہ السلام)، جن کے علم اور ققہ نے پوری دنیا کو پر کر دیا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ابو حنیفہ اور سفیان ثوری کے شاگرد تھے۔[53]۔[54] اور دیگر اعترافات اور تصدیقات و تصریحات جو اکابرین اہل سنت نے ائمۂ شیعہ کے مقام رفیع کی عظمت اور شان بیان کرتے ہوئے، انجام دیئے ہیں۔

چوتھی دلیل: معجزات

12 ائمۂ شیعہؑ کی امامت کی چوتھی دلیل وہ معجزات ہیں جو متعدد مواقع پر ان سے صادر ہوئے ہیں۔ یہ معجزات درج ذیل صورتوں میں صادر ہوتے رہے ہیں:

کبھی مستقبل کی پیشینگوئی کی صورت میں تھے اور جو کچھ انھوں نے کہا ہے وہ عینا واقع ہوا ہے۔

کبھی غیبی اور ملکوتی حقائق کے بارے میں تھے جن تک رسائی معمول کے راستوں سے ممکن نہيں ہے۔

کبھی طفولت میں علم و دانش کے اظہار کی صورت میں تھے اور دوسروں نے ان کے سامنے عجز و حقارت کا اظہار کیا ہے۔

کبھی عالم تکوین میں ولائی تصرفات کی صورت میں تھے جیسے:

  1. حجر الاسود کا امام سجادؑ کے حکم پر بول اٹھنا اور آپؑ کے دعوی امامت کی حقانیت کی گواہی دینا۔[55]۔
  2. امام مجتبی علیہ السلام کے حکم پر کھجور کی خشک لکڑیوں کا ترو تازہ ہوجانا اور اور پھل دینا۔[56]
  3. امام باقرؑ کا ابو بصیر کو مکمل بصارت دینا جبکہ وہ نابینا تھے اور ان ہی کی درخواست پر انہیں دوبارہ پہلی حالت پر لوٹانا۔[57]

اور سینکڑوں دیگر معجزات جو ائمۂ معصومینؑ سے منقول ہیں اور حدیث و تاریخ کی معتبر کتب منجملہ: اصول کافی، مناقب ابن شہر آشوب، مسعودی کی کتاب اثبات الوصیہ، طبری کی دلائل الامامہ وغیرہ میں درج ہیں۔

ائمۂ معصومین علیہم السلام سے ان معجزات کا صادر ہونا جو دعوی امامت کے ہمراہ ہے، ان کی امامت کی دلیل ہے، جس طرح کہ انبیاء علیہم السلام کے معجزات ان کے دعوی نبوت کا اٹل ثبوت تھا۔

حوالہ جات

  1. مسند احمد، ج5، ص92۔
  2. مسند ابن‌جعد، ص390۔
  3. صحیح ابن‌حبان، ج5، ص44۔
  4. صحیح مسلم، ج6، ص 4۔
  5. مسند ابوداود، ص105؛ ابن‌ابی‌عاصم۔
  6. الآحاد والمثانى، ج3، ص126۔
  7. مسند احمد، ج5، ص86۔
  8. مسند ابویعلى، ج13، ص456۔
  9. قندوزی، ینابیع الموده، ج3، ص292ـ 293۔
  10. صحیح بخارى، ج8، ص127۔
  11. مسند احمد، ج5، ص94۔
  12. سنن ترمذى، ج3، ص340۔
  13. سیوطی، الجامع الصغیر، ج1، ص350۔
  14. متقی هندی، کنزالعمال، ج6، ص89۔
  15. قندوزی، ینابیع الموده، ج2، ص315۔
  16. صدوق، امالى، ص387۔
  17. سیدهاشم بحرانی، غایة المرام، ج2، ص271۔
  18. صدوق، الاعتقادات فى دین الإمامیه، ص108۔
  19. وہی، کمال الدین، ص269۔
  20. همو، عیون اخبار الرضا (علیه السلام)، ج2، ص62۔
  21. صدوق، من لا یحضره الفقیه، ج4، ص180۔
  22. وہی، کمال الدین، ص259۔
  23. سیدهاشم بحرانی، غایة المرام، ج3، ص22۔
  24. خزاز قمى رازى، كفاية الأثر ص34۔
  25. سبزواری، معارج الیقین، ص62۔
  26. سیدهاشم بحرانی، غایة المرام، ج2، ص238۔
  27. صدوق، کمال الدین و تمام النعمه، ص258۔
  28. طبرسی، الاحتجاج، ج1، ص87۔
  29. خزاز قمی، کفایة الاثر، ص145۔
  30. حدیث لوح۔
  31. کلینی، کافى، ج1، ص8؛ ابن‌بابویه قمی۔
  32. الإمامة والتبصره، ص104۔
  33. مفید، الاختصاص، ص210۔
  34. کمال الدين ص308 تا 311۔۔
  35. صدوق، کمال الدین، ص280۔
  36. همو، عیون اخبارالرضا، ج2، ص66۔
  37. سیدهاشم بحرانی، غایة المرام، ج1، ص195۔
  38. خزاز قمی، کفایة الأثر، ص135۔
  39. محمدباقر مجلسی، بحارالانوار، ج36، ص331۔
  40. حلی، کشف المراد، ص539۔
  41. عربی، فتوحات مکیه، ج4، ص139۔
  42. ريحانة الادب میں ہے کہ شبراوی سنہ 1217 میں 80 سال عمر میں انتقال کرگئے ہیں۔
  43. شافعی شبراوی، الاتحاف، ص17۔
  44. قندوزی، ینابیع الموده، ج3، ص103۔
  45. ذهبی، التفسیر والمفسرون، ج1، ص89۔
  46. ابن‌ صباغ، الفصول المهمہ، ص33۔
  47. ذهبی، تذکرة الحفاظ، ج1، ص75۔
  48. ابن‌عساکر، تاریخ مدینه دمشق، ج54، ص278۔
  49. شافعی، مطالب السئول، ص430۔
  50. ذهبی، سیر اعلام النبلاء، ج6، ص258۔
  51. وہی، تاریخ الاسلام، ج9، ص89۔
  52. قسمات التاریخ، ص197۔
  53. رسائل جاحظ، ص106۔
  54. رجوع کریں: ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج15 ص274۔
  55. حلبی، تقریب المعارف فى الکلام، ص119ـ 123۔
  56. وہی ماخذ۔
  57. طبرسی، اعلام الورى، ج1، ص503۔

