احتضار

ویکی شیعہ سے

اِحتضار موت کے حاضر ہونے کے معنا میں ہے۔ اور فقہی اصطلاح میں محتضر ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو موت کے قریب ہو اور روح اس کے بدن سے نکل رہی ہو۔ فقہی اعتبار سے اس حالت میں حاضرین پر کچھ ذمہ دارایاں عائد ہوتی ہیں جو حاضرین کو پورا کرنا چاہئے۔

تعریف

احتضار حضر کے مادے سے باب افتعال کا مصدر ہے۔ موجود ہونے کے معنا بیان کرتا ہے۔ دینی اصطلاح میں موت کا حاضر ہونا اور روح نکلنے کے وقت کو کہا جاتا ہے .[1]

آداب احتضار

احتضار کے احکام واجب، مستحب و مکروه ہیں۔ جنہیں مجموعی طور پر آداب احتضار یا احکام احتضار کہتے ہیں۔

  • واجبات : تمام حاضرین کیلئے واجب کفائی ہے کہ ایسے شخص(بچہ ،بڑا مرد و عورت) کو چت لٹائیں تا کہ اس کے پاؤں قبلہ رخ کریں۔ [2]
  • مستحبات: تلقین شہادتین کی تلقین کرنا اوراقرار پیامبرؐ اور آئمہؑ۔ جان کنی اگر سخت ہو تو اسے اسکی نماز پڑھنے کی جگہ منتقل کریں نیز اس کے پاس قرآن کی تلاوت کریں خاص طور پر «یس»، «صافّات» و «احزاب» اس کے سرہانے تلاوت کریں۔ دعائے عدیلہ کا پڑھنا نیز مستحبات میں سے ہے۔ [3] اسی طرح :اللهم اغفر لی الکثیر من معاصیک، واقبل منی الیسیر من طاعتک و یا من یقبل الیسیر ویعفو عن الکثیر، اقبل منی الیسیر واعف عنی الکثیر، إنک أنت العفو الغفور نیز مستحب ہے۔[4]
  • مکروہات: اسکے پاس جُنُب اور حائض کا ہونا، اس کے نزدیک تنہاعورت کا ہونا،کوئی آہنی چیز اسکے پیٹ پر رکھنا، گریہ کرنااور اسکے پاس زیادہ باتیں کرنا مکروه ہے.[5]

حوالہ جات

  1. دہخدا، ماده احتضار.
  2. عروه الوثقی، ج۱، ص۲۸۲.
  3. جواہر الکلام، ج۴، ص۶ ۲۱.
  4. جواہر الکلام، ج۴، ۱۸ ۱۷.
  5. عروه الوثقی، ج۱، ص ۲۸۵ ۲۸۴.

مآخذ

  • دہخدا، لغت نامہ.
  • نجفی، محمد حسن، جواہرالکلام فی شرح شرائع الاسلام،‌دار احیاءالثراث العربی، بیروت، ۱۴۰۴ق.
  • یزدی، محمد کاظم بن عبد العظیم، العروه الوثقی،‌دار المورخ العربی، بیروت.