مقتل الحسین (ابو مخنف)

ویکی شیعہ سے
(مقتل ابی مخنف سے رجوع مکرر)
مقتل الحسین
مشخصات
مصنفابو مخنف
موضوعتاریخ واقعہ کربلا
زبانعربی
تعداد جلد1
طباعت اور اشاعت
سنہ اشاعتمکتبۃ الالفین (کویت)


مَقْتَل‌ُ الحسین واقعہ عاشورا اور شہادت حضرت امام حسین کے متعلق لکھا جانے والا وہ مقتل ہے جو اس وقت موجود ہے ۔یہ مقتل واقعہ کربلا کی دو نسلوں کے بعد ابو مخنف نے ترتیب دیا .یہ مقتل کتاب کی صورت میں چوتھی صدی ہجری تک موجود تھا لیکن اسکے بعد ابو مخنف کے دیگر آثار کی مانند مفقود و ناپید ہو گیا ۔لیکن اسکی عمدہ روایات تاریخ طبری یا دیگر کتب میں لابلای صورت میں مذکور ہیں ۔آجکل ایک کتاب مقتل ابومخنف کے نام سے موجود مشہور ہے جو ایک جعلی کتاب ہے۔ ظاہرا اسی مقتل کا بہت عرصہ پہلے ہند و پاک میں اردو زبان میں ترجمہ کیا گیا۔

مؤلف کتاب

لوط بن یحیی بن سعید بن مخنف ازدی مشہور بنام ابومخنف دوسری صدی ہجری کے سن پچاس کے بعد کوفہ میں میں پیدا ہوا اور ۱۵۷ یا ۱۵۸ ہجری میں فوت ہوا ۔ اس نے بہت سی کتابیں تالیف کیں ۔ نجاشی نے اس کی ۲۸ کتاب اور ابن ندیم نے ۳۰ کتابیں شمار کی ہیں۔ [1] کتاب قتل عثمان، كتاب صفّين، كتاب مقتل محمّد بن أبي بكر ، كتاب مقتل أمير المؤمنين (ع) اس کی چند ایک کتابوں کے نام ہیں .[2]

بعض کے نزدیک مقتل ابی مخنف، واقعہ کربلا سے متعلق پہلی کتاب ہے ۔ [3] جس زمانے میں مؤلف نے اس کتاب کی تالیف کا آغاز کیا تو اس وقت اس واقعہ کے بعض موثق افراد زندہ تھے ۔ [4] وقعۃ الطف کے مؤلف کے بقول ابو مخنف کے شیعہ ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے ۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ وہ اہل بیت کی طرف میلان اور ان سے محبت رکھتا تھا ۔[5]

کتاب

لوط بن یحیی کی کتابوں کا ذکر کرتے ہوئے ابن ندیم بغدادی[6] نے اپنی کتاب فہرست میں مقتل الحسین کا نام ذکر کیا ہے ۔ نیز نجاشی[7] نے بھی اسکی کتابوں میں بنام کتاب قتل الحسین ذکر کی ہے ۔

جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ لوط بن یحیی کی کتابیں چوتھی صدی ہجری تک موجود تھیں لیکن اس کے بعد مقتل امام حسین سمیت دیگر کتب ناپید ہو گئیں ۔ لیکن لوط بن یحیی کی کتاب مقتل الحسین کی اکثر روایات محمد بن جریر طبری نے تاریخ الامم و الملوک (مشہور بنام تاریخ طبری) میں ذکر کی ہیں نیز اور مؤرخین نے بھی ان روایات کو ذکر کیا ۔

کتابی صورت میں تدوین

لوط بن یحیی کی مقتل الحسین کی اہمیت، قدامت اور ناپیدی کی صورت کے پیش نظر اس دور کے بعض محققین نے ابو مخنف کی روایات کی جمع آوری کا کام کیا ہے ۔اس طرح ابو مخنف کے مقتل الحسین کی نئے سرے سے تدوین کی ہے مثلا:‌

