جعفر کاشف الغطاء

ویکی شیعہ سے
کاشف الغطاء
مقبرہ کاشف الغطاء نجف
کوائف
مکمل نامجعفر بن خضر بن یحیی جناجی حلّی نجفی
تاریخ ولادت1156 ھ
مدفننجف
علمی معلومات
اساتذہوحید بہبہانیسید محمد مہدی بحر العلوم • سید صادق فحام۔
اجازہ روایتشیخ احمد احسایی • شیخ عبد علی گیلانی • شیخ ملاعلی رازی • شیخ اسدالله دزفولی • سید عبد اللہ شبر۔
تالیفاتکشف الغطاء • الحقّ المبین فی تصویب المجتہدین و تخطئہ الاخباریین • بغیت الطّالب فی معرفت المفّوض و الواجب • غایت المراد فی احکام الجہاد • منہج الرّشاد لمن اراد السّداد۔
خدمات
سیاسیوہابیوں سے مقابلہ • اخباریوں سے مقابلہ • روس سے جنگ کی اجازت صادر کرنا۔
سماجیمرجع تقلید۔


جعفر بن خضر بن یحیی جناجی حلّی نجفی (1156۔1228 ھ)، کاشف الغطاء کے نام سے مشہور، تیرہویں صدی ہجری کے شیعہ امامیہ مراجع تقلید میں سے ہیں۔ تیرہویں اور چودہویں صدی ہجری کا علمی شیعہ خاندان آل کاشف الغطاء ان ہی سے منسوب ہے۔

شیخ جعفر کاشف الغطاء کو ان کے استاد علامہ سید بحر العلوم کے بعد مرجعیت کا منصب ملا۔ انہوں نے اپنے ایک دوسرے استاد علامہ شیخ وحید بہبہانی کی طرح اخباریوں سے مقابلہ کیا اور اخباریت کے رد میں کتابیں لکھیں۔

شیخ جعفر نے وہابیوں کے نجف پر کئے گئے حملے میں شہر کا دفاع کیا اور وہ اولین شیعہ عالم تھے جنہوں نے وہابیت کے رد میں کتاب تحریر کی۔ انہوں نے فقہ و اصول و کلام کے موضوعات پر کتابیں تالیف کیں۔ ان کی مہم ترین کتاب کشف الغطاء ہے جس کی وجہ سے وہ کاشف الغطاء مشہور ہوئے۔ انہوں نے وہابیت کے رد میں کتاب منہج الرّشاد لمن اراد السّداد اور کتاب الحقّ المبین فی تصویب المجتہدین و تخطئہ الاخباریین اخباریت کے رد میں لکھی۔ صاحب جواہر شیخ محمد حسن نجفی ان کے شاگردوں میں سے ہیں۔

نسب و سوانح حیات

تفصیلی مضمون: آل کاشف الغطاء

ان کا سلسلہ نسب مالک اشتر تک منتہی ہوتا ہے۔ ان کے والد خضر کا شمار اپنے دور کے علماء و زہاد میں کیا جاتا تھا۔ شہر حلہ کے اطراف کے علاقہ جناجیہ سے وہ کسب علم کے لئے نجف گئے، وہیں مقیم ہوئے اور 1181 ھ میں وفات پائی۔[1] شیخ جعفر کی ولادت نجف میں ہی ہوئی۔

شیخ جعفر نے کربلا اور نجف میں تعلیم حاصل کی اور تحصیل علم کے بعد شہر نجف میں رہائش اختیار کر لی۔ 22 رجب 1127 ھ میں نجف میں وفات پائی اور نجف کے محلہ عمارہ میں اس مقبرہ میں جو انہوں نے (اپنے مدرسے کے ایک حجرہ میں) خود آمادہ کیا تھا، دفن ہوئے۔ ان کے مقبرہ پر گنبد بنا ہوا ہے۔ ان کی اولاد اور نسل میں سے بعض دیگر افراد بھی اس مقبرہ میں مدفون ہیں۔[2]

