بین الحرمین
بینُ الْحَرَمَین حرم امام حسین(ع) اور حرم حضرت عباس(ع) کی درمیانی جگہ کو کہا جاتا ہے جس کی لمبائی تقریبا 378 میٹر ہے۔ پرانے زمانے میں بین الحرمین موجودہ دور کی طرح خالی نہیں تھا بلکہ اس میں تجارتی اور رہایشی عمارتیں بنی ہوئی تھیں۔ صدام کے دور میں حرم کی توسیع کی خاطر ان عمارتوں کو گرا دیا گیا اس طرح بین الحرمین موجودہ حالت میں خالی ہو گیا۔ صدام کے سقوط کے بعد بین الحرمین کی توسیع، ایران اور عراق میں عتبات عالیات کے توسیعی پروگراموں میں سے سر فہرست پروگراموں میں شامل ہوا اور اس پر تیزی سے کام شروع کیا گیا جس کے نتیجے میں بین الحرمین موجودہ شکل میں وجود میں آ گیا۔
بین الحرمین کی اصطلاح
تاریخی منابع اور دیگر ذرایع کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ بین الحرمیں میں موجود عمارتوں کی تخریب سے پہلے یہ اصطلاح رائج نہیں تھی۔ اس وقت تک بین الحرمین کا نام صرف تہران میں مسجد شاہ اور مسجد جامع کے درمیان موجود بازار جسے سلسلہ قاجاریہ میں بنایا گیا تھا، کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ لیکن جب کربلا میں حرم امام حسین(ع) اور حرم حضرت عباس(ع) کے درمیان موجود عمارتوں کو خالی کرایا گیا تو اس جگہ کو اس اصطلاح سے پکارا جانے لگا۔
بین الحرمین کی تعمیر
بین الحرمین کی تعمیر سے پہلے یہ جگہ بھی کربلا کے دوسرے محلوں کی طرح ایک قدیمی محلہ تھی جس کی تنگ و تاریک گلیوں میں لوگوں کے مکانات اور دکانیں موجود تھیں۔ سید محسن حکیم اس فکر میں تھے کہ دونوں حرموں کو توسیع دے کر ایک دوسرے سے ملایا جائے لیکن ایک طرف سے یہاں موجود مکانات اور دکانوں کی قیمت بہت زیادہ تھی جسے تہیہ کرنا ایک مشکل امر تھا تو دوسری طرف ان کے مالکوں کو راضی کرنا بھی ایک سخت کام تھا اسی طرح ان کے درمیان مساجد اور مدارس بھی تھے جن کی وجہ سے معاملہ اور بھی پیچیدہ ہو گیا تھا۔
سن 1393 ہجری کو عراق کے وزارت اوقاف نے عراق میں موجود عتبات عالیات کو اپنے کنٹرول میں لے لیا اور سن 1400 ہجری کو ان مقامات کی مرمت اور توسیع کے حوالے سے ایک ٹیم تشکیل دی گئی۔
صدام نے محرم 1984 ع کو کربلا میں یہ اعلان کیا کہ حرمین کی توسیع اور انہیں آپس میں ملانے کیلئے دسیوں میلین عراقی دینار مختص کئے جائیں گے۔ اس کے بعد یہاں موجود عمارتوں اور زمینوں کو خریدا گیا اور حرمین کی توسیع اور بین الحرمین کی تعمیر کیلئے ایک میلین عراقی دینار جس کی قیمت دس میلین ڈالر بنتی تھی کو کربلا کے گورنر کیلئے دیا گیا۔[1]
