عمر بن سعد کا لشکر

ویکی شیعہ سے

عمر بن سعد کا لشکر، وہ لشکر ہے جو عمر بن سعد نے عبیداللہ بن زیاد کے حکم پر تیار کیا اور جس نے عاشورا کے دن کربلا میں امام حسینؑ اور آپ کے اصحاب کے ساتھ جنگ کی اور انکو شہید کیا اس کے بعد امام حسینؑ کے اہل بیت کو اسیر کیا۔

اکثر منابع میں عمر بن سعد کے لشکر کی تعداد 20 ہزار سے زیادہ کہی گئی ہے۔ عمر بن سعد کے لشکر والے کوفہ کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے تھے جو مختلف اہداف اور مقاصد لیکر کربلا میں حاضر ہوئے تھے۔ ان میں سے اکثر عثمانی مذہب سے تعلق رکھتے تھے اور کچھ افراد کا تعلق خوارج سے تھا۔ ابن سعد کے لشکر میں بعض افراد اہل بیتؑ کے ساتھ دشمنی رکھتے تھے اور بعض ابن زیاد کے ڈر یا لالچ کی وجہ سے کربلا میں حاضر ہوئے تھے۔

نام اور تعداد

وہ لشکر جس کا سپاہ سالار عمر بن سعد تھا جنہوں نے عاشورا کے دن کربلا میں امام حسینؑ کے مقابلے میں آنے والے لشکر کا سپہ سالار عمر بن سعد بن ابی‌ وقاص تھا اسی وجہ سے یہ لشکر "عمر بن سعد کے لشکر" سے مشہور ہے۔ اکثر منابع کے مطابق، اس لشکر کی تعداد ابتداء میں تقریباً 4000 افراد تھی [1] لیکن دوسرے لشکر اضافہ ہونے سے 20000 سے زیادہ ہو گئی۔ [2] البتہ عمر سعد کے لشکر کی تعداد 6 سے 35 ہزار تک کہی گئی ہے اور دوسرے اعداد جیسے 6 ہزار، [3] 14 ہزار، [4] 17 ہزار، [5] 22 ہزار، 28 ہزار، [6] 30 ہزار، [7] 32 ہزار، [8] کہے گئے ہیں۔

لشکر کی تشکیل

عمر بن سعد واقعہ کربلا سے پہلے، کوفہ سے باہر حمام اعین کے مقام پر ری جانے اور دیلمیوں سے جنگ کی قصد سے رکا ہوا تھا۔ لیکن اس سے پہلے کہ "ری" کی طرف حرکت کرے، امام حسینؑ کا کاروان نے کربلا میں پڑاؤ ڈالا۔ بصرہ اور کوفہ کا حاکم عبیداللہ بن زیاد نے عمر بن سعد کی ری کی طرف حرکت کرنے سے پہلے امام حسینؑ سے مقابلہ کرنے کربلا جانے کا کہا۔ عمر بن سعد نے شروع میں نہیں مانا لیکن عبیداللہ نے ری کی حکومت حاصل کرنے کے لئے کربلا جانے کی شرط رکھی پھر عمر بن سعد لشکر سمیت کربلا کی طرف چلا۔ [9]

ابن زیاد کے ہاتھوں لشکر میں اضافہ

بعض گزارشات کے مطابق، جب عمر سعد کا لشکر کربلا کی طرف نکلا تو کوفہ کے کچھ افراد، ابن زیادہ سے ڈر کر یا لالچ میں آ کر عمر سعد کے لشکر سے مل گئے، ابن زیاد نے لوگوں کو مسجد کوفہ میں جمع کیا اور ان کے بڑوں کو تحفے دے کر، لالچ دیا اس کے بعد ان کو عمر بن سعد کے ساتھ مل کر امام حسینؑ کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے کہا۔[10] ابن زیاد نے عمر بن حریث کو کوفہ میں اپنی جگہ پر بٹھایا اور خود نے نخلیہ میں لشکر کے ساتھ پڑاؤ ڈالا اور کوفیوں کو وہاں آنے پر مجبور کردیا۔[11] اس نے سب کوفیوں کو عمرابن سعد کے لشکر سے ملحق ہونے کو واجب قرار دیا اور سوید بن عبدالرحمن منقری کو کوفہ بھیجا اور اسے حکم دیا کہ کوفہ میں تلاش کرے اگر کوئی امام حسینؑ سے جنگ کرنے سے انکار کرے اسے میرے پاس لے کر آئے۔[12] [یادداشت 1]

