سکرات موت

ویکی شیعہ سے

سکرات موت، ایک حیرت انگیز اور سخت حالت ہے کہ جو موت کہ وقت انسان پر ظاہر ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں سورہ ق کی انیسویں آیت میں اس کا ذکر آیا ہے۔ احادیث کے مطابق، سکرات موت بہت سخت مرحلہ ہے اور ہر انسان کو موت کے وقت اس کا سامنا ہے۔

بعض روایات کے مطابق بعض مومنوں کی جان سختی سے نکل جاتی ہے اور اس سے ان کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ پیغمبر اکرمؐ اور ائمہؑ کی روایات میں سکرات موت آسان ہونے کے کچھ طریقے بیان ہوئے ہیں ان میں سے بعض درج ذیل ہیں: صلہ رحمی، والدین سے نیک برتاؤ، مومن بھائی کی مدد، سورہ یاسین و سورہ صافات کی تلاوت، امام علیؑ سے محبت اور کثرت سے امام حسینؑ کی زیارت۔

معنی اور تعریف

«سَکَرات موت» کو مستی اور بے ہوشی کی مانند ایک حالت سے تعبیر کرتے ہیں جو جان کنی کے وقت شدید پریشانی کے باعث محتضر انسان پر طاری ہوتی ہے۔ اس وقت انسان تشخیص اور پہچان کی کیفیت کھو بیٹھتا ہے۔[1] سکرات «سَکْرَہ» کی جمع ہے جو مستی، سختی اور پریشانی کے معنی میں ہے۔[2] موت مرنے کے معنی میں ہے۔[3]

آیات و روایات میں

سورہ قاف کی آیت نمبر 19 میں سکرۃ الموت کی تعبیر آئی ہے جس میں ارشاد باری تعالی ہے: وَ جاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ذَلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِيدُ (ترجمہ: اور موت کی بےہوشی حق کے ساتھ آپہنچی۔ یہی وہ چیز ہے جس سے تو گریز کرتا رہتا تھا۔)[4]

احادیث میں بھی «سَکْرَةُ المَوت»[5] اور «سَکَرات‌ المَوت»[6] استعمال ہوئے ہیں۔ بِحار الانوار میں اس موضوع پر 52 احادیث ذکر ہوئی ہیں۔[7] شیخ طوسی کی کتاب تہذیب‌الاحکام میں امام صادقؑ سے ایک روایت نقل ہوئی ہے جس میں یہ دعا کی گئی ہے: «خدایا، سکرات موت میں میری مدد فرما۔»[8]

سکرات کی کیفیت

امام علیؑ سے منقول ایک حدیث جسے شیخ صدوق نے نقل کیا ہے، میں آیا ہے کہ: انسان کی زندگی کے تین لمحات سب سے دشوار ہیں: پہلا جب انسان کو موت کا سامنا ہوتا ہے دوسرا جب انسان قبر سے اٹھایا جاتا ہے اور تیسرا جب اللہ کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔[9]

تفسیر موضوعی قرآن پیام قرآن میں سورہ مائدہ کی انیسویں آیت کے ذیل میں «سَکرَةُ المَوت» سے استناد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ موت سختیوں اور حیران کن ہولناکیوں کے ساتھ آتی ہے۔[10] اس کتاب کے مطابق انبیاء اور اولیائے الہی بھی سکرات الموت سے محفوظ نہیں ہے۔[11]

مومن اور کافر کی موت کی سختی میں فرق

امام صادق علیہ السلام کی ایک روایت میں آیا ہے کہ سکرات موت مومن کے لئے بہت آسان ہے؛ لیکن بعض مومنوں کے گناہ کی بخشش کی خاطر سخت ہوتی ہے۔ اسی طرح کافروں پر سکرات الموت کا مرحلہ سخت ہوتا ہے لیکن بعض کفار کے لئے آسان بھی ہوتا ہے تاکہ اس کی دنیوی نیکیوں کا ازالہ کیا جاسکے اور صرف آخرت میں اس پر عذاب ہوگا۔[12]

سکرات کم کرنے کے طریقے

بعض روایات میں سکرات موت کم کرنے یا آسان کرنے کے کچھ طریقے بیان ہوئے ہیں: مثال کے طور پر شیعہ محدث کُلینی نے اپنی کتاب میں امام صادقؑ سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں ارشاد ہوتا ہے کہ جو شخص اپنے مومن بھائی کو کپڑے پہنائے گا اللہ تعالی اسے بہشتی کپڑے پہنائے گا اور سکرات موت اس پر آسان کرے گا۔[13]

بعض دیگر امور جن کی وجہ سے سکرات موت آسان ہوتی ہے ان میں صلہ رحمی،[14] والدین کے ساتھ نیک برتاؤ،[15] ماہ رمضان کا روزہ،[16] سورہ یس کی تلاوت،[17] ماہ رجب کا روزہ[18] امام علیؑ سے محبت،[19] کثرت سے امام حسینؑ کی زیارت پر جانا شامل ہیں۔[20]جامِعُ‌ السَّعادات میں ایک روایت سے استناد کرتے ہوئے مہدی نراقی کا کہنا ہے کہ جس شخص پر ان کی ماں ناراض ہو اس پر سکرات موت اور عذاب قبر بہت سخت ہونگے۔[21]

