عمرہ
عُمرہ حج کی مانند بعض اعمال کے مجموعے کا نام ہے جو خانہ کعبہ کی زیارت کے وقت انجام دئے جاتے ہیں۔ عمرہ کی انجام دہی شرائط کے فراہم ہونے کی صورت میں عمر میں ایک دفعہ واجب اور ایک سے زیادہ مستحب ہے۔ عمرہ کی دو قسمیں ہیں: عمرہ تَمَتُّع اور عمرہ مُفرَده۔ عمرہ تمتع حج کے اعمال کا حصہ ہے جو حج کے ایام میں انجام دیا جاتا ہے۔
حج کی مانند عمرہ کے وجوب کے بھی چار شرائط ہیں: عقل، بلوغ، آزاد ہونا (غلام نہ ہونا) اور استطاعت۔ اِحرام، طواف، نماز طواف، سعی بین صفا و مروہ اور تقصیر عمرہ کے مناسک اور اعمال میں سے ہیں۔ عمرہ مفردہ اور عمرہ تمتع بعض اعمال اور مناسک میں مختلف ہیں۔
احادیث کے مطابق ماہ رجب میں عمرہ انجام دینا دوسرے مہینوں کی نسبت زیادہ فضیلت کا حامل ہے۔
فقہی تعریف
عُمرہ خاص شرعی اعمال کو کہا جاتا ہے جو مکہ اور میقات[1] خانہ کعبہ کی زیارت کی قصد سے انجام دئے جاتے ہیں۔[2]
اقسام
اسلام میں عمرہ کی دو قسم ہیں:
عمرہ مفردہ
عمرہ مفردہ سے مراد خانہ خدا کی زیارت کے حوالے سے خاص اعمال کے انجام دینے کو کہا جاتا ہے اور چونکہ اسکا حج کے ساتھ کوئی ربط نہیں اسے "عمرہ مفردہ" کہا جاتا ہے۔[3]
عمرہ تمتع
عمرہ تمتع حج تمتع کا ایک حصہ ہے دوسرے لفظوں میں "حج تمتّع" دو عمل سے بنا ہے: "عمرہ تمتع" اور "حج تمتع"۔ حج تمتع میں حاجی ابتدا میں اعمال عمرہ تمتع کو انجام دیتا ہے اسکے بعد اعمال حج تمتع کو انجام دینے کی نیت سے دوبارہ حج کیلئے "احرامِ" باندھتے ہیں۔ عمرہ تمتع شکل، احکام اور محرمات کے اعتبار سے "عمرہ مفردہ" کی طرح ہے لیکن اسکے باوجود کچھ فرق بھی رکھتا ہے۔[4]
فقہی حکم
فقہاء کے مطابق ہر مسلمان پر شرائط کی موجودگی میں حج کی طرح عمرہ بھی عمر میں ایک بار واجب ہے۔[5] عمرہ کا وجوب، واجب فوری ہے۔[6] ایک سے زیادہ مرتبہ عمرہ کی ادائیگی مستحب ہے۔[7]
صاحب جواہر لکھتے ہیں کہ فقہاء کے درمیان عمرہ کے وجوب پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔[8] ان کے بقول عمرہ کا وجوب احادیث میں بھی آیا ہے جس طرح قرآن میں بھی بیان ہوا ہے۔ قرآن میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر 196 میں آیا ہے کہ وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّـہِ (ترجمہ: اور خدا کی (خوشنودی) کے واسطے حج و عمرہ کو تمام کرو۔)[؟–؟][9]
جو شخص حج تَمَتُّع انجام دیتا ہے جس کے ساتھ عمرہ تمتع بھی انجام دیا جاتا ہے، اس پر عمرہ مفردہ واجب نہیں ہے۔[10]
شرایط وجوب
عمرہ کے واجب ہونے کی شرائط حج کے شرایط کی طرح ہے؛[11] یعنی کسی انسان پر عمرہ اس وقت واجب ہوگا جب وہ عاقل، بالغ، آزاد (غلام نہ ہو) اور استطاعت رکھتا ہو۔[12] استطاعت سے مراد یہ ہے کہ مذکورہ شخص جسمانی اور مالی حوالے سے عمرہ ادا کرنے کے قابل ہو اور عمرہ کی ادائیگی کے لئے وقت بھی ہو اور راستے میں بھی کوئی رکاوٹ نہ ہو۔[13]
مناسک عمرہ
عمرہ مُفرَدہ اور عمرہ تَمَتُّع بعض مناسک میں مشترک ہیں لیکن بعض میں ایک دوسرے کے ساتھ مختلف ہیں۔ دونوں میں درج ذیل اعمال بالترتیب انجام دئے جاتے ہیں: اِحرام، طواف، نماز طواف، سعی بین صفا و مروہ اور تقصیر۔[14] ان دونوں میں فرق درج ذیل چیزوں میں ہے:
- عمرہ مفردہ میں درج بالا اعمال کے بعد طواف نساء اور نماز طواف نساء بھی انجام دینا ضروری ہے۔
- عمرہ تمتمع صرف مخصوص ایام (شوال، ذوالقعدہ اور ذیالحجہ) میں انجام پاتا ہے لیکن عمرہ مفردہ کسی خاص زمانے کے ساتھ مختص نہیں ہے اور پورے سال کسی بھی وقت انجام دیا جا سکتا ہے۔ البتہ بعض روایات کے مطابق عمرہ رجبیہ (ماہ رجب میں عمرہ بجا لانا) کی بہت زیادہ فضیلت اور اہمیت بیان ہوئی ہے۔[15]
- عمرہ تمتع میں فقط تقصیر یعنى ناخن یا سر کے بال کو چھوٹا کرنا ضروری ہے اور سر کو مکمل طور پر بلیڈ سے تراشنا جائز نہیں جبکہ عمرہ مفردہ میں شخص مخیّر ہے سر تراشنے اور اسے چھوٹا کرنے میں۔[16]
- عمرہ تمتع کا میقات پانچ مقررہ میقات میں سے ایک ہے جبکہ عمرہ مفردہ کا میقات "أدنى الحل" (حرم سے باہر سب سے نزدیک مقام) ہے لیکن کسی ایک میقات سے مُحرِم ہونا بھی جایز ہے۔[17]
اصطلاحات
