مندرجات کا رخ کریں

"امام حسن مجتبی علیہ السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 203: سطر 203:


===صلح کے مندرجات===
===صلح کے مندرجات===
اس صلح نامے کے مندرجات کے بارے میں مختلف اقوال موجود ہیں۔<ref>آل یاسین، صلح الحسن، ۱۴۱۲ق، ص۲۵۸-۲۵۹.</ref> من جملہ وہ مواد یہ ہیں:
اس صلح نامے کے مندرجات کے بارے میں مختلف اقوال موجود ہیں۔<ref> آل یاسین، صلح الحسن، ۱۴۱۲ق، ص۲۵۸-۲۵۹.</ref> من جملہ وہ مواد یہ ہیں:
# خلافت معاویہ کے سپرد کی جائیگی بشرط اینکہ وہ قرآن و [[سنت]] اور [[خلفائے راشدین]] کی سیرت پر عمل پیرا ہو۔
# خلافت معاویہ کے سپرد کی جائیگی بشرط اینکہ وہ قرآن و [[سنت]] اور [[خلفائے راشدین]] کی سیرت پر عمل پیرا ہو۔
# معاویہ اپنے بعد کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں کرے گا۔
# معاویہ اپنے بعد کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں کرے گا۔
# شیعیان حیدر کرار سمیت تمام لوگوں کو امن و امان اور سکون کی زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔<ref>آل یاسین، صلح الحسن، ۱۴۱۲ق، ص۲۵۹-۲۶۱.</ref>  
# شیعیان حیدر کرار سمیت تمام لوگوں کو امن و امان اور سکون کی زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔<ref> آل یاسین، صلح الحسن، ۱۴۱۲ق، ص۲۵۹-۲۶۱.</ref>  
[[شیخ صدوق]] کہتے ہیں کہ امام حسنؑ نے خلافت معاویہ کے حوالے کرتے وقت اس شرط پر اس کی بیعت فرمائی کہ اسے امیر المؤمنین کہہ کر نہ پکارا جائے۔<ref>شیخ صدوق، علل الشرایع، ۱۳۸۵ش، ج۱، ص۲۱۲.</ref>
[[شیخ صدوق]] کہتے ہیں کہ امام حسنؑ نے خلافت معاویہ کے حوالے کرتے وقت اس شرط پر اس کی بیعت فرمائی کہ اسے امیر المؤمنین کہہ کر نہ پکارا جائے۔<ref> شیخ صدوق، علل الشرایع، ۱۳۸۵ش، ج۱، ص۲۱۲.</ref>


بعض منابع میں آیا ہے کہ امام حسنؑ نے یہ شرط بھی رکھی تھی کہ معاویہ کے بعد خلافت خود امامؑ کی طرف منتقل ہوگی اس کے علاوہ معاویہ 5 میلین درہم امام حسنؑ کو دے گا۔<ref>مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج۵، ص۳۵۸.</ref> بعض محققین کا خیال ہے کہ ان دو شرطوں کو امام حسنؑ کے نمائندے نے اضافہ کیا تھا جسے امام حسنؑ نے قبول نہیں کیا اور ان دو شرطوں کے بارے میں فرمایا معاویہ کے بعد خلافت کا مسئلہ مسلمانوں کی باہمی مشورت حل و فصل ہو گا اور معاویہ کو بیت المال میں اس طرح کی تصرف کا بھی کوئی حق حاصل نہیں ہے۔<ref>جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ۱۳۸۰ش، ص۱۸۰-۱۸۱.</ref> بعض مورخین کا خیال ہے کہ مال دینے کی شرط خود معاویہ یا اس کے نمائندے نے رکھی تھی<ref> جعفریان، حیات فکرى و سیاسى ائمہ، ۱۳۸۱ش، ص۱۶۲.</ref>
بعض منابع میں آیا ہے کہ امام حسنؑ نے یہ شرط بھی رکھی تھی کہ معاویہ کے بعد خلافت خود امامؑ کی طرف منتقل ہوگی اس کے علاوہ معاویہ 5 میلین درہم امام حسنؑ کو دے گا۔<ref> مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج۵، ص۳۵۸.</ref> بعض محققین کا خیال ہے کہ ان دو شرطوں کو امام حسنؑ کے نمائندے نے اضافہ کیا تھا جسے امام حسنؑ نے قبول نہیں کیا اور ان دو شرطوں کے بارے میں فرمایا معاویہ کے بعد خلافت کا مسئلہ مسلمانوں کی باہمی مشورت حل و فصل ہو گا اور معاویہ کو بیت المال میں اس طرح کی تصرف کا بھی کوئی حق حاصل نہیں ہے۔<ref> جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ۱۳۸۰ش، ص۱۸۰-۱۸۱.</ref> بعض مورخین کا خیال ہے کہ مال دینے کی شرط خود معاویہ یا اس کے نمائندے نے رکھی تھی<ref> جعفریان، حیات فکرى و سیاسى ائمہ، ۱۳۸۱ش، ص۱۶۲.</ref>


[[خلافت]] سے ظاہری طور پر کنارہ کشی اختیار کرنے کے باوجود شیعیان حیدر کرار آپ کو [[امام]] مانتے تھے۔ یہاں تک کہ بعض شیعہ حضرات کو اس صلح پر اعتراض بھی تھا لیکن پھر بھی آپ کی امامت کے منکر نہیں تھے۔<ref>جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ۱۳۸۰ش، ص۱۸۵.</ref>
[[خلافت]] سے ظاہری طور پر کنارہ کشی اختیار کرنے کے باوجود شیعیان حیدر کرار آپ کو [[امام]] مانتے تھے۔ یہاں تک کہ بعض شیعہ حضرات کو اس صلح پر اعتراض بھی تھا لیکن پھر بھی آپ کی امامت کے منکر نہیں تھے۔<ref> جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ۱۳۸۰ش، ص۱۸۵.</ref>
:'''رد عمل اور اثرات'''
:'''رد عمل اور اثرات'''
{{نقل قول | عنوان = امام حسنؑ:| نقل‌ قول = اے لوگو! اگر مشرق سے مغرب تک ڈھونڈو گے تو میں اور میرے بھائی کے علاوہ کسی کو نہیں پاؤگے جس کا نانا رسول خداؐ ہو۔ بتحقیق معاویہ ایک ایسی چیز(خلافت) میں جو میرا مسلمہ حق ہے، میری مخالفت پر اتر آیا ایسے میں میں نے امت کی مصلحت کی خاطر اپنے حق سے چشم پوشی کیا۔|ترجمہ=|تاریخ بایگانی |
{{نقل قول | عنوان = امام حسنؑ:| نقل‌ قول = اے لوگو! اگر مشرق سے مغرب تک ڈھونڈو گے تو میں اور میرے بھائی کے علاوہ کسی کو نہیں پاؤگے جس کا نانا رسول خداؐ ہو۔ بتحقیق معاویہ ایک ایسی چیز(خلافت) میں جو میرا مسلمہ حق ہے، میری مخالفت پر اتر آیا ایسے میں میں نے امت کی مصلحت کی خاطر اپنے حق سے چشم پوشی کیا۔|ترجمہ=|تاریخ بایگانی |
| مآخذ = <small>ابن شہرآشوب‏، المناقب، ۱۳۷۹ق،ج۴، ص۳۴.</small> | تراز = چپ| چوڑائی = 230px | اندازہ خط = 14px|رنگ پس‌زمینه=#F0FFFF | گیومه نقل‌قول =| مآخذ کی سمت = بائیں}}
| مآخذ = <small>ابن شہرآشوب‏، المناقب، ۱۳۷۹ق،ج۴، ص۳۴.</small> | تراز = چپ| چوڑائی = 230px | اندازہ خط = 14px|رنگ پس‌زمینه=#F0FFFF | گیومه نقل‌قول =| مآخذ کی سمت = بائیں}}


