سید محمد دہلوی

ویکی شیعہ سے
سید محمد دہلوی
کوائف
مکمل نامسید محمد دہلوی
لقب/کنیتخطیب اعظم
نسبزیدی سادات
تاریخ ولادتسنہ 1317ھ بمطابق 1899ء
آبائی شہرپتن ہیٹری، ضلع بجنور (یو۔پی) ہندوستان
رہائشلاہور پاکستان
تاریخ وفات29 جمادی الثانی 1391ھ مطابق 20 اگست 1971ء۔
نامور اقرباءسید آفتاب حسین (والد) سید احمد جوہر (بیٹا)
جانشینمفتی جعفر حسین
علمی معلومات
مادر علمیمدرسہ ناظمیہ لکھنؤ
اساتذہسید عباس حسین جارچوی، مرزا محمد حسن، سید محمد ہارون زنگی پوری، سید نجم العلماء، سید مقبول احمد دہلوی۔
تالیفاتمقدمہ تفسیر قرآن، ترجمہ مقتل ابی مخنف، رسول اور ان کے اہل بیت، قرآن اور اہل بیت، معجزات آئمہ اطہار، ترجمہ رسالہ وجوب نماز جمعہ اور نور العصر۔
خدمات
سیاسیقائد ملت جعفریہ پاکستان، سربراہ مجلس علمائے پاکستان
سماجیشیعہ ہاسٹل مظفر نگر، شیعہ یتیم خانہ جھنگ، امامیہ ہال کی تعمیر، امامیہ یتیم خانہ دہلی، شیعہ یتیم خانہ درگاہ پنجہ شریف دہلی، مکتبۃ العلوم لائبریری اور مجلس علمائے شیعہ کا قیام


سید محمد دہلوی (1391-1317 ھ) کا شمار پاکستان کے علماء، خطباء اور مصنفین میں ہوتا ہے۔ برصغیر میں آپ خطیب اعظم سے جانے جاتے ہیں۔ سنہ 1950ء کو پاکستان کی طرف ہجرت کی۔ طلبہ ہاسٹل، یتیم خانے اور لائبریریوں کی تعمیر آپ کی سماجی خدمات میں شمار ہوتی ہیں۔ جنوری 1964ء کو پاکستان میں پہلا شیعہ اجتماعی پلیٹ فارم شیعہ مطالبات کمیٹی اور مجلس علمائے شیعہ پاکستان کی بنیاد رکھی اور آپ اس کے سربراہ منتخب ہوئے۔ آپ متعدد تالیفات کے مالک تھے لیکن ان میں سے صرف ایک دستیاب ہے۔ شیعہ مطالبات کو حل کرانے میں آپ کا کلیدی کردار رہا۔

سوانح عمری

سید محمد دہلوی ولد سید آفتاب حسین بن سید غازی الدین نے سنہ 1317ھ بمطابق سنہ 1899ء کو ہندوستان کے ضلع بجنور یو- پی، موضع پتن ہیٹری، کے ایک علمی گھرانہ میں آنکھ کھولی۔[1] آپ کا تعلق زیدی سادات سے تھاآپ کے والد سید آفتاب حسین دہلی کی شیعہ جامع مسجد میں پیش نماز تھے۔[2] دہلوی چار سال کی عمرمیں یتیم ہوگئے۔[3] جبکہ پانچ سال کی عمر میں والدہ کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔[4] مدرسہ ناظمیہ میں چار سال تک اعلی تعلیم حاصل کی۔[5] سنہ 1943ء کو ادارہ تفسیر القرآن کی اہمیت کے پیش نظر دہلی سے رام پور تشریف لے گئے اور سات سال تک وہیں پر مقیم رہے۔[حوالہ درکار]

سنہ 1950ء کو آپ نے پاکستان کی طرف ہجرت کی۔[6] سید دہلوی 29 جمادی الثانی 1391ء بمطابق 20 اگست سنہ 1971ء کو وفات پاگئے۔[7] آپ کے جنازے میں سیاسی اور سماجی شخصیات نے شرکت کی۔ آپ باغ خراسان کراچی میں سپرد خاک ہوئے۔[8]

