عبد اللہ ابن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے (کتاب)

ویکی شیعہ سے
عبداللہ ابن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے
مشخصات
مصنفسید مرتضی عسکری
زبانعربی
تعداد جلد2
طباعت اور اشاعت
ناشرمجمع جہانی اہلبیتؑ
اردو ترجمہ
مترجمسید قلبی علی رضوی


عبداللہ بن سبأ و أساطیر أخری (ترجمہ: عبداللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے)دو جلدوں پر مشتمل سید مرتضی عسکری کی ایک کتاب ہے۔ یہ سیف بن عمر نامی شخص کی روایت پر ایک تاریخی، تحقیقی اور رجالی کتاب ہے۔ مؤلف کے مطابق اس شخص نے بہت سارے افسانے بنائے ہیں ان میں سے ایک عبداللہ بن سبا ہے۔

بعض شیعہ مخالفین عبد اللہ ابن سبا کو اس مذہب کا بانی سمجھتے ہیں، لیکن اس کتاب کے مصنف نے اس ادعا کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔مولف نے 500ھ سے پہلے کی کتابوں سے استناد کرتے ہوئے سیف کی روایات کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے انہیں جعلی قرار دیا ہے۔ مصنف نے شروع میں کتاب کا نام «احادیث سیف» رکھا تھا لیکن صلح الحسن نامی کتاب کے مصنف شیخ راضی آل یاسین کی تجویز کے مطابق کتاب کے نام کو تبدیل کر کے عبد اللہ بن سبا رکھا۔[1]اب اس کتاب کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے اور اردو میں بھی عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے کے نام سے ترجمہ ہوچکا ہے۔

شیعہ
اصول دین (عقائد)
بنیادی عقائدتوحیدعدلنبوتامامتمعاد یا قیامت
دیگر عقائدعصمتولایتمہدویت: غیبتانتظارظہوررجعتبداء • ......
فروع دین (عملی احکام)
عبادی احکامنمازروزہخمسزکاتحججہاد
غیر عبادی احکامامر بالمعروف اور نہی عن المنکرتولاتبرا
مآخذ اجتہادقرآن کریمسنت (پیغمبر اور ائمہ کی حدیثیں)عقلاجماع
اخلاق
فضائلعفوسخاوتمواسات • ...
رذائلكبرعُجبغرورحسد • ....
مآخذنہج البلاغہصحیفۂ سجادیہ • .....
اہم اعتقادات
امامتمہدویترجعتبداشفاعتتوسلتقیہعصمتمرجعیت، تقلیدولایت فقیہمتعہعزاداریمتعہعدالت صحابہ
شخصیات
شیعہ ائمہامام علیؑامام حسنؑامام حسینؑامام سجادؑامام باقرؑامام صادقؑامام کاظمؑامام رضاؑامام جوادؑامام ہادیؑامام عسکریؑامام مہدیؑ
صحابہسلمان فارسیمقداد بن اسودابوذر غفاریعمار یاسر
صحابیہخدیجہؑفاطمہؑزینبؑام کلثوم بنت علیاسماء بنت عمیسام ایمنام سلمہ
شیعہ علماادباعلمائے اصولشعراعلمائے رجالفقہافلاسفہمفسرین
مقدس مقامات
مسجد الحراممسجد النبیبقیعمسجدالاقصیحرم امام علیمسجد کوفہحرم امام حسینؑحرم کاظمینحرم عسکریینحرم امام رضاؑ
حرم حضرت زینبحرم فاطمہ معصومہ
اسلامی عیدیں
عید فطرعید الاضحیعید غدیر خمعید مبعث
شیعہ مناسبتیں
ایام فاطمیہمحرّم ، تاسوعا، عاشورا اور اربعین
اہم واقعات
واقعۂ مباہلہغدیر خمسقیفۂ بنی ساعدہواقعۂ فدکخانۂ زہرا کا واقعہجنگ جملجنگ صفینجنگ نہروانواقعۂ کربلااصحاب کساءافسانۂ ابن سبا
الکافیالاستبصارتہذیب الاحکاممن لایحضرہ الفقیہ
شیعہ مکاتب
امامیہاسماعیلیہزیدیہکیسانیہ


کچھ مؤلف کے بارے میں

سید مرتضی شریف عسکری المعروف علامہ عسکری (۱۳۳۲ھ - ۱۴۲۸ھ)، حوزہ علمیہ سامرا کا سیرہ نگار، تاریخ اسلام کا ماہر اور شیعہ عالم دین. عسکری نے تاریخ اسلام کو ایک محقق کی نظر سے پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی اہم کتابوں میں 150 جعلی اصحاب، التوسل بالنبیؐ و التبرک بآثارہ معالم المدرستین اور القرآن الکریم و روایات المدرستین وغیرہ ہیں۔ آپ مجمع جہانی اہلبیت کی شورای عالی کا سابق رکن اور عراق میں بعثی حکومت کے مخالفین میں سے تھے اور حزب الدعوۃ‌الاسلامیۃ کے اصلی ممبران میں سے تھے۔

