شہادت فاطمہ زہرا
زمان | ۳ جمادی الثانی، سنہ 11 ھ |
---|---|
مکان | مدینہ، خانہ حضرت فاطمہ(س) |
سبب | زخم، درد اور اذیتیں |
عناصر | عمر بن خطاب، قنفذ |
اثرات | شہادت محسن بن علی(ع) |
مربوط | حضرت فاطمہؑ کے گھر پر حملہ |
شہادت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا شیعوں کی اکثریت کا دیرینہ عقیدہ ہے۔ اس عقیدے کی بنیاد پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کی بیٹی حضرت فاطمہ(س) کی رحلت فطری نہیں تھی بلکہ بعض صحابہ پیغمبر کی طرف سے دی گئی اذیتیں، رنج و الم اور صدمے آپ کی شہادت کا سبب بنیں۔
اہلسنت کے خیال میں آپ کی وفات آپ کے والد بزرگوار پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی رحلت کے صدمہ کے سبب ہوئی۔ لیکن شیعہ حضرات عمر بن خطاب کو آپ کی شہادت کا سبب سمجھتے ہیں اور ایام فاطمیہ میں آپ کی عزاداری کرتے ہیں۔
شیعوں نے شہادت حضرت فاطمہ س کے لئے کچھ امور سے استناد کیا ہے؛ مثلا امام کاظم علیہ السلام کی ایک روایت میں آپ کو صِدّیقہ اور شہیدہ کہا گیا ہے۔ اسی طرح تیسری صدی ہجری کے متکلم امامی، محمد بن جریر طبری نے اپنی کتاب دلائل الامامۃ، میں امام صادق علیہ السلام سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شہادت کے سبب کے طور پر سقط جنین کو ذکر کیا ہے جو آپ پر حملے کرنے کے وجہ سے ہوا۔
شیعہ اور سنی کتب میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کا باعث بننے والے واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے: مثلا حضرت فاطمہؑ کے گھر پر حملہ، جناب (محسن) کا ساقط ہونا اسی طرح آپ کو طمانچہ اور تازیانہ مارنا۔ سب سے قدیم کتاب جس سے شیعوں نے اس مسئلہ میں استناد کیا ہے وہ کتاب سُلَیْم بن قیس ہِلالی ہے جو کہ پہلی صدی ہجری میں لکھی گئی۔ اسی طرح شیعوں نے شہادت بی بی فاطمہ کے لئے اہل سنت کے مصادر میں موجود روایات سے بھی استناد کیا ہے۔ کتاب «الہجوم علی بیت فاطمۃ» میں اہل سنت کے 84 راویوں سے اس سلسلہ کی روایتیں نقل کی گئی ہیں۔
شہادت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے بارے میں کچھ شکوک و شبہات بھی پیش کئے گئے ہیں اور ان کے جوابات بھی دیئے گئے ہیں؛ مثلا ایک شبہہ یہ ہے کہ اس زمانے میں شہر مدینہ میں گھروں کے دروازے نہیں ہوتے تھے تو پھر بی بی کے گھر کا دروازہ جلانے کی بات کیسے صحیح ہو سکتی ہے۔ اس کے جواب میں شیعہ محقق سید جعفر مرتضی عاملی (وفات: ۱۴۴۱ھ) نے جن روایات سے استناد کیا ہے ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مدینہ کے گھروں میں دروازے کا ہونا ایک عام سی بات تھی۔
اسی طرح ایک شبہہ یہ پیش ہوتا ہے کہ اگر فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پر حملہ ہوا تھا تو حضرت علی علیہ السلام اور دیگر صحابہ کیسے خاموش رہے اور ان کا دفاع کیوں نہیں کیا۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ایک تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کی جانب سے آپ کو مصلحت اسلام کے لئے صبر و سکوت کا حکم کیا گیا تھا، دوسری طرف یہ بھی ہے کہ کتاب سلیم کی ایک روایت کی بنیاد پر حضرت علی علیہ السلام نے عمر کے حملے کے وقت اس پر حملہ کیا اور اسے زمین چٹا دی اور کہا کہ صرف رسول کی سفارش کی وجہ سے خاموش ہوں۔ عمر نے دوسرے لوگوں کو آواز دی اور انھوں نے مل کر حضرت علی علیہ السّلام کو رسی سے باندھ دیا۔
اہل سنت کے کچھ مورخین نے تینوں خلیفہ کے ساتھ حضرت علی اور فاطمہ زہرا علیہما السلام کے تعلقات کی کچھ مثالوں کو دلیل بنا کر آپ کی شہادت کو مسترد کیا ہے۔ لیکن شیعوں کے مورخین کی نظر میں حضرت علی علیہ السلام سے خلفاء کا مشورہ لینا آپ کے تعاون اور ہمدلی کی دلیل نہیں ہو سکتا کیونکہ دینی احکام کی رہنمائی ہر عالم کے اوپر واجب ہوتی ہے۔ اسی طرح خلفاء نے حضرت علی علیہ السّلام کو نظر انداز کرکے گوشہ نشین کردیا تھا اور بعض امور میں مجبورا آپ سے مشورہ کرتے تھے نہ یہ کہ آپ ان کے مشیر رہے ہوں۔
اسی طرح بعض شیعوں نے امام علی علیہ السلام کی بیٹی ام کلثوم سے عمر کے نکاح کو سرے سے مسترد کیا ہے اور بعض دیگر نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ یہ نکاح، زور زبردستی کی بنیاد پر ہوا اور یہ حضرت علی علیہ السلام اور خلفاء کے درمیان اچھے تعلقات کی دلیل نہیں ہو سکتا۔
اہمیت
تاریخچہ
حضرت فاطمہ(س) کی شہادت سے مراد یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ کی بیٹی کی رحلت فطری نہیں تھی بلکہ بعض صحابہ پیغمبر کی طرف سے دی گئی اذیتیں، رنج و الم اور صعوبتیں آپ کی شہادت کا سبب بنیں۔ بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت یا فطری رحلت شیعہ و سنی اختلاف کا موضوع ہے۔[1] پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی رحلت کے بعد کے واقعات کے کچھ جزئیات کے علاوہ تقریبا تمام شیعہ اس بات پر متفق ہیں کہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت ہوئی ہے اور اس کا سبب جناب محسن علیہ السلام کے ساقط ہونے کو قرار دیتے ہیں۔ اس کے برخلاف اہل سنت کا خیال ہے کہ آپ کی رحلت فطری طور پر اپنے پدر بزرگوار کی رحلت کے صدمہ کی وجہ سے ہوئی ہے۔[2]
