مسودہ:سورہ حدید آیت 25
![]() | |
| آیت کی خصوصیات | |
|---|---|
| سورہ | حدید |
| آیت نمبر | 25 |
| پارہ | 27 |
| محل نزول | مدینہ |
| موضوع | اعتقادی |
| مضمون | فلاسفہ بعثتِ انبیاء |
| مرتبط موضوعات | لوگوں کا انبیاء کے ساتھ طریقہ برتاؤ کا امتحان |
سورہ حدید کی آیت 25 بعثتِ انبیاء کے بنیادی فلسفے کو بیان کرتی ہے۔ اس آیت کے مطابق، اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو معجزات، آسمانی کتابوں اور میزان کے ساتھ اس لیے مبعوث کیا تاکہ لوگ معاشرے میں عدل و انصاف قائم کریں۔
مفسرین کے نزدیک میزان سے مراد انسان کے اعمال کو جانچنے کا آلہ ہے اور بعض شیعہ روایات میں اسے امام معصومؑ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔
یہ آیت مسلمانوں کی اس کمزوری کے رد عمل میں نازل ہوئی جو انہوں نے جہاد کے لیے مال خرچ کرنے کے سلسلے میں دکھائی۔ اس میں عدل و انصاف قائم کرنے کی ذمہ داری ادا کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ یہاں سماجی عدل مراد ہے یا انفرادی عدل؟ اس کے بارے میں مفسرین کے مابین مختلف آراء پائی جاتی ہیں؛ کچھ مفسرین اسے صرف سماجی عدل تک محدود سمجھتے ہیں، جبکہ بعض دیگر مفسرین اس میں انفرادی عدل کو بھی شامل کرتے ہیں۔
عدل کا قیام بعثتِ انبیاء کا بنیادی مقصد
سورہ حدید کی آیت 25 بعثتِ انبیا کا بنیادی مقصد یہ بیان کرتی ہے کہ معاشرے میں عدل و انصاف تمام لوگوں کی عملی شمولیت کے ساتھ قائم کیا جائے۔[1] اسی آیت میں اس مقصد کے حصول کے لئے وسائل و اسباب کا بھی ذکرملتا ہے۔[2] اسی کے ساتھ اللہ نے خود کو طاقتور اور بے نیاز قرار دیا ہے تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے وہ لوگوں کا محتاج نہیں ہے۔[3]
آیت اور اس کا ترجمہ
لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ ۚ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ ﴿٢٥﴾[؟–؟]
یقیناً ہم نے اپنے رسولوں(ع) کو کھلی ہوئی دلیلوں (معجزوں) کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ عدل و انصاف پر قائم ہوں اور ہم نے لوہا نازل کیا (پیدا کیا) جس میں بڑی قوت ہے (اور شدید ہیبت ہے) اور لوگوں کے لئے فائدے بھی ہیں تاکہ اللہ دیکھے کہ کون دیکھے بغیر اس کی اور اس کے رسولوں(ع) کی کون مدد کرتا ہے؟ بےشک اللہ بڑا طاقتور (اور) زبردست ہے۔
سورہ حدید:25
شان نزول
تفسیر المیزان کے مصنف علامہ طباطبائی کے مطابق، اس آیت سے پہلے والی آیات مسلمانوں کی دینی ذمہ داریوں میں سستی، خصوصاً جہاد کے سلسلے میں انفاق میں کوتاہی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سنگدلی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ اسی پس منظر میں یہ آیت نازل ہوئی، تاکہ یہ واضح کیا جائے کہ تشریع دین اور بعثت انبیاء کا اصل مقصد عدل کا قیام ہے۔[4] البتہ تفسیر نمونہ میں اس آیت کا شان نزول یوں بیان ہوا ہے: چونکہ اس آیت سے پچھلی آیات میں رحمتِ الٰہی، مغفرت اور بہشت کی طرف سبقت لینے کا ذکر تھا، لہذا اس آیت کے ذریعے یہ بتایا گیا ہے کہ ان چیزوں کے حصول کا عملی طریقہ کیا ہے۔[5]
امتحانِ الٰہی بعثت انبیاء کا ایک اور مقصد
سورہ حدید کی آیت نمبر 25 واضح کرتی ہے کہ بعثت انبیاء کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ خدا اپنے اور انبیاء کے حقیقی پیروکاروں کو پہچان لے۔[6] محمد جواد مغنیہ کے مطابق، اللہ نے انبیاء کے ساتھ لوہے جیسے ابزار کو بھی بنایا؛ جس کے فائدے بھی ہیں اور نقصان بھی؛ تاکہ انسانوں کو ان چیزوں کے ذریعے آزمایا جائے۔ اس امتحان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کون لوگ، بظاہر انبیاء کے نہ ہونے کے باوجود، ان کے پیغام کو سمجھ کر ان کی مدد کے لیے قیام کرتے ہیں یا نہیں۔[7] علامہ طباطبائی کے نزدیک، اس امتحان میں کامیابی کا معیار اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے عملی میدان میں موجود رہنا ہے۔[8]
ہدایت کے لیے پیغمبروں کے پاس اسباب و وسائل
آیت میں مذکور لفظ بَیِّنات سے مراد معجزات جیسے روشن نشانیاں اور دلائل ہیں، جنہیں انبیاء انسانوں کی رہنمائی کے لیے لے کر آئے ہیں۔ مُدَرّسی نے تفسیر من ہدی القرآن میں اسی لفظ کی بنیاد پر بیان کیا ہے کہ لوگوں کی ہدایت کے سلسلے میں پیغمبروں کا طریقۂ کار عقل، دلیل اور آگاہی پر مبنی تھا۔[9] اسی طرح سید محمد حسین فضل اللہ کا کہنا ہے کہ اللہ نے انبیاء کو معجزات کے ساتھ بھیجا تاکہ لوگ اندھی تقلید کے بجائے شناخت اور سمجھ کے ساتھ دین کو قبول کریں۔[10]
