گلگت

ویکی شیعہ سے
(گیلگت سے رجوع مکرر)
گلگت
عمومی معلومات
ملکپاکستان
صوبہگلگت بلتستان
نامگلگت
زبانشینا
قومیتشِین، یَشکُن
ادیاناسلام
مذہبامامیہ، اسماعیلیہ، اہل سنت
مسلم آبادیسو فیصد
تاریخی خصوصیات
قدیمی نامسارگین، گری گرت
اہم واقعاتجنگ آزادی
اماکن
مساجدجامع مسجد گلگت
مشاہیر
مذہبیسید ضیا الدین رضوی


گِلگِت پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کا دارالحکومت اور صوبے کاسب سے بڑا شیعہ نشین شہر ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ گلگت میں دوسری صدی ہجری سے شیعہ حکمرانوں کی حکومت رہی۔ گلگت میں اکثریتی آبادی شیعوں کی ہے۔ شیعوں کے علاوہ اہل سنت اور اسماعیلیہ آبادی بھی گلگت میں بستی ہے۔

صوبے کے تین ڈویژن میں سے ایک گلگت ہے جس میں پانچ اضلاع شامل ہیں۔ گلگت میں شینا زبان بولی جاتی ہے۔ یکم نومبر 1947ء کو گلگت ڈوگرا راج سے آزاد ہوکر پاکستان سے ملحق ہوا۔ گلگت میں شیعوں کے خلاف متعدد واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں سانحہ 1988ء اور سانحہ چلاس شامل ہیں۔

تعارف

گلگت دریائے سندھ کے کنارے واقع صوبہ گلگت بلتستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ گلگت ڈویژن میں پانچ اضلاع گلگت، دیامر، غذر، نگر اور استور شامل ہیں۔ گلگت کے مشرق میں کارگل، جنوب مشرق میں بلتستان، مغرب میں صوبہ خیبرپختونخواہ کا علاقہ چترال، شمال میں چین اور شمال مغرب میں افغانستان واقع ہیں۔[1] گلگت کا پرانا نام «سارگین» تھا۔ «سار» کے معنی جھیل اور «گن» سے مراد راستہ ہے۔[2] قدیم دور میں اسے «گری گرت» بھی کہا جاتا تھا۔[3] «گری» کا مطلب ہرن، اور «گرت» کا مطلب ناچنا ہے۔ یعنی ہرن ناچنے کی جگہ، اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی دور میں یہاں پر ہرنوں کی رفت و آمد زیادہ تھی۔[4] سنہ 2017ء کی مردم شماری کے مطابق گلگت کی آبادی 2 لاکھ 90 ہزار ہے[5] جس میں ضلع گلگت کے علاوہ نگر ہنزہ اور دیگر علاقے شامل نہیں ہیں۔[6] گلگت سطح سمندر سے 1463 میٹر اونچا ہے۔ دنیا کے تین عظیم پہاڑی سلسلے ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کا سنگم بھی گلگت میں واقع ہے۔[7] ضلع گلگت میں شیعہ، سنی اور اسماعیلیہ بستے ہیں جبکہ شیعہ نشین علاقوں میں دنیور، جلال آباد، اوشکھنداس اور بگروٹ جیسے علاقے شامل ہیں اور ضلع نگر کی پوری آبادی شیعہ ہے۔ ضلع غذر، استور اور ہنزہ میں بھی کم و بیش شیعہ رہتے ہیں۔ضلع دیامر میں اہل سنت بستے ہیں۔[حوالہ درکار]


شیعیت کی آمد

برصغیر میں شیعیت کا آغاز 36 [8]  یا 38 ہجری بیان کیا گیا ہے۔[9]دانشنامہ جہان اسلام کے مطابق گلگت میں پہلی شیعہ حکومت 958ھ میں ناصرالدین محمد غازی خان نے قائم کیا جو دسویں صدی کے آخر تک قائم رہی۔[10] جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ سنہ 725ء بمطابق سنہ 105ھ کو سید شاہ افضل نامی عالم دین تبلیغ کی غرض سے بدخشان سے گلگت آیا[11] اوران کی تبلیغ کے نتیجے میں اس وقت کا حاکم «راجہ سو ملک اول» مسلمان ہوگیا۔[12] سید شاہ افضل کی قبر کشمیری بازار گلگت کے عقب میں دریا کی طرف موجود ہے۔[13]