مآخذ

  • ابن‌ بابویہ قمى، ابو الحسن بن على‌ بن‌ الحسین (متوفى 329)، الامامة والتبصرة من الحیره، تحقیق: على‌ اکبر غفارى، دارالکتب الاسلامیہ، تهران، 1363 ہجری شمسی۔
  • ابن‌ حبان (متوفى 739 ہجری)، صحیح، مؤسسة الرسالہ، 1414 ہجری/ 1993 عیسوی۔
  • ابن‌ صباغ، على‌ بن‌ محمد بن‌ احمد (855)، الفصول المهمة فى معرفة أحوال الأئمة (علیهم السلام)، مطبعة العدل، نجف۔
  • ابن‌ عساکر، على‌ بن‌ الحسن (571 ہجری)، تاریخ مدینه دمشق، تحقیق: على شبیرى، دار الفکر، بیروت، 1415ق۔
  • ابو الجعد جوهرى بغدادى، على‌ بن‌ الجعد، مسند، بیروت، مؤسسة نادر۔
  • احمد بن‌ حنبل، مسند، دار صادر، بیروت، [بى‌تا]۔
  • بحرانى، سید هاشم، غایة المرام و حجة الخصام فى تعیین الامام عن طریق الخاص و العام، تحقیق: سید على عاشور، [بى‌تا]۔
  • بخارى ، محمد بن‌ اسماعیل، صحیح، تحقیق: دکتر مصطفى ریب البغاء، دار الاحیاء التراث العرب، بیروت۔
  • ترمذى، محمد بن‌ عیسى بن‌ سوره، الجامع الصحیح، تحقیق: محمد فؤاد، دار الاحیاء التراث العربى، بیروت۔
  • حلبى، ابو الصلاح تقى‌الدین بن عبیداللّه (374 ہجری)، تقریب المعارف فى الکلام، تحقیق و تصحیح: رضا استادى، 1363 ہجری شمسی/ 1404 ہجری قمری۔
  • حلى، حسن‌ بن‌ یوسف، کشف المراد فى شرح تجرید الاعتقاد، تحقیق: آیت‌ اللّه حسن‌زاده آملى، مؤسسة النشر الاسلامى التابعة لجماعة المدرسین، قم، 1425 ہجری۔
  • خزاز قمى رازى، ابو القاسم على‌ بن‌ محمد، کفایة الاثر فى النص على الائمة الاثنى عشر، تحقیق: سید عبداللطیف حسینى کوه‌کمرى، انتشارات بیدار، قم، 1401 ہجری۔
  • ذهبى، تاریخ الاسلام، تحقیق: عمر عبدالسلام ترمرى، دارالکتاب العربى، بیروت، 1407 ہجری/ 1987 عیسوی۔
  • ذهبى، شمس‌ الدین محمد بن‌ احمد بن‌ عثمان (748 ہجری)، تذکرة الحفاظ، دار الاحیاء التراث العربى، بیروت۔
  • ذهبى، شمس‌ الدین محمد بن‌ احمد بن‌ عثمان، سیر اعلام النبلاء، مؤسسة الرسالة، بیروت، 1413 ہجری/ 1993 عیسوی۔
  • سبزوارى، محمد بن‌ محمد (قرن 7)، معارج الیقین فى اصول الدین، تحقیق: علا آل جعفر، مؤسسة آل البیت(علیهم السلام) لاحیاء التراث، قم، 1410 ہجری/ 1993 عیسوی۔
  • سیوطى، جلال‌ الدین (911 ہجری)، الجامع الصغیر فى احادیث البشیر النذیر، دار الفکر، بیروت، 1401 ہجری/ 1981 عیسوی۔