عبیداللہ بن زیاد نے، حصین بن تمیم اور چار ہزار سپاہیوں کو حکم دیا کہ قادسیہ سے نخیلہ کی طرف آئیں۔ [13] اس نے نخیلہ سے حصین بن نمیر، حجاز بن ابجر، شبث بن ربعی اور شمر بن ذی الجوشن کو حکم دیا کہ عمربن سعد کے لشکر سے مل جائیں۔[14] شمر ٤000 افراد، یزید بن رکاب کلبی 2000 افراد، حصین بن نمیر ٤000 افراد، مضایر بن رھینہ مازنی ٣000 افراد اور نصر بن حربہ نے 2000 افراد [15] کے ساتھ اس کے حکم کو عملی کیا۔ اسی طرح ابن زیاد کے حکم سے، شبث بن ربعی، حجار بن ابجر، [16] محمد بن اشعث [17] اور یزید بن حارث ہر ایک ہزار سوار کے ہمراہ عمر بن سعد کے لشکر سے ملنے کے لئے کربلا کی طرف روانہ ہوئے۔ [18]

عبیداللہ بن زیادہ ہر روز صبح اور دوپہر کو، کوفہ سے 20 لشکر ہر لشکر میں 100 افراد، جنہیں کربلا روانہ کرتا۔ [19] یہاں تک کہ 6 محرم کو ابن سعد کے لشکر کی تعداد تقریباً 22000 افراد تک پہنچ گئی۔ [20]

لشکر میں حاضر گروہ اور ان کے مقاصد

عمر بن سعد کا لشکر کوفہ کے مختلف اہداف رکھنے والے[21] مختلف گروہوں سے تشکیل پایا تھا۔[22] عمر سعد کے لشکر کے اکثر افراد عثمانی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ [23] تاریخی منابع میں ان گروہوں میں شریک افراد کو عقیدے کے حوالے سے عثمانی مذہب سے تعلق رکھنے والے قرار دئے ہیں۔[24] اور ابوبردۃ بن عوف ازدی، [25] شیبان بن مخروم [26]، کثیر بن شہاب [27]، کعب بن جابر ازدی، عمر بن سعد، بشر بن سوط و عمارة بن عقبة ابی‌معیط جیسے افراد کو اس عقیدے کے ماننے والے افراد میں سے شمار کیا ہے۔[28]

عمر بن سعد کے لشکر میں بعض افراد بنی امیہ کے طرف دار اور امام علیؑ کے مخالف اور شیعہ کے دشمن بھی تھے، کہا گیا ہے: شیبان بن مخزوم کو امام علیؑ سے نفرت تھی، [29] شبث بن ربعی جسے معاویہ نے امام حسنؑ کو شہید کرنے کا حکم دیا تھا،[30] کثیر بن عبداللہ شعبی جو کہ اہل بیتؑ سے دشمنی رکھتا تھا۔[31] اور عبدالرحمن بن ابی عمیر ثقفی جس نے عمروبن حمق خزاعی کا سر عثمان بن عفان کے انتقام کی خاطر تن سے جدا کیا، اسی طرح محمد بن عمیر تمیمی، شمر بن ذی الجوشن، عمر بن سعد، کثیر بن شہاب حارثی، شبث بن ربعی، عبیداللہ بن مسلم حضرمی، زحر بن قیس، خالد بن عرطفہ عذری، حجاز بن ابجر، اسماء بن خارجہ فزاری، عزرہ بن قیس، عمروبن حجاج زبیدی، سوید بن عبدالرحمان اور عمارہ بن عقبہ ابی معیط، یہ عمر بن سعد کے لشکر کے وہ افراد تھے جنہوں نے زیادہ بن ابیہ کے آگے حجر بن عدی (جو کہ امام علیؑ کا شیعہ اور صحابہ تھا) کی گواہی تھی۔ [32]

ان میں سے بعض کوفہ کے اشراف تھے جنہوں نے امام حسینؑ کو خط لکھ کر کوفہ آنے کی دعوت دی تھی لیکن کوفہ میں ابن زیادہ کے لشکر کو دیکھ کر ڈر اور لالچ کی وجہ سے اس کے ساتھ مل گئے۔ عروہ بن قیس، شبث بن ربعی، حجار بن ابجر، قیس بن اشعث، یزید بن حارث، عمروبن حجاج اور محمد بن عمیر تمیمی ان افراد میں سے تھے۔ [33]