مصر میں فاطمیوں کی حکومت آنے کے بعد ان کے دربار کا مقرب، پیر ناصر خسرو علوی نے 444ھ میں بدخشان آکر اسماعیلیہ مذہب پھیلایا۔ بدخشان کے راجہ شاہ تاج مغل نے اسماعیلیہ مذہب کی ترویج کے لئے گلگت پر حملہ کیا اور کنجوت ہنزہ میں اسماعلیہ مذہب پہنچایا۔[14] سنہ 1525ء میں «شاہ بریا ولی» نے گلگت اور اس کے اطراف میں مکتب اہلبیت کی ترویج کی۔[15] «سید سلطان علی شاہ حسینی عارف جلالی» 1689ء میں کشمیر کے راستے سے گلگت آئے اور تعلیمات اہل بیت کی ترویج کی۔ آپ دنیور گلگت میں مدفون ہیں اور اب بھی لوگ زیارت پر آتے ہیں۔[16]

1802ء میں سید شاہ ولی تقوی بن سید شاہ زمان تقوی گلگت آئے اور کنجوت، نگر اور دیگر علاقوں میں مکتب اہل بیت کو پھیلایا۔ آپ غلمت نگر نمبر2 میں دفن ہیں۔[17] 1905 میں سید سلام شاہ المعروف پنجابی سید نے شیعہ مکتب کی ترویج کے لئے کام کیا۔[18] گلگت میں باقاعدہ طریقے سے محرم الحرام میں عاشورا کا جلوس سنہ 1951ء میں بلتستان کے بعض فوجیوں نے نکالا۔[19]

شیعہ حکمران

گلگت میں سنہ 723ء سے 1848ء تک شیعہ حکمرانوں کی حکومت رہی ہے۔ پہلا مسلمان اور شیعہ حاکم راجہ سوملک اولی بن راجہ کرک بن آذر جمشید کیانی تھے جس نے گلگت اور اس کی ریاستوں پر 70 سال حکومت کی۔ آذر جمشید کیانی ایران کا ایک آوارہ وطن شاہزادہ تھا جو 642ء میں کشمیر سے ہوتا ہوا دنیور آیا۔جہاں شاہزادی نوربخت سے شادی ہوتی ہے۔ اور 643ء میں آذرجمشیدی نے رعایا کو بادشاہ کے ظلم سے نجات دینے کے لئے اسکو قتل کیا اور 643ء میں وہ خود تخت نشین ہوگیا۔ یوں گلگت میں بدھ ازم کا خاتمہ ہوگیا اور آتش پرستوں کا دور حکومت کا آغاز ہوا۔ اب بھی گلگت کے بعض علاقوں میں آتش پرستی کے بعض رسومات پائے جاتے ہیں۔[20] آذر جمشید نے 16 سال حکومت کی۔ پہاڑی علاقوں سے تنگ آکر گلگت سے روپوش ہوگیا اور اس کا کمسن شاہزادہ کرک تخت نشین ہوا اور 55 سال تک حکومت کی اور 80 سال کی عمر میں وفات پاگیا۔[21]