شیخ جعفر کاشف الغطاء، کاشف الغطاء خاندان کے بزرگ ہیں جو تیرہویں اور چودہویں صدی ہجری کے شیعہ علمی خاندان میں سے ہے۔ اس خاندان میں بہت سے علماء پیدا ہوئے جن میں محمد حسین کاشف الغطاء بھی شامل ہیں جو چودہویں صدی ہجری کے شیعہ مراجع تقلید میں سے ہیں۔ اخباریت سے مقابلہ اور شیخ وحید بہبہانی کے اصولی افکار و نظریات کو فروغ دینا اس خاندان کے علماء کے امتیازات میں سے ہے۔

تعلیم و تحصیل

سنگ قبر

شیخ جعفر نے حوزہ علمیہ کے مقدمات کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی اور اس کے بعد فقہ و اصول کے دروس خارج کے لئے عراق کے بڑے علماء اور اساتذہ جیسے سید صادق فَحّام (1124-1205 ھ)، شیخ محمد دوْرَقی (م 1187 ھ)، شیخ فتّونی، وحید بہبہانی سے کربلا میں اور کچھ عرصہ نجف میں سید محمد مہدی بحر العلوم (1155-1212 ھ) کے محضر میں استفادہ کیا اور خود مشہور مجتہدین اور علماء میں سے ہو گئے اور تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔

شاگرد

ان کے دروس میں بہت سے علماء نے شرکت کی جن میں سے بعض بعد میں خود بڑے مجتہدین اور محققین میں شمار ہوئے اور عراق و ایران کی دینی علوم کی محافل میں شہرت حاصل کی۔ ان میں سے بعض کا ذکر ذیل میں کیا جا رہا ہے:

شیخ احمد احسایی (م 1241 ھ)، شیخ عبد علی بن امید گیلانی، شیخ ملا علی رازی نجفی، شیخ اسد الله دزفولی و سید عبد اللہ شبر (م 1242 ھ) جیسے علماء نے ان سے اجازہ روایت حاصل کیا۔[4]

زعامت دینی

شیخ جعفر، سید بحر العلوم کی وفات کے بعد عراق و ایران اور دیگر ممالک میں شیعوں کی دینی رہبری کے منصب پر فائز ہوئے۔ جس سے ان کی شہرت اور ان کے سماجی و سیاسی نفوذ و اعتبار میں اضافہ ہوا۔ شیخ انصاری سے پہلے تک وجوب تقلید کے سلسلہ میں اعلمیت کے نظریہ کا کوئی خاص رواج نہیں تھا لہذا مومنین ایک ہی وقت میں مختلف اور معمولا اپنے علاقہ کے مرجع تقلید کی تقلید کیا کرتے تھے، کاشف الغطاء عملی طور پر جہان تشیع کے مرجع تقلید کے طور پر ظاہر ہوئے۔

اخباریوں سے مقابلہ

کاشف الغطاء کے زمانہ میں شیعہ اصولی و اخباری علماء کے درمیان سخت علمی مناقشات پیش آ رہے تھے۔ دونوں فریق کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ اپنے نظریات کا ثابت اور مخالف کے نظریہ کو رد اور محکوم کر سکیں۔ شیخ جعفر جو شیخ وحید بہبہانی کے مکتب کے پروردہ اصولی عالم اور اجتہاد و استنباط کے حامی تھے اور عقاید و احکام شرعی کے ادراک میں عقل و استدلال سے استفادہ کے ذریعہ دفاع کرتے تھے، علم اصول کے دفاع کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔

اس مناقشہ کی سب سے برجستہ مثال مشہور اخباری عالم شیخ محمد بن عبد النّبی نیشابوری (م 1232 ھ) کے ساتھ ان کا شدید رویہ تھا جس کے سبب میرزا محمد خوف زدہ ہو گئے اور انہوں نے ایران جا کر فتح علی شاہ قاجار کی پناہ حاصل کی۔ شیخ جعفر نے پہلے تو ایک کتاب لکھی جس کا عنوان کشف الغطاء عن معایب میرزا محمد عدوّ العلماء لکھی جس میں ان کے نظریات کے رد لکھ کر اسے شاہ ایران کے پاس بھیجا[5] اور اس کے بعد انہوں نے ایران کا سفر کیا اور ایران آنے کے بعد انہوں نے ایسا کام کیا کہ شاہ ایران نے شیخ محمد کو خود سے دور کر دیا۔[6]