علمی سفر

والد کی وفات کے بعد آپ کی والدہ گرامی نے قرآنی تعلیم کے لئے آپ کو حافظ قاری سید عباس حسین کے سپرد کیا۔[9] ایک سال بعد والدہ وفات پاگئیں[10] اور آپکی سرپرستی میرزا محمد حسن اور سید محمد ہارون نے اپنے ذمہ لی اور کافیہ تک تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ کو علم و ادب کے مرکز لکھنو روانہ کیا۔[11] جہاں چار سال کے عرصہ تک مدرسہ ناظمیہ میں کسب فیض کیا۔[12] پھر مقبول حسین نے آپ کو وہاں سے رامپور بلایا۔[13] جہاں مجرب اساتید بالاخص شیخ محمد طیب عرب مکی سے کسب فیض کیا۔[14] آپ نے یونیورسٹی کی اعلیٰ ترین فاضل عربی کی سند بھی اچھے نمبروں سے حاصل کی۔ پھر دہلی میں کسی ہائی سکول میں عربی استاد لگ گئے۔ تدریس کے ساتھ ساتھ تقریر اور تصنیف بھی جاری رکھا۔ اور خطابت میں اس قدر مشہور ہوگئے خواجہ حسن نظامی نے آپ کو خطیب اعظم کا لقب دیا۔[15] سنہ 1943ء کو نواب رضاعلی خان آف رامپور نے ادارہ تفسیر القرآن قائم کیا جس کی سربراہی کے لئے خطیب اعظم کاانتخاب کیا۔ خطیب اعظم اپنے ذاتی ذوق تحریراوراس ادارہ کی اہمیت کے پیش نظر دہلی سے رام پور تشریف لے گئے، اور اپنے سات سالہ قیام کے دوران شب وروز کی جانفشانی سے اس ادارے کو سنبھالا۔[حوالہ درکار]

اساتذہ

آپ کی تعلیم و تربیت میں مندرجہ ذیل اساتذہ سرفہرست ہیں:[16]

  • حافظ قاری سید عباس حسین؛ آپ منقولات و معقولات کے ماہر، قرائات سبعہ پر مسلط اور حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی میں شعبہ شیعہ دینیات کے سرپرست بھی تھے۔[17]
  • نجم الملتہ نجم الحسن
  • محمد ہارون زنگی پوری
  • مقبول احمد (آپ سنی گھرانے میں پیدا ہوئے اور تحقیق کے بعد شیعہ ہوئے۔ ترجمہ و تفسیر قرآن اور ترجمہ اسنی المطالب فی ایمان ابی طالب اور بعض دیگر تالیفات اور تراجم کے مالک ہیں۔)[18]
  • شیخ محمد طیب عربی مکی
  • میرزا محمد حسن

تالیفات

آپ نے مختلف عناوین پر کتابیں لکھیں لیکن اکثر کتابیں زیور طبع سے آراستہ ہونے کے باوجود اب نایاب ہیں۔ آپ کی بعض تالیفات کے نام درج ذیل ہیں:[19]

  • تفسیر قرآن کا مقدمہ جو تقریباً 500 صفات پر مشتمل تھا لیکن ہجرت کے بعد وہ گرانبہا سرمایہ وہیں پر رہ گیا اور ضائع ہوگیا۔[20]
  • ترجمہ مقتل ابی مخنف
  • رسولؐ اوران کے اہل بیت،
  • قرآن اوراہل بیت،
  • معجزات آئمہ اطہار
  • ترجمہ رسالہ وجوب نماز جمعہ (اس رسالے میں نماز جمعہ کے وجوب کو ثابت کیا ہے۔)
  • نورالعصر۔ اس ایک کتاب کے علاوہ باقی تمام آثار اس وقت دسترس میں نہیں ہیں۔[21]
  • سو سے زیادہ مقالات کا مجموعہ جو ابھی تک نہیں چھپا ہے۔[22]

سماجی خدمات

شیعیان پاکستان کے قائدین

نام


مدت قیادت


جماعت یا تنظیم



قیام پاکستان سے قبل شیعہ قوم کے لئے بڑی خدمات انجام دی ہیں جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:[23]

  • شیعہ ہاسٹل مظفر نگر
  • شیعہ یتیم خانہ جھنگ کا قیام
  • نئی دہلی میں امامیہ ہال کی تعمیر
  • امامیہ یتیم خانہ کشمیری گیٹ دہلی
  • شیعہ یتیم خانہ درگاہ پنجہ شریف دہلی کی سرپرستی

اس کے علاوہ قیام پاکستان کے بعد آپ کی دینی خدمات میں مکتبۃ العلوم لائبریری، شیعہ مطالبات کمیٹی اور مجلس علمائے شیعہ کا قیام قابل ذکر ہیں۔[24]

