مندرجات کا رخ کریں

"تقیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

195 بائٹ کا ازالہ ،  18 دسمبر 2018ء
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 34: سطر 34:
<font color=green>{{قرآن کا متن|«لَّمَن كَفَرَ بِاللَّـهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَـٰكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّـهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ»|ترجمہ =جو شخص بھی ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرلے .... علاوہ اس کے کہ جو کفر پر مجبور کردیا جائے اور اس کا دل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو ....اور کفر کے لئے سینہ کشادہ رکھتا ہو اس کے اوپر خدا کا غضب ہے اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔|سورت=نحل|آیت=106}}'''</font><br/>
<font color=green>{{قرآن کا متن|«لَّمَن كَفَرَ بِاللَّـهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَـٰكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّـهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ»|ترجمہ =جو شخص بھی ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرلے .... علاوہ اس کے کہ جو کفر پر مجبور کردیا جائے اور اس کا دل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو ....اور کفر کے لئے سینہ کشادہ رکھتا ہو اس کے اوپر خدا کا غضب ہے اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔|سورت=نحل|آیت=106}}'''</font><br/>


یہ [[آیت]] [[عمار یاسر]] اور اسکے مشرکین کے ظلم و بربریت سے بچنے کی خاطر تقیہ اختیار کرتے ہوئے کفر کے اظہار کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ [[پیغمبر اکرم(ص)]] نے عمار یاسر کے اس کام کی تائید کرتے ہوئے آئندہ بھی ایسی حالات کے پیش آنے پر اس عمل کو تکرار کرنے کا حکم دیا۔ <ref>واحدی نیشابوری، ص۱۹۰؛ زَمَخْشَری؛ طَبْرِسی؛ قُرطُبی، اسی آیت کے ذیل میں</ref>
یہ [[آیت]] [[عمار یاسر]] اور اسکے مشرکین کے ظلم و بربریت سے بچنے کی خاطر تقیہ اختیار کرتے ہوئے کفر کے اظہار کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ [[پیغمبر اکرمؐ]] نے عمار یاسر کے اس کام کی تائید کرتے ہوئے آئندہ بھی ایسی حالات کے پیش آنے پر اس عمل کو تکرار کرنے کا حکم دیا۔ <ref>واحدی نیشابوری، ص۱۹۰؛ زَمَخْشَری؛ طَبْرِسی؛ قُرطُبی، اسی آیت کے ذیل میں</ref>


<font color=green>{{قرآن کا متن|«و قَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللَّـهُ وَقَدْ جَاءَكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ ۖ وَإِن يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ ۖ وَإِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ ۖ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ»|ترجمہ =اور فرعون والوں