منابع میں آیا ہے کہ امام حسنؑ کی طرف سے صلح قبول کرنے پر آپ کے بعض پیروکاروں نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا<ref>مجلسی، بحار الأنوار، ۱۳۶۳ش، ج۴۴، ص۲۹.</ref> یہاں تک کہ بعض لوگوں نے اس کام پر آپ کی سرزنش بھی کی اور بعض نے آپ کو "مذلّ المؤمنین"(مؤمنین کو ذلیل و خوار کرنے والا) کہہ کر پکارنے لگا۔<ref>بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۴۵ و ۴۸.</ref> امامؑ نے اس حوالے سے ہونے والے اعتراضات اور سوالات کا جواب دیتے ہوئے "امام" کی اطاعت کے ضروری ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صلح کے علل و اسباب کو بعینہ [[صلح حدیبیہ]] کے علل و اسباب بیان کرتے ہوئے اس کام کو [[حضرت خضر]] اور [[حضرت موسی]] کی داستان میں حضرت خضر کے کاموں کی طرح قرار دیا جہاں حضرت موسی ان کاموں کے فلسفے سے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کاموں پر اعتراض کرتے ہیں۔<ref>شیخ صدوق، علل الشرایع، ۱۳۸۵ش، ج۱، ص۲۱۱.</ref>
منابع میں آیا ہے کہ امام حسنؑ کی طرف سے صلح قبول کرنے پر آپ کے بعض پیروکاروں نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا<ref> مجلسی، بحار الأنوار، ۱۳۶۳ش، ج۴۴، ص۲۹.</ref> یہاں تک کہ بعض لوگوں نے اس کام پر آپ کی سرزنش بھی کی اور بعض نے آپ کو "مذلّ المؤمنین"(مؤمنین کو ذلیل و خوار کرنے والا) کہہ کر پکارنے لگا۔<ref> بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۴۵ و ۴۸.</ref> امامؑ نے اس حوالے سے ہونے والے اعتراضات اور سوالات کا جواب دیتے ہوئے "امام" کی اطاعت کے ضروری ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صلح کے علل و اسباب کو بعینہ [[صلح حدیبیہ]] کے علل و اسباب بیان کرتے ہوئے اس کام کو [[حضرت خضر]] اور [[حضرت موسی]] کی داستان میں حضرت خضر کے کاموں کی طرح قرار دیا جہاں حضرت موسی ان کاموں کے فلسفے سے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کاموں پر اعتراض کرتے ہیں۔<ref> شیخ صدوق، علل الشرایع، ۱۳۸۵ش، ج۱، ص۲۱۱.</ref>


متعدد تاریخی منابع میں آیا ہے کہ معاویہ نے اس صلح کے مندرجات پر عمل نہیں کیا<ref>مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج۵، ص۳۶۰؛ امین، اعیان الشیعة، ۱۴۰۳ق، ج۱، ص۲۷.</ref> اور [[حجر بن عدی]] سمیت بہت سارے شیعوں کو قتل کر ڈالا۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷ش، ج۵، ص۲۷۵.</ref> تاریخ میں آیا ہے کہ معاویہ صلح کے بعد کوفہ چلا گیا اور لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا: میری طرف سے رکھے گئے تمام شرائط کو واپس لیتا ہوں اور جو وعدہ دیا تھا ان سب کی خلاف ورزی کرونگا۔<ref>مقدسى، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، ج۵، ص۲۳۷.</ref> اسی طرح اس نے مزید کہا: میں نے تم لوگوں سے [[نماز]]، [[روزہ]] اور [[حج]] کی انجام دہی کی خاطر جنگ نہیں کیا بلکہ تم لوگوں پر حکومت کرنے کیلئے میں نے جنگ کی ہے۔<ref>ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، دارالفکر، ج۸، ص۱۳۱.</ref>
متعدد تاریخی منابع میں آیا ہے کہ معاویہ نے اس صلح کے مندرجات پر عمل نہیں کیا<ref> مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج۵، ص۳۶۰؛ امین، اعیان الشیعة، ۱۴۰۳ق، ج۱، ص۲۷.</ref> اور [[حجر بن عدی]] سمیت بہت سارے شیعوں کو قتل کر ڈالا۔<ref> طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷ش، ج۵، ص۲۷۵.</ref> تاریخ میں آیا ہے کہ معاویہ صلح کے بعد کوفہ چلا گیا اور لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا: میری طرف سے رکھے گئے تمام شرائط کو واپس لیتا ہوں اور جو وعدہ دیا تھا ان سب کی خلاف ورزی کرونگا۔<ref> مقدسى، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، ج۵، ص۲۳۷.</ref> اسی طرح اس نے مزید کہا: میں نے تم لوگوں سے [[نماز]]، [[روزہ]] اور [[حج]] کی انجام دہی کی خاطر جنگ نہیں کیا بلکہ تم لوگوں پر حکومت کرنے کیلئے میں نے جنگ کی ہے۔<ref> ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، دارالفکر، ج۸، ص۱۳۱.</ref>


==مدینہ میں دینی مرجعیت ==
==مدینہ میں دینی مرجعیت ==

نسخہ بمطابق 14:21، 14 جنوری 2021ء

امام حسن مجتبی علیہ السلام
سنہ 1308ھ میں ائمہ بقیعؑ کا مزار
سنہ 1308ھ میں ائمہ بقیعؑ کا مزار
منصبشیعوں کے دوسرے امام
نامحسنؑ بن علیؑ
کنیتابو محمد
القابسید، تقی، طیب، زکی، سبط
تاریخ ولادت15 رمضان، سنہ 3 ہجری
جائے ولادتمدینہ
مدت امامت10 سال (40-50ھ)
شہادت28 صفر، 50 ہجری
سبب شہادتجعدہ کے زہر سے مسموم
مدفنبقیع، مدینہ
رہائشمدینہ، کوفہ
والد ماجدامام علی
والدہ ماجدہحضرت فاطمہ
ازواجام بشیر، خولہ، ام اسحق، حفصہ، ہند، جعدہ
اولادزید، ام الحسن، ام الحسین، حسن، عمرو، قاسم، عبداللہ، عبدالرحمن، حسین، طلحہ، فاطمہ، ام عبداللہ، ام سلمہ، رقیہ
عمر48 سال
ائمہ معصومینؑ
امام علیؑامام حسنؑامام حسینؑامام سجادؑامام محمد باقرؑامام صادقؑامام موسی کاظمؑامام رضاؑامام محمد تقیؑامام علی نقیؑامام حسن عسکریؑامام مہدیؑ


حسن بن علی بن ابی طالب (3-50ھ) امام حسن مجتبیؑ کے نام سے مشہور شیعوں کے دوسرے امام ہیں۔ آپ کی امامت کی مدت دس سال (40-50ھ) پر محیط ہے۔ آپ تقریبا 7 مہینے تک خلافت کے عہدے پر فائز رہے۔ اہل سنت آپ کو خلفائے راشدین میں آخری خلیفہ مانتے ہیں۔

آپ حضرت علیؑ و حضرت زہراؑ کے پہلے فرزند اور پیغمبر اکرمؐ کے بڑے نواسے ہیں۔ تاریخی شواہد کی بنا پر پیغمبر اکرمؐ نے آپ کا اسم گرامی حسن رکھا اور حضورؐ آپ سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ آپ نے اپنی عمر کے 7 سال اپنے نانا رسول خداؐ کے ساتھ گزارے، بیعت رضوان اور نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ میں اپنے نانا کے ساتھ شریک ہوئے۔

شیعہ اور اہل سنت منابع میں امام حسنؑ کے فضائل اور مناقب کے سلسلے میں بہت سی احادیث نقل ہوئی ہیں۔ آپؑ اصحاب کسا میں سے تھے جن کے متعلق آیہ تطہیر نازل ہوئی ہے جس کی بنا پر شیعہ ان ہستیوں کو معصوم سمجھتے ہیں۔ آیہ اطعام، آیہ مودت اور آیہ مباہلہ بھی انہی ہستیوں کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ آپ نے دو دفعہ اپنی ساری دولت اور تین دقعہ اپنی دولت کا نصف حصہ خدا کی راہ میں عطا کیا۔ آپ کی اسی بخشندگی کی وجہ سے آپ کو "کریم اہل بیت" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ نے 20 یا 25 دفعہ پیدل حج ادا کیا۔

