اربعین پیدل مارچ

ویکی شیعہ سے
(پیادہ روی اربعین سے رجوع مکرر)
اربعین پیدل مارچ
اربعین پیدل مارچ
سن 1970 عیسوی میں پیادہ روی اربعین کی ایک نایاب تصویر
سن 1970 عیسوی میں پیادہ روی اربعین کی ایک نایاب تصویر
معلومات
مکانعراق کے تمام شہروں من جملہ نجف سے کربلا کے راستے میں
جغرافیائی حدودعراق اور اس کے ہمسایہ ممالک
ادعیہزیارت اربعین
اشعارمرثیہ خوانی‌ اور نوحہ خوانی
اہم مذہبی تہواریں
سینہ‌زنی، زنجیرزنی، اعتکاف، شب بیداری، تشییع جنازہ،
متفرق رسومات


اربعین پیدل سفر کا ایک منظر

اربعین پیدل مارچ شیعہ مذہبی رسومات میں سے ایک ہے جو ہر سال عراق کے مختلف شہروں سے شروع ہو کر 20 صفر کو کربلائے معلی میں روضہ امام حسین علیہ السلام پر زیارت اربعین کی قرائت کے ساتھ اختتام پذیر ہوتا ہے۔ اس سفر کو عام طور پر پیدل طے کیا جاتا ہے۔ اس سفر میں زائرین کی خدمت اور پذیرائی کے لئے جگہ جگہ کیمپ لگائے جاتے ہیں جنہیں موکب کہا جاتا ہے۔

عراق میں صدام کی حکومت کے دوران اربعین مارچ کو محدود کرنے کی مختلف کوششیں ہوئی لیکن سنہ 2003ء میں صدام کی سرنگونی کے بعد یہ مراسم پہلے سے بھی بہتر اور منظم انداز میں منعقد ہو رہے ہیں اور ہر سال عراق کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک خاص کر ایران سے ان مراسم میں شرکت کرنے کے لئے لاکھوں لوگ عراق کا سفر کرتے ہیں۔ موصولہ رپورٹوں کے مطابق شیعوں کے علاوہ اہل‌ سنت، عیسائی، ایزدی اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی ان مراسم میں شرکت کرتے ہیں۔

ان آخری برسوں میں اربعین پیدل سفر میں شرکت کرنے والوں کی تعداد کروڑوں میں پہنچ گئی ہے یہاں تک کہ یہ مراسم دنیا میں منعقد ہونے والا سب سے عظیم مذہبی اجتماع میں بدل گئے ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق 2013ء میں ڈیڑھ کروڑ اور 2014ء میں دو کروڑ لوگوں نے شرکت کی۔

زیارت اربعین کی سفارش

امام حسن عسکریؑ فرماتے ہیں

مؤمن کی پانج نشانیاں ہیں:

شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، 1407ق، ج6، ص52

امام حسن عسکریؑ سے مروی حدیث میں زیارت اربعین کو مؤمن کی پانچ علاماتوں میں سے ایک قرار دی گئی ہے۔[1] اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام سے بھی اس دن کی مخصوص زیارت منقول ہے۔[2] شیخ عباس قمی نے اس زیارت کو مفاتیح الجنان کے تیسرے باب میں غیر معروف زیارت عاشورا کے بعد زیارت اربعین کے عنوان کے تحت نقل کیا ہے۔[3]

اربعین کیلئے نجف سے کربلا کی طرف پیدل چلنے کا راستہ

تاریخچہ

بعض محققین کی تحقیق کے مطابق ائمہ اطہارؑ کے زمانے سے ہی شیعوں کے درمیان امام حسین کے چہلم کے موقع پر زیارت کیلئے جانا رائج تھا یہاں تک کہ بنی امیہ اور بنی عباس کے زمانے میں بھی وہ اس سفر پر جانے کے پابند تھے۔ اس اعتبار سے تاریخی طور پر یہ سفر شیعوں کی سیرت مستمرہ میں سے ہے۔ [4]