  • شافعى ، کمال‌ الدین محمد بن‌ طلحہ (652 ہجری)، مطالب السئول فى مناقب آل الرسول (صلى الله علیہ و آلہ و سلم)، تحقیق: ماجد احمد العطیہ۔
  • شافعی شبراوى ، عبداللّه بن‌ محمد (متوفى 1172 ہجری)، الاتحاف، مصر۔
  • صدوق ، محمد بن‌ على بن‌ بابویہ قمى (381 ہجری)، الامالى، تحقیق و نشر: مؤسسة البعثة، قم، 1417ق۔
  • صدوق، محمد بن‌ على بن‌ بابویہ قمى، کمال الدین و تمام النعمة، تحقیق: على‌ اکبر غفارى، مؤسسة النشر الاسلامى التابعة لجماعة المدرسین، قم، 1416 ہجری۔
  • صدوق، محمد بن‌ على بن‌ بابویہ قمى، من لا یحضره الفقیہ، تصحیح و تعلیق: على‌ اکبر غفارى، انتشارات جامعہ مدرسین، قم، 1404 ہجری/ 1363 ہجری شمسی۔
  • صدوق، محمد بن‌ على بن‌ بابویہ قمى، عیون اخبار الرضا (علیہ السلام)، تحقیق: شیخ حسین الاعلمى، مؤسسة الاعلمى، بیروت، 1404 ہجری/ 1984 عیسوی۔
  • ضحّاک، ابن‌ ابی‌ عاصم، الاحاد والمثانى، تحقیق: فیصل احمد الجوابره، دار الدراسة، 1411 ہجری/ 1991 عیسوی۔
  • طبرسى، ابو على فضل‌ بن‌ حسن، اعلام الورى باعلام الهدى، مؤسسة آل البیت (علیهم السلام) لاحیاء التراث، قم، 1417 ہجری۔
  • طبرسى، ابو منصور احمد بن‌ على بن‌ابو طالب (548)، الاحتجاج، تحقیق: سید محمد باقر خراسانى، دار النعمان، نجف الأشرف، 1386 ہجری/ 1966عیسوی۔
  • عربى، محیى‌ الدین محمد بن‌ على (638 ہجری)، الفتوحات المکیہ، دار صادر، بیروت۔
  • قندوزى، سلیمان‌ بن‌ ابراهیم بن‌ محمد (1294 ہجری)، ینابیع الموده، مؤسسة الاعلمى للمطبوعات، بیروت۔
  • کلینى ، ابو جعفر محمد‌ بن‌ یعقوب (329 ہجری)، الکافى، دار الکتب الاسلامیہ، تهران، 1363 ہجری شمسی۔
  • متقى هندى، على‌ بن‌ حسام‌ الدین، کنزالعمال فى سنن الأقوال والأفعال، تحقیق: شیخ کبرى حیانى، مؤسسة الرسالة، بیروت، 1409 ہجری/ 1989 عیسوی۔
  • مجلسى، محمد باقر، بحارالانوار، تحقیق: یحیى عابدى و عبدالرحیم ربانى، مؤسسة الوفاء، بیروت، 1403 ہجری/ 1983 عیسوی۔
  • مسلم‌ بن‌ حجاج نیشابورى، صحیح، دار احیاء التراث العربى، بیروت۔
  • مفید، محمد بن‌ النعمان العکبرى (413)، الاختصاص، دار المفید، بیروت، 414 ہجری/ 19931 عیسوی۔
  • موصلى تمیمى، احمد بن‌ على، مسند ابو یعلى، دمشق، دار المأمون للتراث۔
  • صدوق، محمد بن‌ على، الاعتقادات فى دین الامامیہ، دار المفید للطباعة والنشر، بیروت۔