خلیفہ اول اور دوم کے زمانے میں آپ کی زندگی کے بارے میں کوئی خاص بات تاریخ میں ثبت نہیں ہوئی ہے۔ خلیفہ دوم کی طرف سے خلیفہ منتخب کرنے کیلئے بنائی گئی چھ رکنی کمیٹی میں آپ بطور گواہ حاضر تھے۔ خلیفہ سوم کے دور میں ہونے والی بعض جنگوں میں آپ کی شرکت کے حوالے سے تاریخ میں بعض شواہد ملتے ہیں۔ حضرت عثمان کے خلاف لوگوں کی بغاوت کے دوران امام علیؑ کے حکم سے آپ ان کے گھر کی حفاظت پر مأمور ہوئے۔ امام علیؑ کی خلافت کے دروان آپ اپنے والد کے ساتھ کوفہ تشریف لائے اور جنگ جمل و جنگ صفین میں اسلامی فوج کے سپہ سالاروں میں سے تھے۔

21 رمضان 40ھ میں امام علیؑ کی شہادت کے بعد آپ امامت و خلافت کے منصب پر فائز ہوئے اور اسی دن 40 ہزار سے زیادہ لوگوں نے آپ کی بیعت کی۔ معاویہ نے آپ کی خلافت کو قبول نہیں کیا اور شام سے لشکر لے کر عراق کی طرف روانہ ہوا۔ امام حسنؑ نے عبید اللہ بن عباس کی سربراہی میں ایک لشکر معاویہ کی طرف بھیجا اور آپؑ خود ایک گروہ کے ساتھ ساباط کی طرف روانہ ہوئے۔ معاویہ نے امام حسن کے سپاہیوں کے درمیان مختلف شایعات پھیلا کر صلح کیلئے زمینہ ہموار کرنے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ ایک خارجی کے حملہ کے نتیجے میں آپؑ زخمی ہوئے اور علاج کیلئے آپ کو مدائن لے جایا گیا۔ اسی دوران کوفہ کے بعض سرکردگان نے معاویہ کو خط لکھا جس میں امامؑ کو گرفتار کرکے معاویہ کے حوالے کرنے یا آپ کو شہید کرنے کا وعدہ دیا گیا تھا۔ معاویہ نے کوفہ والوں کے خطوط امامؑ کو بھیج دیئے اور آپ سے صلح کرنے کی پیشکش کی۔ امام حسنؑ نے وقت کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے معاویہ کے ساتھ صلح کرنے اور خلافت کو معاویہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اس شرط کے ساتھ کہ معاویہ قرآن و سنت پر عمل پیرا ہوگا، اپنے بعد کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں کرے کا اور تمام لوگوں خاص کر شیعیان علیؑ کو امن کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرے گا۔ لیکن بعد میں معاویہ نے مذکورہ شرائط میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں کیا۔ معاویہ کے ساتھ ہونے والی صلح کی وجہ سے بعض شیعہ آپ سے ناراض ہوگئے یہاں تک کہ بعض نے آپ کو "مذلّ المؤمنین" (مؤمنین کو ذلیل کرنے والے) خطاب کیا۔

صلح کے بعد آپ سنہ 41ھ میں مدینہ واپس آ گئے اور زندگی کے آخری ایام تک یہیں پر مقیم رہے۔ مدینہ میں آپؑ علمی مرجعیت کے ساتھ ساتھ سماجی اور اجتماعی طور پر بلند مقام و منزلت کے حامل تھے۔

معاویہ نے جب اپنے بیٹے یزید کی بعنوان ولی عہد بیعت لینے کا ارادہ کیا تو امام حسنؑ کی زوجہ جعدہ کیلئے سو دینار بھیجے تاکہ وہ امام کو زہر دے کر شہید کرے۔ کہتے ہیں کہ آپؑ زہر سے مسموم ہونے کے 40 دن بعد شہید ہوئے۔ ایک قول کی بنا پر آپؑ نے اپنے نانا رسول خداؑ کے جوار میں دفن ہونے کی وصیت کی تھی لیکن مروان بن حکم اور بنی امیہ کے بعض دوسرے لوگوں نے اس کام سے منع کیا یوں آپ کو بقیع میں سپرد خاک کیا گیا۔

آپؑ کی احادیث اور مکتوبات کا مجموعہ نیز آپ کے 138 راویوں کا اسماء مسند الامام المجتبیؑ نامی کتاب میں جمع کئے گئے ہیں۔

مختصر تعارف

حسن بن علی بن ابی‌ طالب امام علیؑ اور حضرت فاطمہؑ کے سب سے بڑے فرزند اور پیغمبر اکرمؐ کے بڑے نواسے ہیں۔[1] آپ کا نسب بنی ‌ہاشم اور قریش تک منتہی ہوتا ہے۔[2]

  • نام، کنیت اور القاب

"حَسَن" عربی زبان میں نیک اور اچھائی کے معنی میں ہے اور یہ نام پیغمبر اکرمؐ نے آپ کیلئے انتخاب کیا تھا۔[3] بعض احادیث کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے یہ نام خدا کے حکم سے رکھا تھا۔[4] حسن اور حسین عبرانی زبان کے لفظ "شَبَّر" اور "شَبیر"(یا شَبّیر)،[5] کے ہم معنی ہیں جو حضرت ہارون کے بیٹوں کے نام ہیں۔[6] اسلام حتی عربی میں اس سے پہلے ان الفاظ کے ذریعے کسی کا نام نہیں رکھا گیا تھا۔[7]

آپؑ کی کنیت "ابو محمد" اور "ابو القاسم" ہے۔[8] آپ کے القاب میں مجتبی (برگزیدہ)، سَیّد (سردار) اور زَکیّ (پاکیزہ) مشہور ہیں۔[9] آپ کے بعض القاب امام حسینؑ کے ساتھ مشترک ہیں جن میں "سیّد شباب اہل الجنۃ"، "ریحانۃ نبیّ اللہ"[10] اور "سبط" ہیں۔[11] پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے: "حسن" اسباط میں سے ایک ہیں"۔[12] آیات و روایات کی رو سے "سبط" اس امام اور نَقیب کو کہا جاتا ہے جو انبیاء کی نسل اور خدا کی طرف سے منتخب ہو۔[13]

امامت

حسنؑ بن علیؑ شیعوں کے دوسرے امام ہیں۔ 21 رمضان سنہ 40ھ کو امام علیؑ کی شہادت کے بعد امام بنے اور دس سال تک اس عہدے پر فائز رہے۔[14] شیخ کلینی (متوفی 329 ھ) نے اپنی کتاب کافی میں امام حسنؑ کے منصب امامت پر نصب کئے جانے سے مربوط احادیث کو جمع کیا ہے۔[15] ان روایات میں سے ایک کے مطابق امام علیؑ نے اپنی شہادت سے پہلے اپنی اولاد اور شیعہ بزرگان کے سامنے اس کتاب اور تلوار کو اپنے فرزند امام حسنؑ کو عطا فرمایا جو امامت کی نشانی سمجھی جاتی تھی اور اس کی وجہ بھی یہ تھی کہ پیغمبر اکرمؐ نے امام علیؑ کو اپنے بعد آپ کے فرزند حسن بن علیؑ کو اپنا جانیشن اور وصی مقرر کرنے کا حکم دیا تھا۔[16] ایک اور حدیث کے مطابق امام علیؑ نے کوفہ تشریف لے جانے سے پہلے امامت کی مذکورہ نشانیوں کو ام سلمہ کے حوالے فرمایا جسے امام حسنؑ نے کوفہ سے واپسی پر ام سلمہ سے اپنی تحویل میں لیا تھا۔[17] شیخ مفید (متوفی 413 ھ) نے کتاب ارشاد میں تحریر کیا ہے کہ حسن بن علیؑ اولاد و اصحاب کے درمیان اپنے والد کے جانشین و وصی ہیں۔[18] اسی طرح آپؑ کی امامت پر رسول خدا سے نقل ہونے والی بعض احادیث بھی صراحتا دلالت کرتی ہیں: اِبنای ہذانِ امامان قاما او قَعَدا (ترجمہ: میرے یہ دونوں بیٹے (حسنؑ اور حسینؑ) تمہارے امام ہیں چاہے یہ قیام کریں یا صلح۔[19] اسی طرح حدیث ائمہ اثنا عشر[20] سے بھی آپ کی امامت پر استدلال کیا جاتا ہے۔[21] امام حسنؑ اپنی امامت کے ابتدائی مہینوں میں جس وقت آپ کوفہ میں تشریف رکھتے تھے، منصب خلافت پر بھی فائز تھے لیکن بعد میں معاویہ کے ساتھ صلح کے بعد خلافت سے دستبردار ہوئے اور خلافت سے کنارہ کشی کے بعد اپنی زندگی کے آخری ایام تک مدینہ ہی میں مقیم رہے۔