لائبریری کا قیام

پاکستان ہجرت کرنے کے بعد آپ نے کراچی ناظم آباد نمبر دو میں جامعہ امامیہ سے متصل ایک لائبریری مکتبۃ العلوم کے نام سے قائم کیا جس میں 8000 ہزار سے زیادہ نفیس اور نادر کتابیں پائی جاتی ہیں[25] آپ نے زندگی بھر کی کمائی ان کتابوں کی جمع آوری میں لگادی۔ آج بھی قوم کے استفادہ کے لئے موجود ہے۔[26] جبکہ ہندوستان میں قائم کردہ کتاب خانہ ہندو بلوائیوں نے جلادیا تھا۔[27]

قومی قیادت

پاکستان کے ابتدائی سالوں میں ہی شیعیان اہلبیتؑ کے لئے محدودیتیں بڑھتی گئیں، اس لئے شروع میں ادارہ تحفظ حقوق شیعہ پاکستان کا تشکیل دیا گیا جس کے سربراہ مفتی جعفر حسین منتخب ہوئے۔[حوالہ درکار] اس کے بعد پھر عائلی قوانین، عزاداری میں محدودیت، سکول نصاب میں کسی ایک ہی فرقے کے مطابق دینیات، اوقاف، اداروں میں مذہبی تعصب اور دیگر ان جیسے کئی ایک موضوعات پر مشکلات کھڑی کی گئیں۔[28] اسی وجہ سے 7 جنوری 1964ء کو کراچی میں سید محمد دہلوی کو شیعہ مطالبات کمیٹی کی تشکیل کے بعد اس کا سربراہ انتخاب کیا گیا۔[29] اور آپ پاکستان کی تاریخ کا پہلا شیعہ قائد تھے۔[30] اور آپ نے اپنی قیادت کے دوران اہم کام انجام دئے ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

شیعہ مطالبات کمیٹی کا قیام

سید محمد دہلوی نے اپنی زندگی کے آخری چند سالوں میں شیعہ قوم کو اجتماعی شعور دلاتے ہوئے مجلس علمائے شیعہ پاکستان کا پلیٹ فارم تشکیل دیا۔ پاکستان میں آئے روز شیعیان علی کے لئے محدودیتیں بڑھتی جارہی تھیں۔ ان محدودیتوں کے پیش نظر سید محمد دہلوی نے 5، 6، 7 جنوری 1965ء کو کراچی میں پاکستان کی تاریخ کا پہلا منظم اجتماع امام بارگاہ شاہ کربلا، رضویہ کالونی، کراچی میں منعقد کیا[31] جس میں دو سو سے زیادہ علماء کرام، اور ممتاز شیعہ رہنماؤں نے شرکت کی۔[32] تمام مسائل پر تفصیلی گفتگو کے بعد اجلاس میں پاکستان شیعہ مطالبات کمیٹی اور ایک مجلس اعلائے علمائے شیعہ پاکستان تشکیل دی گئی[33] جس کا سربراہ خطیب اعظم کو مقرر کیا گیا۔[34] اور طے پایا کہ مندرجہ ذیل شیعہ مطالبات حکومت کو پیش کئے جائیں۔[35]

١۔عزاداری پر کسی قسم کا قدغن قبول نہیں اوراس کی حفاظتی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے؛ ٢۔شیعہ طالبعلموں کے لئے ان کی اپنی فقہ کے مطابق نصاب دینیات کاانتظام ہونا چاہئے؛ ٣۔درسی کتب سے قابل اعتراض مواد کو نکالا جائے؛ ٤۔شیعہ اوقاف کی نگرانی کے لئے شیعہ بورڈ کا قیام عمل میں لایا جائے۔[36]

