مندرجات کا رخ کریں

مسودہ:امامت پر نص

ویکی شیعہ سے
خطِ مُعَلّیٰ میں کی گئی خوش نویسی، رسول خداؐ کی جانب سے حضرت علیؑ کی ولایت و جانشینی پر وارد شدہ نص

امامت پر نص وہ قرآنی یا حدیثی واضح عبارت ہے جو کسی فرد یا گروہ کی امامت کی طرف اشارہ کرتی ہے اور یہ خدا، رسول خداؐ یا پیشرو امام کی طرف سے صادر ہوسکتی ہے۔ مذہب امامیہ کے نظریے کے مطابق، امام کے تعین صریح اور واضح دلیل ہونی چاہیے اور ہر امام اپنے جانشین کو نص صریح کے ذریعے متعین کرتا ہے۔

نصوص امامت کو دو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے: نص جلی؛ یعنی امامت کا مفہوم صریح طور پر بیان کیا گیا، جیسے حدیث غدیر وغیرہ۔ نص خفی؛ یعنی جو غیر صریح ہوتا ہے اور اس کا مفہوم عبارت سے اخذ کیا جاتا ہے، جیسے حدیث منزلت وغیرہ۔ قرآن کریم میں بھی ائمہ معصومینؑ کی امامت کی طرف بالواسطہ اشارہ کیا گیا ہے، لیکن ان کے نام ذکر نہیں کیے گئے تاکہ کسی قسم کی تحریف سے بچا جاسکے۔

نصوص امامت کے بارے میں متعدد کتابیں تصنیف کی گئی ہیں، جن میں تمام اماموں کے نصوص کا مجموعہ، نصوص خاص جیسے حدیث غدیر کا مطالعہ اور دیگر فرقوں کے دعؤوں کا تجزیہ شامل ہے۔ بعض گروہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ یا اماموں کی طرف سے نصوص دیگر افراد کے لیے بھی موجود ہیں، جیسے ابوبکر، امام جعفر صادق علیہ السلام کے بیٹے اسماعیل اور عبد اللہ افطح وغیرہ۔ لیکن علمائے امامیہ نے ان دعوؤں کو مسترد کیا ہے۔ بعض اہل سنت کے نزدیک، پیغمبر اکرمؐ کے بعد امام کا تعین نص کے بغیر ہوتا ہے اور امام کا انتخاب امت کی رائے یا ان کے غلبے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔

مفہوم اور اہمیت

شیعہ متکلم شیخ مفید (متوفیٰ: 413ھ)، کے مطابق نص ایسے دلائل ہیں جو قرآن اور سنتِ رسولؐ سے ماخوذ ہیں اور امام کی امامت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔[1] ان کے نزدیک، نبی مکرم اسلامؐ کے بعد امام کی امامت پر نصّ کی موجودگی شیعہ اور سنی کے درمیان مورد اختلاف رہی ہے اور علمائے امامیہ نے امام علیؑ سے متعلق نصوص کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔[2]

نویں صدی ہجری کے متکلم فاضل مقداد کا کہنا ہے کہ نصّ خدا کی طرف سے ہو سکتا ہے، چاہے وہ کلام کی صورت میں ہو یا کسی غیر معمولی عمل کے ذریعے، جو فرد کی امامت کی طرف اشارہ کرے۔[3] ابن میثم بحرانی (متوفیٰ: 679 یا 699ھ) بھی بیان کرتے ہیں کہ نص پیغمبر خداؐ یا پیشرو امام کی طرف سے بھی ہوسکتا ہے اور زبانی یا عملی طور پر کسی فرد کی امامت کو ظاہر کرسکتا ہے۔[4]

نص جلی اور نص خفی

امامت سے متعلق نصوص کو جلی اور خفی میں تقسیم کیا گیا ہے۔ نصّ جلی سے مراد وہ دلیل ہے جس کا مفہوم صریح ہو اور اس سے امامت بالکل واضح طور پر ظاہر ہو، جس کے لیے کسی قسم کے استدلال کی ضرورت نہ ہو، جیسے حدیث غدیر۔[5] نصّ خفی سےمراد وہ نص ہے جس میں امامت غیر صریح طریقے سے بیان کی گئی ہو اور اسے کلام کے مفہوم اور مضمون سے سمجھنا پڑے، جیسے حدیث منزلت۔[6] مذہب امامیہ کے نقطہ نظر کے مطابق، امامت پر نص کو جلی ہونا چاہیے، صرف امام کی خصوصیات بیان کرنا کافی نہیں، کیونکہ عصمت جیسی صفات عام لوگوں کے لیے ممکن نہیں ہیں۔[7]