  • حسن غفاری(قم: مقتل الحسین، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی
  • محمد ہادی یوسفی غروی: وقعۃ الطف لابی مخنف، تحقیق (قم: انتشارات اسلامی). این کتاب توسط جواد سلیمانی با عنوان نخستین گزارش مستند از نہضت عاشورا، فارسی زبان میں ترجمہ ہوئی ہے ۔ (قم: مؤسسۃ آموزشی پژوہشی امام‌ خمینی)۔
  • مقتل الحسین ابی‌ مخنف، تصحیح و ترجمۂ حجت الله جودکی(قم: انتشارات خیمہ، ۱۳۹۳).[8]

مجعول اور جعلی کتاب

کتاب مقتل الحسین ابو مخنف چوتھی صدی ہجری تک موجود تھی لیکن اس کے بعد اسکے دیگر آثار کی مانند ناپید ہو گئی ۔آج کل ایک کتاب بنام مقتل ابومخنف سے مشہور ہے یہ ایک جعلی اور مجعول کتاب ہے اور احتمال ہے کہ یہ کتاب چھٹی صدی ہجری قمری میں بنائی گئی. ۔[9].

محمد اسفندیاری درج ذیل دلائل کی بنا پر اسے جعلی کتاب کہتا ہے :

  1. اس کتاب کے مضامین تاریخ طبری سے بہت زیادہ اختلاف رکھتے ہیں جبکہ طبری نے کسی واسطے یا صرف ایک واسطے سے ابو مخنف کی کتاب سے نقل کیا ہے ۔
  2. اس جعلی کتاب کے شروع میں یوں آیا ہے: قال ابومخنف: حدثنا ابوالمنذر ہشام عن محمد بن سائب الکلبی (ص ۵).جبکہ ہشام ابومخنف کا شاگرد تھا.
  3. صفحہ نمبر12 پر آیا ہے : روی الکلینی فی حدیث... جبکہ کلینی ابو مخنف کی وفات کے سو سال بعد پیدا ہوا۔
  4. صفحۂ ۱۱۳ میں آیا: طِرِمّاح بن عَدی عمر بن سعد کے لشکر کے ستّر افراد قتل کرنے کے بعد خود بھی قتل ہو گیا ؛ حالانکہ طبری اپنی تاریخ میں ابو مخنف سے نقل کرتا ہے کہ طرماح بن عدی کربلا میں موجود نہیں تھا ۔[10].
  5. حر ریاحی کے واقعے میں وہ اشعار ذکر ہوئے ہیں جو اشعار عبید اللہ بن حر جعفی نے کہے تھے ۔ یہ اشعار حر ریاحی کے واقعے سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے ہیں ۔[11]
  6. مسلم بن عقیل کے واقعے میں لکھا ہے کہ مسلم بن عقیل کی شہادت کے بعد امام حسین نے اپنے سارے کاروان سمیت مدینہ واپس لوٹ آئے۔ امام حسین قبر رسولؐ پر آئے اور یہاں شدید گریہ و زاری کیا۔...۔ جبکہ اس خبر کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں ہے ۔[12]
  7. اس مقتل میں ایسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں کہ جنہیں متاخر زمانوں کے اہل عرب استعمال کرنے لگے ہیں اور ابو مخنف کے زمانے میں انکا استعمال رائج نہیں تھا ۔ [13]

مرزا حسین نوری (محدث نوری) اپنی کتاب لؤلؤ و مرجان میں اس جعلی مقتل کے بارے میں لکھتا ہے :

«ابومخنف لوط بن یحیی بزرگ محدثین اور معتمد ارباب سیر و تواریخ میں سے تھا اور اسکا مقتل نہایت قابل اعتبار .... و لیکن افسوس ہے کہ ابو مخنف کا اصلی مقتل اسوقت ہمارے ہاتھوں میں موجود نہیں ہے اور اسوقت موجود مقتل جو ابو مخنف سے منسوب ہے وہ بعض منکرہ اور اصول مذہب کے مخالف مطالب پر مشتمل ہے البتہ چند ایک جاہلوں نے اپنی فاسدہ اغراض کے تحت اسے کتاب میں شامل کیا ہے ۔ اس وجہ سے اب یہ موجودہ مقتل حداعتبار سے گر گیا ہے اور اسکے منفردات کسی بھی لحاظ سے قابل اعتماد نہیں ہیں ۔[14]