انگوٹھی کا نقش

امام حسن مجتبیؑ کی انگشتری کے دو نقش منقول ہیں: الْعِزَّۃُ لِلَّہِ؛[22] اور حَسْبِی اللَّہُ۔[23]

بچپن اور جوانی کا زمانہ

مشہور قول کی بنا پر آپ کی تاریخ ولادت 15 رمضان سنہ 3 ہجری ہے۔[24] لیکن بعض منابع میں آپ کی تاریخ ولادت سنہ 2 ہجری بھی لکھا گیا ہے۔[25] آپ مدینہ میں پیدا ہوئے۔[26]، پیغمبر اکرمؐ نے آپ کے کان میں اذان دی [27] اور ولادت کے ساتویں روز ایک گوسفند کے ذبح کرکے آپ کا عقیقہ کیا۔[28]

بعض منابع کے مطابق امام علیؑ نے پیغمبر اکرمؐ کی توسط سے آپ کا نام "حسن" رکھنے سے پہلے اپنے بیٹے کا نام حمزہ[29] یا حرب[30] رکھنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن جب رسول خدا نے امام علی سے سوال کیا کہ اپنے بیٹے کا نام کیا رکھا ہے تو آپ نے فرمایا میں اس کام میں خدا اور اس کے رسول پر پہلی نہیں کرونگا۔[31]

بچپن اور نوجوانی

آپ کے بچپن اور نوجوانی کی زندگی کے بارے میں کوئی خاص معلومات میسر نہیں۔[32] آپ نے صرف آٹھ سال سے بھی کم عرصہ اپنے نانا رسول خداؐ کی زندگی کو درک کیا[یادداشت 1]اس بنا پر آپ کا نام پیغمبر اکرمؑ کے اصحاب کے آخری طبقے میں ذکر کیا جاتا ہے۔[33]

آپؑ اور آپ کے بھائی امام حسینؑ کے ساتھ پیغمبر اکرمؐ کی بے پناہ محبت کے بارے میں شیعہ اور اہل سنت منابع میں بہت سے واقعات ذکر ہوئے ہیں۔[34]

آپ کی زندگی کے اس دور کا اہم ترین واقعہ اپنے والدین، بھائی اور نانا رسول خداؐ کے ہمراہ نجران کے عیسائیوں ساتھ ہونے والے مباہلے میں شرکت اور آیہ مباہلہ میں موجود لفظ "اَبناءُنا" کا مصداق بننا ہے۔[35] سید جعفر مرتضی کے بقول آپؑ بیعت رضوان میں بھی موجود تھے اور دوسرے مسلمانوں کے ساتھ آپ نے بھی حضورؐ کی بیعت کی۔[36] قرآن کی بعض آیات آپ اور اصحاب کساء کے دوسرے ارکان کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔[37] کہا جاتا ہے کہ آپ سات سال کی عمر میں اپنے نانا رسول خداؐ کے مجالس میں شرکت فرماتے اور جو کچھ حضورؐ پر وحی ہوتی اس بارے میں اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہراؑ کو مطلع کرتے تھے۔[38]

سلیم بن قیس (متوفی پہلی صدی کے اواخر) نے نقل کیا ہے کہ رسول خداؐ کی رحلت کے بعد ابوبکر نے جب خلافت پر قبضہ کیا تو حسن بن علی اپنے والد امام علی، والدہ حضرت فاطمہ اور بہائی امام حسینؑ کے ساتھ رات کو انصار کے گھروں میں جاتے تھے اور ان کو حضرت علیؑ کی مدد کرنے کی دعوت دیتے تھے۔[39] اسی طرح کہا جاتا ہے کہ آپ منبر رسول پر ابوبکر کے بیٹھنے کے مخالف تھے اور اس حوالے سے اپنی نارضایتی کا اظہار کرتے تھے۔[40]

جوانی

امام حسنؑ کے ایام جوانی سے متعلق معلومات انتہائی محدود ہیں، کتاب الامامۃ و السیاسۃ کے مطابق خلیفہ دوم کے حکم سے حسن بن علیؑ خلیفہ منتخب کرنے کیلئے بنائی گئی چھ رکنی کمیٹی میں گواہ کے عنوان سے حاضر ہوئے۔[41]

اہل سنت کے بعض منابع میں آیا ہے کہ حسنینؑ سنہ 26 ہجری کو جنگ افریقیہ[42] اور سنہ 29 یا سنہ 30 ہجری کو جنگ طبرستان[43] میں شریک تھے۔ البتہ ان احادیث کی صحت و سقم سے متعلق محدثین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اسی بنا پر ان احادیث کے سندی اشکالات اور ائمہ معصومین کی جانب سے فتوحات کی مخالفت پر مبنی طرز زندگی کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض علماء من جملہ جعفر مرتضی عاملی نے ان احادیث کو جعلی قرار دیا ہے اور اپنی بات کی تائید میں امام علیؑ کی طرف سے حسنینؑ کو جنگ صفین میں شرکت کی اجازت نہ دینے کو بطور شاہد پیش کیا ہے۔[44] ویلفرد مادلونگ کہتے ہیں کہ امام علیؑ اپنے فرزند کو عالم جوانی میں جنگی امور سے آشنا کرکے ان امور سے متعلق آپ کے تجربات میں اضافہ کرنا چاہتے تھے۔[45] بعض علماء کا خیال ہے کہ حسنین کا خلفاء کے دور میں مختلف فتوحات میں شامل ہونا امت اسلامی کی مصلحت اور امام علیؑ کو اسلامی معاشرے کے گوشہ و کنار سے آگاہ کرنے نیز لوگوں کو اہل بیتؑ سے آشنا کرنے کیلئے تھا۔[46]

آپ کی زندگی کے اس دور سے متعلق نقل ہونے والے دیگر اہم واقعات میں سے ایک یہ ہے کہ لوگ عثمان کے خلاف حضرت علیؑ کی خدمت میں شکایت لے آتے ہیں اس موقع پر امام علیؑ نے اپنے فرزند امام حسنؑ کو عثمان کے پاس بھجتے ہیں۔[47] بعض منابع میں آیا ہے کہ عثمان کی خلافت کے آخری ایام میں لوگوں نے ان کے خلاف شورش کی، ان کے گھر کو محاصرے میں لے لیا، ان پر پانی بند کر دیا اور آخر کار انہیں قتل کر دیا گیا ان تمام واقعات میں امام حسنؑ اپنے بھائی امام حسینؑ اور دیگر جوانان بنی ہاشم کے ساتھ امام علیؑ کے حکم سے عثمان کے گھر کی حفاظت پر مأمور تھے۔[48] قاضی نعمان مغربی (متوفی 363ھ) جو کتاب دلائل الامامۃ کے مصنف بھی ہیں کے بقول جب شورشیوں نے عثمان پر پانی بند کر دیا تو امام حسنؑ اپنے والد امام علیؑ کے حکم پر عثمان کے گھر پانی پہنچاتے تھے۔[49] بعض منابع میں اس واقعے میں آپ کے زخمی ہونے کے اطلاعات بھی موجود ہیں۔[50]

