عبد اللہ بن حسن مثنی

ویکی شیعہ سے
(عبداللہ محض سے رجوع مکرر)
عبداللہ محض
نامعبداللہ بن حسن مثنیٰ معروف بہ عبداللہ محض
وجہ شہرتاپنے بیٹے نفس زکیہ کو مہدی کا لقب دے کر بیعت لینا
شہادتسنہ 145 ھ
مدفننجف کے جنوب میں 70 کیلو میٹر کے فاصلے پر
سکونتمدینہ
مشہور اقاربامام حسنؑ (دادا)، امام حسینؑ (نانا) اور امام صادقؑ
مشہور امام زادے
حضرت عباس، حضرت زینب، حضرت معصومہ، علی اکبر، علی اصغر، عبد العظیم حسنی، احمد بن موسی، سید محمد، سیدہ نفیسہ


عبداللہ بن حسن مثنّیٰ، عبداللہ محض کے نام سے معروف امام حسن علیہ السلام کے پوتے اور امام حسین علیہ السلام کے نواسے ہیں۔ انہوں نے بنی امیہ کے آخری دور اور امام صادق علیہ السلام کے دور امامت میں اپنے بیٹے محمد کو مہدی کا لقب دیتے ہوئے ان کیلئے لوگوں سے بیعت طلب کی۔

عبداللہ محض کی اولاد میں محمد (نفس زکیہ) اور ابراہیم (قتیل باخمرا) نے بنی عباس کے خلاف قیام کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ ان کے بیٹے ادریس نے مراکش میں پہلی شیعہ حکومت کی بنیاد رکھی جو بعد میں حکومت ادریسیہ کے نام سے مشہور ہوئی۔

عبداللہ محض منصور دوانیقی کے دور میں اپنے بیٹے نفس زکیہ کے مخفی گاہ کا پتہ نہ بتانے کے جرم میں تین سال کیلئے جیل بھیج دیئے گئے اور وہیں پر انہیں قتل کر دیا گیا۔ ان کا مدفن عراق میں نجف اشرف سے 70 کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ انہیں عراق میں عبداللہ ابو نجم کے نام سے جانا جاتا ہے۔

زندگی نامہ

عبداللہ محض کے والد حسن مثنیٰ امام حسنؑ کے بیٹے اور ان کی والدہ فاطمہ بنت امام حسینؑ ہیں۔[1] عبداللہ محض کے نام سے مشہور ہونے کی وجہ بھی یہی ہے کہ ان کا نسب ماں اور باپ دونوں طرف سے رسول خداؐ تک پہنچتا ہے۔[2] ان سے یہ جملہ مشہور ہے کہ مجھے دو دفعہ پیغمبر اکرمؐ نے متولد کیا ہے۔[3]

عبداللہ بن حسن مثنی نوجوانی میں امام سجادؑ کے درس میں شرکت کرتے تھے۔[4] اس سلسلے میں وہ خود کہتے تھے میری والدہ فاطمہ بنت امام حسینؑ ہمیشہ مجھے میرے ماموں امام سجادؑ کے دروس میں شرکت کرنے کی سفارش کرتی تھیں اور ہر جلسے میں خدا کی نسبت میرے علم اور خوف میں اضافہ ہوتا تھا۔[5] ابو الفرج اصفہانی عبداللہ محض کو خاندان بنی‌ ہاشم کا بزرگ اور صاحب علم و فضل قرار دیتے ہوئے[6] کہتے ہیں کہ بنی امیہ کے آٹھویں حکمراں عمر بن عبدالعزیز کے یہاں بھی وہ خاص احترام کے حامل تھے۔[7]

عبداللہ بن حسن مثنی سنہ 145 ھ 75 سال کی عمر میں کوفہ کے ہاشمیہ قید خانے[8] یا دوسرے قول کی بنا پر بغداد میں قتل کئے گئے۔[9] سبط بن جوزی کے مطابق وہ عید قربان کے دن قتل ہوئے ہیں۔[10] اسی طرح ابو الفرج اصفہانی لکھتے ہیں کہ عبداللہ کو ان کے اوپر چھت گرا کر قتل کیا گیا۔[11]

آپ کا مدفن عراق کے صوبہ دیوانیہ کے شہر شنافیہ سے 9 کلومیٹر کے فاصلے پر مغرب میں جبکہ نجف سے 70 کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور یہاں پر آپ کا مزار عبداللہ ابو نجم کے نام سے معروف ہے۔[12] مصر کے شہر قاہرہ میں بھی عبداللہ محض کے نام سے ایک بارگاہ پائی جاتی ہے۔[13]