راجہ سوملک (حکومت:723-793ء) کا دور عدل و انصاف کا دور تھا۔[22]ان کے دور میں پہلا مبلغ اسلام سید شاہ افضل کی تبلیغ کے اثر سے بادشاہ مسلمان ہوگیا۔ ان کے بعد اس کا بیٹا شاہ ملک کیانی حاکم بنا جو 122 سال کی عمر میں 793 میں وفات پاگیا اور قلعہ فردوسیہ میں دفن ہوا۔ دوسرا شیعہ بادشاہ راجہ شاہ ملک کیانی المعروف گلیت ملیکا بنا جس نے 793 تا 878 تک حکومت کی۔[23] انکے بعد راجہ دینگ ملک کیانی (حکومت:878-932ء)، راجہ خسروخان کیانی (حکومت:932-997ء)، راجہ حیدرخان کیانی (حکومت:997-1075ء) راجہ نورخان کیانی (حکومت:1075-1127ء) راجہ شاہ مرزہ خان اول کیانی (حکومت:1127-1205ء)، راجہ طرطرہ خان کیانی(حکومت:1205-1236ء)، راجہ طرہ خان اول بن راجہ طرطرہ خان کیانی (حکومت:1241-1275ء) راجہ سوملک دوم بن راجہ طرہ خان کیانی (حکومت:1275-1345ء)، راجہ چلس خان کیانی (حکومت:1345-1395ء)، راجہ شاہ فردوس علی خان کیانی طرہ خانی (حکومت:1395-1397ء)، راجہ خسروخان کیانی دوم (حکومت:1397-1422ء)، راجہ ملک شاہ (حکومت:1422-1449ء)، راجہ طرہ خان دوم کیانی (حکومت:1449-1479ء)، راجہ چلس خان دوم بن راجہ طرہ خان دوم (حکومت:1479-1497ء)، راجہ سو ملک سوم بن راجہ چلس خان دوم کیانی (حکومت:1497-1522ء)، راجہ شاریس خان دوم، (حکومت:1522-1561ء)، راجہ صاحب قرآن طرہ خان کیانی (حکومت:1561-1567ء)، راجہ سلطان مرزہ (حکومت:1567-1600ء)، راجہ علی شیرخان طرہ خان کیانی (حکومت:1600-1632ء)، راجہ خاقان مرزہ (حکومت:1632-1635ء)، ملکہ جوار خاتون طرہ خان کیانی (ددی جواری) (حکومت:1642-1667ء) نیز (1689-1705ء)، راجہ شاہ جی خان کیانی (حکومت:1670-1689ء ) ، راجہ شاہ غوری تھم خان طرہ خان کیانی (حکومت:1705-1800ء)، راجہ محمد خان کیانی (حکومت:1802-1824ء)، راجہ طاہر شاہ مغلوٹ کیانی (حکومت:1828-1836ء)، راجہ کریم خان مغلوٹ کیانی (حکومت:1841-1844ء)، راجہ محمد خان ثانی کیانی(حکومت: 1844-1848ء) شہزادہ علیداد خان مغلوٹ کیانی (حکومت:1848-1879ء) شیعہ بادشاہ گزرے۔[24]

ڈوگروں کی حکمرانی

راجہ علیداد خان کے دور میں برطانوی مداخلتیں شروع ہوئیں اور ان کا بڑا بیٹا شہزادہ حسین علی کیانی کو گلگت کی راجگی ملی۔ مہاراجہ کشمیر کی نمایندہ حکومت اور تاج برطانیہ کی طرف سے مقرر کردہ پولیٹیکل ایجنٹ کی وجہ سے اب راجوں کی حکومت جاگیرداری تک محدود ہوگئی اور علاقے میں 1846ء سے ڈوگروں کی حکومت کے آثار نمودار ہوئے جو سنہ 1948ء تک رہے۔ گلگت کا علاقہ سکھوں نے 1841 میں فتح کیا اور ریاست جموں کشمیر کا حصہ بنادیا۔ مقامی حکمران «غور رحمان» جس کا تعلق یاسین سے تھا، نے دوبارہ گلگت کو اپنےقبضے میں لےلیا اور مہاراجہ رنبیر سنگھ نے 1862ء میں گلگت اور 1863ء کو یاسین پر قبضہ کیا۔[25] ڈوگرے[یادداشت 1] 88 سال تک گلگت پر قابض رہے۔[26] البتہ گلگت کے علاوہ دیگر ریاستوں پر مقامی راجاؤں کی حکومت رہی۔[27] سکردو، ہنزہ نگر، پونیال، اشکومن، گوپس اور یا سین، داریل تنگیر اور بلتستان میں سب کے سب مقامی راجے تھے۔[28] 1860ء میں جب ڈوگرہ کی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے گلگت بلتستان کو کشمیر کا علاقہ قرار دیا۔ البتہ 1879ء میں پہلی برطانوی ایجنسی قائم کی گئی اور ڈوگروں اور انگریزوں میں اقتدار بدلتی رہی۔

پاکستان کی خودمختاری کے بعد

پاکستان کی آزادی کے ایک سال بعد سنہ 1948ء میں کرنل حسن خان، راجہ بابر خان مغلوٹ کیانی اور احسان علی خان وزیر نے ڈوگرہ افواج کے خلاف تحریک چلاکر ایک بار پھر سے علاقے کو آزاد کرایا۔[29] پاکستان سے نظریاتی قربت کی بناء پر پاکستان سے الحاق کیا اور پورا علاقہ پاکستان کے زیرِ انتظام آگیا۔