کتاب لکھنے کا مقصد

مولف کو شروع میں مشہور اور قدیمی مآخذ میں ایسی روایات ملیں جنکا جعلی ہونے کے بارے میں قرآئن اور شواہد موجود تھے۔ اور آپ نے ان روایات کو جمع کر کے دوسری روایات سے مقایسہ کرنے کا ارادہ کر لیا۔ اور پھر ایسے نتیجے تک پہنچا جس کے بارے میں تاریخ میں غفلت ہوئی تھی۔ البتہ شروع میں ایسی کتاب چھاپ کرنے میں خوف محسوس کر رہے تھے کیونکہ بہت ساری تاریخی مآخذ کا ضعیف ہونے کا انکشاف ہوتا تھا اسی لیے وہ لوگ جنہیں تاریخی کتابوں پر اسطرح سے ایمان ہے جس طرح سے بوڑھی عورتوں کا خرافات پر ایمان ہے تو ان لوگوں کو ان کتابوں کو پڑھنے سے منع کیا ہے کیونکہ تاریخی مآخذ کا ضعیف ہونا صرف عبد اللہ بن سبا کے افسانے تک محدود نہیں ہے۔[2]

پہلی جلد کے مضامین

عبداللہ بن سبأ کا افسانہ

پہلی جلد کا آغاز عبد اللہ ابن سبا کی داستان سے ہوتا ہے۔ اور مؤلف کی نظر میں کہانی کچھ اس طرح سے ہے: یمن کے شہر صنعا سے ایک یہودی عثمان کے دور خلافت میں مسلمان ہوتا ہے اور اسلامی شہروں کی طرف سفر کر کے لوگوں کو بشارت دیتا ہے کہ محمدؐ رجعت کرے گا اور علیؑ اس کا وصی ہے لیکن عثمان نے اس کا حق غصب کیا ہے اسی لئے اس حق کو اس سے چھیننے کے لیے اس کے ساتھ جنگ کرنا واجب ہے۔ اس نے اپنے نمایندے اسلامی شہروں کی طرف بھیجا اور بعض لوگ اس کے ہم نظر ہوگئے جن میں سے بعض بزرگان؛ جیسے ابوذر، عمار یاسر اور مالک اشتر وغیرہ۔ عثمان کا قتل بھی سابئیوں کی تحریک سے واقع ہوا ہے۔[3]

افسانے کا سرچشمہ

اس افسانے کے منبع اور سرچشمے کو پانے کے لیے مؤلف نے پرانے مآخذ اور متاخر مآخذ اور روایات میں تحقیق کر کے اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ کہانی صرف چار طریقوں سے روایت ہوئی ہے۔: تاریخ الامم و الملوک (طبری/۳۱۰)، تاریخ مدینۃ دمشق (ابن عساکر/۵۷۱)، التمہید و البیان فی مقتل الشہید عثمان بن عفان (ابن ابی بکر/۷۴۱) اور تاریخ الاسلام (ذہبی/۷۴۸). ان چاروں کتابوں میں اس کہانی کو «سیف بن عمر» نامی شخص سے نقل کیا ہے۔[4]

سیف بن عمر

مولف سیف بن عمر کی معرفی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ تمیمی اُسیّدی کوفی الاصل، متوفی ۱۷۰ تا ۱۹۳ھ ہے اور پھر اس کی روایات کو تاریخ اور رجال کے بزرگوں؛ جیسے یحیی بن معین (۲۳۳ھ) سے ابن حجر (۸۵۲ھ) تک تحقیق کرتا ہے اور ان سب نے کہا ہے کہ وہ ضعیف، جھوٹا، متروک الحدیث اور زندیق ہونے کی تہمت بھی ہے۔۔۔۔۔۔

سیف بن عمر کی روایات کی تحقیق

مولف اس کے بعد سیف کی روایات کو اصلی منابع سے مقایسہ کرتا ہے خاص کر تاریخ طبری کی روایت سے موازنہ کرتا ہے اور ان روایات کو دوسرے قابل اعتماد راویوں کی روایات سے مقایسہ کرتا ہے تاکہ ایک تو: سیف کی روایات کا تاریخی منابع پر تاثیر معلوم ہوجائے؛ اور دوم: سیف کی احادیث کی قدر و قیمت معلوم ہوسکے؛ اور سوم: تاریخی واقعات کے نقل کرنے میں سیف کی بے طرفی اور غیرجانبداری کی مقدار کا اندازہ لگایا جاسکے۔ پہلی جلد کے آخر میں انہوں نے سیف کی جعلی روایات کا رواج پانا اور صحیح روایات سے بےرخی کی وجہ سیف کی روایات کا اس وقت کے مسلمانوں کے تقاضا اور چاہت کے مطابق ہونا قرار دیا ہے نہ این کہ ایسا کوئی واقعہ رونما بھی ہوا ہو۔