عُمرۃالاسلام، عمرہ تَحَلُّل یا فَوات، عمرہ مَبتولہ، عمرہ قِران اور عمرہ اِفراد من جملہ عمرہ کے اصطلاحات میں سے ہیں ذیل میں ان کی وضاحت کی جاتی ہے:
- عمرۃالاسلام: زندگی میں پہلی بار انجام دینے والا عمرہ جو واجب ہے، عمرۃالاسلام کہا جاتا ہے۔ یہ عمرہ، عمرہ مستحب اور نذر وغیرہ کی وجہ سے واجب ہونے والے عمرے کے مقابلے میں ہے۔[18]
- عمرہ تَحَلِّل یا فَوات: اس عمرے کو کہا جاتا ہے جس میں حاجی حج کے لئے احرام باندھنے کے بعد کسی وجہ سے اسے مکمل نہیں کر سکتا، اس صورت میں صرف اس عمرے کی انجام دہی کے ذریعے یہ شخص احرام سے خارج ہو جاتا ہے۔[19]
- عمرہ مَبتولہ: عمرہ مفردہ کا دوسرا نام ہے۔ چونکہ یہ عمرہ حج کے اعمال کے بغیر انجام دیا جاتا ہے اس بنا پر اسے مبتولہ (علیحدہ) کہا جاتا ہے۔[20]
- عمرہ قِران اس شخص کے عمرے کو عمرہ قران کہا جاتا ہے جس کا وظیفہ حج قِران ہے۔[21]
- عمرہ اِفراد اس شخص کے عمرے کو کہا جاتا ہے جس کا وظیفہ حج اِفراد ہے۔[22]
حوالہ جات
- ↑ نجفی، جواہرالکلام، بیروت، ج۲۰، ص۴۴۱.
- ↑ شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۲۹۶؛ نجفی، جواہرالکلام، بیروت، ج۲۰، ص۴۴۱.
- ↑ فرہنگ فقہ فارسی، ج۵، ص۴۷۹
- ↑ امام خمینی، مناسک حج، ۱۳۸۲ش، ص۵۳۔
- ↑ مراجعہ کریں: محقق حلی، شرایعالاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۲۷۴؛ نجفی، جواہرالکلام، بیروت، ج۲۰، ص۴۴۱۔
- ↑ محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۲۷۷۔
- ↑ شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۲۹۷؛ گروہ پژوہش بعثہ مقام معظم رہبری، منتخب مناسک حج، ۱۴۲۶ق، ص۵۹۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، بیروت، ج۲۰، ص۴۴۱۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، بیروت، ج۲۰، ص۴۴۱۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، بیروت، ج۲۰، ص۴۴۹۔
- ↑ محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۲۷۴۔
- ↑ محمودی، مناسک حج، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۔
- ↑ گروہ پژوہش بعثہ مقام معظم رہبری، منتخب مناسک حج، ۱۴۲۶ق، ص۲۱۔
- ↑ محقق حلی، شرایعالاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۲۷۵۔
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۵۳۶۔
- ↑ محقق حلی، شرایعالاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۲۷۵و۲۷۶۔
- ↑ مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۲، ج۵، ص۴۸۸۔
- ↑ مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۲، ج۵، ص۴۸۰۔
- ↑ مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۲، ج۵، ص۴۸۰۔
- ↑ مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۲، ج۵، ص۴۸۵۔
- ↑ مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۲، ج۵، ص۴۸۵۔
- ↑ مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۲، ج۵، ص۴۸۵۔
مآخذ
- حر عاملی، محمد بن حسن، تفصیل وسائل الشیعہ الی تحصیل مسائل الشریعہ، قم، مؤسسہ آل البیت، چاپ اول، ۱۴۰۹ق۔
- شہید اول، محمد بن مکی العاملی، الدروس الشرعیہ فی الفقہ الامامیہ، قم، نشر اسلامی، چاپ دوم، ۱۴۱۷ق۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی الفقہ الامامیہ، تحقیق و تصحیح سید محمد تقی کشفی، تہران، المکتبۃ المرتضویہ لاحیاء الآثار الجعفریہ، چاپ سوم، ۱۳۸۷ق۔
- گروہ پژوہش بعثہ مقام معظم رہبری، منتخب مناسک حج، تہران، نشر مشعر، چاپ دوم، ۱۴۲۶ق۔
- محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، تحقیق و تصحیح عبد الحسین محمد علی بقال، قم، اسماعیلیان، چاپ دوم، ۱۴۰۸ق۔
- محمودی، محمد رضا، مناسک حج مطابق با فتاوای امام خمینی و مراجع معظم تقلید، تہران، نشر مشعر، چاپ چہارم، ۱۳۸۷ش۔
- مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامى، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بيت عليہم السّلام، قم، مؤسّسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامى، چاپ اول، ۱۳۹۲ش۔
- نجفى، محمد حسن، جواہر الكلام فی شرح شرائع الاسلام، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، ۱۴۰۴ق۔