شیخ انصاری (متوفی 1281ھ) کے بعد یہ سنت فراموشی کا شکار ہوئی لیکن محدث نوری نے اسے دوبارہ زندہ کیا۔[5]1927 عیسوی میں چھپنے والی کتاب ادب الطف (سال 1388ق/1967م) میں اربعین کے مراسم کا تذکرہ کرتے ہوئے اس اجتماع کو مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کے اجتماع سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اسی طرح اس کتاب میں یہ بھی درج ہے کہ اربعین حسینی کے موقع پر ترکی، عربی اور اردو زبان میں مرثیے اور نوحے پڑھے جاتے تھے۔ کتاب کے مصنف کے اندازے کے مطابق اس وقت عزاداروں کی تعداد 10 لاکھ کے قریب تھی۔[6]

صدام کا زیارتی سفر پر پابندی

چودہویں صدی ہجری کے اواخر میں بعثی حکومت نے اربعین کے زیارتی سفر پر پابندی لگاتے ہوئے کبھی کبھار زائرین کے ساتھ پر تشدد کاروائی کرتے تھے۔ اس وجہ سے ان کے دور حکومت میں اربعین کے زیارتی سفر میں کچھ کمی آ گئی اسے کے مقابلے میں آیت‌اللہ سید محمد صدر نے کربلا سفر کرنے کو واجب قرار دیا۔[7]

انتفاضہ اربعین

بعثی حکومت نے ہر قسم کے مذہبی مراسم کو محدود کیا اور کربلا کی طرف پیدل سفر کرنے اور موکب لگانے پر پابندی لگا دی۔[8] لیکن اس کے باوجود نجف کے مکینوں نے 15 صفر 1398 ہجری بمطابق 1977ء کو اربعین پیدل سفر کے لئے تیار ہو گئے۔[9] 30 ہزار افراد پر مشتمل ایک کاروان نے کربلا کی طرف حرکت کی۔ بعثی حکومت نے اس کاروان کو روکنے کیلئے شروع سے ان کے خلاف کروائی کرنا شروع کیا جس کے نتیجے میں کئی لوگ شہید ہو گئے یہاں تک کہ نجف سے کربلا جانے والے راستے میں فوج نے بھی زائرین پر حملہ کیا اور ہزاروں لوگوں کو گرفتار کیا۔[10] ان حملوں میں بعض شہید ہوئے بعض کو پھانسی دی گئی اور بعض کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔[حوالہ درکار]


سید محمد باقر صدر اور سید محمد باقر حکیم نے اس تحریک میں نمایاں کردار ادا کئے۔[11] امام خمینی نے بھی اس عوامی تحریک کی حمایت کی۔[12]

شرکاء کی تعداد میں اضافہ

2003 عیسوی میں صدام کی حکومت کے خاتمے کے بعد عراق میں اربعین کے زیارتی سفر میں ایک بار پھر رونق آگئی اور ہر سال ان مراسم میں شرکت کرنے والوں کی تعداد میں گذشتہ سال کی نسبت اضافہ ہونا شروع ہوا۔[13] ابتدائی سالوں میں ان مراسم میں شرکت کرنے والوں کی تعد 2 سے 3 ملین ہوتی تھی لیکن بعد والے سالوں میں یہ تعداد بڑھ کر 10 ملین (1 کڑور) سے تجاوز کر گئی[14] یہاں تک کہ ان اواخر میں اس اجتماع کو دنیا کا سب سے بڑا مذہبی اجتماع قرار دیا جاتا ہے۔[15]

عراقی حکومت کی اطلاع کے مطابق 1435 ہجری قمری میں 13 ملین (1 کروڑ 3 لاکھ) حسینی زائرین عراق پہنچے ہیں اور انہوں نے کربلا کی طرف اپنے سفر کا آغاز کیا ہے تا کہ اربعین حسینی میں اپنی شرکت یقینی بنا کر امام حسین کے حرم میں پہنچیں۔[16]

