نامہ اعمال

ویکی شیعہ سے

نامہ اعمال، وہ نامہ جس میں انسان کے سارے اچھے اور برے اعمال لکھے ہوں گے اور قیامت کے دن اس کے ہاتھ میں دیا جائے گا۔ روایات کے مطابق انسان کے دائیں اور بائیں کندھے پر دو فرشتے مقرر کر دئیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک اچھے اعمال اور دوسرا برے اعمال لکھتا ہے۔ قرآن کی آیات کے مطابق، قیامت کے دن، نیک افراد کے اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے اور جنت کی طرف بھیجا جائے گا۔ اور گناہکار افراد اسے بائیں ہاتھ سے پیٹھ پیچھے سے دریافت کریں گے اور جہنم کی طرف جائیں گے۔

قرآن کریم نے، نامہ اعمال کو "کتاب"، "زبر"، "طائر" اور امام مبین کے لفظ سے یاد کیا ہے۔ مفسرین نے قرآن پر اسنتاد کرتے ہوئے، نامہ اعمال کی تین اقسام، "خاص افراد، امتیں اور تمام انسان" بیان کیں ہیں۔ اور یہ کہ نامہ اعمال کی نوعیت کیا ہے، اس کے بارے میں چند نظریے بیان کئے ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں: مادی خط کی مانند ایک چیز، انسان کی روح، انسان کے اعمال کی حقیقت یا اس کے اعمال کے نتائج جو کہ قیامت کے دن ظاہر ہوں گے۔

لغوی یا اصطلاحی معنی

قرآن کریم، نے نامہ اعمال کو کتاب، [1] طائر،[2] زبر[3] اور امام مبین [4] کے لفظ سے یاد کیا ہے۔[5] قرآن کی آیات کے مطابق، انسان جو بھی چھوٹے بڑے، اچھے برے اعمال دنیا میں انجام دیتا ہے، وہ اس کے نامہ اعمال میں درج ہو جاتے ہیں اور قیامت کے دن اس کے ہاتھ میں دئیے جائیں گے۔[6] بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ انسانوں کے تمام کردار اور گفتار، حتی کہ ایک خاک پر پھونک مارنا بھی درج کیا گیا ہے۔ [7] اور یہ کہ نامہ اعمال کی نوعیت اور حقیقت کیا ہے اس کے بارے میں چند نظریے موجود ہیں:

بعض کہتے ہیں کہ دنیاوی نامہ کی مانند ہے کہ جس کے اوپر اعمال لکھے ہوں گے اور قیامت کے دن انسانوں کے ہاتھوں میں دیئے جائیں گے۔ نامہ اعمال، انسان کی روح ہے کہ جس کے اندر اعمال رسوخ کیے ہوئے ہے اور ختم نہیں ہوتے۔ اس سے مراد، یہی ہمارے اعمال کے نتائج ہیں کہ جو ہمارے اطراف میں پھیلے ہوئے ہیں اور قیامت کے دن اکھٹے کئے جائیں گے۔ اس سے مراد، اعمال کی حقیقت ہے جو کہ اس دنیا میں ہم سے چھپی ہوئی ہے، لیکن قیامت کے دن، خداوند اسے ہمارے لئے واضح کر دے گا۔ [8]

نامہ اعمال کا وصول کرنا

آیات قرآن کے مطابق، قیامت کے دن، نیک افراد اپنے نامہ اعمال کو دائیں ہاتھ سے وصول کریں گے اور وہ خوشی خوشی اپنی جگہ پر واپس لوٹ کر آئیں گے [9]اور فریاد بلند کریں گے آئیں ہمارے نامہ اعمال کو پڑھیں اور اس کے بعد جنت کی طرف چلے جائیں گے۔ [10] بعض دوسرے افراد اپنے نامہ اعمال کو بائیں ہاتھ میں یا بعض آیات کے مطابق پیٹ پیچھے سے وصول کریں گے اور یہ افراد جہنم میں ڈالے جائیں گے۔[11] سورۃ حاقہ کے مطابق، یہ اپنے اعمال نامہ کو وصول کرتے وقت، اپنی نابودی کی آرزو کریں گے اور کہیں گے کاش ہم ہر گز اپنے نامہ اعمال کو نہ دیکھتے۔ [12]

سورۃ اسراء میں آیا ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو کہا جائے گا کہ اپنے نامہ اعمال کو پڑھیں، [13] اس نامہ اعمال کی گواہی انسان کے لئے ایسی دقیق اور واضح ہے کہ کوئی انسان اپنے ان کاموں کو جو اس نے دنیا میں انجام دئیے ہیں ان کا انکار نہیں کر سکے گا۔ [14]

نامہ اعمال کی اقسام

آیات مجیدہ کو مد نظر رکھتے ہوئے، مفسرین کی نگاہ میں ہر انسان کے لئے، تین قسم کے نامہ اعمال ہوں گے۔[15]

  • ہر انسان کا اپنا الگ نامہ اعمال، کہ جس میں اس کے نیک و بد اور چھوٹے بڑے سب اعمال درج ہوں گے۔ [16]
  • ہر امت کے نامہ اعمال کا مجموعہ کہ جس میں ان کے تمام اعمال درج ہوں گے۔[17]
  • وہ نامہ اعمال جسں میں تمام انسانوں کے کاموں کو درج کیا ہو گا۔ [18] بعض مفسرین کے مطابق تیسری قسم کے نامہ اعمال سے مراد، لوح محفوظ ہے۔ [19]

