حضرت قاسم کی شادی

ویکی شیعہ سے

حضرت قاسم کی شادی کربلا کے معروف ترین موضوعات میں سے ایک ہے ۔ملا حسین کاشفی متوفیٰ 910 ہجری قمری نے سب سے پہلے اس واقعے کو اپنی کتاب روضۃ الشہدا میں ذکر کیا ہے ۔اس لحاظ سے قاسم بن حسن کی شادی کا واقعہ نویں صدی کے آخر یا دسویں صدی کے شروع میں مذکور ہوا ہے ۔ بعض مقتل نویس اس واقعے کو درست مانتے ہیں جبکہ بعض علما اسے ماننے سے انکاری ہیں اور بعض اسے عاشورا کی تحریفات میں سے سمجھتے ہیں ۔

قاسم بن حسن

قاسم بن حسن حضرت امام حسن کے بیٹوں میں سے ایک بیٹے کا نام ہے جنہوں نے دسویں محرم کو اپنے چچا حضرت امام حسین ؑ پر جان کو نثارکیا ۔قدیمی تاریخی مصادر میں مذکور ہے کہ شہادت کے وقت آپ کا سن حد بلوغ کو نہیں پہنچا تھا۔[1]

واقعہ ازدواج

حضرت قاسم بن حسن نے عاشورے کے روز حضرت امام حسین ؑ سے میدان جنگ میں جانے کی اجازت طلب کی تو امام نے کم سنی کی وجہ سے آپ کو اذن جہاد نہیں دیا ۔یہ بات قاسم پر بہت گراں گزری ۔اچانک قاسم کو اپنا وہ بازو بند یاد آیا جو ان کے والد ماجد نے انکے بازو پر باندھا تھا اور انہیں وصیت کی تھی کہ جب تم پر غم پر غلبہ زیادہ ہو تو تم اسے کھولنا ۔پس قاسم نے اپنا بازو بند کھولا تو اس بازو بند میں اس کے باپ کی طرف سے لکھا تھا کہ کربلا میں اپنی جان چچا پر نچھاور کرنا۔قاسم خوشی کے عالم میں یہ وصیت نامہ لے کر اپنے چچا کے پاس گئے اور وصیت چچا کو دکھائی ۔ حضرت امام حسن کا خط پڑھ کر حضرت امام حسین نے گریہ کیا اور کہا کہ مجھے بھی ایک وصیت کی تھی کہ میں اپنی بیٹیوں میں سے ایک بیٹی کا تم سے عقد کروں۔ لہذا آپ نے عباس ، عون اور زینب کو شادی کی تیاری کا حکم دیا اور اس طرح دسویں محرم کے روز قاسم بن حسن کی شادی ہوئی اور اس کے بعد آپ میدان کار زار میں تشریف لے گئے۔[2]

ناقلین واقعہ

  • جیسا کہ بیان ہوا کہ اس واقعے کو سب سے پہلے تفصیل کے ساتھ ملا کاشفی نے بیان کیا ۔
  • بحر الانساب : اس کتاب میں حضرت قاسم کی شادی کا واقعہ نقل ہوا لیکن اس نے لکھا کہ قاسم کی شادی امام حسین نے اپنی بیٹی زبیدہ کے ساتھ کی ہے ۔جبکہ حضرت امام حسین ؑ کی کوئی بیٹی زبیدہ نام کی مذکور نہیں ہوئی ہے۔
  • فخر الدین طریحی نے اپنی کتاب المنتخب فی جمع المراثی و الخطب میں قاسم بن حسن کی شادی کی داستان نقل کی ہے ۔لیکن مقرم کہتا ہے :فخر الدین کی شخصیت عظمت اور جلالت اس باتوں سے بالا تر ہے کہ وہ ایسی باتیں نقل کریں ۔ ان کی کتاب میں دخل و تصرف سے کام لیا گیا ہے اور اس افسانے کو ان کی کتاب میں شامل کیا گیا ہے ۔طریحی اس شخص کو کبھی معاف نہیں کریں گے ۔[3]
شیخ عباس قمی بھی اگرچہ فخرالدین طریحی کو عالم زاہد عادل اور جلیل القدر کہتے ہیں [4] لیکن حضرت قاسم بن حسن کی شادی کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ یہ واقعہ معتبر مصادر میں نہیں آیا ہے ۔
  • ملا مہدی نراقی اپنی کتاب محرق القلوب میں کہتے ہیں :کربلا کے پُر درد واقعات میں سے ایک واقعہ حضرت قاسم کی شہادت کا ہے۔ ہمارے علما نے اس شہادت کی تفصیل مختلف انداز میں بیان کی ہے اور بعض نے حضرت قاسم کی دامادی کا واقعہ بھی نقل کیا ہے اور بعض نے نقل نہیں کیا ہے اور اس کے درست ہونے میں شاکی ہیں لیکن میں نے یہ واقعہ چند کتابوں میں دیکھا جو میرے نزدیک صحیح ہیں۔لہذا میں اسے یہاں ذکر کرتا ہوں [5]
  • فاضل در بندی نےاکسیر العبادات فی اسرار الشہادات میں اس واقعہ کو نقل کیا اور اسے درست مانا ہے ۔نیز کہتے ہیں : اگر کوئی شخص صاحب تحقیق اور تتبع ہو تو ایسے شادی کے واقعہ ہونے کے بارے میں قوی ظن پیدا ہونے کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہوتا ہے ۔مزید لکھتے ہیں ۔عرصۂ قدیم الایام سے شیعہ منبروں سے صالحین اور متقین افراد کی موجودگی میں یہ واقعہ پڑھا جاتا ہے نیز شعرا نے اسے اپنے اشعار میں اور سیرت نگاروں،تاریخدانوں اور علما نے اسے قبول کیا ہے ۔[6]
  • سید ہاشم بحرانی نے مدینۃ المعاجز میں اس داستان کو طریحی سے نقل کیا ہے ۔[7]