اکثر مفسرین کے نزدیک آیت میں مذکور لفظ کتاب سے مراد تمام آسمانی کتابیں ہیں، جو حقیقت کے اعتبار سے ایک ہی روح اور مضمون رکھتی ہیں۔[11] میزان کے بارے میں مفسرین کے مابین مختلف آراء پائی جاتی ہیں؛ بعض مفسرین اسے روزمرہ معاملات میں عدل و انصاف کی نشانی قرار دیتے ہیں[12] اور بعض اسے ذرائع شناخت پر اطلاق کرتے ہیں، جیسے عقل، وحی اور تجربہ۔[13] بعض شیعہ روایات میں آیا ہے کہ میزان سے مراد امام معصومؑ ہیں۔
عدالت سماجی یا انفرادی؟
مفسرین کے مابین اس بات پر اختلاف ہے کہ اس آیت میں مذکور عدل سے مراد کون سا ہے؛ سماجی عدالت مراد ہے یا انفرادی عدالت۔ بعض مفسرین کے نزدیک اس میں انفرادی اور سماجی دونوں طرح کا عدل شامل ہے، جبکہ دوسرے بعض مفسرین، آیت کے سیاق کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے صرف اجتماعی عدل تک محدود سمجھتے ہیں۔[14] اس نقطۂ نظر کے مطابق آیت میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ لوگ خود اپنی مرضی سے عدل قائم کریں، نہ کہ زور زبردستی کے ذریعے۔[15] رہبر معظم انقلاب سید علی حسینی خامنہ ای کے مطابق، اس نوعیت کی عدالت کا مکمل قیام صرف امام مہدیؑ کی حکومت میں ممکن ہے۔[16]
تفسیر نمونہ میں آیا ہے کہ آیت میں لوہا بنائے جانے کے فلسفے کا ذکر اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ عدل کے قیام کے لیے اخلاقی تربیت مادی طاقت اور عملی وسائل بھی درکار ہوتے ہیں، کیونکہ انسانی معاشرہ ہمیشہ طاغوتی و ظالم طاقتوں کے خطرات سے دوچار رہتے ہیں۔[17]
حوالہ جات
- ↑ امام خمینی، صحیفہ امام، 1378شمسی، ج11، ص386 و ج15، ص213؛ طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج19، ص170-171؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج23، ص371۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج19، ص171؛ رضایی اصفہانی، تفسیر قرآن مہر، 1387شمسی، ج20، ص232۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج19، ص172؛ ہاشمی رفسنجانی، تفسیر راہنما، 1386شمسی، ج18، ص394۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج19، ص170-171۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج23، ص371۔
- ↑ ہاشمی رفسنجانی، تفسیر راہنما، 1386شمسی، ج18، ص394۔
- ↑ مغنیہ، الکاشف، 1424ھ، ج7، ص256-257۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج19، ص172۔
- ↑ مدرسی، من ہدی القرآن، 1419ھ، ج15، ص99۔
- ↑ فضلاللہ، من وحی القرآن، 1439ھ، ج18، ص191۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج19، ص171؛ رضایی اصفہانی، تفسیر قرآن مہر، 1387شمسی، ج20، ص232۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، 1408ھ، ج9، ص363۔
- ↑ مغنیہ، الکاشف، 1424ھ، ج7،ص256؛ طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج19، ص171؛ رضایی اصفہانی، تفسیر قرآن مہر، 1387شمسی، ج20، ص232۔
- ↑ امام خمینی، صحیفہ امام، 1378شمسی، ج11، ص386 و ج15، ص213. قاسم پور راوندی و ہمکاران، «بررسی آرای مفسران دربارہ مفہوم و گسترہ عدالت اجتماعی...»، ص5۔
- ↑ ہاشمی رفسنجانی، تفسیر راہنما، 1386شمسی، ج18، ص393؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج23، ص372۔
- ↑ حسینی خامنہای، ما منتظریم، 1396شمسی، ص53۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج23، ص372۔
مآخذ
- امام خمینی، سید روحاللہ، صحیفہ امام، تہران، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1378ہجری شمسی۔
- حسینی خامنہای، سید علی، ما منتظریم، قم، بنیاد فرہنگی حضرت مہدی موعود، 1396ہجری شمسی۔
- رضایی اصفہانی، محمدعلی، تفسیر قرآن مہر، قم، پژوہشہای تفسیر و علوم قرآن، 1387ہجری شمسی۔
- طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، موسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1393ھ۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالمعرفۃ، 1408ھ۔
- فضلاللہ، سید محمدحسین، تفسیر من وحی القرآن، بیروت، دار الملاک، 1439ھ۔
- قاسمپور راوندی، محسن و محمدعلی مہدوی راد و شیما محمودپور قمصر، «بررسی آرای مفسران دربارہ مفہوم و گسترہ عدالت اجتماعی با تأکید بر آیہ 25 سورہ حدید»، فصلنامہ پژوہشنامہ معارف قرآنی، شمارہ 48، 1401ہجری شمسی۔
- مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، موسسۃ الوفاء، 1403ھ۔
- مدرسی، سید محمدتقی، من ہدی القرآن، تہران، دار محبی الحسین علیہ السلام، 1419ھ۔
- مغنیہ، محمدجواد، الکاشف فی تفسیر القرآن، قم، دارالکتاب الاسلامی، 1424ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، 1374ہجری شمسی۔
- ہاشمی رفسنجانی، اکبر، تفسیر راہنما، قم، بوستان کتاب، 1386ہجری شمسی۔