اعمال کو ثبت کرنے والے

قرآن کریم نے اعمال لکھنے والوں کے لئے متلقیان، [20] رقیب و عتید [21] اور کراماً کاتبین[22] کی تعبیر استعمال کی ہے۔ روایات کے مطابق، ہمیشہ دو فرشتے انسان کے ہمراہ ہوتے ہیں۔ جن میں سے ایک اس کے دائیں کندھے پر مقرر کیا گیا ہے جو اس کے نیک اعمال کو ثبت کرتا ہے اور دوسرا فرشتہ اس کے بائیں کندھے پر مقرر کیا گیا ہے جو اس کے برے اعمال کو لکھتا ہے۔ [23] بعض روایات میں ان فرشتوں کی تعداد چار عدد بیان ہوئی ہے، اس طرح کہ دو فرشتے، دن کے اعمال کو ثبت کرتے ہیں اور دو فرشتے رات کے اعمال کو۔ [24]

بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ فرشتے، اچھے اعمال کو بہت جلدی لکھتے ہیں، لیکن برے اعمال کو کئی گھنٹے کے بعد ثبت کرتے ہیں، اس امید پر کہ شاید گناہگار شخص توبہ کر لے یا کوئی نیک کام کر لے کہ جس کی وجہ سے اس برے کام کا اثر ختم ہو جائے۔ [25]روایات میں بیان ہوا ہے کہ نامہ اعمال کے لکھنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ، انسان قیامت کے دن اپنے کئے ہوئے کاموں کا انکار نہ کر سکیں۔ [26] اور اس کے علاوہ یہ کہ دنیا میں بھی فرشتوں سے شرم کریں اور گناہ انجام نہ دیں۔ [27]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. سوره جاثیہ، آیہ۲۸؛ سوره کہف، آیہ۴۹.
  2. سوره سراء، آیہ۱۳.
  3. سوره قمر، آیہ۵۲.
  4. سوره یس، آیہ۱۲.
  5. رضایی اصفہانی، مباحث اعتقادی، ۱۳۹۱ش، ص۲۸۳.
  6. رضایی اصفہانی، مباحث اعتقادی، ۱۳۹۱ش، ص۲۸۱.
  7. صدوق، اعتقادات، ۱۳۶۱ش، ص۸۰.
  8. رحمانی، «حقیقت محتوا و تطایر نامہ اعمال و فصل الخطاب در داوری روز حساب»، ص۴۹-۵۰؛ مکارم شیرازی، ۱۳۸۶ش، پیام قرآن، ج۶، ص۸۷.
  9. سوره انشقاق، آیہ۷-۹.
  10. سوره حاقہ، آیات۱۸-۲۶.
  11. انشقاق، آیہ۱۰-۱۵؛ معادشناسی، جمعی از نویسندگان، ۱۳۸۷ش، ص۱۰۵.
  12. سوره حاقہ، آیہ۴۶-۴۷.
  13. سوره اسراء، آیہ۱۴.
  14. سوره جاثیہ، آیہ۲۹؛ سوره کہف، آیہ۴۹.
  15. مکارم شیرازی، ۱۳۸۶ش، پیام قرآن، ج۶، ص۸۷.
  16. سوره اسراء، آیہ۱۳؛ سوره قاف، آیہ۱۷-۱۸؛ سوره کہف، آیہ۴۹.
  17. سوره جاثیہ، آیہ۲۸.
  18. سوره یس، آیہ۱۲.
  19. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷، ج۲۰، ص۲۷۳ و ج۱۷، ص۹۷.
  20. سوره قاف، آیہ۱۷.
  21. سوره قاف، آیہ۱۸.
  22. سوره انفطار، آیہ۱۱.
  23. رستمی و آل‌ بویہ، سیری در اسرار فرشتگان، ۱۳۹۳ش، ص۱۲۱.
  24. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷، ج۲۰، ص۲۲۷ و ج۱۳، ص۲۴۶.
  25. صدوق، اعتقادات، ۱۳۶۱ش، ص۸۰.
  26. رستمی و آل‌ بویہ، سیری در اسرار فرشتگان، ۱۳۹۳ش، ص۱۲۱.
  27. رستمی و آل‌ بویہ، سیری در اسرار فرشتگان، ۱۳۹۳ش، ص۱۲۱.

مآخذ

  • قرآن کریم.
  • رحمانی، حسن، کرمانی، علی رضا، «حقیقت محتوا و تطایر نامہ اعمال و فصل الخطاب در داوری روز حساب»، در مجلہ معرفت، شمارہ ۲۲۵، شہریور ۱۳۹۵ہجری شمسی۔
  • رستمی، محمد زمان و طاہرہ آل بویہ، سیری در اسرار فرشتگان با رویکردی قرآنی و عرفانی، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، ۱۳۹۳ہجری شمسی۔
  • رضایی اصفہانی، محمد علی، مباحث اعتقادی، قم، نسیم حیات، ۱۳۹۱ہجری شمسی۔
  • صدوق، محمد بن بابویہ، اعتقادات، تہران، نہضت زنان مسلمان، ۱۳۶۱ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، محمد حسین، تفسیر المیزان، قم، انتشارات جامعہ مدرسین، ۱۴۱۷ھ۔
  • معادشناسی، جمعی از نویسندگان، تہران، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی، ۱۳۸۷ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، پیام قرآن، تہران، دار الکتب اسلامیہ، ۱۳۸۶ہجری شمسی۔