اقوال مخالفین

شعرانی نفس المہموم کے ترجمے میں اس واقعہ(کربلا میں اس شادی) کو ایک اشتباہ کہتا ہے جو کربلا کے راستے میں حسن مثنیٰ بن حسن سے حضرت امام حسین کے اپنی بیٹی سے عقد کرنے واقعے سے پیدا ہوا ہے ۔[11]

  • قاضی طباطبائی:قاسم کی شادی کا واقعہ کوئی اعتبار نہیں رکھتا ہے۔نیز مامقانی کی کتاب تنقیح المقال سے نقل کرتے ہیں:طریحی نے جو قاسم بن حسن کی شادی کا واقعہ نقل کیا ہے میں اور دیگر اہل تحقیق سیرت،تاریخ اور مقاتل کی کتابیں اس کے معتبر ہونے پر مطلع نہیں ہیں۔بہت بعید ہے کہ ایسا واقعہ عاشورا کے روز اتنے سخت حالات اور شدید مصائب میں رونما ہوا ہو۔ایسا لگتا ہے کہ حضرت قاسم کی کم سنی میں شادی کا واقعہ حسن مثنی کی شادی کے واقعہ کے ساتھ مشتبہ ہو گیا اور حسن مثنیٰ کی شادی کا واقعہ اس صورت میں مشہور گیا۔[12]
  • شہید مطہری:آپ جانتے ہیں کہ عاشورا کی اس گرمی کے دن میں کسی میں نماز پڑھنے کی سکت نہ تھی ۔امام نے جلدی میں نماز خوف پڑھی اور وہ بھی صحابہ کی ڈھال بنا کر ....لیکن کہتے ہیں ایسے حالات میں امام حسین ؑ نے حکم دیا کہ حجلۂ عروسی بنائیں کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ قاسم کی شادی اپنی بیٹیوں میں سے کسی ایک کے ساتھ کروں ۔۔۔۔۔حضرت قاسم کی نئی دامادی کا قصہ ایک ایسی چیز ہے جو ہمارے تعزیہ خوانوں[یادداشت 1] سے ہر گز جدا نہیں ہو سکتی حالانکہ کسی بھی معتبر تاریخی کتاب میں اس کا ذکر موجود نہیں ہے ۔[13]
  • ذبیح اللہ محلاتی : تاریخ سامرا اور ریاحین الشریعہ کے مصنف لکھتے ہیں: میں نے بہت سی معتبر کتابوں اور روایات کا مطالعہ کیا ہے لیکن عروسئ قاسم کا کہیں اثر نہیں پایا ۔یہ مطلب مثبت آثار اور معتبر کتابوں میں موجود نہیں اس میں شک نہیں ہے کہ فاطمہ بنت الحسین حسن بن حسن کی زوجہ تھیں اور وہ اور اس کا شوہر کربلا میں حاضر تھے۔ کیسے ممکن ہے کہ یہ واقعہ حقیقت رکھتا ہو جبکہ کربلا میں فاطمہ کے نام سے کوئی اور بیٹی حضرت امام حسین ؑ کی نہیں ہے ۔[14]
  • سید عبد الرزاق موسوی مقرم: عروسئ قاسم کے بارے میں جو کہا جاتا ہے وہ نا درست ہے کیونکہ قاسم سن بلوغ کو نہیں پہنچے تھے مؤرخین سے اس کے بارے میں کوئی صحیح روایت نہیں پہنچی ہے ۔شیخ فخر الدین طریحی کی اس اس عظمت و جلالت کے باوجود امکان نہیں ہے کہ انہوں نے ایسی داستان نقل لکھی ہو اور کسی کیلئے یہ بھی روا نہیں کہ وہ ان کے بارے میں ایسی خرافات کا تصور کرے ۔ان کی کتاب میں تحریف کی گئی اور اس میں اس افسانے کو داخل کیا گیا ہے ؛طریحی کبھی بھی ایسا کرنے والوں کو نہیں بخشیں گے ۔[15]