ازواج اور اولاد

امام حسنؑ کی ازواج کی تعداد کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ باوجود اس کے کہ تاریخی میں آپ کے صرف 18 ازواج کا نام درج ہے،[51] ان کی تعداد 250،[52] 200،[53] 90[54] اور 70[55] تک بیان کی گئی ہیں۔

بعض منابع میں آپ کو شادی اور طلاق کی کثرت کی وجہ سے "مِطلاق" (بہت زیادہ طلاق دینے والا) کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے۔[56] اس کے علاوہ آپ کی بعض کنیزیں بھی تھیں جن سے آپ صاحب فرزند بھی تھے۔[57]

البتہ آپ کو "مطلاق" کہنے والی بات کو بعض پرانے اور معاصر منابع میں تاریخی، سندی اور محتوایی اعتبار سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔[58]

مادلونگ کے بقول پہلا شخص جس نے یہ شایع کیا تھا کہ امام حسنؑ کی زوجات کی تعداد 90 ہیں، وہ "محمد بن کلبی" تھا اور یہ تعداد "مدائنی" (225ھ) کی جعلیات میں سے تھی۔ اس کے باوجود خود کلبی نے آپ کی گیارہ زوجات کا نام لیا ہے جن میں سے 5 کا امام کی ازواج میں سے ہونا بھی مشکوک ہے۔[59] قرشی اس خبر کو بنی عباس کے سادات حسنی کے خلاف اٹھائے جانے والے اقدامات میں شمار کرتے ہیں۔[60]

آپ کی اولاد کی تعداد میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ شیخ مفید نے آپ کی اولاد کی تعداد 15 ذکر کی ہیں۔[61]

ازواج اولاد
جعدہ ...
ام بشیر زید، ام الحسن و ام الحسین
خولہ حسن مثنی
حفصہ ...
ام اسحاق حسین، طلحہ و فاطمہ
ہند ...
نَفیلہ یا رَملہ عمر، قاسم و عبداللہ
بعض دیگر ازواج عبدالرحمن، ام عبداللہ، ام سلمہ و رقیہ

طبرسی نے امام حسنؑ کی اولاد کی تعداد 16 بتاتے ہوئے ابوبکر کو بھی آپ کی اولاد میں شمار کیا ہے جو واقعہ عاشورا میں شہید ہوئے تھے۔[62]

  • نسل امام حسن

نسل امام حسنؑ حسن مثنی، زید، عمر اور حسین اثرم سے چلی ہے۔ حسین اور عمر کی نسل کچھ عرصہ بعد ختم ہوئی اور صرف حسن مثنی اور زید بن حسن کی نسل باقی رہی،[63] جنہیں سادات حسنی کہا جاتا ہے۔[64] آپ کی نسل سے بہت ساری شخصیات نے دوسری اور تیسری صدی کے دوران بنی عباس کی حکومت کے خلاف مختلف سیاسی اور سماجی تحریکوں کی قیادت کی اور اسلامی دنیا کے مختلف گوشہ و کنار میں مختلف حکومتیں قائم کی ہیں۔ یہ شخصیات بعض علاقوں میں شُرَفاء کے نام سے معروف‌‌ تھیں۔[65]

امام علی کا دور خلافت اور کوفہ میں قیام

امام حسن مجتبیؑ امام علیؑ کے چار سالہ دور خلافت میں شروع سے لے کر آخر تک اپنے والد گرامی کے ساتھ رہے۔[66] کتاب الاختصاص کے مطابق حسن بن علیؑ نے لوگوں کی طرف سے امام علیؑ کی بعنوان خلیفہ بیعت کرنے کے بعد اپنے والد کے حکم سے ممبر پر جا کر لوگوں سے خطاب فرمایا۔[67] وقعۃ صفین نامی کتاب کے مطابق امام علیؑ کے کوفہ آنے کے پہلے دن سے ہی حسن بن علی بھی اپنے والد کے ساتھ کوفہ میں قیام پذیر ہوئے۔[68]

جنگ جمل میں

ناکثین کی عہد شکنی اور شورش کے بعد امام علیؑ لشکر لے کر ان کا مقابلہ کرنے کیلئے روانہ ہوئے۔ راستے میں امام حسنؑ نے امام علیؑ کو اس جنگ سے دور رہنے کی درخواست کی۔[69] [یادداشت 2]شیخ مفید (متوفی 413 ھ) کے مطابق امام حسنؑ اپنے والد کی طرف سے عمار بن یاسر اور قیس بن سعد کے ساتھ کوفہ جا کر لوگوں کو امام علیؑ کے لشکر میں شامل ہونے کیلئے آمادہ کرنے پر مأمور ہوئے۔[70] آپ نے کوفہ میں لوگوں سے خطاب کیا اور امام علیؑ کے فضائل اور آپ کے مقام و منزلت نیز ناکثین (طلحہ‌ و زبیر) کی عہد شکنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لوگوں کو امام علیؑ کی مدد کرنے کی درخواست کی۔[71]

جنگ جمل میں جب عبداللہ بن زبیر نے امام علیؑ پر عثمان کے قتل کی تہمت لگائی تو امام حسنؑ نے ایک خطبہ دیا جس میں عثمان کے قتل میں طلحہ اور زبیر کے ملوث ہونے کی طرف اشارہ کیا۔[72] امام حسن مجتبیؑ اس جنگ میں لشکر اسلام کے دائیں بازو کی سپہ سالاری کر رہے تھے۔[73] ابن شہر آشوب سے منقول ہے کہ امام علیؑ نے اس جنگ میں اپنا نیزہ محمد حنفیہ کو دیا اور عایشہ کی اونٹنی کو مار دینے کا حکم دیا لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے اس کے بعد امام حسنؑ نے اس کام کی ذمہ داری سنبھالی اور عایشہ کی اونٹنی کو زخمی کرنے میں کامیاب ہوئے۔[74] بعض منابع میں آیا ہے کہ جنگ جمل کے بعد امام علیؑ بیمار ہوئے اس موقع پر آپ نے بصرہ میں نماز جمعہ پڑھانے کی ذمہ داری امام حسنؑ کے سپرد کی۔ آپ نے نماز جمعہ کے خطبے میں اہل بیتؑ کے مقام و منزلت اور ان کے حق میں کوتاہی کرنے کے انجام کی طرف اشارہ فرمایا۔[75]

جنگ صفین میں

سانچہ:نقل قول

نصر بن مزاحم (متوفی 212 ھ) کے بقول امام حسنؑ نے صفین کی طرف لشکر کے روانہ ہونے سے قبل ایک خطبہ دیا جس میں لوگوں کو جہاد کی ترغیب دی۔[76] بعض احادیث کے مطابق جنگ صفین میں آپ اپنے بھائی امام حسینؑ کے ساتھ لشکر کے دائیں بازو کی سپہ سالاری کر رہے تھے۔[77] اسکافی (متوفی 240 ھ) نقل کرتے ہیں کہ جب حسنؑ بن علیؑ کا جنگ کے دوران لشکر شام کے کسی بزرگ سے آمنا سامنا ہوا تو اس نے امام حسنؑ کے ساتھ لڑنے سے انکار کرتے ہوئے کہا میں نے رسول خداؐ کو اونٹ پر سوار ہو کر میری طرف آتے دیکھا اور آپ ان کے آگے اسی اونٹ پر سوار تھے۔ میں نہیں چاہتا رسول خداؐ سے اس حالت میں ملاقات کروں کہ آپ کا خون میرے گردن پر ہو۔[78]

کتاب وقعۃ صفین میں آیا ہے کہ عبیداللہ بن عمر (فرزند خلیفہ دوم) نے حسن بن علیؑ سے ملاقات میں آپ کو اپنے والد کی جگہ خلافت قبول کرنے کی پیشکش کی کیونکہ قریش علیؑ کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ امام حسنؑ نے جواب میں فرمایا: خدا کی قسم ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ اس کی بعد فرمایا: گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ تم آج یا کل مارے جاؤگے اور شیطان نے تمہیں دھوکا دیا ہوا ہے۔ مذکورہ کتاب کے مطابق عبیداللہ بن عمر اسی جنگ میں مارا گیا۔[79] جنگ کے خاتمے اور حکمیت کے واقعے پر بعد امام حسنؑ نے اپنے والد ماجد کے حکم سے لوگوں سے خطاب فرمایا۔[80]

صفین سے واپسی پر راستے میں امام علیؑ نے اخلاقی تربیتی موضوع پر مشتمل ایک خط اپنے فرزند امام حسنؑ کے نام لکھا،[81] جو نہج البلاغہ میں مکتوب نمبر 31 کے عنوان سے آیا ہے۔[82]

کتاب "الاستیعاب" میں آیا ہے کہ حسن بن علیؑ نے جنگ نہروان میں بھی شرکت کی۔[83]

اس دور سے متعلق دیگر واقعات میں سے ایک امام علیؑ کی وصیت کے تحت آپ کی جانب سے انجام پانے والے خیریہ امور جیسے وقف اور صدقات وغیرہ کی نگرانی آپؑ بعد امام حسنؑ کے سپرد کیا جانا ہے۔[84] کافی کے مطابق یہ وصیت 10 جمادی الاولی سنہ 37ھ کو لکھی گئی۔[85] بعض احادیث میں آیا ہے کہ امام علیؑ اپنی زندگی کے آخری ایام میں معاویہ کے ساتھ مقابلہ کیلئے دوبارہ تیاری کر رہے تھے جس میں آپ نے اپنے بیٹے امام حسنؑ کو اپنی فوج کے دس ہزار نفری کا سپہ سالار مقرر فرمایا۔[86]

خلافت کا مختصر دور

امام حسن مجتبیؑ 21 رمضان سنہ 40ھ[87] کو اپنے والد کی شہادت کے بعد 6 سے 8 مہینے تک خلافت کے عہدے پر فائز رہے۔[88] اہل سنت پیغمبر اکرمؐ سے منسوب ایک حدیث کی رو سے آپ کو خلفائے راشدین میں سے آخری خلیفہ جانتے ہیں۔[89] آپ کی خلافت عراق کے لوگوں کی بیعت اور دوسرے مناطق کی حمایت سے شروع ہوئی۔[90] لیکن شام والوں نے معاویہ کی قیادت میں اس بیعت کی مخالفت کی۔[91] معاویہ لشکر لے کر شام سے اہل عراق کے ساتھ جنگ کرنے کیلئے روانہ ہوا۔[92] آخر کار یہ جنگ امام حسنؑ اور معاویہ کے درمیان صلح نیز خلافت کو معاویہ کے سپرد کرنے کے ساتھ اختتام ہوا یوں معاویہ خلافت بنی امیہ کا پہلا خلیفہ بن گیا۔[93]

مسلمانوں کی بیعت اور اہل شام کی مخالفت

شیعہ اور اہل سنت منابع کے مطابق امیر المؤمنین حضرت علیؑ کی شہادت کے بعد سنہ 40ھ کو مسلمانوں نے حسن بن علیؑ کی بعنوان خلیفہ بیعت کی۔[94] بلاذری (متوفی 279ھ) کے مطابق عبید اللہ بن عباس پیکر امام علیؑ کو دفن کرنے بعد لوگوں کے درمیان آئے اور آپ کی شہادت سے لوگوں کو باخبر کرتے ہوئے کہا: آپ ایک شایستہ اور بردبار جانشین ہماری درمیان چھوڑ کر گئے ہیں۔ اگر چاہیں تو ان کی بیعت کریں۔[95] کتاب الارشاد میں آیا ہے کہ 21 رمضان جمعہ کے دن صبح کو حسن بن علیؑ نے مسجد میں ایک خطبہ دیا جس میں اپنے والد کی شایستگی اور فضائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ اپنی قرابتداری، اپنی ذاتی کمالات نیز اہل بیت کے مقام و منزلت کو قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں بیان فرمایا۔[96] آپ کی تقریر کے بعد عبداللہ بن عباس اٹھ کھڑے ہوئے اور لوگوں سے یوں مخاطب ہوا: اپنے نبی کے بیٹے اور اپنے امام کی جانشین کی بیعت کریں۔ اس کے بعد لوگوں نے آپ کی بعنوان خلیفہ بیعت کی۔[97] منابع میں آپ کی بیعت کرنے والوں کی تعداد 40 ہزار سے بھی زیادہ بتائی گئی ہے۔[98] بعض منابع کے مطابق قیس بن سعد بن عبادہ جو لشکر امام علیؑ کے سپہ سالار تھے نے سب سے پہلے امام حسنؑ کی بیعت کی۔[99]

حسین محمد جعفری اپنی کتاب تشیع در مسیر تاریخ میں کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ کے بہت سارے اصحاب جو اس وقت کوفہ میں مقیم تھے، نے امام حسنؑ کی بیعت کی اور انہیں بطور خلیفہ قبول کیا۔[100] جعفری بعض قرائن و شواہد کی بنا پر کہتے ہیں کہ مکہ و مدینہ کے مسلمان بھی حسن بن علیؑ کی بیعت میں عراق والوں کے ساتھ موافق تھے اور صرف آپ کو اس مقام کیلئے سزاوار جانتے تھے۔[101] وہ کہتے ہیں کہ یمن اور فارس کے لوگوں نے بھی اس بیعت کی تائید کی تھی یا کم از کم اس کے مخالف نہیں تھے۔[102]

بعض منابع میں آیا ہے کہ بیعت کے وقت بعض شرائط کا بھی ذکر کیا گیا تھا، کتاب "الامامۃ و السیاسۃ" کے مطابق انہی شرائط کے ضمن میں جسن بن علیؑ نے لوگوں سے کہا: آیا میری اطاعت کرنے کی بیعت کرتے ہو؟۔ آیا جس سے میں جنگ کروں اس سے جنگ اور جس سے میں صلح کروں اس سے صلح کروگے؟ لوگ ان باتوں کو سننے کے بعد شک و تردید میں پڑ گئے اور حسین بن علیؑ کے پاس گئے تاکہ ان کی بیعت کی جائے، لیکن آپ نے فرمایا: میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں جب تک میرے بھائی حسنؑ زندہ ہیں تم لوگوں سے بیعت نہ کروں۔ اس کے بعد لوگ دوبارہ حسن بن علیؑ کے پاس لوت آئے اور ان کی بیعت کی۔[103] طبری (متوفی 310ھ) کہتے ہیں: قیس بن سعد نے بیعت کرتے وقت یہ شرط رکھی کہ آپ کتاب خدا اور سنت پیغمبر پر عمل کریں گے اور ان لوگوں سے جنگ کریں گے جو مسلمانوں کا خون حلال سمجھتے ہیں۔ لیکن امام حسنؑ نے صرف کتاب خدا اور سنت رسول پر عمل پیرا ہونے کی شرط کو قبول کیا اور دوسری شرط کو پہلے شرط سے ماخوذ قرار دیا۔[104] اس طرح کے مختلف واقعات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ امام حسنؑ ایک صلح پسند اور جنگ‌ گریز شخصیت کے مالک تھے اور آپ کی سیرت اپنے والد گرامی اور بھائی امام حسینؑ سے مختلف تھی۔[105]

رسول جعفریان معتقد ہیں کہ ان شرائط کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حسن بن علیؑ ابتداء سے ہی جنگ کرنا نہیں چاہتا تھا بلکہ ان شرائظ کو ذکر کرنے کا اصلی مقصد اسلامی معاشرے کے رہبر اور پیشوا کے حق حاکمیت کو زندہ کرنا تھا تاکہ آئندہ پیش آنے والے مسائل میں آزادی کے ساتھ تصمیم گیری کر سکیں۔ اسے کے علاوہ خلافت پر فائز ہونے کے بعد اٹھائے گئے اقدامات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ آپ معاویہ کے ساتھ جتگ کرنے پر زیادہ مصر تھے۔[106] بعد احادیث میں آیا ہے کہ امام حسنؑ کے خلافت پر فائز ہونے کے بعد سب سے پہلا اقدام سپاہیوں کی تنخواہوں میں سو فیصد اضافہ تھا۔[107]