سید مرتضی (متوفیٰ:436ھ) نے نصّ جلی اور خفی کی ایک اور تقسیم بیان کی ہے۔ ان کے مطابق امامت سے متعلق وہ روایت جو صرف شیعہ مصادر حدیثی میں نقل ہو اسے نصّ جلی کہا جائے گا اور وہ روایت جو شیعہ کتب کے علاوہ غیر شیعہ علماء کے آثار میں بھی نقل ہوئی ہو اور وہ روایت ان کے قبول شدہ ہو اسے نصّ خفی کہا جائے گا۔[8]

پیغمبر خداؐ کے بعد امامت پر نصّ کے بارے میں آراء

امامت کے تعین کے لیے نصّ کے جواز کو تمام مسلمانوں کی جانب سے تسلیم کیا گیا ہے؛[9] تاہم، اہل سنت کی اکثریت کا عقیدہ ہے کہ پیغمبرخداؐ کی طرف سے اپنے بعد کسی امام کے بارے میں کوئی نصّ موجود نہیں ہے۔[10]

ابو الحسن اشعری وجود نص کی نفی کے لیے واقعہ سقیفہ بنی ساعدہ میں عمر کی ابوبکر کے ہاتھوں بیعت کو دلیل بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر ابوبکر کو رسول خداؐ کی طرف سے نص کے ذریعے مقرر کیا گیا ہوتا تو ان کی امامت پر نص کے ہوتے ہوئے عمر کا ابوبکر سے بیعت کرنا ایک غیر معقول اور لغو عمل ہوتا۔[11] سید مرتضی اہل سنت کی اس رائے پر تنقید کرتے ہوئے متعدد نصوص کا حوالہ دیتے ہیں جو ان کے مطابق صریح یا بالواسطہ طور پر امام علیؑ کی امامت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔[12] زیدیہ میں یحییٰ بن حمزہ علوی (متوفیٰ:749ھ)، جو المؤید باللہ کے نام سے مشہور ہیں ، امامت پر نصّ جلی ہونے پر ایمان کو امامیہ کا مخصوص عقیدہ مانتے ہیں اور ان کے نزدیک امام علیؑ کی امامت کے بارے میں صرف نصّ خفی موجود ہے۔[13]

حضرت محمدؐ کا حدیث یوم الانذار کے ذریعے اپنے قبیلے اور قرابت داروں سے خطاب:

"تم میں سے کون اسلام کے معاملے میں میری مدد کرے تاکہ وہ تمہارے درمیان میرا بھائی، میرا وصی اور میرا جانشین ہو؟" پھر حضرت علیؑ کی جانب سے اعلانِ حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آنحضرتؐ نے فرمایا: "یہ (علیؑ) میرا بھائی، میرا وصی اور تمہارے درمیان میرا خلیفہ ہے؛ پس اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو۔"

محمد بن جریر بن یزید طبری، تاریخ طبری، 1387ھ، ج2، ص320–321۔

شیعہ اماموں کی امامت پر موجود نصوص

قرآنی نصوص

امامت پر موجود قرآنی نصوص کو تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: تاریخ ادوار میں اماموں کی طرف اشارہ، حضرت ابراہیمؑ کی ذریت میں اماموں کا تعین اور اہل بیتِؑ رسول اکرمؐ میں اماموں کا تعین۔ مذکورہ مطالب کے سلسلے میں درج ذیل آیات سے استدلال کیا جاسکتا ہے؛ جیسے آیاتِ ولایت، تطہیر، مودت اور تبلیغ۔ محسن اراکی کے مطابق، قرآن میں اماموں کے نام ذکر نہیں کیے گئے ہیں تاکہ متن قرآن کو تحریف ہونے سے محفوظ رکھا جاسکے۔[14] الکافی میں مروی امام جعفر صادقؑ کی ایک روایت کے مطابق قرآن امامت کے اصول اور اماموں کی خصوصیات بیان کرتا ہے، جبکہ مصداق کے تعین کی ذمہ داری نبی مکرم اسلامؐ پر تھی۔[15]