محتضر پر سکرات موت کی آسانی

شیعہ فقیہ صاحبْ‌جواہر کا کہنا ہے کہ روایات کے مطابق مُحتَضَر کو ایسی جگہ لے جانا مستحب ہے جہاں وہ نماز پڑھا کرتا تھا۔ اس سے سکرات موت میں آسانی ہوتی ہے۔[22] محقق کَرَکی نے بھی امام کاظمؑ کی ایک حدیث سے استناد کرتے ہوئے کہا ہے کہ محتضر کے لیے سورہ صافات پڑھنا مستحب ہے۔[23] اس حدیث کے مطابق محتضر کے سرھانے سورہ صافات پڑھنے سے اللہ تعالی اسے جلد سکون دیتا ہے۔[24] حدیث نبوی میں آیا ہے کہ محتضر پر سورہ یاسین پڑھنے سے اس کی موت میں آسانی ہوتی ہے۔[25]

متعلقہ مضامین


حوالہ جات

  1. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج18، ص348؛ ورام، مجموعةُ ورّام، 1410ھ، ج1، ص26.
  2. لغتنامہ دہخدا، «سکرة» کے ذیل میں۔
  3. دہخدا، لغتنامہ دہخدا، ذیل واژہ «موت».
  4. سورہ ق، آیہ19۔
  5. کفعمی، البلد الامین، 1418ھ، ص105؛ شیخ طوسی، مصباح‌المتہجد، 1411، ج2، ص443.
  6. شیخ طوسی، تہذیب‌الاحکام، 1407ھ، ج3، ص93.
  7. ملاحظہ کریں: مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج6، ص145-173.
  8. شیخ طوسی، تہذیب‌الاحکام، 1407ھ، ج3، ص93.
  9. شیخ صدوق، الخصال، 1362شمسی، ج1، ص119.
  10. مکارم شیرازی و دیگران، پیام قرآن، 1377شمسی، ج5، ص431.
  11. مکارم شیرازی و دیگران، پیام قرآن، 1377شمسی، ج5، ص432.
  12. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص274-275.
  13. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص204.
  14. شیخ صدوق، الامالی، 1376شمسی، ص209.
  15. شیخ طوسی، الامالی، 1414ھ، ص432.
  16. شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج2، ص74.
  17. صدوف، ثواب الاعمال، 1406ھ، ص111-112.
  18. شیخ صدوق، فضائل الاشہر الثلاثہ، 1396ھ، ص12.
  19. شیخ صدوق، فضائل‌الشیعہ، اعلمی، ص4.
  20. ابن‌قولویہ، کامل‌الزیارات، 1356شمسی، ص150.
  21. نراقی، جامع السعادات، 1393شمسی، ج2، ص273.
  22. نجفی،‌ جواہر الکلام، 1404شمسی، ج4، 19.
  23. محقق کرکی، جامع المقاصد، 1414ھ، ج1، ص353.
  24. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج3، ص126.
  25. محدث نوری، مستدرک‌الوسایل، 1408ق، ج2، ص136.


مآخذ

  • قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی۔
  • ابن‌قولویہ، جعفر بن محمد، کامل‌الزّیارات، تحقیق عبدالحسین امینى، نجف، دارالمرتضویہ، چاپ اول،‏ 1356ہجری شمسی۔
  • دہخدا، علی‌اکبر، لغتنامۂ دہخدا، تہران، مؤسسۂ لغتنامہ دہخدا، 1341ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن على، فَضائلُ الاَشہُرِ الثَّلاثہ، تحقیق غلامرضا عرفانیان یزدى، قم، کتابفروشی داوری، چاپ اول، 1396ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، اَلخِصال، تحقیق على‌اکبر غفاری، قم جامعۂ مدرسین، چاپ اول، 1362ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، اَلاَمالی، تہران، کتابچی، چاپ ششم، 1376ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، ثواب الاعمال و عِقاب الاعمال‏، قم، دار الشریف الرضی، چاپ دوم، 1406ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، عُیونُ اَخبارِ الرِّضا، تحقیق و تصحیح مہدی لاجوردی، تہران، نشر جہان، چاپ اول، 1378ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، فضائل‌الشّیعہ، تہران، اعلمی، چاپ اول، بی‌تا.
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، مَن لا یَحضَرُہُ الفقیہ، تحقیق و تصحیح علی‌اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزۂ علمیہ قم، چاپ دوم، 1413ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، اَلاَمالی، تحقیق مؤسسة البعثہ، قم، دارالثقافہ، چاپ اول، 1414ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، تہذیب‌الاحکام، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، مِصباحُ المُتَہَجِّد و سِلاحُ المُتَعَبِّد، بیروت مؤسسة فقہ الشیعة چاپ اول 1411ھ۔
  • کفعمی، ابراہیم بن علی، البَلَدُ الامین و الدَّرع الحَصین ، بیروت‏مؤسسة الأعلمی للمطبوعات‏ چاپ اول 1418ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیة، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بِحار الاَنوارِ الجامعةُ لِدُرَرِ اخبارِ الائمةِ الاطہار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • محدث نوری، میرزاحسین، مُستَدرَکُ الوسائل و مُستَنبَطُ المسائل، تحقیق مؤسسہ آل‌البیت علیہم‌السلام، بیروت، چاپ اول، 1408ھ۔
  • محقق کَرَکی، علی بن حسین، جامِعُ المَقاصِد فی شرحِ القواعد، قم، مؤسسۂ آل‌البیت، چاپ دوم، 1414ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر و دیگران، پیام قرآن، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1377ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمدحسن، جَواہر الکلام فی شرحِ شرائع الاسلام، تصحیح عباس قوچانی و علی آخوندی، بیروت، دار اِحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1404ھ۔
  • نراقی، محمدمہدی، جامع‌السعادات، تصحیح محمد کلانتر، بیروت، مؤسسةالاَعلمی، چاپ اول، 1383ہجری شمسی۔
  • ورّام بن ابی‌فراس، مسعود بن عیسى‏، مجموعةُ ورّام، قم‏، مکتبة فقیہ،‏ چاپ اول، 1410ھ۔