کوفہ اور شام کے بعض افراد ابن زیادہ کے ڈر اور مجبوری کی وجہ سے عمربن سعد کے لشکر میں شامل ہوئے، [34]عمر سعد جو کہ امام حسینؑ سے جنگ کرنے سے فرار کر رہا تھا لیکن ابن زیاد سے قتل کی دھمکی اور شہر ری کی حکومت کے لالچ میں آ گیا۔ [35] شبث بن ربعی جس نے بیماری کا بہانہ بنایا تا کہ حسین بن علیؑ کے ساتھ جنگ نہ کرے لیکن ابن زیاد کے ڈر اور لالچ میں آ کر کربلا جانا پڑھا۔[36]

بعض افراد جو کہ اکثر جنگوں جیسے کہ جمل، صفین یا نہروان میں امام علیؑ کے رکاب میں تھے اور واقعہ کربلا میں عمر بن سعد کے لشکر سے ملحق ہو گئے تھے جیسے شمر بن ذی الجوشن، [[37] محمد بن عمیر تمیمی،[38] زحر بن قیس جعفی[39] اور شبث بن ربعی۔[40]

سپاہ سالاری

عمر بن سعد کی لشکر کے سپہ سالار مندرجہ ذیل تھے:

  • شمر بن ذی‌الجوشن میسرہ (فوج کے بائیں جانب) کے سپہ سالار،
  • عمرو بن حجاج زبیدی میمنہ (دائیں جانب)،
  • عزرة بن قیس سوار افراد کے سپہ سالار،
  • شبث بن ربعی پیدل لشکر کے سپہ سالار،

اور پرچم کو اپنے غلام زید کے ہاتھ میں دیا۔[41] عمر بن سعد نے حر بن یزید ریاحی کو بنی تمیم اور بنی ہمدان کی سپاہ سالاری کے لئے انتخاب کیا لیکن حر اس لشکر سے جدا ہو کر امام حسینؑ اور آپ کے ساتھیوں کے ساتھ مل گیا۔[42]

لشکر چھوڑنے والے

عاشورا کے دن عمر بن سعد کے لشکر کے کچھ افراد اس سے نکل کر امام حسینؑ کے لشکر میں ملحق ہو گئے۔ بعض منابع میں ان افراد کی تعداد 30 تک بتائی جاتی ہے۔[43] حر بن یزید ریاحی، [44] سعد بن حرث انصاری، ابوالحتوف بن حرث انصاری،[45] نعمان بن عمرو ازدی راسبی، حلاس بن عمرو،،[46] بکر بن حی تمیمی،[47] قاسم بن حبیب بن ابی بشر ازدی، [48]، جوین بن مالک[49]، ابوالشعثاء کندی[50] اور عمرو بن ضبیعه [51] ان افراد سے تھے۔ البتہ بعض مؤلفین معتقد ہیں کہ یہ افراد ابن سعد کے لشکر میں امام حسینؑ کے ساتھ جنگ کرنے کی نیت سے نہیں آئے تھے بلکہ جہاں تک کہ ابن زیادہ نے کوفہ سے خارج ہونے کے راستے بند کر دئیے تھے اور یہ ابن زیاد کے لشکر میں شامل ہو کر امام حسینؑ تک پہنچے تھے۔[حوالہ درکار]


کربلا میں اقدامات

عمر بن سعد کے لشکر نے کربلا میں پہنچ کر کچھ امور انجام دئے جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

امام حسینؑ اور آپ کے اصحاب پر پانی بند کرنا

جب عمر بن سعد کو ابن زیاد کا خط ملا کہ جس میں امام حسینؑ پر پانی بند کرنے کا کہا گیا تھا، تو ابن سعد کے حکم سے، عمرو بن حجاج 7 محرم کو، پانچ سو سوار کے ہمراہ نہر فرات کے کنارے گیا تا کہ امام حسینؑ اور ان کے اصحاب تک پانی نہ پہنچ سکے۔[52]