شرف الدین اپنی تالیف مؤلف و الشیعہ فی صدر السلام میں اس کتاب کے جعلی ہونے سے اس طرح پردہ اٹھاتا ہے: لوگوں کے ہاتھوں میں موجود متداول مقتل ابی مخنف بہت سی ایسی روایات پر مشتمل ہے کہ جن کی خبر خود ابو مخنف کو بھی نہیں ہے اور یہ اس شخص پر جھوٹ باندھا گیا ہے۔.... ۔[15]

حوالہ جات

  1. صالحی حاجی آبادی، ابراہيم ، پژوہشی در ہويت تاريخي مقتل ابی مخنف، فصلنامہ علمی ـ پژوہشی تاريخ‌ نگری و تاريخ‌ نگاری دانشگاه الزہرا(س)، ۱۳۸۸، ش۱۳، ص۵۲.
  2. أزدی غامدي كوفی أبی مخنف، وقعۃ الطف، تحقیق: محمد ہادی يوسفی غروی، ١٣٦٧ش، ص۱۷.
  3. الأزدی الغامدی الكوفی أبی مخنف، وقعۃ الطف، تحقیق: محمد ہادی يوسفی غروی، ١٣٦٧ش، ص۷.
  4. اسفند یاری، محمد، کتاب‌ شناسی تاریخی امام‌حسین، ۱۳۹۱، ص۴۲.
  5. أزدی غامدی كوفی أبی مخنف، وقعۃ الطف، تحقیق: محمد ہادی يوسفی غروی، ١٣٦٧ش، ص۱۹و۲۰.
  6. ابن ندیم بغدادی،فہرست105 ذیل ابو مخنف، تحقیق رضا تجدد
  7. نجاشی ،رجال نجاشی،321/ش875،مؤسسہ نشر اسلامی التابعۃ لجماعۃ المدرسین قم
  8. ابو مخنف، مقتل الحسین ابی‌ مخنف، تصحیح و ترجمۂ حجت‌ اللہ جودکی، ۱۳۹۳.
  9. اسفند یاری، محمد، کتاب‌شناسی تاریخی امام‌حسین، ۱۳۹۱، ص۴۲؛نیز بنگرید: أزدی غامدي كوفی أبی مخنف، وقعۃ الطف، تحقیق: محمد ہادی يوسفی غروی، ١٣٦٧ش، ص۲۳.
  10. اسفندیاری، محمد، کتاب‌شناسی تاریخی امام‌حسین، ۱۳۹۱،، ص۴۳؛ نیز بنگرید:أزدی غامدي كوفی أبی مخنف، وقعۃ الطف، تحقیق: محمد ہادی يوسفی غروی، ١٣٦٧ش، ص۲۴تا۲۶.
  11. یوسفی غروی ،وقعۃ الطف لابی مخنف،ص34
  12. یوسفی غروی ،وقعۃ الطف لابی مخنف،ص34
  13. یوسفی غروی ،وقعۃ الطف لابی مخنف،ص32
  14. اسفند یاری، محمد، کتاب‌شناسی تاریخی امام‌حسین، ۱۳۹۱، ص۴۳.
  15. یوسفی غروی ،وقعۃ الطف لابی مخنف،ص32

منابع

  • ابو مخنف، لوط بن یحیی، مقتل الحسین ابی‌ مخنف، تصحیح و ترجمۂ حجت‌ اللہ جودکی، قم: انتشارات خیمہ، ۱۳۹۳.
  • أزدی غامدي كوفی أبي مخنف، وقعۃ الطف، تحقیق: محمد ہادی يوسفی غروی، قم: مؤسسۃ النشر الإسلامي، چاپ اول، ١٣٦٧ش.
  • اسفند یاری، محمد، کتاب‌شناسی تاریخی امام‌ حسین، قم، صحیفہ خرد، ۱۳۹۱.
  • صالحی حاجی آبادی، ابراہيم ، «پژوہشی در ہويت تاريخي مقتل ابی مخنف»، فصلنامہ علمي ـ پژوہشی تاريخ نگری و تاريخ نگاری دانشگاه الزہرا(س)، ۱۳۸۸، ش۱۳، ص۵۱تا۷۳.

بیرونی رابط