دوسری جلد کے مضامین

روایات جعل کرنے کا مقصد

دوسری جلد کے دیباچے میں مولف لکھتا ہے کہ شروع میں ان کا خیال یہ تھا کہ روایات کو جعل کرنے میں سیف کا مقصد بزرگ صحابہ کا دفاع اور ان کے مخالفوں کی تحقیر کرنا تھا لیکن آخر میں اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ جعلی روایات بنانے میں سیف کے دو اہداف تھے:

۱. قحطانیوں کے مقابلے میں عدنانیوں کی تعریف میں قبیلے کی تعصب؛

۲. سیف کا کافر ہونا۔ اسی وجہ سے وہ اسلام کی تاریخی حقایق کو تحریف کرنے لگا اور خرافات و افسانوں کو مسلمانوں کے عقائد میں شامل کیا۔

سیف کے بعض دوسرے افسانے

مولف نے سیف کے بعض دوسرے افسانے بیان کرتے ہوئے بعض مندرجہ ذیل افسانوں کو بعض دوسری روایات سے مقایسہ کیا ہے: اسلام کا تلوار کے بل بوتے پر پھیلنا، عمان اور یمن کے لوگوں کا مرتد ہونا، غیر واقعی فتوحات، اشخاص کے ناموں میں تحریف وغیرہ وغیرہ۔ اس جلد کے دوسرے حصے میں دوبارہ عبد اللہ بن سبا کے بارے میں بحث کرتے ہوئے اس کی شخصیت کو حدیثی اور ملل و نحل کی کتابوں میں بررسی کیا ہے۔

سبائیت اور ابن سبأ

فارسی ترجمے کا ٹائٹل

مولف سبائیت اور ابن سبأ کے بارے میں کہتا ہے: سبائیت (سبئیت)، سبأ ابن یشجب بن یعرب بن قحطان کی نسل، یمنی قبیلے سے منسوب ہے اور قحطانیت کے مترادف ہے اور صحاح ستہ کی بہت ساری احادیث کے راویوں کے کا لقب بھی سبئی ہے اور تیسری صدی کے اواسط تک اسی لقب سے مشہور تھے۔ پھر اس کے بعد سے یہ لقب امام علیؑ کے بعض اصحاب اور سبائی قبیلے سے تعلق رکھنے والے مختار کے بعض دوستوں کو طعنہ کے طور پر استعمال کیا گیا اور پھر سب شیعوں کو یہی لقب دینے لگے۔ اس کے بعد سیف بن عمر نے عبد اللہ ابن سبا کا افسانہ گھڑ دیا اور طبری نے اس سے اور مورخوں نے طبری سے نقل کیا اور بعد میں یہ لفظ ایک مذہبی فرقے کے لیے استعمال ہونے لگا اور سبا کے قبایل سے منسوب ہونے کو بھولا دیا گیا۔ مؤلف کہتا ہے کہ عبد اللہ بن سباوہی عبداللہ بن وہب سبائی ہے جو نہروان میں خوارج کے سرکردوں میں سے تھا۔[5]


چھاپ، نشر اور ترجمے

کتاب کا عربی ٹائٹل

یہ کتابوں عربی میں دو جلدوں پر مشتمل سنہ۱۳۷۵ھ کو پہلی بار نجف میں پھر سنہ۱۳۸۱ھ کو اضافات کے ساتھ قاہرہ میں پھر سنہ۱۳۸۸ھ کو بیروت سے چھپ کر منظر عام پر آگئی۔ لیکن تینوں چھاپ مولف کی نظارت کے بغیر تھے اسی وجہ سے ان میں کچھ اشتباہات پائے جاتے تھے۔ لیکن چوتھا ایڈیشن بیروت سے سنہ۱۳۹۳ھ کو مولف کی اصلاحات اور اضافات کے ساتھ منظر عام پر آگیا۔[6]

یہ کتاب اب تک انگلش، فارسی، اردو اور ترکی زبان میں ترجمہ ہوچکی ہے۔

کتاب کے انتشار اور عکس العمل

کتاب عبداللہ بن سبا، نشر ہونے کے بعد بہت سارے موافق اور مخالف بنے جن کی طرف مولف نے تیسرے ایڈیشن کے دیباچے میں اشارہ کیا ہے اور ان کا جواب بھی دیا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کے بعض اخبارات میں بھی اس حوالے سے بعض یونیورسیٹیز کے استادوں نے کچھ نظریات کا اظہار کیا تھا۔ ان نظریات اور علامہ عسکری کی طرف سے ان کے جوابات کو «آراء و اصداء حول عبداللہ بن سبأ و روایات سیف فی الصحف السعودیۃ» [7] نامی کتاب میں جمع کر کے چھاپ دیا ہے۔

حوالہ جات

  1. مقدمہ چاپ اول
  2. ج۱، ص۲۳-۲۴
  3. ج۱، ص۲۹-۳۴
  4. ج۱، ص۵۷
  5. ج۲، ص۱۸۹
  6. ج۱، ص۷ از چاپ چہارم
  7. ناشر: دانشکدہ اصول الدین، چاپ اول ۱۳۷۹

بیرونی روابط

کتاب کا متن: http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=112