سنہ 1999ء میں گلگت بلتستان کے آئینی مسئلے سے متعلق پاکستان کی اعلی عدلیہ نے ایک جامع فیصلہ دیا۔ اس فیصلے کے مطابق یہاں کی عوام کو حقِ حکمرانی اور آزاد عدلیہ کے قیام کا آئینی حق حاصل ہے۔[30]

زبان اور ادب

گلگت اکثر علاقوں میں شینا زبان بولی جاتی ہے جو سنسکرت زبان کی ایک شاخ ہے۔[31] یہ زبان ہندوستان میں کارگل، دراس اور لداخ میں بھی بولی جاتی ہے۔[32] گلگت کے ضلع غذر میں کھوار زبان، ہنزہ، نگر نیز غذر اور گلگت کے بعض علاقوں میں بروشسکی اسی طرح غذر اور ہنزہ کے بالائی علاقوں میں وخی زبان بولی جاتی ہے۔[33]

شیعہ شخصیات

  • کرنل حسن خان: آپ 28 فروری 1919ء کو گلگت میں پیدا ہوئے اور گلگت بلتستان کی آزادی میں بڑا کردار ادا کیا۔ کشمیر فورس میں آپ کرنل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 1944ء کو برما کے محاذ پر دوسری جنگ عظیم لڑی۔ آپ کی قیادت میں ڈوگروں سے آزادی ملی۔ آپ 19 نومبر 1983ء کو وفات پاگئے۔[34]
  • سید ابوالقاسم خوانساری: آپ ایران کے شہر خوانسار میں متولد ہوئے۔ آپ ریاضی میں ماہر تھے۔ آپ سید ابوالحسن اصفہانی کے کہنے پر تبلیغ کیلئے گلگت آئے اور سنہ 1380ھ میں وفات پاگئے اور گلگت میں مدفون ہیں۔[35]
  • سید ضیاالدین رضوی:آپ 1960ء کو گلگت میں پیدا ہوئے۔ گلگت جامع مسجد کے امام جمعہ اور گلگت میں شیعوں کے مذہبی سربراہ رہ چکے ہیں۔ پاکستان کے سکول اور کالجز کے نصاب کی مختلف کتابوں میں شیعوں کے لئے غیر قابل قبول مواد کو حذف کرنے کی تحریک چلائی اور کئی بار اسی سلسلے میں جیل گئے۔ آپ 9 جنوری 2005ء کو اپنے گھر سے نماز ظہر پڑھانے کیلئے مسجد کی طرف جاتے ہوئے نامعلوم افراد کے حملے میں زخمی ہوئے اور 13 جنوری 2005ء کو شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔
گلگت شیعہ جامع مسجد

سانحات

گلگت میں فرقہ واریت اور انتہاپسندی کے واقعات وقتا فوقتا رونما ہوتے رہے ہیں۔[36] اور گلگت کے سابقہ امام جمعہ سید ضیاء الدین رضوی سمیت مختلف افراد انہی فسادات کی نذر ہوچکے ہیں۔ ان حادثات میں سے بعض درج ذیل ہیں۔

سانحہ 1988ء

17 مئی 1988ء کو گلگت شہر میں فرقہ وارانہ دہشتگردی کا ایک واقعہ اس وقت پیش آیا جب وہاں کے شیعوں نے اہل سنت سے ایک دن پہلے عیدالفطر منایا۔ اس واقعے میں پاکستان کے قبائلی علاقے، افغانستان مہاجرین اور ہزاروں مقامی وہابیوں نے گلگت پر حملہ کیا۔ 17 سے 26 مئی 1988ء تک گلگت میں قتل و غارتگری ہوتی رہی، کئی گاوں کو غارت کیا گیا۔60 سے زائد شیعہ شہید اور متعدد افراد زخمی ہوئے۔ لاشوں کی بےحرمتی کی گئی۔ 1200 سے زائد گھر، 40 مساجد اور کئی امام بارگاہوں کو آگ لگا دی گئی۔ عالم بریج سے یہ حملہ آور گروہ دو حصوں میں بٹ گیا ایک بلتستان کی طرف اور دوسرا گلگت کی طرف روانہ ہوا۔ گلگت کے علاقے شوت نالہ، بٹکور، جلال آباد، بونجی، سٹی جگلوٹ، شیر قلعہ، ہوپر شکیوٹ، سکوار اور مناور کے شیعہ اکثریتی علاقے مکمل تاراج ہوئے لیکن سب سے زیادہ جلال آباد متاثر ہوا جہاں سے 50 سے زائد افراد شہید کئے گئے، 1230 گھر، 24 مساجد اور 4 امام بارگاہ جلائے گئے اور 2000 سے زائد قرآن مجید کے نسخے نذر آتش کئے گئے۔[37]