امام حسینؑ اور آپ کے اصحاب کی شہادت

عمر بن سعد کے لشکر نے عاشورا کے دن جنگ کا آغاز کیا۔ پہلا تیر خود عمر بن سعد نے چلایا۔ [53] انہوں نے امام حسینؑ اور آپکے ساتھیوں کو شہید کر دیا۔ اس کے بعد امامؑ کے جسم پر جو کچھ تھا اسے اپنے ساتھ لے گئے۔ قیس بن اشعث اور بحر بن کعب، (کپڑے) [54]، اسود بن خالد اودی (نعلین)، جمیع بن خلق اودی (تلوار)، اخنس بن مرثد (عمامہ)، بجدل بن سلیم (انگوٹھی) اور عمر بن سعد نے (زرہ)[55] لوٹ لی۔

خیموں کو آگ لگانا

عمر بن سعد کے لشکر نے، امام حسینؑ اور آپ کے اصحاب کی شہادت کے بعد خیموں پر حملہ کیا اور جو کچھ ملا اسے غنیمت کے طور پر لوٹ لیا۔ [56] اس کے بعد خیموں کو آگ لگا دی۔ [57]

امام حسینؑ کے بدن مبارک پر گھوڑے دوڑانا

ابن زیاد کے حکم کو جاری کرنے کے لئے عمر بن سعد کے حکم پر ، لشکر کے دس افراد نے امام حسینؑ کے بدن مبارک کو پامال کیا اور آپ کے سینے اور کمر کی ہڈیوں کو چور کر دیا۔ [58] اسحاق بن حویہ، اخنس بن مرثد[59] حکیم بن طفیل، عمروبن صبیح، رجاء بن منقذ عبدی، سالم بن خیثمہ جعفی، واحظ بن ناعم، صالح بن وہب جعفی، ہانی بن شبث خضرمی اور اسید بن مالک [60] نے گھوڑوں کو امام حسینؑ کے بدن مبارک پر دوڑایا۔

شہداء کے سروں کو کوفہ بھیجنا

عمر بن سعد کے سپاہیوں نے شہداء کربلا کے سروں کو تن سے جدا کر دیا اور عمر بن سعد کے حکم پر کوفہ بھیج دیا۔ خولی بن یزید اصبحی اور حمید بن مسلم ازدی حسین بن علیؑ کے سر کو عبیداللہ بن زیادہ کے پاس لے کر گئے۔ اور شمر ذی الجوشن، قیس بن اشعث، عمروبن حجاج اور عزرہ بن قیس دوسرے شہداء کے سروں کو کوفہ لے گئے۔ [61]

اہل بیتؑ کو قیدی بنانا

عمر بن سعد کے حکم پر، اس کے سپاہیوں نے اپنے لشکر والوں کے جنازوں کو دفن کیا[62] اس کے بعد امام حسینؑ کے قافلے کے بچے ہوئے افراد کو قیدی بنا کر ابن زیاد کے پاس کوفہ اور وہاں سے شام میں یزید کے دربار بھیجا۔ [63]

مرنے والوں کی تعداد

عمر بن سعد کے سپاہیوں میں ہلاک ہونے والوں کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہے۔ بعض شیعہ منابع کے مطابق، ابن سعد کے لشکر کے 225 یا 226 افراد کو امام حسینؑ کے انصار و اصحاب نے قتل کیا [64] اور بعض نے ان کی تعداد تقریباً 900 کہی ہے۔ [65] "مناقب ابن شہر آشوب" کی روایت میں بیان ہوا ہے کہ عاشورا کے دن خود امام حسینؑ نے عمر بن سعد کے لشکر کے 1950 افراد کو قتل اور کچھ کو زخمی کیا۔ [66] اور "اثبات الوصیہ" میں عمر بن سعد کے لشکر کے 1800 افراد امام حسینؑ کے ہاتھوں قتل ہوئے ہیں۔[67]

نوٹ

  1. سوید نے اہل شام میں سے ایک مرد کو گرفتار کیا اور اسے ابن زیاد کے پاس بھیجا۔ ابن زیاد نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا۔ دینوری، الاخبار الطوال، 1368ش، صص254-255؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1397ق، ج3، ص179۔اس کو قتل کرنے کا مقصد کوفہ کے لوگوں کو ڈرانا تھا تاکہ نخیلہ جانے سے انکار نہ کریں اس کے قتل کے بعد کوفہ کے مرد نخیلہ کو روانہ ہو گئے۔ بلاذری، انساب الاشراف، 1397ق، ج3، ص179۔