شیعہ ہر سال ایام فاطمیہ میں جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے لئے عزاداری کرتے ہیں۔[3] اسی مناسبت سے مشہور نقل کی بنیاد پر ۳ جمادیالثانی کو روز شہادت فاطمہ کے عنوان سے [4] ایران میں سرکاری چھٹی رہتی ہے۔[5] اور انجمن ہائے عزاداری سڑکوں پر نکلتی ہیں۔[6] شیعہ حضرات کیونکہ عمر بن خطاب کو بی بی فاطمہ کی شہادت کا سبب مانتے ہیں لہذا عزاداری کی بہت سی مجلسوں میں اس کی مذمت کی جاتی ہے[7] اور کچھ لوگ اس پر لعنت بھیجتے ہیں۔ یہی بات شیعہ سنی اختلاف کو میدان فراہم کرتا ہے۔[8] شہادت فاطمہ زہرا اس بات کا سبب بھی بنا ہے کہ بعض شیعہ حضرات 9 ربیع الاول کو کچھ روایات کی بنیاد پر عمر ابن خطاب کے مارے جانے کا دن سمجھیں اور اسے عید زہرا قرار دیں اور اس دن خوشی منائیں۔[9]
اختلاف کا سبب
جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کی رحلت کے بارے میں اختلاف کا مسئلہ ایک طولانی اختلاف کا مسئلہ ہے؛ دوسری صدی ہجری کے ضرار بن عمرو کی کتاب «التحریش» میں بعض محققین سے منقول ہے کہ شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ فاطمہ زہرا س، عمر ابن خطاب کے حملے کی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔[10] اسی طرح دوسری صدی ہجری کے متکلم، عبداللہ بن یزید فزاری اپنی کتاب «کتاب الردود» میں شیعوں کے اس عقیدہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ فاطمہ کو بعض صحابہ کی طرف سے صدمہ ہوا اور آپ کے شکم میں محسن ساقط ہوئے۔[11] محمدحسین کاشف الغطاء (وفات ۱۳۷۳ھ) نے لکھا ہے کہ دوسری اور تیسری صدی ہجری کے شعراء جیسے کُمیت اسدی، سید حِمیَری اور دِعبِل خُزاعی نے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے اوپر ہونے والوں مظالم کو نظم کیا ہے۔[12]
عبد الکریم شہرستانی (وفات: ۵۴۸ھ) کے بقول اہل سنت کے مشہور فرقہ شناس ابراہیم بن سیار عرف نَظّام معتزلی (وفات: ۲۲۱ھ) کا نظریہ تھا کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے شکم میں موجود بچہ عمر کے حملے کی وجہ سے ساقط ہوا۔[13] شہرستانی کے بقول یہ عقیدہ اور نظام معتزلی کے کچھ دیگر نظریات باعث بنے کہ وہ اپنے ہمراہیوں سے فاصلہ بنائیں۔[14] قاضی عبد الجبار معتزلی (وفات: ۴۱۵ھ) نے اپنی کتاب «تثبیت دلائل النبوۃ» میں فاطمہ کو پہنچنے والے صدمہ اور سقط جنین کے سلسلہ میں شیعوں کے نظریہ کی طرف اشارہ کیا ہے اور مصر، بغداد اور شام کے کچھ علاقوں کے بعض اپنے ہم عصر شیعہ علماء کے نام لکھے ہیں جو حضرت فاطمہ زہرا اور ان کے فرزند محسن کے لئے عزاداری اور گریہ کرتے ہیں۔[15] اہل سنت کی کتابوں میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شہادت کا عقیدہ رکھنے والوں کو رافضی کہا گیا ہے۔[16]
فاطمہ کی شہادت کے سلسلہ میں اختلافات کا سبب یہ ہے کہ آپ کی شہادت، رحلت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ کے بعد بہت کم فاصلے پر اور ایسے حالات میں ہوئی جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی کا مسئلہ گرم تھا۔ جب کچھ مہاجرین و انصار نے سقیفہ بنی ساعدہ میں ابو بکر کی بیعت کرلی تو کچھ دیگر صحابہ نے علی ابی طالب کی خلافت و جانشینی کے سلسلہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کی سفارشات کی وجہ سے ابو بکر کی بیعت کرنے سے انکار کیا۔ اسی وجہ سے ابو بکر کے حکم پر عمر بن خطاب کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر حضرت علی علیہ السلام کے گھر گئے اور عمر نے دھمکی دی کہ اگر بیعت نہیں کی تو گھر کو اور اس میں موجود لوگوں میں آگ لگا دے گا۔[17] فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہااسی دوران ابو بکر کے عمال کے ذریعے فدک پر قبضہ کے خلاف اعتراض کے لئے دربار میں گئیں اور ابو بکر سے فدک کا مطالبہ کیا تھا[18] اور جب خلافت کے دربار سے فدک کی واپسی کے لئے انکار سنا تو مدینہ کی مساجد میں جاکر ایک احتجاجی خطبہ دیا تھا۔[19]
شیعہ کتب کے مصادر کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بی بی فاطمہ زہرا س کے شکم میں موجود بچہ آپ کے گھر پر حملہ کی وجہ سے ساقط ہوا تھا[20] بعض اہل سنت کی کتب کے مطابق بچہ زندہ پیدا ہوا تھا اور بچپن میں چل بسا۔[21] اس کے باوجود شارح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی (وفات: ۶۵۶ھ) نے اپنے استاد ابو جعفر نقیب سے مناظرہ کرتے وقت اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ محسن اس وقت ساقط ہوئے جب حضرت علی سے بیعت لی جا رہی تھی۔[22] اسی طرح یہ بات ابراہیم بن سیار عرف نَظّام معتزلی (وفات: ۲۲۱ھ) کی طرف بھی منسوب کی گئی ہے۔[23]
متعدد نقل کی بنیاد پر بی بی فاطمہ کی تدفین رات کے وقت ہوئی تھی۔[24] پانچویں صدی ہجری کے محقق یوسفی غروی کے بقول یہ رات کی تدفین خود آپ ہی کی وصیت کی وجہ سے ہوئی؛[25] کیونکہ جیساکہ کچھ روایات میں آیا ہے،[26] فاطمہ کی مرضی نہیں تھی کہ جن لوگوں نے ان پر ظلم کیا ہے وہ آپ کی تشییع جنازہ اور تدفین میں شریک ہوں۔
شیعوں کے دلائل