روایتی نصوص

رسول خداؐ اور ائمہ معصومینؑ کی روایات میں بھی جانشینوں کی طرف اشارہ موجود ہے۔ شیعہ روائی مصادر میں نہ صرف اماموں کی تعداد بلکہ ان کے نام بھی نقل کیے گئے ہیں، جبکہ اہل سنت کے مصادر میں عموماً صرف خلفاء کی تعداد کا ذکر ملتا ہے۔[16] شیعہ روایات اماموں کی تعداد کے علاوہ پیغمبر خداؐ کے تمام جانشینوں کا ذکر بھی ملتا ہے جبکہ بعض شیعہ مصادر میں صرف پہلے امام کا نام ذکر ہوا ہے[17] اور بعض میں جیسے حدیث لوح میں تمام اماموں کے نام شامل ہیں۔[18]

امامیہ کے عقیدے کے مطابق، ہر امام کو رسول خداؐ یا پیشرو امام کی طرف سے نصّ کے ذریعے متعین کیا جاتا ہے۔[19] یہی وجہ ہے کہ امام علیؑ کو نصّ پیغمبر خداؐ کے ذریعے متعین کیا گیا،[20] امام حسن مجتبیؑ کو نصّ رسول خداؐ اور امام علیؑ کے ذریعے متعین کیا گیا،[21] امام حسینؑ کو نصّ نبی خداؐ، امام علیؑ اور امام حسنؑ[22] کے ذریعے متعین کیا گیا۔ اس کے بعد آنے والے نو امام بھی اپنے پیشرو امام کے نصّ کے ذریعے متعین کیے گئے۔[23]

ائمہ کی امامت سے متعلق نصوص کے بارے میں لکھی گئی کتابیں

ائمہ معصومینؑ کی امامت پر وجود نص کو ثابت کرنے کے لیے متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں، جنہیں دو حصّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

  • وہ تصانیف جن میں تمام شیعہ ائمہؑ کی امامت سے متعلق نصوص کو یکجا کیا گیا ہے؛

مثلاً؛ الامامۃ و التبصرۃ تألیف صدوق اول، اثبات الوصیۃ تالیف مسعودی، کفایۃ الأثر تالیف ابن‌ خزاز قمی، مقتضب الأثر تألیف جوہری، عیون المعجزات تالیف حسین بن عبد الوہاب و الاستنصارتالیف کراجکی۔ مذکوہ کتابیں چوتھی اور پانچویں صدی ہجری سے تعلق رکھتی ہیں۔ اسی طرح دسویں سے چودھویں صدی ہجری میں لکھی گئی کتب میں الاربعین تالیف محمد طاہر قمی، اثبات الہداۃ تالیف حر عاملی، بہجۃ النظر اور الانصاف تالیف علامہ بحرانی؛ نیز عبقات الأنوار تالیف حامد حسین شامل ہیں۔

  • وہ تصانیف جو کسی ایک خاص نص پر مرکوز ہیں؛ جیسے حدیثِ غدیر کے بارے میں تحقیقات، مثلاً کراجکی (متوفیٰ: 449ھ) کی لکھی گئی کتاب دلیل النص بخبر الغدیر، موسوی شفتی(متوفیٰ: 1290ھ) کی کتاب "الامامۃ" اور علامہ امینی (متوفیٰ: 1390ھ) کی کتاب الغدیر۔ مزید برآں، شیعہ روایتی مصادر میں نصوص امامت کو بیان کرنے کے لیے مستقل ابواب بھی قائم کیے گئے ہیں۔[24]
کتاب إثبات الہداۃ بالنصوص و المعجزات؛ شیخ حر عاملی (متوفیٰ: ۱۱۰۴ھ) کی ائمہ معصومینؑ کی امامت کے نصوص پر مشتمل کتاب