میں سے ایک مرد مومن نے جو اپنے ایمان کو حُھپائے ہوئے تھا یہ کہا کہ کیا تم لوگ کسی شخص کو صرف اس بات پر قتل کررہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے اور وہ تمہارے رب کی طرف سے کھلی ہوئی دلیلیں بھی لے کر آیا ہے اور اگر جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا عذاب اس کے سر ہوگا اور اگر سچا نکل آیا تو جن باتوں سے ڈرا رہا ہے وہ مصیبتیں تم پر نازل بھی ہوسکتی ہیں - بیشک اللہ کسی زیادتی کرنے والے اور جھوٹے کی رہنمائی نہیں کرتا ہے۔|سورت=غافر|آیت=28}}'''</font><br/>
<font color=green>{{قرآن کا متن|«و قَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللَّـهُ وَقَدْ جَاءَكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ ۖ وَإِن يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ ۖ وَإِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ ۖ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ»|ترجمہ =اور فرعون والوں میں سے ایک مرد مومن نے جو اپنے ایمان کو حُھپائے ہوئے تھا یہ کہا کہ کیا تم لوگ کسی شخص کو صرف اس بات پر قتل کررہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے اور وہ تمہارے رب کی طرف سے کھلی ہوئی دلیلیں بھی لے کر آیا ہے اور اگر جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا عذاب اس کے سر ہوگا اور اگر سچا نکل آیا تو جن باتوں سے ڈرا رہا ہے وہ مصیبتیں تم پر نازل بھی ہوسکتی ہیں - بیشک اللہ کسی زیادتی کرنے والے اور جھوٹے کی رہنمائی نہیں کرتا ہے۔|سورت=غافر|آیت=28}}'''</font><br/>
سطر 46: سطر 46:
بہت ساری احادیث تقیہ کے جواز پر دلالت کرتی ہیں۔<ref>موسوی بجنوردی، القواعد الفقہیہ، ج۵، ص۵۳؛ ان احادیث سے زیادہ سے زیادہ آگاہی کیلئے کتاب وسایل الشیعہ، ج۱، باب ۲۵ و ج۱۶، باب۲۹</ref> احادیث کے مطابق تقیہ مومن کے افضل ترین کاموں میں سے ہے اور امت کی اصلاح کا موجب ہے اور دین اس کے بغیر کامل نہیں ہے۔<ref> کلینی، الکافی، ج۲، ص۲۱۷ـ ۲۲۱؛ مجلسی، بحار الانوار، ج۷۲، ص۳۹۴، ۳۹۷ـ ۳۹۸، ۴۲۳</ref> اضطراری اور خاص حالات میں تقیہ کے جواز یا وجوب پر موجود احادیث <ref> ابن حنبل، مسندالامام احمدبن حنبل، ج۵، ص۱۶۸؛ کلینی، الکافی، ج۲، ص۲۱۸، حدیث ۷؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۷۲، ص۴۲۱، ۴۲۸</ref> کے علاوہ بعض احادیث عام حالات میں بھی اس کے جواز پر موجود ہیں۔<ref> حرّ عاملی، وسایل الشیعہ، ج۱۶، ص۲۱۴ـ ۲۱۸</ref> اسی طرح وہ احادیث جو دلالت کرتی ہیں کہ احکام شرعی اولیہ، اضطرار اور احتاج کی صورت میں اٹھا لئے جاتے ہیں جیسے [[حدیث رفع]] اور [[حدیث لاضرر]] <ref> ابن حنبل، مسندالامام احمدبن حنبل، ج۱، ص۳۱۳، ج۵، ص۳۲۷؛ کلینی، الکافی، ج۵، ص۲۸۰، ۲۹۲ـ۲۹۴؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۵، ص۳۰۳</ref> وغیرہ تقیہ کے جواز پر اہم ترین دلائل میں شمار ہوتی ہیں۔