شیعہ اپنے استدلال میں امام کاظم(ع) سے منقول اس روایت کا ذکر کرتے ہوئے بی بی کو شہیدہ کہتے ہیں جس روایت میں آپ کو صدیقہ اور شہیدہ کہا گیا ہے۔[27] طبری نے دلائل الامامۃ میں بھی امام صادق(ع) سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں حملے کے سبب ہونے والے سقط جنین کو شہادت فاطمہ زہرا س کا سبب قرار دیا گیا ہے۔[28] اس روایت کی بنیاد پر عمر کے غلام قنفذ نے عمر کے حکم سے یہ حملہ کیا۔[29] نہج البلاغہ میں نقل ہونے والی ایک اور روایت کی بنیاد پر حضرت علی علیہ السّلام نے فاطمہ زہرا س پر ستم ڈھانے کے اوپر امت کے جمع ہو جانے کا تذکرہ کیا ہے۔[30] پانچویں صدی ہجری کے مراجع تقلید میں سے ایک آیت اللہ میرزا جواد تبریزی نے دفن فاطمہ سلام اللہ علیہا کے وقت حضرت علی علیہ السّلام کی گفتگو، امام کاظم علیہ السلام کی روایت، دلائل الامامت میں امام صادق علیہ السلام کی روایت، فاطمہ زہرا کی قبر کے مقام کے پوشیدہ رہنے اور رات میں دفن کرنے کے لئے آپ کی وصیت کو آپ کی شہادت کے دلائل میں شمار کیا ہے۔[31]
شیعہ مصادر
پانچویں صدی ہجری کے مصنف عبد الزہراء میدی نے اپنی کتاب الہجوم میں 150 شیعہ راویوں اور مصنفین سے ایسی 260 روایتیں اکٹھا کی ہیں جن میں سے ہر ایک میں شہادت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے سبب کا کوئی حصہ بیان ہوا ہے۔ جیسے آپ کے گھر پر حملہ، آپ کے بچہ کا ساقط ہونا، آپ کو طمانچہ اور تازیانہ مارنا۔[32] شیعہ مؤلفین و مصنفین کے استناد کا سب سے قدیمی حوالہ، کتاب سلیم بن قیس ہے جو کہ سنہ 90 ھ میں وفات پا گئے تھے۔[33] شیخ طوسی (وفات: سنہ460 ھ) نے اپنی کتاب تلخیص الشافی میں لکھا ہے کہ شیعوں کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ عمر نے بی بی فاطمہ س کے شکم پر دھکا مارا جس سے آپ کا بچہ ساقط ہو گیا۔[34] اور اس سلسلہ میں شیعہ روایتیں مستفیض ہیں۔[35]
اہل سنت کی کتابوں سے استدلال
شیعوں نے جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کا باعث بننے والے کچھ واقعات کو ثابت کرنے کے لئے اہل سنت کی حدیثی، تاریخی یہاں تک کہ کچھ فقہی کتابوں سے استدلال کیا ہے؛ مثلا کتاب الہجوم علی بیت فاطمہ میں 84 راویوں اور مصنفین کی فہرست پیش کرکے اہل سنت کی کتابوں میں موجود، بی بی فاطمہ کے گھر پر حملہ کی روایتوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔[36] اس سلسلہ میں لکھی گئی سب سے پہلی کتاب، المغازی ہے جس کے مصنف موسی بن عقبہ (وفات: سنہ ۱۴۱ھ) ہیں۔[37]
حسین غیب غلامی (پیدائش: ۱۳۳۸ش) نے بھی اپنی کتاب «إحراقُ بیت فاطمۃ فی الکتب المعتبرۃ عند أہل السنۃ» میں 20 سے زیادہ روایتیں اہل سنت کی کتابوں اور راویوں سے نقل کی ہیں۔[38] ان کی پہلی روایت، المُصَنَف ابن ابی شیبہ (وفات: ۲۳۵ھ) سے[39] اور اس کتاب میں آخری روایت، متقی ہندی(وفات: ۹۷۷ھ) کی کتاب کَنزُ العُمال سے نقل کی گئی ہے۔[40] اسی طرح «شہادت مادرم زہرا افسانہ نیست» کے عنوان سے لکھی گئی ایک کتاب میں خانہ زہرا س پر حملے کی روایت کو اہل سنت کی 18 کتب سے نقل کیا گیا ہے۔[41] ان کتب میں بیعت کے دن حضرت علی علیہ السلام سے بیعت لینے کی کوشش کے واقعے اور آپ کے گھر کو جلا ڈالنے کی دھمکی کو مختلف تعبیروں میں مختلف راویوں سے نقل کیا گیا ہے۔[42]
واقعہ کے بارے میں کچھ سوالات
کچھ مصنفین و محققین نے کچھ تاریخی سوالات اور اعتراضات کرکے حضرت علی اور حضرت فاطمہ علیہما السلام کے گھر میں آگ لگانے والی روایات میں خدشہ پیدا کیا ہے؛ مثلا یہ کہ اس زمانے میں مدینہ کے گھروں میں دروازے ہی نہیں ہوتے تھے، یا یہ کہ حضرت علی علیہ السّلام کی جانب سے فاطمہ س کے دفاع کے سلسلہ میں سوالات اٹھائے ہیں یا پھر جناب محسن کے شکم مادر میں ساقط ہونے کو لیکر تردد کیا ہے۔ ان سوالات و اعتراضات کے مقابلہ میں تاریخ نویسوں اور محققین نے منجملہ سید جعفر مرتضی عاملی (وفات: ۱۴۴۱ھ) نے جوابات بھی دئے ہیں[43]
کیا مدینہ کے گھروں میں دروازے نہیں ہوتے تھے؟
کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ اس زمانے میں مدینہ کے گھروں میں دروازے ہی نہیں ہوتے تھے[44] اور خود بخود یہ نتیجہ نکال لیا ہے کہ اس وجہ سے فاطمہ کے گھر کے دروازے کا جلایا جانا صحیح نہیں ہو سکتا۔ اس کے مقابلے میں جعفر مرتضی نے کتاب مأساۃ الزہراء میں ایسی کتب کا تذکرہ کیا ہے جن کی رو سے گھروں میں دروازوں کا ہونا اس زمانے میں ایک رائج بات تھی اور بی بی فاطمہ کے گھر میں بھی دروازہ تھا۔[45]
حضرت علی اور آپ کے ماننے والوں نے دفاع کیوں نہیں کیا؟
خانہ زہرا پر حملہ اور آپ کی شہادت کے سلسلہ میں ایک سوال یہ ہے کہ علی علیہ السلام تو اپنی شجاعت کے لئے مشہور تھے تو آپ اور دوسرے صحابہ اس حرکت کے بارے میں خاموش کیوں رہے اور فاطمہ کا دفاع کیوں نہیں کیا؟[46] اہل سنت کے علاوہ چودہویں صدی کے ایک شیعہ مرجع تقلید محمد حسین کاشف الغطاء نے بھی تحقیق کے طور پر یہ سوال اٹھایا ہے۔[47] اس کا اصلی جواب شیعوں کی جانب سے یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السّلام کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کی جانب سے مصالح امت کی خاطر، صبر و سکوت کا حکم تھا۔[48][یادداشت 1] شعراء کے اشعار میں بھی پیغمبر سے آپ کے عہد اور صبر کے بارے میں آپ کی ذمہ داری کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ سید رضا ہندی نے اپنے مشہور قصیدے (قصیدہ رائیہ) میں کہا ہے:
(لو لم تؤمر بالصبر و کظم / الغیظ ولیتک لم تؤمر
ما نال الامر اخوتیم / و لا تناولہ منہ حبتر