دیگر فرقوں کے ہاں نصوص کا دعوا

ابوبکر

بکریہ، کچھ حنابلہ اور خوارج کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر خداؐ نے ابوبکر کو صریح طور پر جانشین مقرر کیا ہے۔[25] کچھ دیگر گروہ، جیسے بیہقی وغیرہ کا نظریہ ہے کہ رسول خداؐ نے صرف بالواسطہ طور پر، یعنی انہیں امام جماعت مقرر کر کے امامت کی طرف اشارہ کیا۔[26] لیکن اکثر اہل سنت اس رائے کو قبول نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے اپنی وفات کے بعد جانشین مقرر کرنے کے سلسلے میں کوئی نصّ موجود نہیں۔[27] سید مرتضی نے راویوں کے عدم اعتبار، روایات کی غیر صراحت اور دیگر بیرونی شواہد کی بنیاد پر اس دعوے کو مسترد کیا ہے۔[28]

راوندیہ کا عقیدہ تھا کہ رسول خداؐ نے بالواسطہ اپنے چچا عباس کو امامت کے لیے مقرر کیا۔ یہ رائے عباسی دور کے آغاز میں سامنے آئی۔[29]

اسماعیل بن جعفر

اسماعیلی مکتب میں، امام جعفر صادقؑ کے بیٹے اسماعیل کو امام مانا جاتا ہے اور اس مکتب میں نصّ کو امامت کے ثبوت کے لیے واحد معیار مانا جاتا ہے؛[30] تاہم، اسماعیلیہ مآخذ میں اسماعیل کی امامت کے بارے میں کوئی صریح نصّ نہیں پایا جاتا ہے۔[31] اگرچہ جعفر بن منصور الیمن نے کچھ روایات کو بغیر سند کے اس حوالے سے نقل کیا ہے[32] لیکن انہیں غیر مشہور شمار کیا جاتا ہے۔[33] متکلمین امامیہ نے اسماعیل کی امامت کے بارے میں کسی نص کے وجود کو رد کیا اور امام جعفر صادقؑ کی حیات میں اس کی وفات کو اس کے امام نہ ہونے کا دلیل قرار دیا ہے۔[34]

عبد اللہ افطح

حضرت امام جعفر صادقؑ کے ایک اور بیٹے عبد اللہ افطح نے آنحضرتؑ کے شہادت کے بعد امامت کا دعویٰ کیا اور کچھ شیعہ اس کی امامت پر ایمان لائے۔[35] کہا جاتا ہے کہ ان کے دعوے کے پیچھے ایک وجہ امام جعفر صادقؑ کی وصیت[36] بھی تھی، جس میں پانچ افراد کو ان کا وصی مقرر کیا گیا تھا، جن میں عبد اللہ افطح بھی شامل تھے۔[37] علامہ مجلسی کے مطابق، اس روایت کی سند کمزوری کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے منصور دوانیقی اور امام جعفر صادقؑ کی زوجہ حمیدہ کو وصی مقرر کرنے کو تقیہ کا نتیجہ قرار دیا۔[38] علامہ مجلسی کے نزدیک، حمیدہ کا عورت ہونا منصب امامت کے لیے رکاوٹ تھا اور اگر بڑا بیٹا امامت کے لیے اہل تھا تو چھوٹے بیٹے کا ذکر ضروری نہیں تھا۔ اس وجہ سے، دونوں بیٹوں کا ذکر صرف امام موسیٰ بن جعفرؑ کی امامت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔[39]

