مردوں سے توسل

ویکی شیعہ سے

مردوں سے تَوَسُّل یا اموات سے توسل سے مراد دینی اور مذہبی شخصیات کو ان کی رحلت کے بعد واسطہ قرار دے کر خدا سے حاجت روائی کی درخواست کرنا ہے۔ یہ عقیدہ کم بیش تمام اسلامی مکاتب فکر میں پایا جاتا ہے لیکن شیعوں کے یہاں اسے خاص مقام حاصل ہے جس کی بنیاد برزخی زندگی اور مردوں میں سننے کی صلاحیت کو قبول کرنے پر رکھی گئی ہے۔ شیعہ اور سنی منابع میں اہل بیتؑ اور بعض صحابہ کی جانب سے پیغمبر اسلامؐ کی وفات کے بعد آپؐ سے متوسل ہونے کے بارے میں متعدد روایات موجود ہیں۔ وہابی‌ اور ابن تیمیہ مردوں سے توسل کو بدعت سمجھتے ہیں۔

معنی

مردوں سے توسل سے مراد اپنی حاجت روائی کیلئے خدا کی بارگاہ میں دینی اور مذہبی شخصیات جیسے انبیاء اور معصومین سے ان کی وفات کے بعد متوسل ہونے کے ہیں۔

سماع موتی اور برزخی زندگی سے رابطہ

مردوں سے توسل کا عقیدہ صرف اس صورت میں قابل قبول ہے جب برزخی زندگی اور سماع موتی پر عقیدہ رکھتا ہو اور عالم برزخ میں ارواح کے ساتھ رابطہ برقرار کرنا ممکن ہو اور مردوں میں زندوں کی آواز سننے کی صلاحت موجود ہو۔

مشروعیت

تفصیلی مضمون: توسل

مردوں سے توسل کی مشروعیت پر قرآن کی بعض آیات سمیت اہل بیت اور مسلمانوں کی سیرت کے ذریعے استدلال کیا جاتا ہے:

قرآنی دلائل

مردوں سے توسل کرنے کی مشروعیت کو ثابت کرنے کیلئے سورہ نساء کی آیت نمبر 64 کی عمومیت سے استدلال کیا گیا ہے جس میں مؤمنین کو پیغمبر اکرم سے استغفار کرانے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس آیت کی عمومیت پیغمبر اکرم کی حیات مبارکہ نیز آپ کی رحلت کے بعد دونوں زمانوں کو شامل کرتی ہے۔[1] اسی طرح سورہ مائدہ کی آیت نمبر 35 میں توسل کو مطلقا جائز قرار دیا گیا ہے جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مؤمنین اور انبیاء سے ان کی رحلت کے بعد بھی توسل کیا جا سکتا ہے۔[2]

ائمہ معصومین کی سیرت

بعض منابع کے مطابق ائمہ معصومین پیغمبر اکرم کی رحلت کے بعد بھی آپ سے متوسل ہوتے تھے۔ حضرت علیؑ[3] اور امام حسینؑ نے پیغمبر اکرمؐ[4] سے توسل کئے ہیں۔ امام سجادؑ نے چودہ معصومین سے توسل کرنے میں ان کے بقید حیات ہونے اور نہ ہونے میں کوئی فرق نہیں رکھا ہے۔[5][یادداشت 1] نیز اہل بیتؑ سے منقول دعاؤوں جیسے دعائے سریع الاجابہ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ بزرگان سے ان کے موت کے بعد بھی توسل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔[6]

اصحاب کا عمل

اہل سنت کے بعض حدیثی منابع میں بعض اصحاب کا پیغمبر اکرمؐ سے ان کی رحلت کے بعد متوسل ہونے کے بارے میں واقعات نقل کی گئی ہے جن میں سے بعض یہ ہیں:

اہل سنت کا نظریہ

اہل سنت کے اکثر علماء مردوں سے متوسل ہونے کو جائز سمجھتے ہوئے مذہبی شخصیات سے ان کی رحلت کے بعد بھی متوسل ہوئے ہیں۔ سمہودی جو دسویں صدی ہجری کے شافعی علماء میں سے تھے، نے اپنی کتاب وفاء الوفاء باخبار‌ دار المصطفی میں ان لوگوں کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے پیغمبر اکرمؐ سے متوسل ہو کر اپنی مرادیں پائیں ہیں۔[11] ابوعلی خلال کہتے ہیں کہ ان کو جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تو وہ امام کاظمؑ کے روضہ اقدس کی زیارت کیلئے جاتے تھے اور آپ سے متوسل ہوتے تھے جس سے ان کی مشکل برطرف ہوتی تھی۔[12] محمد بن ادریس شافعی سے منقول ہے کہ اہل بیت پیغمبرؐ کو خدا سے تقرب حاصل کرنے کا وسیلہ قرار دیا گیا ہے۔[13]

وہابیوں کا نظریہ

وہابی مردوں سے توسل کو جائز اور مشروع نہیں سمجھتے۔ ابن تیمیہ کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اکرمؐ اور اللہ کے صالح بندوں سے صرف ان کی زندگی میں متوسل ہو سکتے ہیں ان کی وفات کے بعد ان سے متوسل ہونا شرک اور جائز نہیں ہے۔[14]