دلائل مخالفین

حضرت قاسم کی شادی کا موضوع بہت سے محققین کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس کے مختلف پہلو درج ذیل ہیں:

  • مصادر اولیہ اور اولیہ مقاتل کی کتب میں کہیں اس کا تذکرہ موجود نہیں ہے ۔
  • 1000ویں صدی کے اندر سب سے پہلے ملا واعظ حسین کاشفی نے اسے تذکرۃ الشہداء میں ایک کہانی کے رنگ میں نقل کیا ہے اس کے بعد منتخب طریحی،اکسیر العبادات، محرق القلوب میں وغیرہ میں آیا ہے ۔
  • قاسم کی عمر :اکثر مصادر اولیہ میں قاسم کی کم سنی منقول ہے۔[16] لہذا وہ شادی کے قابل نہیں تھے [17] ۔
  • شعر سے استناد کرنا:کاشفی نے اس واقعے کے نقل کیلئے کوئی مستند یا مدرک پیش نہیں کیا بلکہ اپنی کلام میں ابو المفاخر رازی کے ایک شعر کی طرف اشارہ کیا ہے[18] جبکہ ابو المفاخر رازی ہم سلجوقیوں کے دور کا شاعر ہے کہ جس نے چھٹی صدی کی پہلی نصف دہائی میں زندگی گزاری ہے [19] اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ یہ موضوع پانچویں یا چھٹی صدی میں موجود تھا ۔

حسن مثنیٰ کے ساتھ اشتباہ

بعض کا خیال ہے کہ حضرت امام حسین ؑ کے قافلے میں رونما ہونے والا شادی کا واقعہ حسن مثنیٰ سے مربوط ہے ۔وہ حضرت فاطمہ بنت حسین کے شوہر اور حضرت امام حسین ؑ کے دادماد ہیں[20]۔اس مسئلے میں کسی نے اختلاف نہیں کیا ہے ۔اس کی نسل میں عبد اللہ محض،محمد نفس زکیہ اور ابراہیم بن عبد اللہ معروف باخمر نے خلفای عباسیوں کے خلاف قیام کیا تھا ۔پس حسن بن مثنیٰ کے حضرت امام حسین ؑ کے داماد ہونے کسی قسم کی تردید نہیں ہے ۔

تاریخی مصادر میں حسن بن مثنیٰ کی شادی کا واقعہ اس طرح منقول ہے:حسن مثنیٰ نے حضرت امام حسین ؑ سے ان کی ایک بیٹی کا رشتہ طلب کیا۔[21]۔ امام نے فرمایا : سکینہ اور فاطمہ میں سے جسے چاہو انتخاب کر سکتے ہو۔ حسن نے شرمندگی سے کچھ نہیں کہا ۔امام نے فاطمہ کی شادی حسن سے کر دی کیونہ وہ شکل صورت میں اپنی والدہ سے زیادہ مشابہت رکھتی تھی ۔[22]۔ابن فندق بیہقی کے قول کے مطابق یہ شادی حضرت امام حسین ؑ کی شہادت کے سال انجام پائی ۔[23]حضرت امام حسین کی شہادت 61 ویں ہجری میں یوئی یوں معلوم ہوتا ہے یہ شادی ہجری کے 60ویں سال کے آخری ایام میں انجام پائی ہو گی پس یہی وجہ ہے کہ حسن مثنیٰ اپنی زوجہ فاطمہ بنت حسین کے ساتھ عاشور کے روز کربلا کے واقعے میں موجود تھے[24] ۔