حوالہ جات

  1. شیخ مفید، مسألتان فی النص علی علی(ع)، 1414ھ، ج2، ص3۔
  2. شیخ مفید، مسألتان فی النص علی علی(ع)، 1414ھ، ج2، ص3۔
  3. فاضل مقداد، الأنوار الجلالیۃ، 1378شمسی، ص160۔
  4. فاضل مقداد، الأنوار الجلالیۃ ، 1378شمسی، ص160۔
  5. سید مرتضی، الشافی فی الامامۃ، 1407ھ، ج2، ص67؛ جمعی از نویسندگان، شرح المصطلحات الکلامیۃ، 1415ھ، ص366۔
  6. سید مرتضی، الشافی فی الامامۃ، 1407ھ، ج2، ص67؛ جمعی از نویسندگان، شرح المصطلحات الکلامیۃ، 1415ھ، ص367۔
  7. شیخ طوسی، الإقتصاد، 1406ھ، ص314–315؛ امیرخانی، «نصّ»، ص338۔
  8. سید مرتضی، الشافی فی الامامۃ، 1407ھ، ج2، ص67–68۔
  9. ملک‌مکان، «امامت در نگاہ اہل سنّت»، ص234۔
  10. ملاحظہ کیجیے: تفتازانی، شرح المقاصد، 1412ھ، ص258–263؛ جوینی، لمع الأدلّۃ، 1407ھ، ص128؛ شہرستانی، نہایۃ الإقدام، 1425ھ، ص395؛ قاضی عبدالجبار، المغنی، تحقیق قاسم محمود محمد، ج20، ق1، ص112–129۔
  11. اشعری، اللمع، المکتبۃ الأزہریۃ للتراث، ص133–134۔
  12. سید مرتضی، الشافی فی الامامۃ، 1407ھ، ج2، ص179–184۔
  13. المؤید باللہ، عقد اللآلی، 1422ھ، ص73۔
  14. اراکی، نظریۃ النص علی الإمامۃ، 1428ھ، ص111۔
  15. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، 286-288۔
  16. بخاری، صحیح البخاری، 1422ھ، ج9، ص81، ح7222؛ قشیری نیشابوری، صحیح مسلم،‌ دار إحیاء التراث، ج3، ص1452، ح1821؛ أبوداوود سجستانی، سنن، داراحیاء السنہ، ج4، ص106؛ ترمذی، سنن، 1357ھ، ج4، ص501؛ ابن‌حنبل، احمد، مسند، 1313ھ، ج1، ص398؛ حاکم نیشابوری، المستدرک، 1411ھ، ج3، ص715۔
  17. شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج4، ص180۔
  18. ملاحظہ کیجیے: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص527؛ نعمانی، 1397ھ، الغیبہ، ص62؛ شیخ صدوق، کمال‌الدین، 1395ھ، ج1، ص308؛ شیخ طوسی، الغیبہ، 1411ھ، ص143؛ طبرسی، الإحتجاج، 1386ھ، ج1، ص85؛ شاذان قمی، الفضائل لإبن شاذان، 1363، ج1، ص113؛ ابن‌شہرآشوب، مناقب آل أبی‌طالب، 1376ھ، ج1، ص256؛ نباطی عاملی، الصراط المستقیم، 1384ھ، ج2، ص131؛ شیخ مفید، الإرشاد، 1413ھ، ج2، ص346۔
  19. سدآبادی، المقنع فی الإمامۃ، 1414ھ، ص145۔
  20. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص292–297، سید مرتضی، الشافی فی الامامۃ، 1407ھ، ج2، ص179–184؛ طبری، تاریخ طبری، 1387ھ، ج2، ص321؛ سیوطی، جامع الأحادیث، طبع حسن عباس زکی، ج31، ص154؛ أبوالفداء، المختصر، المطبعۃ الحسینیۃ، ج1، ص117۔
  21. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص297–300
  22. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص300–303۔
  23. سدآبادی، المقنع فی الإمامۃ، 1414ھ، ص145۔
  24. کلینی، الکافی، 1407ھ، کتاب الحجۃ، ص292–328؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج23، ص104 کے بعد۔
  25. اشعری، مقالات الاسلامیین، 1400ھ، ص455؛ سید مرتضی، الشافی فی الامامۃ، 1407ھ، ج1، ص7۔
  26. بیہقی، الإعتقاد، 1423ھ، ص464۔
  27. ملاحظہ کیجیے: اشعری، اللمع، المکتبۃ الأزہریۃ للتراث، ص133–134؛ قاضی عبدالجبار، المغنی، تحقیق قاسم محمود محمد، ج20، ق1، ص112–129؛ تفتازانی، شرح المقاصد، 1412ھ، ص258–263؛ جوینی، لمع الأدلّۃ، 1407ھ، ص128؛ شہرستانی، نہایۃ الإقدام، 1425ھ، ص395۔
  28. سید مرتضی، الشافی فی الامامۃ، 1407ھ، ج2، ص107–201۔
  29. حسینی خطیب، مقدمۃ الشافی فی الامامۃ، 1407ھ، ج1، ص7۔
  30. ابویعقوب سجستانی، الإفتخار، 2000ء، ص168–169؛ کرمانی، المصابیح فی إثبات الإمامۃ، 1429ھ، ص111؛ نصیری، «امامت از دیدگاہ اسماعیلیہ»، ص219۔
  31. حبیبی مظاہری، «اسماعیل بن جعفر»، ج11، ص269۔
  32. جعفر بن منصور الیمن، سرائر و اسرار النطقاء، 1404ھ، ص256۔
  33. حبیبی مظاہری، «اسماعیل بن جعفر»، ج11، ص269۔
  34. ملاحظہ کیجیے: سید مرتضی، الفصول المختارہ، مطبعۂ حیدریہ، ص101–102؛ شیخ صدوق، کمال‌الدین، 1395ھ، ص70–71۔
  35. شہرستانی، الملل و النحل، 1415ھ، ج1، ص195–196۔
  36. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص310۔
  37. کلانتری و جدیدی، «تحلیل و تبیین ادعای امامت عبداللہ افطح و دلایل ردّ امامت وی»، ص143۔
  38. مجلسی، مرآۃ العقول، 1404ھ، ج3، ص337–338۔
  39. مجلسی، مرآۃ العقول، 1404ھ، ج3، ص337–338۔