حرم حضرت عباس کے منتظمین نے سنہ 2016ء میں اعلان کیا کہ اربعین سے پہلے 13 دنوں یعنی 7 صفر سے 20 صفر کے درمیان گیارہ ملین دو لاکھ سے بھے زیاده زائرین کربلا میں داخل ہوگئے ہیں۔[17] اسی طرح سنہ 2018ء میں حرم امام حسین کے منتظمین نے اعلان کیا کہ اربعین سے دس دن پہلے یعنی 10 صفر سے 20 صفر کے درمیان 11 ملین 8 لاکھ سے زیادہ زائرین کربلا کے اصلی راستوں سے کربلا میں داخل ہو گئے ہیں۔ جو لوگ فرعی راستوں سے کربلا میں داخل ہوئے تھے یا جو کربلا کے مرکز یعنی حرم سے 3 کیلو میٹر کے فاصلے تک پہنچے بغیر واپس چلے گئے ہوں وہ اس اعداد و شمار میں شامل نہیں ہیں۔[18]

زائرین کی تعداد کے بارے میں ان کے علاوہ بھی متعدد اعداد و شمار مختلف سایٹوں اور نیوز چینلوں سے منتشر ہوئے ہیں؛ ان میں سے بعض رپورٹوں میں ان مراسم میں 15 ملین زائرین کی شرکت کی خبر دی گئی ہیں۔[19] جبکہ بعض دیگر رپورٹوں میں یہ تعداد 20 ملین بتائی گئی ہے.[20]

تسنیم خبر رساں ایجنسی کے مطابق 2019ء میں دس ہزار سے زیادہ موکب لگائے گئے۔ یہ تعداد رسمی طور سے امام حسین اور حضرت عباس علیہما السلام کے روضہ پر باقاعدہ رجسٹرڈ ہے۔ اس کے باوجود عراق کے رسمی عہدیداران موکبوں کی واقعی تعداد کو بیان کرنے سے اظہار عاجزی کرتے ہیں کیونکہ یہ موکب پورے عراق کی راستوں میں کربلا کی طرف جانے والی سڑکوں پر سینکڑوں کلومیٹر تک پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔ اور کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ممکن ہے تمام موکبوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہو۔ غیررسمی اعداد و شمار کے مطابق اس سال دو کروڑ دس لاکھ لوگوں نے ان مراسم میں شرکت کی جن میں سے تقریبا ایک کروڑ ستر لاکھ خود عراقی تھے۔ عراق کے باہر سے آنے والے غیر عراقیوں کی تعداد تقریبا چالیس لاکھ تھی جو دنیا کے ستر ممالک سے آئے تھے۔

عراق کے غیر مقامی زائرین کی شرکت

عراق کے وزارت داخلہ کے اعلان کے مطابق سنہ 2013ء کو کم از کم 1 ملین 3 لاکھ غیر مقامی زائرین نے اربعین کے زیارتی سفر میں شرکت کی ہیں۔[21] عراقی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2018ء کو یہ تعداد 1 ملین 8 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔[22]

مسافت

اربعین کیلئے عراق کے مختلف شہروں سے کربلا کی طرف پیدل جانے کے راستے

اربعین حسینی کے اکثر عراقی زائرین اپنے شہروں سے کربلا کی طرف پیدل اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں لیکن ایران اور دیگر ممالک کے اکثر زائرین اپنے سفر کیلئے نجف سے کربلا کے راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔ ان دو شہروں کے درمیان 80 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ دونوں شہروں کے درمیان سڑک پر نصب کھمبوں کی تعداد 1452 ہے۔ ہر کیلومیٹر کے درمیان 20 کھمبے نصب ہیں جن میں سے ہر دو کھمبوں کا درمیانی فاصلہ 50 میٹر ہے۔ پیدل چلنے والوں کو یہ تمام فاصلہ طے کرنے کیلئے 20 سے 25 گھنٹے درکار ہیں۔اس سفر کو طے کرنے کیلئے بہترین زمان 16 صفر ہے۔[23]

آداب و رسومات

ہوسہ خوانی:

ہوسہ جنوب عراق کے مخصوص عربی قصائد کو کہا جاتا ہے۔ یہ اشعار بہادری اور شجاعت کے بیان گر ہیں کہ جنہیں نہایت مشکل اور سخت کاموں کے انجام دینے کی خاطر انسانوں میں جوش و ولولہ پیدا کرنے کیلئے پڑھا جاتا ہے۔ حاضرین میں سے ایک شخص کے ایک شعر پڑھنے کے بعد حاضرین اسے تکرار کرتے ہیں اور پھر حلقے کی صورت میں آگے بڑھتے جاتے ہیں۔ ہوسہ خوانی ایک رائج سنت ہے جسے اربعین کے ایام میں عراقی زائرین کربلا جاتے ہوئے انجام دیتے ہیں۔[24]

اربعین کی مذہبی رسومات کا آغاز:

یہ سنتی اور قدیم اربعین کی عزاداری 20 صفر سے 5 دن پہلے زائرین امام حسین کے عزاداری کے مخصوص رائج رسوم ادا کرنے والے قافلوں کے کربلا پہنچنے سے شروع ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد ماتمی اور زنجیر زنی کے دستے کربلا پہنچتے ہیں اور اربعین کی اصلی عزاداری کی رسومات ظہر کے دو گھنٹے بعد شروع ہوتی ہیں۔ تمام زائرین حرم امام حسین علیہ السلام میں داخل ہونے والے دروازے کے پاس کھڑے ہو کر سینوں پر ماتم کرتے ہیں، مرثیہ گو امام حسین ؑ کا مرثیہ پڑھتے ہیں اور اسکی تکرار کرتے ہیں اور آخر میں تمام عزاداران حسین ہاتھ اٹھا کر اپنے مولا کی خدمت میں سلام و تہیت عرض کرتے ہیں۔[25]

زائرین کی مہمان نوازی:

دریائے فرات کے اطراف میں بسنے والے قبائل امام حسین کے اربعین کے ایام میں پیدل چلنے والوں کے راستوں میں چادروں کے بڑے بڑے خیمے نصب کرتے ہیں جنہیں موکب یا مضیف کہا جاتا ہے۔ان خیام میں زائرین کی مہمان نوازی اور استراحت کا بندوبست ہوتا ہے۔[26] قبائل اور مذہبی اجتماعات میں بہت زیادہ موکب لگائے جاتے ہیں۔ یہ تمام موکب کسی قسم کی حکومتی مدد اور تعاون کے بغیر مکمل طور پر لوگوں کی اپنی مدد کے تحت لگائے جاتے ہیں۔ان میں زائرین کو ہر طرح کے امکانات جیسے کھانا پینا رہائش وغیرہ کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔[27]

ایران سمیت دوسرے ممالک سے بھی لاکھوں افراد اسی مقصد سے کربلا پہنچتے ہیں۔

حوالہ جات

  1. شیخ طوسی، تہذیب الاحکام،‌ 1407ق، ج6، ص52
  2. شیخ طوسی، تہذیب الاحکام،‌ 1407ق، ج6، ص113
  3. مفاتیح الجنان، زیارت اریعین، باب زیارات، ص642۔
  4. قاضی طباطبائی، تحقیق درباره اول اربعین سید الشہدا، 1368ش، ص2
  5. «زندگینامہ میرزا حسین نوری»، ناشر : پایگاه اطلاع رسانی معاونت فرہنگی و تبلیغی دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیہ قم مورخ (8/فروردین/1395)
  6. شبر، ادب الطف و شعراء الحسین، ج1، ص41
  7. مظاہری، فرہنگ سوگ شیعی، 1395ش، ص102۔
  8. المؤمن، سنوات الجمر، 2004م، ص165۔
  9. الأسدی، موجز تاریخ العراق السیاسی الحدیث، 2001م، ص101۔
  10. ویلی،‌ نہضت اسلامی شیعیان عراق،‌ 1373ش، ص81۔
  11. المؤمن، سنوات الجمر، 2004م، ص169۔
  12. المؤمن، سنوات الجمر، 2004م، ص170۔
  13. مظاہری، فرہنگ سوگ شیعی، 1395 ش، ص 102۔
  14. «اربعین، شکوه بیعتی مجدد با امام حسین»، منتشر شده در «خبرگزاری تسنیم» مورخ (29/آذر/1392).
  15. گزارش روزنامہ فرانسوی لوموند از مراسم اربعین در کربلا
  16. اربعین میں غیر عراقی زائرین کی تعداد فردا سائٹ : (2/دی/1392).
  17. سايت رسمی آستانہ حضرت عباس
  18. سایت رسمی آستانہ امام حسین (ع)
  19. «15 میلیون شیعہ در حال رسیدن بہ کربلا».
  20. «اجتماع 20 میلیونی اربعین حسینی دنیا را متحول خواہد کرد»۔
  21. «تعداد زائر غیرعراقی در اربعین»۔
  22. مرکز مطالعات و تحقیقات کربلا
  23. «چرا پیاده‌روی اربعین ثواب دارد»،‌ ایسنا میں نشر کی تاریخ : (17/آذر/1393)
  24. فرہنگ زیارت، ص146
  25. فرہنگ زیارت، ص147
  26. فرہنگ زیارت، ص 163
  27. مظاهری، فرهنگ سوگ شیعی، 1395 ش، ص 100.