حوالہ جات

  1. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ھ، ج5، ص409؛ دینوری، الاخبار الطوال، 1368ش، ص253۔
  2. ابن اعثم کوفی، الفتوح، ج5، ص89-90؛ ابن طاوس؛ اللہوف، 1348ش، ص85۔
  3. ابن جوزی، تذکرة الخواص، 1418ق، ص226۔
  4. طبری، دلایل الامامہ، 1413ق، ص178۔
  5. کاشفی، روضۃ الشہداء، 1382ش، ص346۔
  6. مسعودی، اثبات الوصیہ، 1426ق، ص166۔
  7. ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌طالب، ج 4، ص86؛ شیخ صدوق، الامالی، 1376ش، مجلس 70، ص461، ح10۔
  8. کاشفی، روضۃ الشہداء، 1382ش، ص346۔
  9. ملاحظہ کریں: طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ق، ص409؛ دینوری، الاخبار الطوال، 1368ش، ص253۔
  10. بلاذری، انساب الاشراف، 1397ق، ج3، ص178؛ ابن اعثم کوفی، الفتوح، 1411ق، ج5، ص89۔
  11. بلاذری، انساب الاشراف، 1397ق، ج3، ص178۔
  12. دینوری، الاخبار الطوال، 1368ش، صص254-255؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1397ق، ج3، ص179۔
  13. بلاذری، انساب الاشراف، 1397ق، ج3، ص178۔
  14. ↑ دینوری، اخبار الطوال، 1368ش، ص254؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1397ق، ج3، ص178۔
  15. ابن اعثم کوفی، الفتوح، 1411ق، ج5، ص89
  16. بلاذری، انساب الاشراف، 1397ق، ج3، ص178؛ ابن اعثم کوفی، الفتوح، 1411ق، ج5، ص90-89۔
  17. شیخ صدوق، الامالی، ص155۔
  18. بلاذری، انساب الاشراف، 1397ق، ج3، ص179۔
  19. بلاذری، انساب الاشراف، 1397ق، ج3، ص179۔
  20. ابن اعثم کوفی، الفتوح، ج5، 1411ق، ص90۔
  21. ملاحظہ کریں: ہدایت‌ پناه، بازتاب تفکر عثمانی در واقعه کربلا، 1389ش، ص166۔
  22. ابن جوزی، تذکرة الخواص، 1418ق، ص226۔
  23. ر۔ ک۔ ہدایت پناه، بازتاب تفکر عثمانی در واقعه کربلا، 1389ش، ص166۔
  24. ملاحظہ کریں: هدایت پناه، بازتاب تفکر عثمانی در واقعه کربلا، 1389ش، ص166۔
  25. منقری، وقعۃ الصفین، 1404ق، ص5۔
  26. ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج14، ص221۔
  27. بلاذری، فتوح البلدان، 1988م، ص301۔
  28. ہدایت‌ پناه، بازتاب تفکر عثمانی در واقعہ کربلا، 1389ش، ص87-95۔
  29. ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج14، ص221۔
  30. صدوق، علل الشرایع، 1385ش، ج1، ص220-221۔
  31. بلاذری، فتوح البلدان، 1988م، ص301۔
  32. بلاذری، انساب الاشراف، 1400ق، ج5، ص255؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ق، ج5، ص269-270۔
  33. رک: طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ق، ج5، ص353-354۔
  34. ابن اعثم کوفی، الفتوح، 1411ق، ج5، ص89۔
  35. ابن اعثم کوفی، الفتوح، 1411ق، ج5، ص86-85۔
  36. ابن اعثم کوفی، الفتوح، 1411ق، ج5، ص89-90۔
  37. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ق، ج5، ص28؛ منقری، وقعۃ صفین، 1404ق، ص198-195۔
  38. ابن اثیر، الکامل، 1385ق، ج4، ص144۔
  39. ابن اعثم کوفی، الفتوح، 1411ق، ج4، ص207۔
  40. منقری، وقعۃ صفین، 1404ق، ص198-195۔
  41. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ق، ج5، ص422، 436؛ دینوری، اخبارالطوال، 1368ش، ص256۔
  42. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ق، ج5، ص427؛ مفید، الارشاد، 1399ق، ج2، ص99۔
  43. ابن کثیر، البدایه و النهایه، 1407ق، ج8، ص180۔
  44. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ق، ج5، ص427؛ مفید، الارشاد، 1399ق، ج2، ص99۔
  45. سماوی، ابصارالعین، 1419ق، ص159۔
  46. سماوی، ابصارالعین، 1419ق، ص187۔
  47. سماوی، ابصارالعین، 1419ق، ص194۔
  48. سماوی، ابصارالعین، 1419ق، ص186۔
  49. سماوی، ابصارالعین، 1419ق، ص194۔
  50. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ق، ج5، ص445۔
  51. سماوی، ابصارالعین، 1419ق، ص194۔
  52. دینوری، اخبارالطوال، 1368ش، ص255؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ق، ج5، ص412؛ مفید، الارشاد، 1399ق، ج2، ص86۔
  53. ابن طاووس، اللہوف، 1348ش، ص110۔
  54. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ق، ج5، ص543۔
  55. ابن طاوس، اللہوف، 1348ش، ص130۔
  56. قمی، نفس المہموم، 1379ش، ص479۔
  57. ابن اعثم کوفی، الفتوح، 1411ق، ج5، ص138؛ سید طاووس، اللہوف، 1348ش، ص180۔
  58. الإرشاد، المفید ،ج‏2،ص113، بلاذری، انساب‌الاشراف، 1397ق، ج3، ص204؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ق، ج5، ص455۔
  59. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ق، ج5، ص455۔
  60. ابن طاوس، اللہوف، 1348ش، ص135۔
  61. ↑ بلاذری، انساب‌الاشراف، 1397ق، ج3، ص411؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ق، 1387ق، ج5، ص456۔
  62. بلاذری، انساب الاشراف، 1397ق، ج3، ص411۔
  63. طبری، تاریخ‌الأمم و الملوک، 1387ق، ج5، ص456۔
  64. الامالی، مجلس 30، ح1، ص223ـ226؛ فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، ص186-188۔
  65. ابن شہرآشوب، مناقب، 1379ق، ج4، ص109ـ114۔
  66. ابن شہر آشوب، مناقب، ج4، ص110۔
  67. مسعودی، اثبات الوصیہ، 1426ق، ص168۔