(ترجمہ: اگر آپ کو صبر و تحمل اور اپنے غضب کو دبانے کا حکم نہ ہوتا! تو ابوتیم (ابوبکر) لوگوں کی ولایت و خلافت تک نہیں پہنچ سکتا تھا، اور پھر اس کے بعد حبتر (عمر) اس تک نہیں پہنچ سکتا تھا) [49] (یوسفی غروی کے حساب سے اس واقعہ کا مضبوط ترین اور قدیمی ترین بیان یعنی) کتاب سلیم میں سلمان فارسی کے نقل کے مطابق، جب عمر نے فاطمہ س پر حملہ کیا تو حضرت علی علیہ السلام نے عمر پر حملہ کیا اور اسے زمین پر پٹخ دیا؛ اس طرح جیسے اس کے قتل کا ارادہ ہو پھر آپ نے کہا اگر مجھ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کا عہد نہ ہوتا تو تمہیں پتہ چلتا کہ تم میرے گھر میں داخل نہیں ہو سکتے۔ اس موقع پر عمر نے دوسروں سے مدد مانگی اور دوسروں نے حملہ کرکے حضرت علی کو الگ کیا اور آپ کو باندھ دیا۔[50]
جناب محسن کی شہادت کی تردید
اہل سنت کے کچھ مصنفین نے روز بیعت کو ہونے والی محسن بن علی کی شہادت کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ان کی ولادت ہوئی تھیں لیکن بچپن میں ہی ان کا انتقال ہو گیا تھا۔[51] لیکن اکثر شیعہ حضرات کا عقیدہ یہ ہے کہ آپ کی شہادت اسی وقت ہوئی جب حضرت علی علیہ السلام کے گھر پر حملہ کیا گیا۔[52] جیساکہ کچھ اہل سنت کے منابع و مصادر بھی جناب محسن کے ساقط ہونے یا ان کے اسقاط کئے جانے کی تصریح کرتے ہیں۔[53] «المحسن السبط مولود أم سقط» کے مصنف نے کتاب کے تیسرے باب میں تاریخ کے تطبیقی مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ محسن ابن علی کی شہادت خانہ علی پر حملہ کے دن اور اس چوٹ اور دباؤ کی وجہ سے ہوئی جو فاطمہ بنت رسول اللہ پر آیا۔[54]
تاریخی مصادر میں خانہ فاطمہ کو آگ لگانے کا تذکرہ نہ ہونا
شہادت زہرا کے واقعہ کے سلسلہ میں ایک سوال اور ابہام یہ ہے کہ اہلسنت کی تاریخی اور حدیثی کتابوں میں جو نقل ہوا ہے وہ صرف گھر جلانے کی دھمکی ہے اور اس کی تصریح نہیں ہوئی ہے کہ یہ عمل انجام بھی پایا یا نہیں۔[55] اس کے باوجود متعدد مجموعوں کے محققین نے اصل حملے کے مآخذ کو اکٹھا کیا ہے؛ منجملہ کتاب الہجوم علی بیت فاطمہ[56] اور کتاب احراق بیت فاطمۃ۔[57] ان مصادر میں صراحت کے ساتھ بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا کو چوٹ مارنے، آپ کے گھر میں گھسنے اور جناب محسن کے ساقط ہونے کا تذکرہ ہے۔[58]
اہل سنت کے مصنفین کے ایک گروہ نے ان تاریخی بیانات کی سند کے درست ہونے میں شک کیا ہے۔[59] لیکن کچھ مقامات پر ان کا اعتراض سندی نہیں ہے؛ مثلا کتاب فاطمۃ بنت النبی کے وہابی مصنف نے حملہ کے واقعہ اور شہادت محسن کے سلسلہ میں تاریخ یعقوبی کے نقل کو صرف یہ کہہ کر مسترد کردیا ہے کہ اس کا مصنف رافضی ہے اور اس کی کوئی علمی حیثیت نہیں ہے۔[60] اسی طرح العقد الفرید میں ابن عبد ربہ کے نقل کو کسی اشکال کا ذکر کئے بغیر، نقل مُنکَر کہہ کر آگے بڑھ گیا ہے اور کہا ہے کہ ممکن ہے وہ بھی شیعہ ہی ہوں اور اس بات کی تحقیق کی جانا چاہئے۔[61] اس نے کتاب الامامۃ و السیاسۃ کے نقل کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا ہے کہ اس کا مصنف ابن قتیبہ دینوری نہیں ہے۔[62] مدیہش نے حتی حضرت علی علیہ السلام کے کلمات کا انکار کرنے کے لئے نہج البلاغہ کو آپ کتاب ماننے سے انکار کردیا ہے۔[63] اس سب کے باوجود، دھمکی کے سلسلہ میں کثرت روایات کے سبب اہل سنت کے مصنفین نے جلانے کی دھمکی دینے اور حضرت علیہ السّلام کے گھر کے سامنے اکٹھا ہونے کا انکار نہیں کیا ہے۔[64]
قدیمی منابع میں وفات کی تعبیر
شہادت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے دلائل میں سے ایک یہ ہے کہ شیعوں کی قدیمی کتب میں آپ کی رحلت کے بارے میں وفات کی تعبیر استعمال ہوئی ہے نہ شہادت کی تعبیر۔ شیعہ مصنفین کے ایک گروہ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ عربی زبان میں وفات کی تعبیر عام ہے جو فطری انتقال کو بھی شامل ہوتی ہے اور دوسرے لوگوں کے ذریعہ دیگر اسباب کے تحت جیسے زہر کے سبب مرنے کو بھی شامل ہوتی ہے۔ نمونہ کے طور پر «شہادت یا وفات حضرت زہرا سلام اللہ علیہا» کے مقالہ میں اس کی مثالیں بھی پیش کی گئی ہیں؛ مثلا اہلسنت کے بعض منابع میں عمر اور عثمان کے دنیا سے جانے کے لئے وفات کی تعبیر استعمال ہوئی ہے جبکہ ان دونوں کو قتل کیا گیا تھا۔[65] جیساکہ طبرسی نے بعض جگہ شہادت امام حسین علیہ السلام کے لئے بھی لفظ وفات کا استعمال کیا ہے۔[66]
خلفاء سے حضرت علی کے اچھے تعلقات
شہادت فاطمہ کا انکار کرنے کے لئے اہل سنت کے دلائل میں سے ایک یہ ہے کہ خلفائے ثلاثہ اور حضرت علی اور آپ کے خانوادے کے درمیان بڑے اچھے تعلقات تھے۔ «فاطمۃ بنت النبی» نامی مفصل کتاب کے مصنف نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ پہلے اور دوسرے خلیفہ، فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے بڑی محبت رکھتے تھے،[67] اس کے باوجود مصنف نے آخر میں نتیجہ یہی نکالا ہے کہ بی بی فاطمہ نے واقعہ فدک کے بعد ابوبکر سے قطع تعلق کر لیا تھا اور ان کی بیعت بھی نہیں کی۔[68] اہل سنت کے ایک مصنف محمد نافع نے «رحماء بینہم» کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں مصنف نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ خلفائے ثلاثہ کے حضرت علی علیہ السلام سے اچھے تعلقات تھے۔[69] اسی طرح ندائے اسلام نامی سہ ماہی رسالہ کے مقالہ میں مصنف نے خلفاء اور حضرت علی علیہ السّلام کے حسن تعلق اور خلفاء کی عورتوں اور بیٹیوں کے فاطمہ زہرا سے اچھے تعلقات کی مثالیں دیکر کوشش کی ہے کہ یہ ظاہر کرے کہ یہ تعلقات بی بی فاطمہ کی توہین اور ان پر حملہ کرنے سے میل نہیں کھاتے ہیں۔