سانحہ چلاس

3 اپریل سنہ 2012ء کو راولپنڈی سے گلگت بلتستان جانے والی بسیں چلاس کے گونر فارم پہنچیں،[38] ایک عینی شاہد کے مطابق گونر فارم میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ جمع تھے جنہوں نے بسوں کو روکا اور مسافروں کو گاڑیوں سے اتار کر ان کا شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد جب شیعہ ہونے کا یقین ہوا تو ان میں سے بعض پر فائرنگ اور بعض پر پتھراؤ کیا گیا اور بعض بسوں کو بھی آگ لگادی۔[39] جس کے نتیجے میں کئی لوگ شہید ہوئے۔ سرکاری اعلان کے مطابق اس سانحے میں 12 شیعہ شہید ہوئے۔[40] مسافروں کو قتل کرتے ہوئے شیعہ کافر کے نعروں کے ساتھ تشدد کرتے تھے۔[41] عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ شہدا کی تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی۔[42] اس واقعے کی ذمہ داری لشکر جھنگوی نے قبول کیا تھا۔[43]

سانحہ کوہستان

28 فروری 2012ء کو صوبہ خیبرپختونخواہ کے ضلع کوہستان میں ہربن داس کے مقام پر راولپنڈی سے گلگت جانے والی بسوں کو شاہراہ قراقرم پر روک دیا گیا اور شناختی کارڈ دیکھنے پر جس کا شیعہ ہونا یقینی ہوگیا اس کو شہید کیا گیا۔ اس واقعے کو سانحہ کوہستان کہا جاتا ہے۔[44] اس واقعے میں 19 شیعہ مسافر شہید ہوئے۔[45] اس سانحے کے نتیجے میں کئی دنوں تک گلگت بلتستان میں احتجاج ہوا۔[46]

سانحہ لولوسر

16 اگست 2012ء کو راولپنڈی سے استور اور گلگت جانے والی تین بسوں کو صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاقہ «ناران» میں روک دیاگیا۔ مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کر کے شیعہ ہونے کا یقین ہونے کے بعد 25 مسافروں کو قطار میں کھڑا کرکے فائرنگ کر کے شہید کردیا گیا۔ چونکہ یہ حادثہ لولوسر ٹاپ کے قریب پیش آیا تھا اس لئے اسے سانحہ لولوسر کہا جاتا ہے۔ حملہ آور پاکستانی کمانڈوز کی وردیوں میں ملبوس تھے اور انہوں نے کلاشنکوف سے فائرنگ کی۔ شہید ہونے والوں میں ایک پولیس اہلکار بھی شامل تھا۔[47]

متعلقہ مضامین

نوٹ

  1. ڈوگرہ راج ایک ہندو خاندان ہے جس نے 1839 سے جموں کشمیر پر حکمرانی کی اور 1952ء میں ختم ہوگئے۔