مآخذ

  • ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دارصادر، 1965م/1385ھ۔
  • ابن اعثم کوفی، احمد، الفتوح، تحقیق: علی شیری، بیروت، دارالأضواء، ط الأولی، 1411ق/1991ء۔
  • ابن جوزی، سبط، تذکرة الخواص، قم، منشورات الشریف الرضی، 1418ھ۔
  • ابن شہر آشوب مازندرانی، مناقب آل ابی‌ طالب علیہم‌السلام، قم، علامہ، 1379ھ۔
  • ابن طاووس، علی بن موسی، اللہوف، جہان، تہران، 1348شمسی ہجری۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الأشراف (5)، تحقیق: احسان عباس، بیروت، جمعیۃ المستشرقین الألمانیۃ، 1979م/1400ھ۔
  • ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشھ۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الأشراف (ج3)، تحقیق: محمد باقر محمودی، دارالتعارف للمطبوعات، بیروت، 1977م/1397ھ۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، فتوح البلدان، بیروت، دار و مکتبۃ الہلال، 1988ء۔
  • دینوری، احمد بن داود، الأخبار الطوال، تحقیق: عبدالمنعم عامر مراجعہ جمال الدین شیال، منشورات الرضی، قم، 1368شمسی ہجری۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الامالی، تہران، کتابچی، 1376شمسی ہجری۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، قم، کتاب‌ فروشی داوری، 1385ش/1966ء۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1399ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر بن رستم، دلائل الامامہ، قم، بعثت، 1413ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق: محمدأبوالفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، 1387ق/1967ء۔
  • کاشفی سبزواری، ملاحسین، روضۃ الشہداء، قم، نوید اسلام، 1382شمسی ہجری۔
  • مسعودی، علی بن حسین، اثبات الوصیہ للامام علی بن ابی طالب، قم، انصاریان، 1426ھ۔
  • منقری، نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، تحقیق: عبدالسلام محمد ہارون، قاہره، المؤسسۃ العربیۃ الحدیثۃ، الطبعۃ الثانیۃ، 1382ھ۔ افست قم، منشورات مکتبۃ المرعشی النجفی، 1404ھ۔
  • ہدایت‌ پناه، محمدرضا، بازتاب تفکر عثمانی در واقعہ کربلا، قم، پژوہشگاه حوزه و دانشگاه، 1389شمسی ہجری۔