دو سال بعد 3 جمادی الثانی 1407 ہجری کو توسیع حرمین کے دوسرے پروگراموں کی طرح بین الحرمین کی توسیعی پروگرام کا افتتاح ہوا۔[2] حرمین کے توسیعی پروگرام کے دوران حرمین کے درمیان موجود عمارتیں 40 میٹر تک خالی کرائی گئیں اس دوران بعض تاریخی آثار قدیمہ جیسے مدارس، مساجد اور بعض بزرگوں کے مقبرے بھی خراب ہو گئے۔[3]
بین الحرمین کے دونوں طرف تجارتی عمارتیں بنائی گئیں جو سن 1991ء تک باقی تھیں۔ عراق میں انتفاضہ شعبانیہ کے دوران انقلابیوں اور بعثی فوج کے درمیان لڑائی کی وجہ سے اطراف میں موجود تجارتی عمارتوں کو نقصان پہنچا۔ اس علاقہ پر صدام کی دوبارہ قبضے کے بعد بین الحرمین کے اطراف میں موجود تمام عمارتیں خراب کی گئیں یوں بین الحرمین نے مزید وسعت پیدا کی۔ سن 1994ء میں بغداد کے شیعوں نے بین الحرمین میں درخت کاری کی۔[4]
سن 1991ء کی تحریک میں بعثیوں کے ہاتھوں حرمین کو بھی کافی نقصان پہنچا۔ اگرچہ صدام حکومت نے دوسرے سال حرمین کی مرمت اور توسیع کی لیکن صدام کی سرنگونی کے بعد تک ان حملات کے آثار باقی تھے۔
بین الحرمین کا محدودہ
بین الحرمین حرم امام حسین(ع) اور حرم حضرت عباس(ع) کے درمیان 378 میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ بین الحرمین کی ہوائی تصاویر اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ حرمین کا درمیانی فاصلہ شروع میں خالی نہیں تھا بلکہ دونوں حرموں کے درمیان کافی سارے مکانات اور دکانوں تھیں۔ اور ایک نہایت تنگ گلی حرم امام حسین(ع) کو حرم حصرت عباس(ع) سے ملاتی تھی۔ لیکن صدام کی حکومت کے دوران بین الحرمین میں موجود عمارتیں دو مرحلوں میں تخریب ہوئیں اور حرمین کا درمیانی فاصلہ ایک چوڑی سڑک کی شکل اختیار کر گیا جو بین الحرمین کے نام سے مشہور ہوا۔
بین الحرمین کو زائرین کیلئے مورد استفادہ قرار دینا
صدام کی سرنگونی کے بعد جب عراق میں عتبات عالیات کی تعمیر و توسیع کے منصوبے پر کام شروع ہوا جس میں حرم امام حسین(ع) اور حرم حضرت عباس(ع) کی تعمیر و توسیع بھی شامل تھی۔ حرمین کی توسیع کے ساتھ ساتھ زائرین کے آرام و آسائیش خاص کر عزاداری کے مواقع پر لاکھوں زائرین کیلئے مراسم عزاداری منعقد کرنے کیلئے بین الحرمین کے توسیعی منصوبے پر تیزی سے کام شروع ہوا۔
بین الحرمین کا توسیعی منصوبہ
بین الحرمین کو وہاں کی معنوی فضا کے ساتھ سازگار بنانے اور زائرین کے آرام و آسائش اور حرم امام حسین(ع) اور حرم حضرت عباس(ع) کے درمیان زائرین کی رفت و آمد میں آسانی پیدا کرنے کی خاطر سن 2010ء کو بین الحرمین کے توسیعی منصوبے پر کام کا آغاز ہوا۔ اس منصوبے کے ایک پروجیکٹ میں حرم اور بین الحرمین کے محدودے میں موجود ہوٹلوں اور عمارتوں کی تخریب کا کام شامل تھا۔ اس پروجیکٹ کی مساحت تقریبا ڈیڑھ میلین مربع میٹر پر پھیلی ہوئی ہے جو میثم تمار روڈ سے شروع ہو کر شارع "جمہوری" سے ہوتے ہوئے بین الحرمین کی دوسری طرف منتہی ہوتی ہے۔