[70] شیعہ متکلم سید مرتضی (وفات: ۴۳۶ھ) کے بقول، حضرت علیہ السّلام کی جانب سے خلفاء کو مشورہ دینے سے یہ استفادہ نہیں کیا جاسکتا کہ آپ ان کے ساتھ تعاون کرتے تھے کیونکہ احکام الہٰی کی رہنمائی اور مسلمانوں کا دفاع کرنا ہر عالم پر واجب ہے۔[71] اسی طرح «دانشنامہ روابط سیاسی حضرت علی(ع) با خلفاء» کے مصنف نے خلفاء کو حضرت علی علیہ السّلام کے 107 مشوروں کا جائزہ لیکر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ خلفاء کا حضرت علی علیہ السلام سے مشورہ لینا آپ کے خلفاء سے اتفاق اور ہمدلی کا قرینہ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ان میں سے اکثر مشورے عام طریقے کے مشوروں کے تحت ہوئے ہیں نہ یہ کہ خلفاء نے حضرت علی علیہ السّلام کو اپنا وزیر یا مشیر بنایا ہو بلکہ حضرت علی سیاسی گوشہ نشینی کے دوران زراعت کرنے اور کنویں کھودنے میں مشغول تھے۔ اسی طرح اگر کچھ مواقع پر خلفاء حضرت علی علیہ السّلام سے مشورہ کرتے تھے تو وہ ناچاری اور مجبوری کی وجہ سے تھا تاکہ مشکلات کی گرہیں کھولی جاسکیں۔[72]
دوسرے خلیفہ سے حضرت علی علیہ السّلام کی بیٹی کا نکاح بھی ان مثالوں میں سے ایک ہے جس کو عمر کی اہل بیت علیہم السلام سے دوستی ثابت کرنے کے لئے پیش کیا جاتا ہے کہ یہ شہادت فاطمہ میں ان کی مداخلت سے منافی ہے۔[73] کچھ صاحبان قلم نے اس نکاح کا انکار کیا ہے[74] سید مرتضی نے اس کو زور زبردستی اور دھمکی کا نتیجہ قرار دیا ہے [75] اس صورت میں یہ نکاح ان دونوں کے درمیان اچھے تعلقات کی علامت نہیں کر سکتا۔[76] امام صادق علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں بھی اس نکاح کے جبری ہونے کو بیان کرتے ہوئے «غصب» کی تعبیر بیان ہوئی ہے۔[77]
خلفاء کے نام پر اولاد اہل بیت کے نام
اہل سنت کا ایک گروہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ چونکہ حضرت علی علیہ السّلام نے اپنی اولاد کے نام خلفاء کے ناموں پر رکھے ہیں لہذا آپ کو خلفاء سے محبت تھی۔[78] اور یہ مسئلہ، شہادت فاطمہ زہرا کے ساتھ میل نہیں کھاتا ہے۔ مذکورہ بات «اسئلۃ قادت شباب الشیعۃ الی الحق» (کچھ سوالات جو شیعہ جوانوں کو حقیقت کی رہنمائی کریں گے) نام کے ایک کتابچہ میں بھی ذکر ہوئی ہیں۔[79]
سید علی شہرستانی (پیدائش: ۱۳۳۷ش) نے "التسمیات بین التسامح العلوی و التوظیف الاموی" نامی کتاب میں صدر اسلام میں اور اس کے بعد کے چند صدیوں میں بچوں کے نام رکھنے کو لیکر تفصیلی تجزیہ کیا ہے اور 29 نکات بیان کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس طرح کی نام گزاری لوگوں کے درمیان بہتر تعلقات کا قرینہ نہیں ہو سکتی، جیساکہ نام رکھنا بھی دشمنی کی علامت نہیں ہو سکتا؛[80] کیونکہ یہ نام خلفاء سے پہلے بھی اور بعد میں بھی رائج رہے ہیں۔[81] دوسری طرف دوسرے خلیفہ سے منقول ایک روایت کی بنیاد پر حضرت علی علیہ السلام انھیں جھوٹا اور خائن سمجھتے تھے[82] یا یہ کہ بنیادی طور پر ابوبکر کسی شخص کا نام ہی نہیں ہے بلکہ یہ ایک کنیت ہے اور کوئی اپنی اولاد کا نام، کنیت پر نہیں رکھتا[83]
اہل سنت کے نامور عالم ابن تیمیہ حرانی (وفات: ۷۲۸ھ) کا خیال بھی یہی ہے کہ کسی کے نام پر نام رکھنا اس سے محبت کی علامت نہیں ہے؛ جیساکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ اور صحابہ کرام بھی کفار کے ناموں سے استفادہ کرتے تھے۔[84] سید علی شہرستانی کے بقول مزید دو رسالے خلفاء کے نام پر ائمہ کی اولادوں کے نام کے سلسلہ میں لکھے گئے ہیں جن میں سے ایک وحید بہبہانی (وفات: ۱۲۰۵ھ) نے اور دوسرا صاحب قصص العلماء، تنکابنی (وفات: ۱۳۰۲ھ) نے تحریر کیا ہے۔[85]
متعلقہ کتابیں
شہادت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے سلسلہ میں مستقل طور پر کتابیں لکھی گئی ہیں۔ جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:
- شیخ عباس قمی کی عربی کتاب بیت الاحزان فی مصائب سیدۃ النسوان (تحریر کی تاریخ: ۱۳۳۰ھ)۔ اس کتاب کے ایک حصہ میں رحلت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ کے بعد فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی کے حوادث بیان ہوئے ہیں۔[86] اس کتاب کا فارسی ترجمہ «رنجہا و فریادہای فاطمہ سلام اللہ علیہا» کے عنوان سے ہوا ہے۔
- جعفر مرتضی عاملی (وفات ۱۴۴۱ھ) کی عربی کتاب مَأساۃُ الزّہراء(س)، شُبَہات و رُدود ۔ اس کتاب میں مصنف نے کوشش کی ہے کہ ان شبہات کا جواب دیں جو بی بی فاطمہ کی زندگی کے آخری ایام اور آپ کی شہادت کے سلسلہ میں پائے جاتے ہیں۔ اس کتاب کا فارسی ترجمہ «رنجہای حضرت زہرا سلاماللہ علیہا» کے عنوان سے انجام پایا ہے۔
- پندرہویں صدی کے صاحب قلم عبدالزہراء مہدی کی کتاب الہجوم، اس میں 150 شیعہ راویوں اور صاحبان قلم کی 260 تاریخی روایتیں اور بیانات قلمبند ہوئے ہیں جن میں سے ہر ایک میں شہادت فاطمہ کے اسباب میں سے کچھ سبب بیان ہوئے ہیں۔[87]
اسی طرح اہل سنت کے صاحبان قلم نے خلفاء اور اہل بیت علیہ السلام کے حسن تعلق اور شہادت حضرت فاطمہ کے انکار میں کچھ کتابیں لکھی ہیں:
- «فاطمۃ الزہراء بنت رسول اللہ و ام الحسنین»، مولف: عبدالستار الشیخ۔ یہ کتاب اہم مسلمان شخصیات کے تعارف ناموں کے کئی جلد پر مشتمل مجموعہ کا ایک حصہ ہے، اور یہ حصہ حضرت فاطمہ زہرا(س) سے مخصوص ہے۔ مصنف نے اس میں روز بیعت کے واقعات اور خانہ زہرا میں آتشزنی کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا ہے۔ اس کتاب میں صرف میراث النبی(ع) کے عنوان سے واقعہ فدک کی طرف اشارہ ہوا ہے اور مصنف نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ فدک کے سلسلہ میں فاطمہ اور ابوبکر کے درمیان کوئی اختلاف نہیں تھا[88] اور یہ کہ اس پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ فاطمہ زہرا(س)، خلیفہ اول و دوم سے ناراض تھیں اور یہ بات ایک راوی کے ذہن کی ایجاد ہےکہ فاطمہ نے عیادت کے دن ان دونوں سے بات نہیں کی۔[89] مصنف کے لحاظ سے یہ مسئلہ علمائے شیعہ کا گھڑا ہوا ہے۔[90]
- «بین الزہراء و الصدیق حقیقۃ و تحقیق»، مولف: بدر العمرانی۔ یہ کتاب 2014ء میں شائع ہوئی اور فاطمہ سے خلیفہ اول ابوبکر کا رابطہ اس کتاب کا موضوع ہے۔[91]
- «دفاعاً عن الآل و الاصحاب»؛ اس کتاب کا کوئی خاص مصنف نہیں ہے اور ایک ہزار صفحات پر مشتمل یہ کتاب جمعیۃ الآل و الاصحاب کی جانب سے سنہ ۱۴۳۱ھ میں بحرین میں چھپی ہے۔[92] کلی طور سے اس کتاب کا موضوع ان شبہات و اعتراضات کا جواب دینا ہے جو اہل سنت کے عقائد سے متعلق ہیں۔ اس کتاب کا ایک حصہ شہادت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے مخصوص ہے۔[93]
متعلقہ مضامین
نوٹ
- ↑ کافی میں مذکور روایت کے بموجب حضرت علی علیہ السّلام نے پیغمبر اسلام صلی اللّٰہ علیہ وآلہ کے حضور عہد کیا تھا کہ آپ کے بعد ہونے والے مظالم اور اپنی توہین کے مقابلے میں صبر کریں اور اپنے غیض و غضب کو اپنے سینے میں دفن کرلیں۔(کلینی، کافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۲۸۱-۲۸۲)
حوالہ جات
- ↑ مہدی، الہجوم، ۱۴۲۵ق، ص۱۴۔
- ↑ دیکھئے: المدیہش، فاطمۃ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۳، ص۴۳۱-۵۵۰۔
- ↑ مظاہری، فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص۳۶۵۔
- ↑ شبیری، «شہادت فاطمہ(س)»، ج۱، ص۳۴۷۔
- ↑ «ماجرای تعطیل شدن روز شہادت حضرت زہرا»، سائٹ آفتاب نیوز۔
- ↑ نمونے کے طور پر دیکھئے: «حرکت دستہ عزاداری فاطمیہ مقدسہ زنجان»، سائٹ فارس خبر رساں ایجنسی؛ «مراسم بزرگ عزاداری فاطمیہ با حضور۔۔۔»، سائٹ شفقنا خبر رساں ایجنسی۔
- ↑ مظاہری، فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص۳۶۶۔
- ↑ «نظر مراجع تقلید دربارہ توہین بہ مقدسات اہلسنت»، سائٹ مہر خبر رساں ایجنسی
- ↑ مسائلی، نہم ربیع، جہالت ہا، خسارت ہا، ۱۳۸۷ش، ص۱۱۷-۱۱۹۔
- ↑ «آیا اعتقاد بہ شہادت و مظلومیت حضرت زہرا سلام اللہ علیہا دارای سابقہ تاریخی میباشد؟»، تحقیقاتی سائٹ ولی عصر (عج)۔
- ↑ سلیمی, Early Ibadi Theology: New Material on Rational Thought in Islam from the Pen of al-Fazārī, ص۳۳۔
- ↑ کاشفالغطاء، جنۃ المأوی، ۱۴۲۹ھ، ص۶۲۔
- ↑ شہرستانی، الملل و النحل، ۱۳۶۴ش، ج۱، ص۷۱۔
- ↑ شہرستانی، الملل و النحل، ۱۳۶۴ش، ج۱، ص۷۱۔
- ↑ قاضی عبد الجبار، تثبیت دلائل النبوۃ، ۲۰۰۶ء، ج۲، ص۵۹۵
- ↑ دیکھئے: صفدی، الوافی بالوفیات، ۱۴۲۰ھ، ج۶، ص۱۵؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ۱۴۰۵ھ، ج۱۵، ص۵۷۸؛ ابنحجر عسقلانی، لسان المیزان، ۲۰۰۲ء، ج۱، ص۶۰۹۔
- ↑ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ۱۳۸۷ھ، ج۳، ص۲۰۲؛ ابن عبد ربہ، العقد الفرید، ۱۴۰۷ھ، ج۵، ص۱۳۔
- ↑ بلاذری، فتوح البلدان، ۱۹۵۶ء، ص۴۰ و ۴۱۔
- ↑ شہیدی، زندگانی فاطمہ زہرا علیہا السلام، ۱۳۶۲ش، ص۱۲۶-۱۳۵۔
- ↑ اللہ اکبری، «محسن بن علی»، ص۶۸-۷۲۔ نمونہ کے طور پر دیکھئے: بہ مقدس اردبیلی، اصول دین، ۱۳۸۷ش، ص۱۱۳-۱۱۴؛ مفید، الاختصاص، ۱۴۱۳ھ، ص۱۸۵۔
- ↑ ابنقتیبہ دینوری، المعارف، ۱۹۶۰ء، ص۲۱۱۔
- ↑ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ۱۴۰۴ھ، ج۱۴، ص۱۹۲–۱۹۳۔
- ↑ شہرستانی، الملل و النحل، ۱۳۶۴ش، ج۱، ص۷۱۔
- ↑ یوسفی غروی، موسوعۃ التاریخ الاسلامی، ۱۴۳۸ھ، ج۴، ص۱۵۷-۱۶۲۔
- ↑ یوسفی غروی، موسوعۃ التاریخ الاسلامی، ۱۴۳۸ھ، ج۴، ص۱۴۴-۱۴۷۔
- ↑ نمونے کے لئے دیکھئے: فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۵۱۔
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۴۵۸۔
- ↑ طبری، دلائل الامامۃ، ۱۴۱۳ھ، ص۱۳۴۔
- ↑ طبری، دلائل الامامۃ، ۱۴۱۳ھ، ص۱۳۴۔
- ↑ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، ص۳۱۹، خطبہ۲۰۲۔
- ↑ تبریزی، صراط النجاۃ، ۱۴۱۸ق، ج۳، ص۴۴۰-۴۴۱۔
- ↑ مہدی، الہجوم، ۱۴۲۵ھ، ص۲۲۱-۳۵۶۔
- ↑ مہدی، الہجوم، ۱۴۲۵ھ، ص۲۲۱۔
- ↑ طوسی، تلخیص الشافی، ۱۳۸۲ش، ج۳، ص۱۵۶۔
- ↑ طوسی، تلخیص الشافی، ۱۳۸۲ش، ج۳، ص۱۵۶۔
- ↑ مہدی، الہجوم، ۱۴۲۵ھ، ص۱۵۴-۲۱۷۔
- ↑ مہدی، الہجوم، ۱۴۲۵ھ، ص۱۵۴-۱۵۵۔
- ↑ غیب غلامی، احراق بیت فاطمہ، ۱۳۷۵ش۔
- ↑ غیب غلامی، احراق بیت فاطمہ، ۱۳۷۵ش، ص۷۹۔
- ↑ غیب غلامی، احراق بیت فاطمہ، ۱۳۷۵ش، ص۱۹۲۔
- ↑ جمعی از نویسندگان، شہادت مادرم زہرا افسانہ نیست، ۱۳۸۸ش، ص۲۵-۳۲۔
- ↑ جمعی از نویسندگان، شہادت مادرم زہرا افسانہ نیست، ۱۳۸۸ش، ص۲۵-۳۲۔
- ↑ جنوبی کے طور پر دیکھئے: عاملی، مأساۃ الزہراء، ۱۴۱۸ھ، ج۱، ص۲۶۶-۲۷۷، ج۲، ص۲۲۹-۳۲۱۔
- ↑ طبسی، حیاۃ الصدیقۃ فاطمۃ، ۱۳۸۱ش، ص۱۹۷۔ کتاب کے مصنف نے اس اعتراض کو ان کی طرف نسبت دی ہے جو تاریخ سے نابلد ہیں