<ref>قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ذیل نحل: ۱۰۶؛ انصاری، التقیہ، ص۴۰؛ امین، نقض الوشیعہ، ص۱۸۹؛ موسوی بجنوردی، القواعد الفقہیہ، ج۵، ص۵۴ ـ ۵۵</ref> اسی طرح وہ احادیث جو جھوٹ اور [[توریہ]] کو خاص موارد میں تجویز کرتے ہیں، جیسے "کتمان" سے مربوط احادیث وغیرہ بھی تقیہ کی مشروعیت پر بہترین دلیل ہے۔<ref> کلینی، الکافی، ج۲، ص۲۲۱ـ۲۲۶؛ غزالی، احیاء علوم الدین، ج۳، ص۱۳۷؛ امین، نقض الوشیعہ، ص۱۸۸ـ ۱۸۹</ref> اسی طرح اکراہ سے متعلق احادیث بھی تقیہ پر دلیل بنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔<ref> خمینی، المکاسب المحرمہ، ج۲، ص۲۲۶ـ۲۲۷</ref>
بہت ساری احادیث تقیہ کے جواز پر دلالت کرتی ہیں۔<ref>موسوی بجنوردی، القواعد الفقہیہ، ج۵، ص۵۳؛ ان احادیث سے زیادہ سے زیادہ آگاہی کیلئے کتاب وسایل الشیعہ، ج۱، باب ۲۵ و ج۱۶، باب۲۹</ref> احادیث کے مطابق تقیہ مومن کے افضل ترین کاموں میں سے ہے اور امت کی اصلاح کا موجب ہے اور دین اس کے بغیر کامل نہیں ہے۔<ref> کلینی، الکافی، ج۲، ص۲۱۷ـ ۲۲۱؛ مجلسی، بحار الانوار، ج۷۲، ص۳۹۴، ۳۹۷ـ ۳۹۸، ۴۲۳</ref> اضطراری اور خاص حالات میں تقیہ کے جواز یا وجوب پر موجود احادیث <ref> ابن حنبل، مسندالامام احمدبن حنبل، ج۵، ص۱۶۸؛ کلینی، الکافی، ج۲، ص۲۱۸، حدیث ۷؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۷۲، ص۴۲۱، ۴۲۸</ref> کے علاوہ بعض احادیث عام حالات میں بھی اس کے جواز پر موجود ہیں۔<ref> حرّ عاملی، وسایل الشیعہ، ج۱۶، ص۲۱۴ـ ۲۱۸</ref> اسی طرح وہ احادیث جو دلالت کرتی ہیں کہ احکام شرعی اولیہ، اضطرار اور احتاج کی صورت میں اٹھا لئے جاتے ہیں جیسے [[حدیث رفع]] اور [[حدیث لاضرر]] <ref> ابن حنبل، مسندالامام احمدبن حنبل، ج۱، ص۳۱۳، ج۵، ص۳۲۷؛ کلینی، الکافی، ج۵، ص۲۸۰، ۲۹۲ـ۲۹۴؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۵، ص۳۰۳</ref> وغیرہ تقیہ کے جواز پر اہم ترین دلائل میں شمار ہوتی ہیں۔<ref>قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ذیل نحل: ۱۰۶؛ انصاری، التقیہ، ص۴۰؛ امین، نقض الوشیعہ، ص۱۸۹؛ موسوی بجنوردی، القواعد الفقہیہ، ج۵، ص۵۴ ـ ۵۵</ref> اسی طرح وہ احادیث جو جھوٹ اور [[توریہ]] کو خاص موارد میں تجویز کرتے ہیں، جیسے "کتمان" سے مربوط احادیث وغیرہ بھی تقیہ کی مشروعیت پر بہترین دلیل ہے۔<ref> کلینی، الکافی، ج۲، ص۲۲۱ـ۲۲۶؛ غزالی، احیاء علوم الدین، ج۳، ص۱۳۷؛ امین، نقض الوشیعہ، ص۱۸۸ـ ۱۸۹</ref> اسی طرح اکراہ سے متعلق احادیث بھی تقیہ پر دلیل بنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔<ref> خمینی، المکاسب المحرمہ، ج۲، ص۲۲۶ـ۲۲۷</ref>


====تقیہ اور سیرت نبوی(ص)====
====تقیہ اور سیرت نبویؐ====