مآخذ

  • «15 میلیون شیعہ در حال رسیدن بہ کربلا»، سایت فردا، تاریخ درج مطلب: 2 دی 1392ش، تاریخ بازدید: 24 مہر 1397ش۔
  • «اجتماع 20 میلیونی اربعین حسینی دنیا را متحول خواہد کرد»، خبرگزاری ایلنا، تاریخ درج مطلب: 15 آبان 1393ش، تاریخ بازدید: 24 مہر 1397ش۔
  • اباذری، عبدالرحیم، «پیادہ‌روی اربعین حسینی در سیرہ و سخن بزرگان»، در مجلہ فرہنگ زیارت، سال پنجم، شمارہ 19 و 20، تابستان و پاییز 1393ش۔
  • «اربعین، شکوہ بیعتی مجدد با امام حسین»، خبرگزاری تسنیم، تاریخ درج مطلب: 29 آذر 1392ش، تاریخ بازدید: 24 مہر 1397ش۔
  • الأسدی، مختار، موجز تاریخ العراق السیاسی الحدیث، مرکز الشہیدین الصدرین للدراسات و البحوث، 2001ء۔
  • المؤمن، علی، سنوات الجمر، بیروت، المرکز الاسلامی المعاصر، 2004ء۔
  • «تعداد زائر غیرعراقی در اربعین»، خبرگزاری فردا، تاریخ درج مطلب: 2 دی 1392ش، تاریخ بازدید: 24 مہر 1397ش۔
  • «جمعیت زائران کربلا در اربعین حسینی امسال از مرز 27 میلیون نفر گذشت»، سایت سازمان حج و زیارت، تاریخ درج مطلب: 12 آذر 1394ش، تاریخ بازدید: 24 مہر 1397ش۔
  • «چرا پیادہروی اربعین ثواب دارد»، خبرگزاری ایسنا، تاریخ درج مطلب: 17 آذر 1393ش، تاریخ بازدید: 24 مہر 1397ش۔
  • «زندگینامہ میرزا حسین نوری»، سایت بلاغ، تاریخ درج مطلب: 8 فروردین 1395ش، تاریخ بازدید: 24 مہر 1397ش۔
  • شبر، سید جواد، ادب الطف و شعراء الحسین(ع)،بیروت، دار المرتضی۔
  • شیخ طوسی، محمد بن الحسن، تہذیب الاحکام، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1407 ق۔
  • قاضی طباطبایی، سید محمدعلی، تحقیق دربارہ اول اربعین حضرت سیدالشہدا(ع)، قم، بنیاد علمی و فرہنگی شیہد آیت اللہ قاضی طباطبایی، 1368ش۔
  • قمی، عباس، مفاتیح الجنان۔
  • مظاہری، محسن حسام، فرہنگ سوگ شیعی، تہران، نشر خیمہ، 1395ش۔
  • ویلی، جویس ان، نہضت اسلامی شیعیان عراق، ترجمہ مہوش غلامی، موسسہ اطلاعات، 1373ش۔