- ↑ عاملی، مأساۃ الزہراء، ۱۴۱۸ھ، ج۲، ص۲۲۹-۳۲۱۔
- ↑ المدیہش، فاطمۃ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۵، ص۶۸-۷۰ و ۸۳۔
- ↑ کاشف الغطاء، جنۃ المأوی، ۱۴۲۹ھ، ص۶۴؛ مہدی، الہجوم، ۱۴۲۵ھ، ص۴۴۶۔
- ↑ دیکھئے: عاملی، مأساۃ الزہراء، ۱۴۱۸ھ، ج۱، ص۲۶۶-۲۷۷؛ مہدی، الہجوم، ۱۴۲۵ھ، ص۴۴۶-۴۴۹ و ۴۵۲-۴۵۸؛ کوثرانی، ۱۲ شبہۃ، حول الزہراء، ص۱۵-۲۶۔
- ↑ طہرانی، سید محمد حسین، مکتوبات خطی، جُنگ ۱۶، صفحہ۱۰۹۔
- ↑ یوسفی غروی، موسوعۃ التاریخ الاسلامی، ۱۴۳۸ھ، ج۴، ص۱۱۲۔
- ↑ جناب محسن کے بارے میں اہل سنت کی کتب کی تفصیلی معلومات کے لئے دیکھئے: المدیہش، فاطمۃ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۳، ص۴۱۱-۴۱۴؛ الموسوی الخرسان، المحسن السبط مولود أم سقط، ۱۴۳۰ھ، ص۱۰۵-۱۱۱۔
- ↑ طوسی، تلخیص الشافی، ۱۳۸۲ش، ج۳، ص۱۵۶۔
- ↑ الموسوی الخرسان، المحسن السبط مولود أم سقط، ۱۴۳۰ھ، ص۱۱۹-۱۲۸۔
- ↑ الموسوی الخرسان، المحسن السبط مولود أم سقط، ۱۴۳۰ھ، ص۲۰۷۔
- ↑ مہدی، الہجوم، ۱۴۲۵ق، ص۴۶۷؛ فضلاللہ، الزہراء القدوۃ، ۱۴۲۱ق، ص۱۰۹-۱۱۰۔
- ↑ مہدی، الہجوم، ۱۴۲۵ھ، ص۱۵۴-۲۱۷۔
- ↑ غیب غلامی، احراق بیت فاطمۃ، ۱۳۷۵ش۔
- ↑ سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس، ۱۴۲۰ھ، ج۱، ص۱۵۰؛ مسعودی، اثبات الوصیۃ، ۱۳۸۴ش، ص۱۴۶؛ طبری، دلائل الإمامۃ، ۱۴۱۳ھ، ص۱۳۴؛ عیاشی، تفسیر العیاشی، ۱۳۸۰ھ، ج۲، ص۶۷۔
- ↑ نمونے کے طور پر دیکھئے: المدیہش، فاطمۃ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۵، ص۲۱-۳۵۔
- ↑ المدیہش، فاطمۃ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۵، ص۸۰۔
- ↑ المدیہش، فاطمۃ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۵، ص۶۳۔
- ↑ المدیہش، فاطمۃ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۵، ص۷۹-۸۰۔
- ↑ المدیہش، فاطمۃ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۵، ص۸۱۔
- ↑ نمونہ کے طور پر دیکھئے: المدیہش، فاطمۃۃ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۵، ص۲۱-۳۵۔
- ↑ دیکھئے: محسنی، «شہادت یا وفات حضرت زہرا سلام اللہ علیہا»، راسخون سائٹ۔
- ↑ طبرسی، الاحتجاج، ج۲، ص۳۷۳، محسنی سے منقول، «شہادت یا وفات حضرت زہرا سلام اللہ علیہا»، راسخون سائٹ
- ↑ دیکھئے: المدیہش، فاطمہ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۴، ص۳۵۷، تا آخر، و ج۵ از ابتدا تا ص۸۹۔
- ↑ دیکھئے: المدیہش، فاطمہ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۴، ص۵۲۱-۵۲۳۔
- ↑ «رحماء بینہم»، نیل و فرات سائٹ۔
- ↑ مرجانی، «ارتباط و محبت خلفای ثلاثہ با علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما»، سنی آنلاین سائٹ۔
- ↑ سید مرتضی، الشافی فی الامامۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۳، ص۲۵۱۔
- ↑ لباف، دانشنامہ روابط سیاسی حضرت علی(ع) با خلفا، ۱۳۸۸ش، ص۷۳-۷۶۔
- ↑ المدیہش، فاطمۃ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۵، ص۵۴۔
- ↑ دیکھئے: اللہ اکبری، «ازدواج ام کلثوم با عمر از نگاہ فریقین»، ص۱۱-۱۲۔
- ↑ دیکھئے: سید مرتضی، الشافی فی الامامۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۳، ص۲۷۲-۲۷۳۔
- ↑ اللہ اکبری، «ازدواج ام کلثوم با عمر از نگاہ فریقین»، ص۱۱-۱۲۔
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷، ج۵، ص۳۴۶، ح۱۔
- ↑ حسینی، «مقدمہ مترجم»، نام خلفا بر فرزندان امامان، ص۱۱۔
- ↑ شہرستانی، التسمیات، ۱۴۳۱ھ، ص۱۲۔
- ↑ شہرستانی، التسمیات، ۱۴۳۱ھ، ص۴۷۷-۴۸۸۔
- ↑ شہرستانی، التسمیات، ۱۴۳۱ھ، ص۹۸-۹۹۔
- ↑ نیشابوری، المسند الصحیح، دار احیاء التراث العربی، ج۳، ص۱۳۷۷۔
- ↑ شہرستانی، التسمیات، ۱۴۳۱ھ، ص۴۲۷-۴۷۲۔
- ↑ ابنتیمیہ، منہاج السنۃ، ۱۴۰۶ھ، ج۱، ص۴۱-۴۲۔
- ↑ شہرستانی، التسمیات، ۱۴۳۱ق، ص۱۴۔
- ↑ دیکھئے: «بیتالاحزان فی ذکر احوال سیدۃ نساء العالمین»، ص۶۰-۶۲۔
- ↑ مہدی، الہجوم، ۱۴۲۵ھ، ص۲۲۱-۳۵۶۔
- ↑ الشیخ، فاطمۃ الزہراء، دار القلم، ص۲۹۹-۳۱۸۔
- ↑ الشیخ، فاطمۃ الزہراء، دار القلم، ص۳۱۹-۳۲۶۔
- ↑ الشیخ، فاطمۃ الزہراء، دار القلم، ص۳۲۷۔
- ↑ «بین الزہراء و الصدیق»، سائٹ الکتبی۔
- ↑ «اطلاعات کتاب دفاعا عن الآل و الأصحاب»، سائٹ عربک بک شاپ۔
- ↑ «کتاب دفاعا عن الآل و الرسول»، فیصل نور سائٹ۔
مآخذ
- ابنابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہرہ، دار احیاء الکتب العربیہ، ۱۳۸۵ھ/۱۹۶۵ء۔
- ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، لسان المیزان، بیروت، دار البشائر الإسلاميۃ، ۲۰۰۲ء۔
- ابن عبد ربہ، احمد بن محمد، العقد الفرید، تحقیق مفید محمد قمیحہ و عبد المجید ترحینی، بیروت، درالکتب العلمیۃ، ۱۴۰۷ھ/۱۹۸۷ء۔
- ابن قتیبہ دینوری، عبد اللہ بن مسلم، المعارف، تحقیق ثروت عکاشہ، قاہرہ، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، ۱۹۶۰ء۔
- اب نتیمیہ، محمد بن عبد الحلیم، منہاج السنۃ النبویۃ، تحقیق محمد رشاد سالم، ریاض، جامعۃ الامام محمد بن سعود الإسلامیۃ، ۱۴۰۶ھ۔
- اللہ اکبری، محمد، ازدواج امکلثوم و عمر از نگاہ فریقین، در مجلہ طلوع، شمارہ ۲۳، پاییز ۱۳۸۶ش۔
- اللہ اکبری، محمد، «محسن بن علی»، در مجلہ طلوع، شمارہ ۲۹، پاییز ۱۳۸۸ش۔
- المدیہش، ابراہیم بن عبد اللہ، فاطمۃ بنت النبی سیرتہا، فضائلہا، مسندہا، ریاض، دار الآل و الصحب، ۱۴۴۰۔