نقل ہوئی ہے کہ حضرت [[محمد(ص)]] کی [[مدینہ]] کی طرف ہجرت کے بعد [[مہاجرین]] میں سے بعض افراد مکہ مکرمہ سے اپنا مال و اموال لانے کیلئے آنحضرت سے مکہ جانے کی رخصت لیتے ہوئے مشرکین کو خوش کرنے کیلئے اپنی قلبنی اعتقاد کے برخلاف بعض کلمات ادا کرنے کی اجازت دریافت کی تو آنحضرت نے انہیں ایسے کلمات کے ادا کرنے کی اجازت دے دی۔<ref>  السیرہ الحلبیہ، ج۳، ص۵۱ ـ۵۲</ref> آپ(ص) کے [[صحابہ]] اور [[تابعین]] سے بھی مختلف موارد میں ایسے رفتار یا گفتار صادر ہوئے ہیں جو تقیہ پر دلالت کرتی ہے جیسے [[ابن عباس]]، <ref>ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، ج۱۲، ص۲۷۹</ref> [[ابن مسعود]]، <ref>ابن حزم، المحلّی، ج۸، ص۳۳۶</ref> [[جابر بن عبداللہ انصاری]]، <ref>شمس الائمہ سرخسی، کتاب المبسوط، ج۲۴، ص۴۷</ref> [[حذیفہ بن یمان]]، <ref>صنعانی، ج 6، ص 474، ح 33050</ref> [[ابوالدَرداء]]<ref>بخاری جُعْفی، صحیح البخاری، ج۷، ص۱۰۲</ref> اور [[سعید بن مُسَیب]] وغیرہ <ref> امینی، الغدیر فی الکتاب والسنہ والادب، ج۱، ص۳۸۰</ref>
نقل ہوئی ہے کہ حضرت [[محمدؐ]] کی [[مدینہ]] کی طرف ہجرت کے بعد [[مہاجرین]] میں سے بعض افراد مکہ مکرمہ سے اپنا مال و اموال لانے کیلئے آنحضرت سے مکہ جانے کی رخصت لیتے ہوئے مشرکین کو خوش کرنے کیلئے اپنی قلبنی اعتقاد کے برخلاف بعض کلمات ادا کرنے کی اجازت دریافت کی تو آنحضرت نے انہیں ایسے کلمات کے ادا کرنے کی اجازت دے دی۔<ref>  السیرہ الحلبیہ، ج۳، ص۵۱ ـ۵۲</ref> آپؐ کے [[صحابہ]] اور [[تابعین]] سے بھی مختلف موارد میں ایسے رفتار یا گفتار صادر ہوئے ہیں جو تقیہ پر دلالت کرتی ہے جیسے [[ابن عباس]]، <ref>ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، ج۱۲، ص۲۷۹</ref> [[ابن مسعود]]، <ref>ابن حزم، المحلّی، ج۸، ص۳۳۶</ref> [[جابر بن عبداللہ انصاری]]، <ref>شمس الائمہ سرخسی، کتاب المبسوط، ج۲۴، ص۴۷</ref> [[حذیفہ بن یمان]]، <ref>صنعانی، ج 6، ص 474، ح 33050</ref> [[ابوالدَرداء]]<ref>بخاری جُعْفی، صحیح البخاری، ج۷، ص۱۰۲</ref> اور [[سعید بن مُسَیب]] وغیرہ <ref> امینی، الغدیر فی الکتاب والسنہ والادب، ج۱، ص۳۸۰</ref>


====صحابہ کی زندگی میں تقیہ کے نمونے====
====صحابہ کی زندگی میں تقیہ کے نمونے====
سطر 62: سطر 62:


===دلیل عقلی===
===دلیل عقلی===
تقیہ کے جواز پر عقلی دلائل دلیل سیرہ عقلا ہے جو ہر صورت میں دفع ضرر کو ضروری سمجھتی ہے۔<ref>فاضل مقداد، اللوامع الالہیہ فی المباحث الکلامیہ، ص۳۷۷؛ امین، نقض الوشیعہ، ص۱۸۲</ref> اس دلیل کو قبول کرنے کی صورت میں تقیہ فقط شیعوں یا مسلمانوں کے ساتھ مختص نہیں ہوگا بلکہ تمام بنی نوع انسان کو شامل کرے گا۔ گذشتہ انبیاء اور خدا کے نیک بندوں کی زندگی میں تقیہ کے بہت سارے نمونے گذرے ہیں جیسے [[حضرت ابراہیم(ع)]]کا کافرون کے ساتھ رفتار، [[حضرت یوسف]] کا اپنے بھائیوں کے ساتھ [[مصر]] میں ہونے والی گفتگو، [[آسیہ]] بنت مزاحم اور  ہمسر [[فرعون]] کا مخفیانہ طور پر عبادت انجام دینا، [[حضرت موسی]] اور [[ہارون]] کا [[فرعون]] کے روبرو ہونا اور [[اصحاب کہف]] کا تقیہ کرنا۔<ref> ثعلبی، قصص الانبیاء، ص۶۹، ۱۶۶؛ حرّ عاملی، وسایل الشیعہ، ج۱۶، ص۲۱۵، ۲۱۹، ۲۳۰ـ۲۳۱؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۷۲، ص۳۹۶، ۴۰۷، ۴۲۵، ۴۲۹</ref> مذکورہ موارد میں تقیہ کا مودر تائید قرار پانا اضطراری موارد میں تقیہ کے فطری اور عقلی ہونے پر دلیل ہے۔  