مآخذ

  • أبوالفداء، اسماعیل بن علی، المختصر فی أخبار البشر، مصر، المطبعۃ الحسینیۃ، بی‌تا.
  • ابویعقوب سجستانی، إسحاق بن أحمد، الإفتخار، بیروت، دارالغرب الإسلامی، 2000ء۔
  • ابن‌بابویہ، علی بن حسین، الإمامۃ و التبصرۃ من الحیرۃ، قم، مدرسۃ الإمام المہدی (علیہ‌السلام)، 1363ہجری شمسی۔
  • ابن‌حنبل، احمد، مسند، قاہرہ، بی‌نا، 1313ھ۔
  • ابن‌شہرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل أبی طالب(ع)، نجف، المکتبۃ الحیدریۃ، 1376ھ۔
  • ابن‌میثم بحرانی، میثم بن علی، النجاۃ فی القیامۃ فی تحقیق أمر الإمامۃ، قم، مجمع الفکر الاسلامی، 1417ھ۔
  • ابن‌میثم بحرانی، میثم بن علی، قواعد المرام فی علم الکلام، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، 1406ھ۔
  • اراکی، محسن، نظریۃ النص علی الإمامۃ فی القرآن الکریم، قم، المجمع العالمی لاہل البیت (علیہم السلام)، 1428ھ۔
  • اشعری، علی بن اسماعیل، اللمع فی الرد علی أہل الزیغ و البدع، قاہرۃ، المکتبۃ الأزہریۃ للتراث، بی‌تا۔
  • اشعری، علی بن اسماعیل، مقالات الإسلامیین و اختلاف المصلین، بیروت،‌دار النشر فرانز شتاینر، 1400ھ۔
  • امیرخانی، علی، «نصّ»، کتاب (مجموعہ مقالات) معارف کلامی شیعہ؛ کلیات امامت، قم، انتشارات دانشگاہ ادیان و مذاہب، تہران، سازمان مطالعہ و تدوین کتب علوم اسلامی دانشگاہ‌ہا (سمت)، 1393ہجری شمسی۔
  • بحرانی، سلیمان بن عبداللہ، الأربعون حدیثا فی إثبات إمامۃ أمیر المومنین علیہ‌السلام، قم، مہدی الرجائی، 1417ھ۔
  • بحرانی، ہاشم بن سلیمان، الانصاف فی النص علی الائمۃ الاثنی‌عشر، ترجمہ رسولی محلاتی، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، 1378ھ۔
  • بحرانی، ہاشم بن سلیمان، بہجۃ النظر فی إثبات الوصایۃ و الإمامۃ للأئمۃ الاثنی عشر علیہم السلام، مشہد، آستان قدس رضوی. بنیاد پژوہشہای اسلامی، 1385ہجری شمسی۔
  • بروجردی، محمد حسین، النص الجلی فی إثبات ولایۃ علی علیہ‌السلام، مشہد، آستانۃ الرضویۃ المقدسۃ. مجمع البحوث الإسلامیۃ، 1383ہجری شمسی۔
  • بیہقی، أحمد بن حسین، الإعتقاد و الہدایۃ إلی سبیل الرشاد علی مذہب السلف أہل السنۃ و الجماعۃ، بیروت، دارالیمامۃ، 1423ھ۔
  • ترمذی، محمد، سنن، بہ کوشش احمد محمدشاکر و دیگران، قاہرہ، 1357ھ۔
  • تفتازانی، مسعود بن عمر، شرح المقاصد، قم، نشر الشریف الرضی، 1412ھ۔
  • جعفر بن منصور الیمن، سرائر و اسرار النطقاء، بہ‌کوشش مصطفی غالب، بیروت، 1404ھ۔
  • جمعی از نویسندگان، شرح المصطلحات الکلامیۃ، مشہد، آستانۃ الرضویۃ المقدسۃ، مجمع البحوث الإسلامیۃ، 1415ھ۔
  • جوہری، احمد بن محمد، مقتضب الأثر فی النصّ علی الأئمۃ الإثنی عشر، قم، مکتبۃ الطباطبائی، بی‌تا۔
  • جوینی، عبد الملک بن عبداللہ، لمع الادلۃ فی قواعد عقائد أہل السنۃ و الجماعۃ، بیروت، عالم الکتب، 1407ھ۔
  • حبیبی مظاہری، مسعود، «اسماعیل بن جعفر»، دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی ج11، تہران، مرکز دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، بی‌تا۔