سانچہ:نقل قول سانچہ:نقل قول

معاویہ کے ساتھ جنگ اور صلح

امام حسنؑ کی زندگی کا سب سے اہم واقعہ معاویہ کے ساتھ جنگ تھا جو صلح پر اختتام پذیر ہوا۔[108] جب عراق کے مسلمانوں نے امام حسنؑ کی بیعت کی تو دوسرے اسلامی مناطق من جملہ حجاز، یمن اور فارس[109] والوں نے اس بیعت کی تائید اور حمایت کی لیکن شام والوں نے اسے قبول نہ کرتے ہوئے معاویہ کی بیعت کی۔[110] معاویہ شام والوں کی اس بیعت کو قانونی اور شرعی شکل دینے کا ارادہ رکھا تھا جسے وہ اپنی تقاریر اور امام حسنؑ کے ساتھ ہونے والے خط و کتابت میں برملا اظہار کرتا تھا۔[111] معاویہ جو عثمان کے قتل کے بعد خلافت کیلئے پر طول رہا تھا،[112] لشکر لے کر شام سے عراق کی طرف روانہ ہو گیا۔[113] تاریخی قرائن و شواہد کے مطابق امام حسنؑ نے اپنے والد کی شہادت اور عراق والوں کی آپ کے ہاتھ پر بعنوان خلیفہ بیعت کرنے کے 50 دن تک جنگ یا صلح کے حوالے سے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔[114] لیکن جب آپ کو معاویہ کے شام سے حرکت کرنے کی خبر دی گئی تو آپ بھی لشکر لے کر کوفہ سے راونہ ہو گیا اور عبیداللہ بن عباس کی سربراہی میں ہراول دستہ معاویہ کی طرف روانہ کیا۔[115]

دونوں فوجوں کے درمیان جنگ

دونوں فوجوں کے درمیان پہلی تصادم کے بعد جس میں معاویہ کے سپاہیوں کو شکست ہوئی، معاویہ نے رات کی تاریکی میں عبیداللہ کو یہ پیغام بھیجا کہ حسن بن علیؑ نے مجھے صلح کرنے کی پیشکش کی ہے جس کے نتیجے میں وہ خلافت میرے حوالے کرے گا۔ ساتھ ساتھ معاویہ نے عبیدالله کو ایک میلین درہم دینے کا بھی وعدہ دیا یوں عبیدالله معاویہ کے ساتھ مل گیا۔ اس کے بعد قیس بن سعد نے لشکر کی کمانڈ سنبھالی۔[116] بلاذری (متوفی 279ھ) کے مطابق عبیداللہ کے معاویہ کی طرف جانے کے بعد معاویہ اس خیال سے کہ اب امام حسنؑ کا لشکر کمزور ہ گیا ہے، ان پر بھر پور حملہ کرنے کا حکم دیا لیکن امام کے سپاہیوں نے قیس کی قیادت میں شامیوں کو شکست دیا۔ معاویہ نے قیس کو بھی عبیداللہ کی طرح لالچ دے کر اسے بھی راستے سے ہٹانا چاہا جس میں وہ کامیاب نہیں ہوا۔[117]

ساباط میں امام کی صورت حال

امام حسنؑ بعض سپاہیوں کے ساتھ ساباط تشریف لے گئے۔ شیخ مفید کے مطابق امام حسنؑ نے لوگوں کو آزمانے کیلئے ایک خطبہ دیا جس میں فرمایا: "میں تمہارے حق میں جدائی اور تفرقہ کی نسبت وحدت اور ہمدلی کو بہتر سمجھتا ہوں جسے تم لوگ پسند نہیں کرتے...؛ جو تدبیر میں نے تمہارے لئے سوچا ہے وہ اس تدبیر سے بہتر ہے جسے تم نے انتخاب کیا ہے..."

امام کے ان کلمات کے بعد لوگوں نے ایک دوسرے سے کہا پس حسن بن علیؑ معاویہ کے ساتھ صلح کرکے خلافت معاویہ کے حوالے کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اسی بہانے بعض لوگوں نے امام کے خیمے پر حملہ کیا اور اسے غارت کرنا شروع کیا یہاں تک کہ امامؑ کی جائے نماز تک کو بھی آپ کے پاؤں کے نیچے سے کھینچ کر لے گئے۔[118] لیکن یعقوبی (متوفی 292ھ) کے مطابق اس حادثے کی علت یہ تھی کہ معاویہ نے مذاکرات کیلئے چند لوگوں کو امام حسنؑ کے پاس بھیجا تھا۔ ان لوگوں نے جب امام کے پاس سے واپس آئے تو بلند آواز میں لوگوں تک آواز پہنچاتے ہوئے ایک دوسرے سے کہا: خدا نے فرزند رسول خدا کے توسط سے مسلمانوں کے خون کی حفاظت فرمایا اور فتنہ کو خاموش کیا اور حسن بن علیؑ نے صلح کو قبول کیا۔ جب باتیں امام کے سپاہیوں نے سنی تو وہ غصے میں آگئے اور امام کے خیمے پر حملہ آور ہوئے۔[119] اس واقعے کے بعد امامؑ کے اصحاب نے آپ کی حفاظت اپنے ذمے لئے لیکن رات کی تاریکی میں ایک خارجی[120] آپ کے قریب آیا اور کہا: اے حسن آپ مشرک ہو گئے ہو جس طرح آپ کے والد علی بن ابی طالب مشرک ہو گئے تھے؛ یہ کہہ کر اس نے ایک خنجر سے امام پر وار کیا جس سے امام کا ران زخمی ہوا اور آپ گھوڑے سے زمین پر گر پڑے۔[121] وہاں سے آپ کو مدائن لے جایا گیا جہاں پر آپ زخم ٹھیک ہونے تک سعد بن مسعود ثقفی کے گھر مقیم رہے۔[122]

معاویہ اور امام حسنؑ کے درمیان جنگ آخر کار صلح کی قرارداد پر طرفین کے دستخط کے اختتام پذیر ہوئی۔ رسول جعفریان کے مطابق لوگوں کی جنگ سے خستگی، زمانے کا تقاضا اور شیعوں کی حفاظت امام حسنؑ کو صلح قبول کرنے پر مجبور کیا۔[123] اس قرارداد کے مطابق خلافت معاویہ کے سپرد کیا گیا۔[124]

معاویہ سے صلح کا واقعہ

سانچہ:نقل قول شام اور عراق کے سپاہیوں کے درمیان ہونے والی جنگ کے ابتدائی مرحلے میں ہی امام حسنؑ مورد حملہ قرار پاکر زخمی ہوئے جس کی وجہ سے آپ کو مداوا کے لئے مدائن لے جایا گیا۔[125]مدائن میں امام حسنؑ کے معالجے کے دوران کوفہ کے بعض سرکردگان نے مخفیانہ طور پر معاویہ کو خط کے ذریعے حمایت اور اطاعت کا وعدہ دیا۔ انہوں نے معاویہ کو کوفہ آنے کی دعوت دی اور انہیں وعدہ دیا کہ حسن بن علیؑ کو قتل کر دیں گے یا ان کے حوالے کر دیں گے۔[126] شیخ مفید (متوفی 413ھ) کے مطابق جب امام حسنؑ کو کوفہ والوں کی غداری اور عبیدالله بن عباس کا معاویہ کے ساتھ مل جانے کی خبر ملی اور دوسری طرف سے اپنے سپاہیوں کی سستی اور کاہلی کا مشاہدہ کیا تو آپ کو یہ اندازہ ہوا کہ اہل شام اور معاویہ کے عظیم لشکر کے مقابلہ صرف آپ کے حقیقی پیروکاروں کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا جن کی تعداد دشمن کے مقابلے میں بہت تھوڑی تھی۔[127] زید بن وہب جہنی نقل کرتے ہیں کہ امام حسنؑ نے مدائن میں قیام کے دوران ان سے فرمایا: "خدا کی قسم اگر میں معاویہ کے ساتھ جنگ کروں تو یہ عراق والے میری گردن پکڑ کر مجھے معاویہ کے حوالے کر دے گا۔ خدا کی قسم اگر باعزت طریقے سے معاویہ کے ساتھ صلح کرنا معاویہ کے ہاتھوں اسیر ہو کر قتل ہونے یا میرے اوپر منت چڑا کر میرے قتل سے صرف نظر کرکے ہمیشہ کیلئے بنی ہاشم کو رسوا کرنے سے بہتر ہے۔"[128]

