فاطمہ بنت امام حسن

ویکی شیعہ سے
(فاطمہ بنت حسن بن علی سے رجوع مکرر)
فاطمہ بنت امام حسن
نامفاطمہ بنت حسن
وجہ شہرتزوجہ امام سجادؑ و مادر امام باقرؑ
کنیتام محمد، ام عبد اللہ، ام عبدہ
لقبصدیقہ
جائے پیدائشمدینہ
والدامام حسن مجتبی علیہ السلام
شریک حیاتامام زین العابدینؑ
اولادامام محمد باقرؑ
خدماتواقعہ عاشورا میں شریک
مشہور امام زادے
حضرت عباس، حضرت زینب، حضرت معصومہ، علی اکبر، علی اصغر، عبد العظیم حسنی، احمد بن موسی، سید محمد، سیدہ نفیسہ


فاطمہ بنت حسن بن علیؑ، امام حسن مجتبی علیہ السلام کی بیٹی، امام علی بن الحسین علیہ السلام کی زوجہ، امام محمد باقر علیہ السلام کی والدہ اور واقعہ کربلا میں اسیر ہونے والی خواتین میں سے ہیں۔

کنیت، القاب و منزلت

فاطمہ بنت حسن کی کنیت ام محمد،[1] ام عبد اللہ،[2] یا ام عبدہ[3] ہے اور ان کا لقب (حدیث کے مطابق) صدیقہ ہے۔[4] ایک روایت کے مطابق جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں کہ میں نے مصحف فاطمہ ؑ میں آئمہ طاہرین کی ماؤوں کے نام دیکھے۔ اس روایت میں ام عبد اللہ بنت حسن بن علی بن ابی طالب کو حضرت امام محمد باقر ؑ کی والدہ کہا گیا ہے۔[5]

حضرت امام محمد باقر کہتے ہیں: ایک مرتبہ ان کی والدہ نے اشارے کے ذریعے دیوار کو گرنے سے روک دیا۔[6]

شادی

امام صادقؑ اپنی دادی کے بارے میں فرماتے ہیں

كانَت صِدّيقةً لَم تُدرَك فى آلِ الحَسَنِ امرَأَةٌ مِثلُها.؛ ترجمہ: ام‌عبداللہ اتنی صادقہ اور نیک کردار کی مالکہ تھیں کہ امام حسنؑ کے خاندان میں آپ جیسی کوئی خاتون نہیں دیکھی گئی۔

علامہ مجلسی، بحارالانوار، ج۴۶، ص۲۱۵؛ کلینی، اصول کافی، ج۲، ص۴۴۶.

تاریخی مصادر میں ام عبد اللہ کی والدہ کا تذکرہ نہیں ہوا ہے نیز نہ ہی ان کی وفات و مقام دفن بیان ہوا ہے۔ امام سجاد سے ان سے شادی کے باعث ان کی اولاد کا سلسلہ نسب امام محمد باقر ؑ کے بعد والدہ کی طرف سے امام حسن اور والد کی طرف سے امام حسین ؑ تک پہنچتا ہے۔ اسی شادی کے باعث امام محمد باقر ؑ کو ہاشمیوں کے درمیان ہاشمی بین الہاشمیین، علوی بین العلویین یا فاطمی بین الفاطمیین کا لقب دیا گیا۔[7]

کربلا میں موجودگی

فاطمہ بنت حسن واقعۂ کربلا میں موجود تھیں اور خاندان عصمت کی دوسری خواتین کے ساتھ اسیر ہوئیں۔[8]

حوالہ جات

  1. تاریخ مدینہ دمشق، ج۷۰، ص۲۶۱
  2. بحار الانوار، ج۴۶، ص۲۱۵
  3. اعیان الشیعہ، ج۸، ص ۳۹۰
  4. اصول کافی، ج۲، ص۴۴۶
  5. بحار الانوار، ج۳۶، ص۱۹۴
  6. بحار الانوار، ج۴۶، ص۲۱۵؛ منتهی الامال ج۲، ص۱۷۳
  7. اعیان الشیعہ، ج۸، ص ۳۹۰ ؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۲۱۵ ؛ منتہی الامال ج۲، ص۱۷۳
  8. تاریخ مدینہ دمشق، ج۷۰، ص۲۶۱

مآخذ

  • ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینہ دمشق، تحقیق علی شیری، دار الفکر، بیروت.
  • امین، محسن، أعیان الشیعہ، تحقیق حسن امین، دار التعارف للمطبوعات، بیروت.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، ترجمہ حسن حسن زاده آملی، قائم آل محمد، قم، ۱۳۸۷ ش.
  • قمی، عباس، منتہی الآمال، موسسہ انتشارات هجرت، قم.
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار الجامعہ لدرر اخبار الائمہ الاطہار (ع)، تصحیح جمعی از نویسندگان، دار احیاء التراث العربی، بیروت.
  • مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفہ حجج الله علی العباد، تحقیق موسسہ آل البیت لاحیاء التراث، المؤتمر العالمی لالفیہ الشیخ المفید، قم، ۱۳۷۲ ش.