شیعہ مطالبات کا حصول

سید محمد دہلوی، کل پاکستان علمائے شیعہ کنونشن میں طے پانے والی تمام قرار دادوں سے اپنی قوم کو روشناس کرانے کے لئے ملک گیر دورہ جات کئے اور گوشہ گوشہ میں اپنے مطالبات دہراتے رہے مگر حکومت نے اپنی گذشتہ تاریخ کے مطابق ہمیشہ کی طرح شیعہ مطالبات کو نظرانداز کرتی رہی۔ جس کے نتیجہ میں 30،29،28 اگست 1964ء کو راولپنڈی میں عظیم الشان کنونشن منعقد ہوئی۔[37] 25، اکتوبر،1964ء کو آل پاکستان یوم احتجاج منایا گیا اور حکومت کو ہر جگہ سے خطوط اور ٹیلی گرامز کے ذریعے احتجاج ریکارڈ کروایا گیا۔[38] 30، نومبر 1964ء کو پچاس افراد پر مشتمل علماء و زعماء نے لاہور میں صدر مملکت ایوب خان سے ملاقات کی اور صدر نے ایک کمیٹی بنانے کا اعلان کیا۔[39]اور شیعہ مطالبات کو حق بجانب سمجھتے ہوئے ان مسائل کے حل کے لئے پانچ شیعہ اور چار حکومت کی نمائندگی میں مشتمل افراد پر ایک کمیٹی بنانے کااعلان کیا۔ جنوری، 1965ء کو سید محمد دہلوی نے شیعہ نمائندگی میں جن پانچ افراد کے نام تھے ان میں خود ان کے علاوہ مفتی جعفرحسین جیسی شخصیات شامل تھیں۔ مگر گورنر نے اپنے مورد پسند شخص کا نام شامل نہ ہونے پر ایک سال تک کمیٹی کا اجلاس نہیں بلایا۔[40] اس کے بعد بھی مسلسل مختلف جگہوں پر احتجاجی اجتماعات منعقد کراتے رہے لیکن ثمربخش ثابت نہیں ہوئے۔[41] 3،2 نومبر،1968ء کو راولپنڈی میں جلسہ عام بلایا گیا اور جیسے لوگوں کا آنا شروع ہوا تو 2 نومبر کو حکومت نے مطالبات کی منظوری کا اعلان کر دیا۔[42] علیحدہ شیعہ دینیات بھٹو کے دور میں احتجاجی دھرنے کے بعد جاری ہوئی۔ 1976ء میں میٹرک کا امتحان اسی دینیات پر ہوا۔[43]

خطیب اعظم کا لقب

برصغیر پاک و ہند میں چونکہ تشیع کی شناخت عزاداری سید الشہداء سے ملی ہے تو وہاں پر خطابت کو بہت اہمیت حاصل ہے اور اس حوالے سے بعض نامور خطباء گزرے ہیں جن میں سید محمد دہلوی خطیب اعظم کے لقب سے مشہور ہوگئے۔[44] آپ مشکل ترین مسائل کو آسان اور خوبصورت مثالوں کے ذریعے پیش کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔[45] اس مہارت کو ثابت کرنے کے لئے یہی کافی ہے کہ آپ کے زمانے مشہور خطیب سیدالعلماء سیدعلی نقی نقن، حافظ کفایت حسین نجفی، سیدابن حسن نونہروی، فاتح ٹیکسلا محمد بشیر، حافظ سید ذوالفقارعلی شاہ، مرزا احمدعلی اور لقاعلی حیدری جیسے بہت سے شہرہ آفاق خطبا کے ہوتے ہوئے خطیب اعظم کا لقب صرف آپ ہی کو ملا۔[46] کہا جاتا ہے کہ یہ خطاب اس وقت ہندوستان بھر کے ہندو، مسلمان، سنی اور شیعہ عمائدین و اکابرین نے بالاتفاق و بیک زبان ہوکر عطا کیا، جب کانگریس کے سرکردہ لیڈر بیرسٹر پنڈت موتی لال نہرو جو سابق وزیراعظم ہند پنڈت جواہر لال نہرو کے والد تھے ان کے انتقال پر دہلی پریڈ گراونڈ میں خواجہ حسن نظامی کے زیر اہتمام ایک تعزیتی جلسہ عام کاانعقادکیاگیاتھا،جس میں موصوف کو مدعو کیاگیاتھا اور تقریرکی بھی فرمائش کی گئی تھی، جب آپ نے تقریر شروع کی تو پنڈت موتی لال نہرو کی تعریف کرنے کے بجائے اپنے ماہرانہ انداز فصاحت وبلاغت سے خالق کائنات کی حمدوثناء کرتے ہوئے تخلیق کائنات کا موضوع اپنایا اور سائنسی انداز میں قرآنی حوالوں سے اس پر روشنی ڈالی یہاں تک کہ اسی کائنات میں سمندروں کی تخلیق اوراس میں موتی بننے کے مراحل، ساتھ ہی ساتھ زمین میں جواہرات کی بتدریج تخلیق پر روشنی ڈالی۔ تقریر کے اختتام پر حسن نظامی کی تحریک پر تمام عمائدین نے آپ کو ”خطیب اعظم ” کا خطاب دیااور تا حد نگاہ انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر نے اس کی تائید کی۔ یوں یہ لقب آپ کے نام سے ایسا جڑ گیا کہ اب نام کاحصہ بن گیا۔[47]