  • حسینی خطیب، عبدالزہراء، الشافی فی الامامۃ (سید مرتضی)، مقدّمۃ التحقیق، تہران، موسسۃ الصادق،1407ھ۔
  • خواجہ نصیر طوسی، محمد بن محمد، تجرید الاعتقاد، تہران، مکتب الإعلام الإسلامی، 1407ھ۔
  • دیلمی، حسن بن محمد، إرشاد القلوب، تحقیق: سید ہاشم میلانی، تہران،‌دار الأسوۃ للطباعۃ و النشر، 1417ھ۔
  • سجستانی، ابوداود، سنن، بہ کوشش محمد محیی الدین عبدالحمید، قاہرہ، داراحیاء السنہ النبویہ۔
  • سدآبادی، عبید اللہ بن عبداللہ، المقنع فی الإمامۃ، قم، جماعۃ المدرسین فی الحوزۃ العلمیۃ بقم. مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1414ھ۔
  • سید مرتضی، علی بن الحسین، الشافی فی الامامۃ، تہران، موسسۃ الصادق، 1407ھ۔
  • سیدمرتضی، علی بن حسین، الفصول المختارۃ من العیون و المحاسن شیخ مفید، نجف، مطبعۂ حیدریہ، بی‌تا۔
  • سیوطی، جلال الدین، جامع الأحادیث، بی‌جا، طبع حسن عباس زکی، بی‌تا۔
  • شاذان قمی، شاذان بن جبریل، الفضائل لإبن شاذان، قم، نشر رضی، 1363ہجری شمسی۔
  • شعیری، تاج الدین، جامع الاخبار، قم، انتشارات رضی، 1363ہجری شمسی۔
  • شہرستانی، محمد بن عبدالکریم، الملل و النحل، بیروت، دارالمعرفۃ، 1415ھ۔
  • شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، إثبات الہداۃ بالنصوص و المعجزات، بیروت، الاعلمی فی المطبوعات، 1425ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن بابویہ، عیون أخبارالرضا علیہ‌السلام، انتشارات جہان، 1378ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، کمال‌الدین و تمام النعمۃ، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، 1395ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، 1413ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الإقتصاد فی ما یتعلق بالإعتقاد، بیروت، دارالأضواء، 1406ھ۔
  • شیخ طوسی، محمّد بن حسن، الغیبہ، قم، موسسۃ المعارف الاسلامیہ، 1411ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الفصول المختارۃ من العیون و المحاسن، تصحیح: علی میرشریفی، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1413ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، مسألتان فی النص علی علی(ع)، بیروت، دارالمفید، 1414ھ۔
  • صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات الکبری، قم، المکتبۃ الحیدریۃ، 1384ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، اسماعیلیان،‌ 1373ہجری شمسی۔
  • طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج علی اہل اللجاج، نجف، دارالنعمان، 1386ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، إعلام الوری بأعلام الہدی، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، بی‌تا۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، مصر،‌دار المعارف، 1387ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، کتاب تہذیب الآثار مسند علی، قاہرۃ، مطبعۃ المدنی، بی‌تا۔