اس کے بعد انہوں نے اصفہان کا سفر کیا اور اس کے ضمن میں اپنے بیٹے شیخ علی کے لئے ایک الحق المبین نام سے ایک اور کتاب تالیف کی اور اس میں بھی انہوں نے اخباریوں کے نظریات کو رد اور محکوم کیا۔[7] میزرا محمد اخباری نے بھی اس کتاب کے رد میں الصیحة بالحق کے نام سے ایک کتاب تحریر کی۔[8]

وہابیوں سے مقابلہ

بارہویں صدی ہجری بمطابق اٹھارہویں صدی عیسوی میں محمد بن عبد الوہاب (1111۔1207 ھ) کے پیروکاروں نے سعودی عرب میں علم بغاوت بلند کیا اور اصلاحات دینی کے نام پر مختلف اسلامی فرقوں (خاص طور پر شیعوں) کے بہت سے عقاید کی مخالفت شروع کر دی اور عملی طور بڑے پیمانے پر ان سے جنہیں وہ غیر دینی و شرک آلود مظاہر کا نام دیتے تھے، مقابلہ میں لگ گئے۔

اس بغاوت کا دامن مکہ و مدینہ سے نکل کر عراق کی سرحدوں میں داخل ہو گیا اور عراق کے دو شہر کربلا اور نجف وہابیوں کے حملے کا شکار ہوئے۔ نجف پر حملے میں شیخ جعفر کاشف الغطاء شہر، اس کے مقدسات اور عوام کے دفاع کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور خود بھی مسلح ہو کر اور دوسرے علماء و طلاب کو بھی مسلح کرکے ان سے مقابلہ اور جنگ کی اور آخرکار انہیں فرار پر مجبور کر دیا۔ اس کے بعد انہوں نے حکم دیا کہ نجف کے اطراف میں محکم دیوار بنائی جائے تا کہ وہابیوں کے حملے میں شہر اور عوام محفوظ رہیں۔

وہابیوں سے علمی مقابلہ کے لئے انہوں نے ان کے افکار و نظریات پر تنقید کرتے ہوئے منہج الرشاد لمن اراد السداد نامی کتاب تالیف کی جو گویا اس سلسلہ کی پہلی کتاب ثابت ہوئی۔[9]

سفر

کاشف الغطاء نے 1186 ھ اور 1199 ھ میں دو بار حج کیا۔ 1222 ھ میں انہوں نے ایران کا سفر کیا اور وہاں کے بڑے شہروں تہران، اصفہان، قزوین، یزد، مشہد اور رشت کا سفر کیا اور ہر جگہ علماء و عوام کی طرف سے مورد استقبال قرار پائے۔ عوام نے با وقار پروگرام منعقد کئے اور انہوں نے سب جگہ مومنین سے خطاب کیا۔

سیاسی اعتبار و نفوذ

سفر ایران کے زمانے میں وہ شہرت اور دینی و سیاسی اقتدار کی بلندی پر تھے، تہران میں انہوں نے فتح علی شاہ قاجار سے ملاقات کی اور اس ملاقات میں انہوں بے بذات خود اپنی کتاب کشف الغطاء شاہ کو ہدیہ کی اور کفار سے جہاد، فوج تشکیل دینے اور اسے منظم کرنے کے سلسلہ میں عوام سے ٹیکس و زکات لینے کی انہیں باقاعدہ اجازت دی۔[10] یہ فتوی انہوں نے ایران و روس کی پہلی جنگ 1218 ھ سے 1228 ھ کے دوران صادر کیا۔

کاشف الغطاء ایران اور ترکی کی عثمانی حکومت میں بہت اعتبار کے حامل تھے لہذا ضرورت کے وقت ان دونوں ملکوں کے اختلاف کو ختم کرنے کے سلسلہ میں ان کے نافذ کلام سے استفادہ کیا جاتا تھا۔[11]