اس محدودے میں موجود ہوٹلوں اور عمارتوں کے مہنگے ہونے کی بنا پر انہیں خریدنے اور تخریب کیلئے کافی مقدار میں رقوم کی ضرورت تھی جس میں سے کچھ حصہ عراقی حکومت نے ادا کیا جبکہ کچھ حصہ کربلا کے بلدیاتی بجٹ نیز حرمین کے ہدایا اور نذورات سے دریافت ہوا۔ یہ منصوبہ سن 2035ء میں مکمل ہوگا۔[5]
بین الحرمین کے فرش پر سنگ مرمر لگانے کا منصوبہ
بین الحرمین کے توسیعی منصوبوں میں سے ایک منصوبہ اس کے فرش پر سنگ مرمر لگانا تھا۔ اس مقصد کیلئے سن 2010 میں عراق کی وزارت تعمیرات اور ہاوسنگ نے 25 ارب 393 میلین عراقی دینار کی لاگت سے اٹلی کے اعلی کوالٹی کا سنگ مرمر مہیا کیا یوں بین الحرمین کی 24270 مربع میٹر مساحت سنگ مرر سے مزین ہوئی۔ یہ منصوبہ سن 2013 میں مکمل ہوا۔ اس منصوبے میں بین الحرمین کے فرش پر سنگ مرمر کے ساتھ ساتھ زائرین کے آرام و آسائش کیلئے سائبان، انفراسٹرکچر اور بجلی تنصیبات، واٹر اور گیس کولرز، نگرانی کیمرے اور آڈیو آیات وغیره کی تنصیب شامل تھے۔ یہاں استعمال ہونے والا سنگ مرمر مسجد الحرام میں استعمال ہونے والے سنگ مرمر کی طرح ہے جس کی ضحامت 5 سنٹی میٹر اور وہ ماحول کو ٹھنڈا رکھنے کی خصوصیت کا حامل ہے۔[6]
"سفینۃ النجاۃ" جامع منصوبہ
"سفینۃ النجاۃ" جامع منصوبہ بین الحرمین کے توسیعی منصوبوں میں سے سب سے بڑا منصوبہ ہے جس کے تحت حرم امام حسین(ع) اور حرم حضرت عباس(ع) کی موجودہ حالت کو برقرار رکھتے ہوئے بین الحرمین کو دو منزلوں میں تعمیر کیا جائے گا۔ یہ منصوبہ ایرانی انجینیروں نے پیش کیا جسے ایران میں عتبات عالیات کی تعمیراتی کمیٹی کی طرف سے بین الاقوامی بولی میں رکھا گیا جو بین الاقوامی ثالثوں کی تائید کے بعد سب سے زیادہ رای لینے میں کامیاب ہوا۔[7]
متعلقہ صفحات
حوالہ جات
- ↑ دائرۃ المعارف الحسینیۃ، تاریخ المراقد الحسین و اہل بیتہ و انصارہ، الجزء الثالث، ص۱۲۵-۱۲۶
- ↑ دائرۃ المعارف الحسینیۃ، تاریخ المراقد الحسین و اہل بیتہ و انصارہ، الجزء الثالث،، ص۱۵۵
- ↑ دائرۃ المعارف الحسینیۃ، تاریخ المراقد الحسین و اہل بیتہ و انصارہ، الجزء الثالث، پاورقی، ص۱۳۵
- ↑ دائرۃ المعارف الحسینیۃ، تاریخ المراقد الحسین و اہل بیتہ و انصارہ، الجزء الثالث، ص۲۱۰
- ↑ پایگاہ اینترنتی حج و زیارت
- ↑ پایگاہ اینترنتی حج و زیارت
- ↑ خبرگزاری مہر
مآخذ
- محمد صادق کرباسی، دائرۃ المعارف الحسینیۃ، تاریخ المراقد الحسین و اہل بیتہ و انصارہ، المرکز الحسینی للدراسات، لندن.
- سائٹ ادارہ حج و زیارت
- مہر نیوز ایجنسی