تقیہ کے جواز پر عقلی دلائل دلیل سیرہ عقلا ہے جو ہر صورت میں دفع ضرر کو ضروری سمجھتی ہے۔<ref>فاضل مقداد، اللوامع الالہیہ فی المباحث الکلامیہ، ص۳۷۷؛ امین، نقض الوشیعہ، ص۱۸۲</ref> اس دلیل کو قبول کرنے کی صورت میں تقیہ فقط شیعوں یا مسلمانوں کے ساتھ مختص نہیں ہوگا بلکہ تمام بنی نوع انسان کو شامل کرے گا۔ گذشتہ انبیاء اور خدا کے نیک بندوں کی زندگی میں تقیہ کے بہت سارے نمونے گذرے ہیں جیسے [[حضرت ابراہیمؑ]]کا کافرون کے ساتھ رفتار، [[حضرت یوسف]] کا اپنے بھائیوں کے ساتھ [[مصر]] میں ہونے والی گفتگو، [[آسیہ]] بنت مزاحم اور  ہمسر [[فرعون]] کا مخفیانہ طور پر عبادت انجام دینا، [[حضرت موسی]] اور [[ہارون]] کا [[فرعون]] کے روبرو ہونا اور [[اصحاب کہف]] کا تقیہ کرنا۔<ref> ثعلبی، قصص الانبیاء، ص۶۹، ۱۶۶؛ حرّ عاملی، وسایل الشیعہ، ج۱۶، ص۲۱۵، ۲۱۹، ۲۳۰ـ۲۳۱؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۷۲، ص۳۹۶، ۴۰۷، ۴۲۵، ۴۲۹</ref> مذکورہ موارد میں تقیہ کا مودر تائید قرار پانا اضطراری موارد میں تقیہ کے فطری اور عقلی ہونے پر دلیل ہے۔  


==مسلمان کا مسلمان سے تقیہ==
==مسلمان کا مسلمان سے تقیہ==
سطر 71: سطر 71:
شیعوں کے ہاں تقیہ کیسے رائج ہوا اس بارے میں درج ذیل موارد علتوں کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں:
شیعوں کے ہاں تقیہ کیسے رائج ہوا اس بارے میں درج ذیل موارد علتوں کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں:
# بعض لوگ شیعوں میں موجود باطن گرائی کوان میں تقیہ جیسے عمل کی پیدائش کا سبب سمجھتے ہیں۔
# بعض لوگ شیعوں میں موجود باطن گرائی کوان میں تقیہ جیسے عمل کی پیدائش کا سبب سمجھتے ہیں۔
# بعض لوگ معاشرے کے سخت حالات کو شیعوں میں تقیہ کی پیدائش کا سبب سمجھتے ہیں۔ تاریخی شواہد کی بنا پر شیعہ مذہب پوری تاریخ میں مختلف سماجی، ثقافتی اور سیاسی حوالے سے بہت زیادہ دباؤ میں چلے آرہے ہیں؛ صلح [[امام حسن(ع)]] کے واقعے کے بعد [[معاویہ]] نے اپنے گورنروں شیعوں کے ساتھ سختی سے پیش آنے کا حکم دیا اور حضرت [[علی(ع)]] کو ممبروں سے دشنام دینے لگے۔ یہ حالات کم و بیش [[بنی امیہ]] کے دور میں  [[عمر بن عبدالعزیز]] کے زمانے تک جاری رہی۔ <ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱۱، ص۴۳ـ۴۶</ref> [[بنی عباس]] کے دور میں حالات نے ایک اور انداز اپنایا مثلا، [[متوکل عباسی]] شیعوں کو قتل کرنے اور جیلوں میں بند کرنے کے علاوہ انہیں [[امام حسین(ع)]] کی زیارت سے بھی منع کردیا یہاں تک کہ امام حسین(ع) کے ضریح مطہر کو بھی خراب کر دیا اور ابن سِکیت کو امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کے ساتھ محبت کا اظہار کرنے پر نہایت بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج۹، ص۱۸۵؛ ابن جوزی، المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، ج۱۱، ص۲۳۷</ref> اس بنا پر ائمہ طاہرین(ع) اپنی اور اپنے شیعوں کی جان کی حفاظت اور انہیں پراکندگی سے بچانے کی خاطر تقیہ کرنے کو ان پر ضروری قرار دیتے تھے۔ [[علی بن یقطین]] جو کہ [[ہارون الرشید]] کا وزیر اور شیعہ مذہب سے تعلق رکھتا تھا کا [[امام کاظم(ع)]] کے حکم سے تقیہ کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے۔<ref> آل کاشف الغطاء، اصل الشیعہ و اصولہا، ص۳۱۵ـ۳۱۶؛ امین، نقض الوشیعہ، ص۱۹۸ـ۲۰۰</ref>
# بعض لوگ معاشرے کے سخت حالات کو شیعوں میں تقیہ کی پیدائش کا سبب سمجھتے ہیں۔ تاریخی شواہد کی بنا پر شیعہ مذہب پوری تاریخ میں مختلف سماجی، ثقافتی اور سیاسی حوالے سے بہت زیادہ دباؤ میں چلے آرہے ہیں؛ صلح [[امام حسنؑ]] کے واقعے کے بعد [[معاویہ]] نے اپنے گورنروں شیعوں کے ساتھ سختی سے پیش آنے کا حکم دیا اور حضرت [[علیؑ]] کو ممبروں سے دشنام دینے لگے۔ یہ حالات کم و بیش [[بنی امیہ]] کے دور میں  [[عمر بن عبدالعزیز]] کے زمانے تک جاری رہی۔ <ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱۱، ص۴۳ـ۴۶</ref> [[بنی عباس]] کے دور میں حالات نے ایک اور انداز اپنایا مثلا، [[متوکل عباسی]] شیعوں کو قتل کرنے اور جیلوں میں بند کرنے کے علاوہ انہیں [[امام حسینؑ]] کی زیارت سے بھی منع کردیا یہاں تک کہ امام حسینؑ کے ضریح مطہر کو بھی خراب کر دیا اور ابن سِکیت کو امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے ساتھ محبت کا اظہار کرنے پر نہایت بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج۹، ص۱۸۵؛ ابن جوزی، المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، ج۱۱، ص۲۳۷</ref> اس بنا پر ائمہ طاہرینؑ اپنی اور اپنے شیعوں کی جان کی حفاظت اور انہیں پراکندگی سے بچانے کی خاطر تقیہ کرنے کو ان پر ضروری قرار دیتے تھے۔ [[علی بن یقطین]] جو کہ [[ہارون الرشید]] کا وزیر اور شیعہ مذہب سے تعلق رکھتا تھا کا [[امام کاظمؑ]] کے حکم سے تقیہ کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے۔<ref> آل کاشف الغطاء، اصل الشیعہ و اصولہا، ص۳۱۵ـ۳۱۶؛ امین، نقض الوشیعہ، ص۱۹۸ـ۲۰۰</ref>


==حکم شرعی کے حوالے سے تقیہ کی تقسیم==
==حکم شرعی کے حوالے سے تقیہ کی تقسیم==
سطر 164: سطر 164:
[[fr:La Taqiya]]
[[fr:La Taqiya]]
[[id:Taqiyyah]]
[[id:Taqiyyah]]
[[زمرہ:شیعہ عقائد]]
[[زمرہ:کلامی اصطلاحات]]
[[زمرہ:فقہی اصطلاحات]]
[[زمرہ:شیعہ سنی اختلافی مسائل]]


[[زمرہ:شیعہ عقائد]]
[[زمرہ:شیعہ عقائد]]
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم