مُنذِر بن جارود (متوفی 62ھ)، اصطخر میں حضرت علی علیہ السلام کے کارگزار تھے۔ منذر جنگ جمل اور صفین میں حضرت علیؑ ؑ کی سپاہ میں تھے۔ آپ نے انہیں ان کے والد جارود کے مقام و مرتبہ کی بنیاد پر اصطخر کا کارگزار بنایا لیکن کچھ دنوں بعد ان کی دنیا داری کی وجہ سے انہیں معزول کردیا۔ اسی طرح انہوں نے بصرہ کے عمائدین کے لئے امام حسین علیہ السلام کے خط اور قاصد کو ابن زیاد کے سپرد کر دیا تھا۔ وہ قیام مختار میں غیر جانبدار رہے۔ کچھ دنوں تک وہ ہندوستان میں بنی امیہ کے گورنر بھی تھے۔

منذر بن جارود
کوائف
مشہور اقاربصعصعہ بن صوحان
مقام سکونتکوفہ، ہندوستان
وفاتسنہ 62 ہجری
اصحابحضرت علی ؑ

زندگی نامہ

منذر بن جارود بن عمرو بن حبیش العبدی، حیات رسول اکرمؐ میں پیدا ہوئے۔ وہ قبیلہ عبد القیس اور صعصعہ ابن صوحان کے رشتہ داروں میں سے تھے۔[1]

حکومت امام علی میں وہ آپ کے اصحاب میں سے تھے لیکن عمر کے آخری حصے میں بنی امیہ کی طرف جھک گئے اور عبیداللہ بن زیاد کی طرف سے منصوب ہوکر یزید بن معاویہ کے کارگزار کے عنوان سے ہندوستان کے علاقے میں حکومت کی۔[2] اور پھر 62ھ میں وہیں مرگئے۔[3]

حضرت علیؑ کی خلافت کا دور

منذر نے جنگ جمل اور جنگ صفین کو موقع پر حضرت علی ؑ کی رکاب میں جنگ کی۔ جنگ جمل کے بعد منذر نے آخر الزمان کے بارے میں امیر المؤمنین سے سوال کیا اور امام نے انھیں اور دیگر اصحاب کو تفصیل سے جواب دیا۔[4]

جنگ صفین کے موقع پر انھوں نے لوگوں کو جنگ میں شرکت کرنے کے لئے جوش دلانے میں مثبت کردار ادا کیا۔[5] اور حکمیت کے مسئلہ میں بھی تقریر کرکے زبان سے وفاداری کا اعلان کیا۔[6]

منذر بن جارود، جنگ صفین کے بعد فارس کے علاقے اصطخر میں ایک کارگزار کے طور پر منصوب ہوئے؛ لیکن ان کی دنیا داری اور عیاشی کی خبریں ملنے کے بعد حضرت علی ؑ نے ان کے والد کے سبب ان پر اعتماد کرنے کو بیان کیا اور ان کی غلطی کی یاد دہانی کے ساتھ ان کو ان کے منصب سے معزول کردیا۔[7] کوفہ پلٹنے کے بعد منذر کو قید ہوگئی اور صعصعہ بن صوحان کی سفارش اور تیس ہزار درہم جرمانہ دے کر زندان سے آزاد ہوئے۔[8] کچھ لوگوں کے مطابق وہ خوارج کے ہم رائے تھے۔[9]

امام حسین ؑ کی دعوت کا جواب

منذر بن جارود قیام امام حسین ؑ کے وقت، بصرہ کے بزرگان میں سے تھے۔[10] امام حسین ؑ نے بصرہ کے بزرگوں منجملہ منذر کو خط لکھ کر ان کو ساتھ ہونے کی دعوت دی تھی۔ منذر نے امام حسین ؑ کے قاصد (سلیمان بن رزین) کو عبید اللہ بن زیاد کے حوالے کر دیا۔[11] سلیمان بن رزین کے ساتھ اس سلوک کی وجہ کے سلسلہ میں دو نظریہ پائے جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ منذر نے یہ سمجھا کہ وہ خط عبیداللہ بن زیاد (33ھ-67ھ) کی طرف سے ہے لہذا اس عمل کا ارتکاب کیا۔[12] لیکن کچھ دوسرے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ کام ابن زیاد سے ہم نوائی کی وجہ سے تھا، اور اس ہمنوائی کی وجہ یہ تھی کہ منذر کی بیٹی ابن زیاد کی زوجہ تھی۔[13]

قیام مختار میں بے طرفی

مصعب بن زبیر سے مختار ثقفی کی جنگ میں مصعب کی جنگ کو منذر نے مسترد کر دیا اور کچھ لوگوں کے ساتھ کرمان کی طرف راہ فرار اختیار کرلی اور غیر جانبداری اختیار کی۔ انھوں نے اس شہر میں لوگوں کو عبدالملک مروان کی بیعت کی دعوت دی۔[14]

حوالہ جات

  1. ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ھ، ج۲، ص۴۸۸۔
  2. بلاذری، فتوح البلدان، ۱۹۸۸م، ج۱، ص۴۱۸۔
  3. ابن سعد، الطبقات الكبری، بیروت، ج۶، ص۸۳
  4. ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ص۴۸۸۔
  5. ابن أَعْثَم، الفتوح، ۱۴۱۱ھ، ج۳، ص۹۰۔
  6. ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ھ، ج۴، ص۲۰۳۔
  7. زرکلی، الاعلام، ۱۹۸۹م، ج۷، ص۲۹۲
  8. ثقفی، الغارات، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۱۹۷؛ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی،‌ دار صادر، ج۲، ص۲۰۴۔
  9. الزرکلی، الاعلام، ۱۹۸۹م، ج۷، ص۲۹۲۔
  10. دینوری، الأخبار الطوال، ۱۹۶۰م، ج۱، ص۲۳۲۔
  11. دینوری، الأخبار الطوال، ۱۹۶۰م، ج۱، ص۲۳۱۔
  12. ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ھ، ج۵، ص۳۷۔
  13. مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)، ج۱۱، ص۳۸۴۔
  14. دینوری، الأخبار الطوال، ۱۹۶۰م، ج۱، ص۳۰۵۔

مآخذ

  • ابن اعثم، محمد بن علی، الفتوح، تحقیق: علی شیری، بیروت، دارالاضواء، ۱۴۱۱ھ۔
  • ابن سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق: محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیہ، بے تا۔
  • ثقفی، ابراہیم، الغارات، تلخیص و ترجمہ: عبدالمحمد آیتی، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، ۱۳۷۴ہجری شمسی۔
  • دینوری، الأخبار الطوال، تحقیق: عبدالمنعم عامر، قاہرہ، احیاء الکتب العربی، ۱۹۶۰ء۔
  • زرکلی، خیرالدین، الاعلام، بیروت، دارالعلم، ۱۹۸۹ء۔
  • مکارم شیرازی، ناصر و دیگران، پیام امام امیرالمؤمنین(ع) تفسیر نہج البلاغہ، قم، مدرسہ الامام علی بن ابیطالب علیہ‌السلام، ۱۳۸۶ہجری شمسی۔
  • یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، بے ‎تا۔