- «بیت الاحزان فی ذکر احوال سیدۃ نساء العالمین»، بقیۃ اللہ، شمارہ۸۵، ربیع الثانی، ۱۴۱۹ھ۔
- بیہقی، احمد بن حسین، دلائل النبوۃ ومعرفۃ أحوال صاحب الشریعہ، تحقیق عبدالمعطی قلعجی، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۰۵ھ/۱۹۸۵ء۔
- تبریزی، جواد، صراط النجاۃ، قم، مکتب حضرت آیت اللہ العظمی التبریزی، ۱۴۱۸ھ۔۔ یہ کتاب در حقیقت آیتاللہ خوئی کی صراط النجاۃ جو کہ آیتاللہ تبریزی کی تعلیقات کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔۔
- جمعی از نویسندگان، شہادت مادرم زہرا افسانہ نیست، بےجا، انتشارات امیر کلام، ۱۳۸۸ش۔
- «حرکت دستہ عزاداری فاطمیہ مقدسہ زنجان»، فارس خبر رساں ایجینسی، تاریخ درج مندرجات: ۳۰ دی ۱۳۹۷ش، تاریخ رجوع: ۲۹ آبان ۱۴۰۰ش۔
- حسینی، سید ہادی، «مقدمہ مترجم»، [سید علی شہرستانی کی کتاب "نام خلفا بر فرزندان"]، قم، انتشارات دلیل ما، ۱۳۹۰ش۔
- دفاعا عن الآل و الأصحاب، بحرین، جمعیۃ الآل و الأصحاب، ۱۴۳۱ھ۔
- ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، ۱۴۰۵ھ۔
- سید رضی، نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم، دار الہجرۃ، ۱۴۱۴ھ۔
- سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس، قم، الہادی، ۱۴۲۰ھ۔
- سید مرتضی، علی بن حسین، الشافی فی الامامہ، تحقیق سید عبدالزہراء حسینی، تہران، مؤسسۃ الصادق(ع)، چاپ دوم، ۱۴۱۰ھ۔
- شبیری، سید محمدجواد، «شہادت فاطمہ(س)»، دانشنامہ فاطمی(س)، تہران، پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، چاپ اول، ۱۳۹۳ش۔
- شہرستانی، سید علی، التسمیات بین التسامح العلوی و التوظیف الأموی، مشہد، مؤسسۃ الرافد، ۱۴۳۱ھ۔
- شہرستانی، محمد بن عبدالکریم، الملل و النحل، تحقیق محمد بدران، قم، انتشارات شریف رضی، ۱۳۶۴ش۔
- شیخ، عبد الستار، فاطمۃ الزہراء بنت رسول للہ و ام الحسنین، دمشق، دار القلم، ۱۴۳۶ھ۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد، الاختصاص، تصحیح علیاکبر غفاری و محمود محرمی زرندی، قم، الموتمر العالمی لالفیۃ الشیخ المفید، ۱۴۱۳ھ۔
- صفدی، خلیل بن ایبک، الوافی بالوفیات، بیروت، دار إحياء التراث، ۱۴۲۰ھ۔
- طبرسی، حسن بن علی، مناقب الطاہرین، تحقیق حسین درگاہی، تہران، رایزن، ۱۳۷۹ش۔
- طبری، محمد بن جریر بن رستم، دلائل الامامۃ، قم، مؤسسہ بعثت، ۱۴۱۳ھ۔
- طبسی، محمدجواد، حیاۃ الصدیقۃ فاطمۃ، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۱ش۔
- طوسی، محمد بن حسن، تلخیص الشافی، تحقیق حسین بحرالعلوم، قم، انتشارات محبین، ۱۳۸۲ش۔
- عاملی، سید جعفر مرتضی، مأساۃ الزہراء، بیروت، دارالسیرۃ، ۱۴۱۸ھ/۱۹۹۷ء۔
- عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، تحقیق سید ہاشم رسولی محلاتی، تہران، المطبعۃ العلمیۃ، چاپ اول، ۱۳۸۰ھ۔
- غیب غلامی، حسین، إحراق بیت فاطمہ فی الکتب المعتبرۃ عند أہل السنۃ، نشر مؤلف، ۱۳۷۵ش۔
- فتال نیشابوری، محمد بن احمد، روضۃ الواعظین و بصیرۃ المتعظین، قم، انتشارات رضی، چاپ اول، ۱۳۷۵ش۔
- فضلاللہ، سید محمد حسین، الزہراء القدوۃ، گردآوری حسین احمد الخشن، بیروت، دار الملاک، ۱۴۲۱ھ۔
- قاضی عبد الجبار بن احمد، تثبیت دلائل النبوۃ، تحقیق عبد الکریم عثمان، قاہرہ، دارالمصطفی، ۲۰۰۶ء۔
- کاشف الغطاء، محمدحسین، جنۃ المأوی، تحقیق سید محمدعلی قاضی طباطبائی، قم، انتشارات دلیل ما، ۱۴۲۹ھ۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، ۱۴۰۷ھ۔
- لباف، علی، دانشنامہ روابط سیاسی حضرت علی علیہ السلام، تہران، منیر، ۱۳۸۸ش۔
- «ماجرای تعطیل شدن روز شہادت حضرت زہرا»، سایت آفتاب نیوز، تاریخ درج مندرجات: ۱۷ اردیبہشت ۱۳۹۰ش، تاریخ رجوع: ۲۹ آبان ۱۴۰۰ش۔
- محسنی، مصطفی، «شہادت یا وفات حضرت زہرا سلام اللہ علیہا»، راسخون سائٹ۔
- «مراسم بزرگ عزاداری فاطمیہ با حضور حضرت آیت اللہ وحید خراسانی و دستہہای عزاداری برگزار شد»، شفقنا خبر رساں ایجنسی، تاریخ درج مندرجات: ۲۸ دی ۱۳۹۹ش، تاریخ رجوع: ۲۹ آبان ۱۴۰۰ش۔
- مرجانی، حبیباللہ، «ارتباط و محبت بین خلفای ثلاثہ و حضرت علی و فاطمہ رضیاللہ عنہما»، فصلنامہ ندای اسلام، شمارہ ۵۴، زاہدان، دار العلوم، ۱۳۹۶ش۔
- مسائلی، مہدی، نہم ربیع: جہالتہا خسارتہا، چاپ دوم، قم، انتشارات وثوق، ۱۳۸۷ش۔
- مسعودی، علی بن حسین، اثبات الوصیۃ، قم، انصاریان، ۱۳۸۴ش۔
- مظاہری، محسنحسام، فرہنگ سوگ شیعی، ویراست یکم، تہران، نشر خیمہ، ۱۳۹۵ش۔
- مقدس اردبیلی، احمد بن محمد، اصول دین، تحقیق محسن صادقی، قم، مؤسسہ بوستان کتاب، ۱۳۸۷ش۔
- مہدی، عبدالزہراء، الہجوم علی بیت فاطمہ، تہران، انتشارات برگ رضوان، ۱۴۲۵ھ۔
- موسوی خرسان، سید محمد مہدی، المحسن السبط مولود أم سقط، نجف، منشورات رافد، ۱۴۳۰ھ۔
- «نظر مراجع تقلید دربارہ توہین بہ مقدسات اہلسنت»، مہر خبر رساں ایجنسی، تاریخ درج مندرجات: ۱۵ آبان ۱۳۹۸ش، تاریخ رجوع: ۲۹ آبان ۱۴۰۰ش۔
- نیشابوری، مسلم بن حجاج، المسند الصحیح، تحقیق محمد فؤاد عبدالباقی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بےتا۔
- یوسفی غروی، محمدہادی، موسوعۃ التاریخ الاسلامی، قم، مجمع الفکر الاسلامی، چاپ پنجم، ۱۴۳۸ھ۔
Al-Salimi, Abdulrahman, Early Ibadi Theology: New Material on Rational Thought in Islam from the Pen of al-Fazārī, BRILL, 2021۔