حوالہ جات

  1. سبوخ سید، شمالی علاقہ جات کا گیٹ وے گلگت، کی تباہی کا ذمہ دار کون، آئی بی سی اردو۔
  2. بلقیس بانو،شمیم بلتستانی شخصیت اور فن،2014 ء، ص220
  3. بلقیس بانو،شمیم بلتستانی شخصیت اور فن،2014 ء، ص220
  4. بلقیس بانو،شمیم بلتستانی شخصیت اور فن،2014 ء، ص220
  5. Gilgit Baltistan
  6. Gilgit Baltistan
  7. سبوخ سید، شمالی علاقہ جات کا گیٹ وے گلگت، کی تباہی کا ذمہ دار کون، آئی بی سی اردو۔
  8. خلیفہ بن خیاط عصفری، تاریخ خلیفہ بن خیاط ص139 سنہ 36 ہجری کے واقعات کا آخر۔
  9. بلاذری، فتوح البلدان، ج 3 صص، 531،530 فتوح السند کے ذیل میں دیکھیں۔ذہبی، تاریخ الاسلام بشار ج2 ص331۔ عاملی، اعیان الشیعہ، ج4 صص374/375
  10. دانشنامہ جہان اسلام، بنیاد دائرۃ المعارف اسلامی، ج 1 ص 4406۔
  11. انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص34۔
  12. انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص34۔
  13. انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص35۔
  14. انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص34۔
  15. انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص135۔
  16. انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص34۔
  17. انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص34۔
  18. انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص136۔
  19. انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص172۔
  20. انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص43
  21. انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص۴۳
  22. انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص43
  23. انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص47
  24. انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص39-119۔
  25. کشمیر ڈوگرہ راج ۱۳، مکالمہ ویب سائٹ۔
  26. جاوید احمد، گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ نہیں ہے، ہم سب ویب سائٹ
  27. جاوید احمد، گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ نہیں ہے، ہم سب ویب سائٹ
  28. جاوید احمد، گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ نہیں ہے، ہم سب ویب سائٹ
  29. انجم، شیعیت گلگت میں، ص43-119
  30. ڈاکٹر جابر حسین، گلگت بلتستان کا احساس محرومی، ایک روزن ویب سائٹ۔
  31. غلام الدین، کیا گلگت بلتستان کی مقامی زبانیں معدوم ہو رہی ہیں؟، انڈپنڈنٹ اردو
  32. غلام الدین، کیا گلگت بلتستان کی مقامی زبانیں معدوم ہو رہی ہیں؟، انڈپنڈنٹ اردو
  33. غلام الدین، کیا گلگت بلتستان کی مقامی زبانیں معدوم ہو رہی ہیں؟، انڈپنڈنٹ اردو
  34. انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص 119-125
  35. آقابزرگ طهرانی، طبقات، نقبا، قسم۱، ص۶۴، قسم۲، ص۶۴۵؛ موسوی اصفهانی، ج۲، ص۲۶؛ موسوی خوانساری، مقدمۀ روضاتی، ص۱۹۱.
  36. رابعہ رحمن، خطہ گلگت بلتستان، نوائے وقت۔
  37. لیاقت تمنائی، سانحہ 1988ء گلگت، ناقابل فراموش سانحہ کے 31 سال ابلاغ سائٹ۔
  38. سانحہ چیلاس پاکستان از زبان یک شاہد عینی، اسلام ٹائمز.
  39. سانحہ چیلاس پاکستان از زبان یک شاہد عینی، اسلام ٹائمز۔
  40. سانحہ چلاس، بسوں سے شناختی کارڈ دیکھ کر اتارکر شہید کیئےجانےوالوں کی آج 9ویں برسی منائی جارہی ہے، شیعیت نیوز ایجنسی۔
  41. سانحہ چیلاس پاکستان از زبان یک شاہد عینی، اسلام ٹائمز،
  42. سانحہ چیلاس پاکستان از زبان یک شاہد عینی، اسلام ٹائمز۔
  43. سانحہ چیلاس پاکستان از زبان یک شاہد عینی، اسلام ٹائمز۔
  44. 28 فروری 2012 سانحہ کوہستان، پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن، شیعیت نیوز
  45. سانحہ چلاس، ظلم کی داستان، اسلام ٹائمز۔
  46. https://www.islamtimes.org/ur/news/780645/28-فروری-گلگت-بلتستان-کی-تاریخ-کا-سیاہ-دن-جب-Ø 28 فروری گلگت بلتستان کی تاریخ کا سیاہ دن، جب شاہراہ قراقرم پر 25 شیعہ مسافرین کو شہید کر دیئے گئے]، اسلام ٹائمز۔
  47. سانحہ لولوسر کے 2 سال مکمل، قاتل ابتک گرفتار نہ ہو سکے، اسلام ٹائمز۔

مآخذ