  • عسکری، سید مرتضی، «چرا نام امام علی (علیہ‌السلام) در قرآن نیست؟»، سایت مرکز العلامۃ العسکری للدراسات الإسلامیۃ، تاریخ بازدید 30 آذر 1402ہجری شمسی۔
  • عضدالدین ایجی، عبدالرحمن بن احمد، شرح المواقف، قم، نشر الشریف الرضی، بی‌تا۔
  • علامہ امینی، عبدالحسین، تکملۃ الغدیر: ثمرات الاسفار الی الاقطار، بیروت، بہ تحقیق مرکز الامیر لاحیاء التراث الاسلامی، مراجعۃ و تصحیح مرکز الغدیر للدراسات و النشر و التوزیع، 1429ھ۔
  • فاضل مقداد، مقداد بن عبداللہ، اللوامع الإلہیۃ فی المباحث الکلامیۃ، قم، انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، 1380ہجری شمسی۔
  • قاضی عبدالجبار، ابن‌احمد، المغنی فی أبواب التوحید و العدل، تحقیق قاسم محمود محمد، بی‌جا، بی‌نا، بی‌تا۔
  • قشیری نیسابوری، مسلم بن حجاج، المسند الصحیح المختصر بنقل العدل عن العدل إلی رسول‌اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، بیروت،‌دار إحیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • قمی، محمدطاہر بن محمدحسین، الأربعین فی إمامۃ الأئمۃ الطاہرین، قم، مہدی الرجائی، 1418ھ۔
  • کراجکی، محمد بن علی، دلیل النص بخبر الغدیر علی امامۃ أمیر المؤمنین علیہ‌السلام، قم، مؤسسۃ آل البیت (علیہم السلام) لإحیاء التراث، 1419ھ۔
  • کراجکی، محمدبن علی، الاستنصار فی النص علی الائمۃ الاطہار، بیروت، دارالاضواء، 1405ھ۔
  • کشی، محمد بن عمر، إختیار معرفۃ الرجال، بہ‌کوشش حسن مصطفوی، مشہد، مؤسسہ نشر دانشگاہ مشہد، 1409ھ۔
  • کلانتری، سجاد، فیض اللہ بوشاسب گوشہ و ناصر جدیدی، «تحلیل و تبیین ادعای امامت عبداللہ افطح و دلایل ردّ امامت وی»، فصلنامہ تاریخ اسلام و ایران دانشگاہ الزہرا، سال32، شمارہ54، پیاپی144، تابستان 1401ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمّد بن یعقوب، الکافی، تہران،‌دار الکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، مرآۃ العقول فی شرح أخبار آل الرسول، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، 1404ھ۔
  • مجلسی، محمّدباقر، بحارالانوار، بیروت، موسّسۃ الوفاء، 1403ھ۔
  • ملک‌مکان، حمید، «امامت در نگاہ اہل سنّت»، کتاب (مجموعہ مقالات) معارف کلامی شیعہ؛ کلیات امامت، قم، انتشارات دانشگاہ ادیان و مذاہب، تہران، سازمان مطالعہ و تدوین کتب علوم اسلامی دانشگاہ‌ہا (سمت)، 1393ہجری شمسی۔
  • نباطی عاملی، علی بن محمد، الصراط المستقیم إلی مستحقی التقدیم، تہران، مکتبۃ المرتضویۃ، 1384ھ۔
  • نصیری، محمد، «امامت از دیدگاہ اسماعیلیہ»، کتاب (مجموعہ مقالات) معارف کلامی شیعہ؛ کلیات امامت، قم، انتشارات دانشگاہ ادیان و مذاہب، تہران، سازمان مطالعہ و تدوین کتب علوم اسلامی دانشگاہ‌ہا (سمت)، 1393ہجری شمسی۔
  • نعمانی، محمّد بن ابراہیم، الغیبہ، تہران، مکتبۃ الصدوق، 1397ھ۔