حدود کے اجرا پر تاکید

کاشف الغطاء احکام اسلامی کے اجرا خاص طور پر حدود و دیات و تعزیرات و امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے سلسلہ میں راسخ عقیدہ رکھتے تھے اور وہ اس راہ میں مکمل قدرت اور تمام امکانات کے ساتھ سعی کرتے تھے۔ کبھی کبھی حدود کے اجرا پر اصرار کا نتیجہ حوادث کی صورت میں ظاہر ہوتا تھا۔[12] شیخ فقراء کی دست گیری کے سلسلہ میں اہتمام کرتے تھے۔ وہ صاحبان ثروت سے لیتے تھے اور غریبوں میں تقسیم کرتے تھے اور کبھی کبھی محرومین کو مدد پہچانے کے سلسلہ میں وہ بذات خود تعاون حاصل کرتے تھے۔

تالیفات و آثار

کتاب منہج الرشاد

شیخ جعفر کاشف الغطاء کی متنوع علمی کاوشیں محفوظ ہیں جن میں سے اکثر فقہ و اصول و علم کلام اور عربی ادب پر مشتمل ہیں:

  • الحقّ المبین فی تصویب المجتہدین و تخطئہ الاخباریین، چاپ تہران، 1306 ھ و 1319 ھ۔
  • کشف الغطاء عن مبهمات الشّریعہ الغّراء، تہران، 1271 ھ و 1317 ھ؛ شیخ جعفر کی مہارت زیادہ تر فقہ و اصول میں تھی اور ان علوم میں ان کی تالیفات خاص طور پر کتاب کشف الغطاء استنباط احکام کے سلسلہ میں ان کی مہارت کی دلیل ہے۔

انہوں نے اس کتاب کو ایران کے سفر کے دوران تالیف کیا۔ اس عرصہ میں علامہ حلی کی کتاب قواعد کے علاوہ کوئی اور کتاب ان کے ہمراہ نہیں تھی۔ نقل ہوا ہے کہ شیخ مرتضی انصاری (1214۔1281 ھ) نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی اس کتاب کے قواعد اور اصول کو جان لے تو میرے نزدیک وہ مجتہد ہے۔ خود انہوں نے دعوی کیا ہے کہ اگر تمام قفہی کتابیں میری دسترس سے خارج ہو جائیں تب بھی میں تمام فقہی ابواب و مباحث کو اول سے آخر تک لکھ سکتا ہوں۔[13] ان کا فقہی و علمی تبحر ان کے معاصر فقہاء اور بعد کے علماء کے نزدیک مورد تائید ہے۔

حوالہ جات

  1. معلم حبیب‌ آبادی، مکارم الآثار، ج ۳،ص۸۵۲؛ آقا بزرگ، طبقات اعلام الشیعہ، ص۲۴۹.
  2. خوانساری، روضات الجنات، ج۲، ص۲۰۶.
  3. حرز الدین، معارف الرجال، ج۱، ص۱۵۲-۱۵۳
  4. حرز الدین، معارف الرجال، ج۱، ص۱۵۲-۱۵۳
  5. آقا بزرگ، الذریعہ، ج۴۵، ص۱۸؛ خوانساری، روضات الجنات، ج۲، ۲۰۴.
  6. آقا بزرگ، طبقات اعلام الشیعہ، ص۲۵۰
  7. آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، ج۷، ص۳۷
  8. آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، ج۷، ص۳۸
  9. آقا بزرگ تہرانی، طبقات علماء الشیعہ، ص۲۵۱
  10. کاشف الغطاء، کشف الغطاء، ص۳۹۴
  11. اعیان الشیعہ، امین، ج۴، ص۱۰۲
  12. اعیان الشیعہ، امین، ج۴، ص۱۰۲
  13. قمی، عباس، فوائد الرّضویہ، ص۷۰

مآخذ

  • آقا بزرگ تہرانی، طبقات اعلام الشیعہ، قرن ۱۳ و ۱۴، مشہد، ۱۴۰۴ ھ
  • آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ
  • امین، محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، ۱۴۰۳ ھ
  • قمی، عباس، فوائد الرّضویہ، تہران، ۱۳۲۷ شمسی ہجری
  • کاشف الغطاء، جعفر، کشف الغطاء، تہران، سنگی
  • معلم حبیب‌ آبادی، محمد علی، مکارم الآثار، اصفہان، ۱۳۵۲ شمسی ہجری
  • خوانساری، محمد باقر، روضات الجنات، مکتبہ اسماعیلیان، قم، بے تا