نوٹ

  1. ایران کے مختلف علاقوں میں ایام عزاداری کے دوران کچھ لوگ مل کر واقعۂ کربلا کو عملی نمونے میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں مختلف افراد واقعۂ کربلا کے معروف کرداروں کا روپ اختیار کر کے مکالماتی صورت میں عوام الناس کے سامنے کربلا کے مختلف واقعات پیش کرتے ہیں ۔اسے تعزیہ خوانی کہا جاتا ہے

حوالہ جات

  1. اصفہانی ،مقاتل الطالبین، ص92، طبری ،تاریخ الامم و الملوک ج 5 ص 447 و 448
  2. ملاں کاشفی،روضۃ الشہدا ص401
  3. اختصار کے ساتھ :مقرم،مقتل مقرم ص ۲۶۴
  4. فوائد الرضویہ
  5. نراقی محمد مہدی،محرق القلوب ص41۔
  6. فاضل دربندی،اکسیر العبادات فی اسرار الشہادات ج2 ص 305
  7. مدینۃ المعاجز ج 2 ص 398
  8. مجلسی جلاء العیون ص675
  9. لؤلؤ و مرجان ص193۔
  10. منتہیٰ الآمال ج 1 ص 574۔
  11. شعرانی،دمع السجوم ص 277۔
  12. تحقیق دربارۂ اول اربعین سید الشہداء ص377۔
  13. حماسۂ حسینی ج 1 صص27،28۔
  14. فرسان الہیجاء ج 2 ص 31۔
  15. مقتل مقرم ص264۔
  16. کامل بہائی۶۴۴؛مجلسی جلاء العیون ص ۶۷۵۔مقتل مقرم۱۷۷۔
  17. تحقیق دربارہ اول اربعین حضرت سید الشہداء ۳۷۸
  18. کاشفی، روضۃ الشہداءص ۴۰۱
  19. دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی ،ج ۶ ص ۲۷۷
  20. مصعب‌ بن‌عبداللّه،نسب قریش، ص ۵۱ حسنی، المصابیح، ص ۳۷۹
  21. المنتظم ج 7 ص 183
  22. شیخ مفید ،الارشاد 366
  23. ابن فندق ، لباب الانساب 385۔
  24. قاضی، تحقیقی درباره اولین اربعین، ص۳۷۸

مآخذ

  • ابن فندق، بیہقی علی بن زید، لباب الأنساب و الألقاب و الأعقاب، محقق رجایی، مہدی، کتابخانہ آیت الله مرعشی نجفی(ره)، قم.
  • اصفہانی،ابوالفرج، مقاتل الطالبیین، کوشش احمد صقر، قاہره، ۱۳۶۸ق.
  • بلوک باشی، علی، مجلہ تئاتر، زمستان۱۳۷۰ش، شماره۱۶ از صفحہ ۶۳تا۸۸.
  • حسنی، احمد بن ابراہیم، المصابیح، چاپ عبداللّه حوثی، صنعا.
  • خاکی،محمد رضا، مجلہ ہنر، تابستان۱۳۸۷ش، شماره۴۰از صفحہ۶۶تا۷۸.
  • شعرانی، میرزا ابوالحسن، دمع السجوم ترجمہ نفس المہموم، وزارت ارشاد، سازمان چاپ و انتشارات، ۱۳۸۵ش.
  • قاضی طباطبایی، محمدعلی، تحقیق درباره اول اربعین حضرت سید الشہدا علیہ السلام، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی؛ سازمان چاپ وانتشارات، تہران، ۱۳۸۳ش.
  • محلاتی عسکری، ذبیح اللَّه، فرسان الہیجاء، تہران، مرکز نشر کتاب، ۱۳۹۰ ق، ج ۲، ص۳۱.
  • مصعب بن عبداللّه، کتاب نسب قریش، چاپ لوی پرووانسال، قاہره، ۱۹۵۳م.
  • مفید، ارشاد، ترجمہ محمدباقر محمودی، انتشارات اسلامیہ، ۱۳۸۰ش.
  • نراقی، ملا محمدمہدی، محرق القلوب، به اہتمام علی نظری منفرد، انتشارات سرور، چ اول، ۱۳۸۸ش.