معاویہ کی جانب سے صلح کی پیشکش

یعقوبی کے مطابق معاویہ کی طرف سے جنگ کو صلح کے ذریعے خاتمہ دینے کیلئے مختلف حربے بروی کار لایا گیا ان میں سے ایک یہ تھا کہ ایک طرف سے اس نے اپنے جاسوسوں کو امام حسن کے سپاہیوں کے درمیان بھیج کر یہ شایع کرنا شروع کیا کہ قیس بن سعد بھی معاویہ کے ساتھ جا ملے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف سے اس نے اپنے بعض جاسوسوں کو قیس کے سپاہیوں کے درمیان بھیج کر یہ شایع کرنا شروع کیا کہ امام حسنؑ نے صلح کی پیشکش کو قبول کیا ہے۔[129] اسی طرح معاویہ نے کوفیوں کی جانب سے اپنی حمایت میں لکھے گئے خطوط کو امام حسنؑ کی طرف بھیجا اور آپؑ کو صلح کی پیشکش کی۔ شیخ مفید کے مطابق امام حسنؑ کو اگرچہ معاویہ پر اعتماد نہیں تھا اور آپ اس کی چالاکیوں سے بخوبی آگاہ تھے لیکن آپ کو صلح کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آیا۔[130] بعض تاریخی منابع میں آیا ہے کہ معاویہ نے سفید کاغذ پر مہر اور دستخط کر کے امام حسنؑ کی خدمت میں بھیجا تاکہ صلح کے شرائط امام اپنی مرضی کے مطابق تعیین کریں۔[131] امام حسنؑ نے درپیش صورتحال کا مشاہدہ کرنے کے بعد ایک خطبہ دیا جس میں آپ نے صلح اور جنگ کے حوالے سے لوگوں سے رائ طلب فرمایا۔ اس موقع پر سب نے "البقیة البقیة" کا نعرہ بلند کر کے صلح کی پیشکش کو قبول کرنے کی حامی بھر لی۔[132] یوں امام حسنؑ نے صلح کو قبول فرمایا جس کی تاریخ 25 ربیع‌الاول سنہ 41 ہجری قمری ہے۔[133] جبکہ بعض منابع میں ربیع الاخر یا جمادی الاولی[134] کی 25 تاریخ ذکر ہوئی ہے۔

صلح کے مندرجات

اس صلح نامے کے مندرجات کے بارے میں مختلف اقوال موجود ہیں۔[135] من جملہ وہ مواد یہ ہیں:

  1. خلافت معاویہ کے سپرد کی جائیگی بشرط اینکہ وہ قرآن و سنت اور خلفائے راشدین کی سیرت پر عمل پیرا ہو۔
  2. معاویہ اپنے بعد کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں کرے گا۔
  3. شیعیان حیدر کرار سمیت تمام لوگوں کو امن و امان اور سکون کی زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔[136]

شیخ صدوق کہتے ہیں کہ امام حسنؑ نے خلافت معاویہ کے حوالے کرتے وقت اس شرط پر اس کی بیعت فرمائی کہ اسے امیر المؤمنین کہہ کر نہ پکارا جائے۔[137]

بعض منابع میں آیا ہے کہ امام حسنؑ نے یہ شرط بھی رکھی تھی کہ معاویہ کے بعد خلافت خود امامؑ کی طرف منتقل ہوگی اس کے علاوہ معاویہ 5 میلین درہم امام حسنؑ کو دے گا۔[138] بعض محققین کا خیال ہے کہ ان دو شرطوں کو امام حسنؑ کے نمائندے نے اضافہ کیا تھا جسے امام حسنؑ نے قبول نہیں کیا اور ان دو شرطوں کے بارے میں فرمایا معاویہ کے بعد خلافت کا مسئلہ مسلمانوں کی باہمی مشورت حل و فصل ہو گا اور معاویہ کو بیت المال میں اس طرح کی تصرف کا بھی کوئی حق حاصل نہیں ہے۔[139] بعض مورخین کا خیال ہے کہ مال دینے کی شرط خود معاویہ یا اس کے نمائندے نے رکھی تھی[140]

خلافت سے ظاہری طور پر کنارہ کشی اختیار کرنے کے باوجود شیعیان حیدر کرار آپ کو امام مانتے تھے۔ یہاں تک کہ بعض شیعہ حضرات کو اس صلح پر اعتراض بھی تھا لیکن پھر بھی آپ کی امامت کے منکر نہیں تھے۔[141]

رد عمل اور اثرات

سانچہ:نقل قول

منابع میں آیا ہے کہ امام حسنؑ کی طرف سے صلح قبول کرنے پر آپ کے بعض پیروکاروں نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا[142] یہاں تک کہ بعض لوگوں نے اس کام پر آپ کی سرزنش بھی کی اور بعض نے آپ کو "مذلّ المؤمنین"(مؤمنین کو ذلیل و خوار کرنے والا) کہہ کر پکارنے لگا۔[143] امامؑ نے اس حوالے سے ہونے والے اعتراضات اور سوالات کا جواب دیتے ہوئے "امام" کی اطاعت کے ضروری ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صلح کے علل و اسباب کو بعینہ صلح حدیبیہ کے علل و اسباب بیان کرتے ہوئے اس کام کو حضرت خضر اور حضرت موسی کی داستان میں حضرت خضر کے کاموں کی طرح قرار دیا جہاں حضرت موسی ان کاموں کے فلسفے سے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کاموں پر اعتراض کرتے ہیں۔[144]

متعدد تاریخی منابع میں آیا ہے کہ معاویہ نے اس صلح کے مندرجات پر عمل نہیں کیا[145] اور حجر بن عدی سمیت بہت سارے شیعوں کو قتل کر ڈالا۔[146] تاریخ میں آیا ہے کہ معاویہ صلح کے بعد کوفہ چلا گیا اور لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا: میری طرف سے رکھے گئے تمام شرائط کو واپس لیتا ہوں اور جو وعدہ دیا تھا ان سب کی خلاف ورزی کرونگا۔[147] اسی طرح اس نے مزید کہا: میں نے تم لوگوں سے نماز، روزہ اور حج کی انجام دہی کی خاطر جنگ نہیں کیا بلکہ تم لوگوں پر حکومت کرنے کیلئے میں نے جنگ کی ہے۔[148]

مدینہ میں دینی مرجعیت

حسن بن علیؑ معاویہ کے ساتھ صلح کے بعد کوفہ کے بعض شیعوں کی طرف سے کوفہ میں رہنے کی درخواست کے باوجود مدینہ واپس تشریف لے گئے[149] اور اپنی زندگی کے آخری ایام تک مدینہ ہی میں مقیم رہے۔ اس دوران آپؑ نے صرف مکہ[150] اور شام[151] کا سفر کیا۔ کتاب الارشاد میں آیا ہے کہ امام حسن مجتبیؑ امام علیؑ کی شہادت کے بعد آپؑ کی وصیت سے مختلف امور من جملہ وقف اور صدقات کا متولی بھی تھے۔[152]

مرجعیت علمی

مدینے میں لوگوں کی ہدایت اور تعلیم و تربیت کی خاطر امام حسنؑ کی طرف سے برگزار ہونے والے علمی محافل کا تذکرہ مختلف منابع میں ملتا ہے۔ ابن سعد (متوفی 230ھ)، بلاذری (متوفی 279ھ) اور ابن عساکر (متوفی 571ھ) نقل کرتے ہیں کہ حسن بن علیؑ صبح کی نماز مسجد نبوی میں پڑھتے تھے جس کے بعد سورج نکلنے تک عبادت میں مشغول رہتے تھے اس کے بعد مسجد میں حاضر بزرگان آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر بحث و گفتگو کرتے تھے۔ ظہرین کی نماز کے بعد بھی آپ کی یہی روٹین ہوتی تھی۔[153] کتاب