حوالہ جات

  1. سید عارف حسین نقوی، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان ص254۔
  2. سید عارف حسین نقوی، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان ص256۔
  3. سید عارف حسین نقوی، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان ص254۔
  4. سید عارف حسین نقوی، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان ص254۔
  5. سید عارف حسین نقوی، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان ص254۔
  6. قائد ملت جعفریہ خطیب اعظم حضرت علامہ سید محمد دہلوی رح، رسا نیوز ایجنسی۔
  7. سید عارف حسین نقوی، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان ص255۔
  8. سید عارف حسین نقوی، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان ص254۔
  9. سید عارف حسین نقوی، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان ص256۔
  10. سید عارف حسین نقوی، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان ص254۔
  11. سید عارف حسین نقوی، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان ص254۔
  12. سید عارف حسین نقوی، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان ص254۔
  13. سید عارف حسین نقوی، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان ص254۔
  14. سید عارف حسین نقوی، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان ص255۔
  15. سید عارف حسین نقوی، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان ص255۔
  16. سید عارف حسین نقوی، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان ص255۔
  17. سید عارف حسین نقوی، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان ص254۔
  18. سید عارف حسین نقوی، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان ص254۔
  19. سید عارف حسین نقوی، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان ص255۔
  20. سید عارف حسین نقوی، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان ص255۔
  21. سید عارف حسین نقوی، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان ص255۔
  22. سید عارف حسین نقوی، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان ص255۔
  23. سید عارف حسین نقوی، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان ص256۔
  24. سید عارف حسین نقوی، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان ص255۔
  25. سید عارف حسین نقوی، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان ص255۔
  26. سید نثار علی ترمذی، ہفت روزہ رضا کار لاہور، 20 اگست بروز جمعرات۔2020۔
  27. سید نثار علی ترمذی، ہفت روزہ رضا کار لاہور، 20 اگست بروز جمعرات۔2020۔
  28. سید نثار علی ترمذی، ہفت روزہ رضا کار لاہور، 20 اگست بروز جمعرات۔2020۔
  29. سید نثار علی ترمذی، ہفت روزہ رضا کار لاہور، 20 اگست بروز جمعرات۔2020۔
  30. ساجد علی نقوی کا بیان، سید محمد دہلوی مرحوم برصغیر کے خطیب اعظم اور بلند پایہ عالم دین تھےجعفریہ پریس۔
  31. سید عارف حسین نقوی، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان ص255۔
  32. سید نثار علی ترمذی، ہفت روزہ رضا کار لاہور، 20 اگست بروز جمعرات۔2020۔
  33. سید عارف حسین نقوی، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان ص255۔
  34. سید نثار علی ترمذی، ہفت روزہ رضا کار لاہور، 20 اگست بروز جمعرات۔2020۔
  35. تحریر : سید نثار علی ترمذی، ہفت روزہ رضا کار لاہور، 20 اگست بروز جمعرات۔2020۔
  36. سید عارف حسین نقوی، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان ص255۔
  37. سید نثار علی ترمذی، ہفت روزہ رضا کار لاہور، 20 اگست بروز جمعرات۔2020۔
  38. سید نثار علی ترمذی، ہفت روزہ رضا کار لاہور، 20 اگست بروز جمعرات۔2020۔
  39. سید نثار علی ترمذی، ہفت روزہ رضا کار لاہور، 20 اگست بروز جمعرات۔2020۔
  40. سید نثار علی ترمذی، ہفت روزہ رضا کار لاہور، 20 اگست بروز جمعرات۔2020۔
  41. ملاحظہ کریں: سید نثار علی ترمذی، ہفت روزہ رضا کار لاہور، 20 اگست بروز جمعرات۔2020۔
  42. ملاحظہ کریں: سید نثار علی ترمذی، ہفت روزہ رضا کار لاہور، 20 اگست بروز جمعرات۔2020۔
  43. ملاحظہ کریں: سید نثار علی ترمذی، ہفت روزہ رضا کار لاہور، 20 اگست بروز جمعرات۔2020۔
  44. سید نثار علی ترمذی، ہفت روزہ رضا کار لاہور، 20 اگست بروز جمعرات۔2020۔
  45. سید نثار علی ترمذی، ہفت روزہ رضا کار لاہور، 20 اگست بروز جمعرات۔2020۔
  46. سید نثار علی ترمذی، ہفت روزہ رضا کار لاہور، 20 اگست بروز جمعرات۔2020۔
  47. سید نثار علی ترمذی، ہفت روزہ رضا کار لاہور، 20 اگست بروز جمعرات۔2020۔

مآخذ