اولاد

عبداللہ بن حسن مثنی کے بہت سارے بیٹوں کے نام اور ان کی سوانح تاریخی منابع میں ذکر ہوئے ہے؛ من جملہ ان میں محمد جو نفس زکیہ کے نام سے مشہور تھے، نے مدینہ میں بنی عباس کے خلاف قیام کیا جس کے نتیجے میں وہ اپنے اکثر ساتھیوں سمیت قتل کر دیئے گئے۔[14] ابراہیم جو قتیل باخمرا کے نام سے جانے جاتے تھے، نے اپنے بھائی نفس زکیہ کے بعد بصرہ میں قیام کیا۔[15] ان کے اس قیام میں بعض مشہور فقہاء نے بھی شرکت کی اور ابو حنیفہ جسیے افراد نے بھی اس قیام کی حمایت کی،[16] لیکن آخر کار یہ قیام بھی اپنے نتیجہ تک نہیں پہنچا اور ابراہیم کوفہ کے نزدیک باخمرا نامی جگہ پر قتل کر دیئے گئے۔[17]

عبداللہ محض کے ایک اور بیٹے ادریس جو واقعہ فخ میں شریک تھے، مراکش چلے گئے اور وہاں پر شیعہ حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے جو تاریخ میں حکومت ادریسی کے نام سے مشہور ہے۔[18] ان کے بیٹے سلیمان واقعہ فخ میں شہید ہوئے۔[19] یحیی[20] قیام فخ میں شرکت کے بعد ایران فرار کر گئے اور وہاں سے مخفیانہ طور پر دیلم چلے گئے اور وہیں پر قیام پذیر ہوئے اور لوگوں کو اپنی امامت کی دعوت دینے لگے[21] یوں وہ اپنے اردگرد کچھ لوگوں کو جمع کرنے میں کامیاب ہو گئے لیکن آخر کار وہ بھی شکست سے دوچار ہوئے اور ہارون الرشید کے حکم سے انہیں جیل بھیج دیا گیا اور سنہ 176 ھ کو بغداد میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔[22]

نفس زکیہ کیلئے بیعت مانگنا

تاریخی شواہد کے مطابق عبداللہ بن حسن مثنی نے شروع میں بنی امیہ کے خلاف زید بن علی کے قیام میں کوئی دلچسپی نہیں لی اور قیام سے پہلے جب کوفہ میں زید بن علی سے ملے تو انہیں کوفہ والوں کے وعدوں پر زیادہ اعتماد نہ کرنے کی نصیحت بھی کی۔[23] اسی طرح سے منابع میں امیر المؤمنین حضرت علیؑ کے صدقات کے بارے میں عبداللہ محض اور زید بن علی کے درمیان اختلاف بھی ذکر ہوا ہے۔[24] لیکن زید بن علی کی شہادت کے بعد عبداللہ ان کے نظریات کی طرف متمایل ہوگئے اور اپنے بیٹوں کو بنی امیہ کے خلاف قیام کیلئے تیار کرنے لگے۔[25]

بنی امیہ کے دور حکومت کے اواخر میں جب بنی ہاشم ابواء نامی مقام پر اپنے درمیان کسی کی بیعت کرنے کیلئے جمع ہوئے تو عبداللہ محض نے اپنے بیٹے نفس زکیہ کو مہدی کے عنوان سے پیش کیا اور دوسروں کو ان کی بیعت کرنے کی دعوت دی[26] امام صادقؑ نے عبداللہ کے اس اقدام کی مخالفت کی جس سے عبداللہ سخت ناراض ہوئے۔[27] امام صادقؑ نے عبداللہ سے فرمایا مستقل میں خلافت پر سفاح اور اس کے بھائیوں اور بیٹوں کا قبضہ ہوگا نہ تمہارا اور تمہارے بیٹوں کا۔[28] مقاتل الطالبیین میں ذکر شدہ مطالب کے مطابق امام صادقؑ نے عبداللہ کو ان کے دو بیٹوں کے قتل کئے جانے کے بارے میں بھی آگاہ کیا تھا۔[29]

معاصر مورخ رسول جعفریان امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی اولاد میں اختلاف کی بنیاد، عبد اللہ محض کی طرف سے اپنے بیٹے محمد نفس زکیہ کو قائم آل محمد کے عنوان سے پیش کرنا قرار دیتے ہیں۔[30]

زندان بنی‌ عباس

عبداللہ محض کو منصور دوانیقی کے دور میں نفس زکیہ کے مخفی گاہ کا پتہ نہ بتانے کے جرم میں تین سال کیلئے جیل بھیج دیا گیا۔[31] بتایا جاتا ہے کہ سنہ 140 ھ میں حج کے موسم میں منصور دوانیقی کے ساتھ ان کی ملاقات ہوئی اور اپنے بیٹے نفس زکیہ کے مخفی گاہ سے متعلق معلومات دینے سے انکار کیا۔[32]

بنی عباس کا پہلا خلیفہ، ابو العباس سفاح اگرچہ عبداللہ محض کے بیٹے محمد کی جستجو میں تھا لیکن عبداللہ کے بیٹے کی مخفی گاہ بتانے سے انکار کے باوجود ان سے سختی سے پیش نہیں آتا تھا۔[33]