جواب

توسل کو جائز سمجھنے والے اس بات میں کسی فرق کے قائل نہیں ہیں کہ یہ توسل مورد نظر ہستی کی زندگی میں کی جا رہی ہے یا ان کی وفت کے بعد۔ جس طرح پیغمبر اکرمؐ اور خدا کے مقرب بندوں سے ان کی زندگی میں توسل کی جا سکتی ہے ان کی وفات کے بعد بھی ان سے متوسل ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔[15] اس حوالے سے قرآن کی آیت وَلَوْ أنَّهُمْ إذْ ظَلَمُوا أنْفُسَهُمْ جَاءُوک فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّاباً رَحیماً[؟–46] سے استناد کی جاتی ہے جو پیغمبر اکرمؐ کی زندگی اور آپ کی رحلت کے بعد دونوں زمانوں کو شامل کرتی ہے۔[16] مسلمانوں خاص کر صحابہ کی سیرت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ مردوں سے توسل کرنا ایک جائز امر ہے۔[17]

متعلقہ صفحات

نوٹ

  1. إنا نتوسل إلیک بمحمد صلواتک علیه وآله رسولک، و بعلی وصیه، و فاطمة ابنته، و بالحسن والحسین، وعلی و محمد و جعفر و موسی و علی و محمد وعلی والحسن والحجة علیهم‌السلام أهل بیت الرحمة(مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸۴، ص۲۸۵.۱۶۸).
  2. عثمان بن حنیف نے اس سے اس طرح پیغمبر اکرم سے متوسل ہونے کا کہا: اللّهمّ إنّی أسألک وأتوجّه إلیک بنبیک محمّد صلّی اللَّه علیه وسلّم نبی الرحمۃ، یا محمّد! إنّی أتوجّه بک إلی ربّی فتقضی لی حاجتی. (طبرانی، المعجم الکبیر، ۱۴۰۶ق، ج۹، ص۳۰.)

حوالہ جات

  1. نووی، المجموع، ۱۴۲۱ق، ج۸، ص۲۷۴.
  2. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۸۰ش، ج۴، ص۳۶۵.
  3. نہج البلاغہ، حکمت ۳۵۳، ص۴۷۹.
  4. ابن اعثم کوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۱۹.
  5. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸۴، ص۲۸۵.
  6. کلینی، الکافی، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۸۳.
  7. دارمی، سنن الدارمی، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۲۲۷.
  8. سمہودی، وفاء الوفاء، ۲۰۰۶م، ج۴، ص۱۹۵.
  9. سمہودی، وفاء الوفاء، ۲۰۰۶م، ج۴، ص۱۹۵.
  10. سمہودی، وفاء الوفاء، ۲۰۰۶م، ج۴، ص۱۹۵.
  11. سمہودی، وفاء الوفاء، ۲۰۰۶م، ج۴، ص۱۹۵.
  12. بغدادی، تاریخ بغداد، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۱۳۳.
  13. شوشتری، احقاق الحق، ۱۴۰۹ق، ج۹، ص۶۸۶
  14. ابن تیمیہ، مجموعۃالفتاوی، ۱۴۱۶ق، ج۱، ص۱۵۹.
  15. سمہودی، وفاء الوفاء، ۲۰۰۶م، ج۴، ص۱۹۷-۱۹۶.
  16. ابن تیمیہ، مجموعۃالفتاوی، ۱۴۱۶ق، ج۱، ص۱۵۹.
  17. سمہودی، وفاء الوفاء، ۲۰۰۶م، ج۴، ص۱۹۷-۱۹۵.

مآخذ

  • ابن اعثم کوفی، الفتوح، بیروت، دار الأضواء، چاپ اول، ۱۴۱۱ق.
  • ابن تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، مجموعۃ الفتاوی، تحقیق شیخ عبدالرحمن بن قاسم، المدینۃ النبویۃ، مجمع الملک فہد، لطباعۃ المصحف الشریف، ۱۴۱۶ق.
  • خطیب بغدادی، احمد بن علی، تاریخ بغداد، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۷ق.
  • دارمی، عبداللہ بن عبدالرحمن، سنن الدارمی، تحقیق حسین سلیم اسد الدارانی، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ، دار المغنی للنشر و التوزیع، چاپ اول، ۱۴۱۲ق.
  • سمہودی، علی بن احمد، وفاء الوفاء باخبار دارالمصطفی، بیروت، درالکتب العلمیہ، ۲۰۰۶م.
  • شوشتری، قاضی نوراللہ، احقاق الحق و ازہاق الباطل، تعلیقہ: آیت اللہ مرعشی، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، ۱۴۰۹ق.
  • طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، تحقیق حمدی بن عبدالمجید السلفی، قاہرہ،‌ مکتبۃ ابن تیمیۃ، چاپ دوم،‌ ۱۴۰۶ق.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، انتشارات اسلامیہ، ۱۳۶۲ش.
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ سوم، ۱۴۰۳ق.
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ چہل و یکم، ۱۳۸۰ش.
  • نہج البلاغہ، تحقیق عزیز اللہ عطاردی، تہران، بنیاد نہج البلاغہ، ۱۴۱۳ق.
  • نووی، محیی الدین بن شرف، المجموع شرح المہذَّب، بیروت، دار الفکر، ۱۴۲۱ق.