ناحیۂ مقدسہ

ویکی شیعہ سے

ناحیہ مقدسہ کا مطلب مقدس سمت یا مکان ہے لیکن یہ شیعوں کے ہاں ایک اصطلاح اور رمزی لفظ ہے جسے تیسری صدی ہجری کے پہلے نصف صدی سے غیبت صغری کے آخر تک امامین عسکریین اور امام مہدی یا نواب اربعہ کی طرف اشارہ کرنے کے لیے اسے استعمال کرتے تھے۔ان تینوں اماموں کی اکثر توقیعات (وہ خطوط جنہیں امام نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے) میں امام کی طرف اشارہ کرنے کے لیے یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔امام حسینؑ کی دو زیارتیں بھی اسی نام سے ہیں۔

مفہوم‌ شناسی

ناحیہ مقدسہ، مقدس سمت یا مکان کو کہا جاتا ہے۔[1]یہ اصطلاح تیسری صدی ہجرى کے پہلے نصف صدی، جو کہ امام علی النقیؑ کی امامت کا دور ہے، سے غیبت صغری کے آخر(۳۲۹ھ) تک شیعوں کے لیے سیاسی اور سماجی سخت حالات اور بنی عباس کے خلفاء کی طرف سے امامین عسکریین کے سماجی روابط پر کنٹرول اور محدویت کے پیش نظر ایجاد کی گئی اور شیعہ اسے استعمال کرنے لگے۔امام ہادیؑ، امام حسن عسکریؑ اور امام مہدی(عج) سے کوئی مطلب نقل کرنے یا ان کے بارے میں گفتگو کرنے کے لیے شیعہ اس اصطلاح کو استعمال کرتے تھے؛[2]اسی لئے اس اصطلاح کو امام مہدی یا نواب اربعہ کے لیے استعمال کرنے کی وجہ کو تقیہ قرار دیا ہے۔[3]
اور غیبت صغری میں یہ اصطلاح امام مہدی کے القاب میں سے ایک لقب کے عنوان سے استعمال ہونے لگی۔[4] ابوالحسن اربلی ناحیہ مقدسہ کے لفظ کو شیعوں کے درمیان ایک رمز سمجھتے ہیں جس سے بارھواں امام کو پہچانتے تھے۔[5]

توقیعات

ناحیہ مقدسہ کا لفظ ان لوگوں کے کلمات میں استعمال ہوا ہے جنہوں نے امامین عسکریین اور امام مہدی کو خط لکھا ہے اور اس خط کا انہیں جواب (توقیع) ملا ہے۔[6]شیعہ احادیث کی کتابوں میں بعض توقیعات نقل ہوئی ہیں جنہیں «ناحیہ مقدسہ» کو لکھی گئی ہیں یا ناحیہ مقدسہ سے خط ملا ہے۔[7] علامہ مجلسی نے توقیعات ناحیہ مقدسہ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں امام زمانہ کی طرف سے شیعوں کو لکھی گئی توقیعات جمع کیا ہے۔

زیارات

امام حسینؑ کے زیارت ناموں میں سے دو زیارتیں بھی ناحیہ مقدسہ کے نام سے ملتی ہیں جو زیارت ناحیہ مقدسہ مشہورہ اور دوسری غیرمشہور کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ مشہور زیارت‌ نامہ، نواب اربعہ میں سے ایک نے امام زمان (عج) سے روایت کی ہے جو متعدد کتابوں میں ذکر ہوئی ہے انہی کتابوں میں سے المزار شیخ مفید، المزار الکبیر ابن مشہدی اور بحارالانوار بھی ہیں۔ اور زیارت ناحیہ مقدسہ غیرمعروفہ، زیارت الشہدا سے پہچانی جاتی ہے؛ کیونکہ اس زیارت میں امام حسینؑ کے یار و انصار کے نام ذکر ہوئے ہیں اور یہ زیارت بحارالانوار اور اقبال الاعمال میں نقل ہوئی ہے۔

حوالہ جات

  1. دہخدا، لغت نامہ، ۱۳۷۷ش، ذیل واژہ ناحیة.
  2. دانشنامہ امام حسین(ع)، ج۱۲، ص۲۷۱
  3. محدث نوری، نجم ثاقب، ۱۳۸۴ش، ج۱، ص۱۶۷.
  4. طریحی، مجمع البحرین، ۱۴۱۶ق، ج۱، ص۴۱۰.
  5. اربلی، کشف الغمة، ۱۳۸۱ق، ج ۲، ص ۵۱۹.
  6. صدوق، کمال الدین و تمام النعمة، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۵۲۰؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۹۳، ص ۱۸۴؛ ج۱۰۰، ص ۸۲.
  7. طوسی، مصباح المجتہد، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۸۰۳؛ طبرسی، الاحتجاج، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۴۹۲، ۴۹۵؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۲، ص۹۲.

مآخذ

  • اربلی، علی بن عیسی، كشف الغمۃ في معرفۃ الأئمۃ، مصحح ہاشم رسولى محلاتى، ‏تبریز، بنی ہاشمی، ۱۳۸۱ھ۔
  • دہخدا، علی اکبر، لغت نامہ، تہران، انتشارات دانشگاہ تہران، ۱۳۷۷ہجری شمسی۔
  • طبرسى، احمد بن على‏، الإحتجاج على أہل اللجاج‏، مصحح محمد باقر خرسان، مشہد، نشر مرتضی، ۱۴۰۳ھ۔
  • طریحی، فخرالدین، مجمع البحرین، تہران، كتابفروشى مرتضوى‌، ۱۴۱۶ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجّد و سلاح المتعبّد، بیروت، مؤسسۃ فقہ الشيعۃ، ۱۴۱۱ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی، كمال الدين و تمام النعمۃ، مصحح على اكبر غفارى، تہران، اسلامیہ، ۱۳۹۵ھ۔
  • نوری، حسین بن محمدتقی، نجم ثاقب، قم، انتشارات مسجد مقدس جمکران، ۱۳۸۴ہجری شمسی۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، دار إحياء التراث العربی، ۱۴۰۳ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، توقیعات ناحیہ مقدسہ، بمبئی، میرزا محمدملک الکتاب، ۱ھ۔
  • محمدی ری‌شہری، محمد، دانشنامہ امام حسین علیہ السلام، قم، انتشارات دارالحدیث، ۱۳۸۸ہجری شمسی۔