حوالہ جات

  1. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۳۹۴ق، ج۲، ص۱۹۸
  2. سجادی، «ابراہیم بن عبداللہ»، ج۲، ص۴۴۶۔
  3. وَلَّدَنی رَسولُ اللہِ مَرَّتَین (ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۰۸ق، ص۱۶۸)۔
  4. اربلی، کشف الغمۃ، ۱۴۲۷ق، ج۲، ص۸۴؛ قرشی، حیاۃ الامام زین العابدین، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۲۶۴۔
  5. اربلی، کشف الغمۃ، ۱۴۲۷ق، ج۲، ص۸۴؛ قرشی، حیاۃ الامام زین العابدین، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۲۶۴۔
  6. ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۰۸ق، ص۱۶۷۔
  7. ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۰۸ق، ص۱۷۰۔
  8. ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۰۸ق، ص۱۷۱۔
  9. صابری، تاریخ فرق اسلامی، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۷۰، بہ نقل از تاریخ بغداد، ج۹، ص۴۳۱-۴۳۳ و تاریخ الیعقوبی، ج۲، ص۳۶۰
  10. سبط بن الجوزي، تذكرۃ الخواص، ۱۴۱۸ق، ص۲۰۷۔
  11. ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۰۸ق، ص۲۰۲-۲۰۳۔
  12. «محافظ النجف الاشرف يزور مرقد (عبد اللہ ابو نجم) (رض) ويتابع مع سدنتہ مشاريع الاعمار والتاہيل»۔
  13. موقع "أخبارك"
  14. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۷، ص۵۹۰۔
  15. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۷، ص۶۲۲۔
  16. ذہبی، العبر، دار الکتب العلمیہ، ج۱، ص۱۵۵-۱۵۶۔
  17. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۳۷۸۔
  18. ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۰۸ق، ص۴۰۶-۴۰۸۔
  19. ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۰۸ق، ص۳۶۵۔
  20. ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۰۸ق، ص۳۸۸۔
  21. ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۰۸ق، ص۳۹۰-۴۳۳۔
  22. ابن‌ عنبہ، عمدۃ الطالب، ۱۳۸۳ش، ص۱۳۶-۱۳۷۔
  23. صابری، تاریخ فرق اسلامی، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۷۰، بہ نقل از ابن اثیر، الکامل، ج۵، ص۱۴۳۔
  24. بلاذری، أنساب‌الأشراف، ۱۳۹۴ق، ج۲، ص۱۹۹۔
  25. صابری، تاریخ فرق اسلامی، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۷۰۔
  26. ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۰۸ق، ص۱۸۵-۱۸۶۔
  27. ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۰۸ق، ص۱۸۵-۱۸۶۔
  28. ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۰۸ق، ص۱۸۵-۱۸۶۔
  29. ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۰۸ق، ص۱۸۵-۱۸۶۔
  30. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۸۷ش، ص۳۷۱۔
  31. ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۰۸ق، ص۱۹۲-۱۹۳؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۷، ص۵۲۴۔
  32. ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۰۸ق، ص۱۹۲-۱۹۳؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۷، ص۵۲۴۔
  33. ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۸، ص۹۰.

مآخذ

  • ابن عنبۃ، احمد بن علی، عمدۃ الطالب في أنساب آل أبي طالب، قم، انصاریان، ۱۳۸۳ش/۲۰۰۴م۔
  • ابو الفرج اصفہانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، شرح و تحقیق احمد صقر، بیروت، مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۹۸۷م/۱۴۰۸ق۔
  • اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ، نجف، مکتبہ الحیدریہ، ۱۴۲۷ق۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف (ج۲)، تحقیق: محمد باقر محمودی، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۴ق/۱۹۷۴م۔
  • جعفریان، رسول، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، قم، انتشارات انصاریان، چاپ یازدہم، ۱۳۸۷ش۔
  • ذہبی، شمس الدین محمد بن احمد، العبر فی خبر من غبر، تحقیق: ابو ہاجر محمد سعید بن بسیونی زغلول، بیروت، دار الکتب العلمیہ، بی‌تا۔
  • سبط بن الجوزى‏،‌ یوسف بن قزاوغلی، تذكرۃ الخواص‏، قم، منشورات الشريف الرضى‏، ۱۴۱۸ق۔
  • سجادی، صادق، مدخل ابراہیم بن عبداللہ در دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج۲، ص۴۴۶۔
  • صابری، حسین، تاریخ فرق اسلامی فرق شیعہ و فرقہ‌ہای منسوب بہ آن، تہران، سمت، چاپ پنجم، ۱۳۸۸ش۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، بیروت، دار التراث، چاپ دوم، ۱۳۸۷ق۔
  • قرشی، باقر شریف، حیاۃ الامام زین العابدین، بیروت، دارالاضواء، ۱۹۸۸م/۱۴۰۸ق۔
  • «محافظ النجف الاشرف يزور مرقد (عبد اللہ ابو نجم) (رض) ويتابع مع سدنتہ مشاريع الاعمار والتاہيل»، سایت خبرگزاری براثا، تاریخ درج مطلب: ۴ اکتبر ۲۰۰۸م، تاریخ بازدید: ۲ آذر ۱۳۹۷ش۔
  • یعقوبی، احمد بن ابی‌ یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، بی‌تا۔