مشکوک مال

ویکی شیعہ سے
(شبہہ ناک اموال سے رجوع مکرر)

مشکوک مال یا مال مُشتَبَہ یا شبہہ ناک مال وہ مال ہے جس کا حلال یا حرام ہونا معلوم نہ ہو۔ خیال رہے کہ مشکوک مال اور مال حرام سے مخلوط شدہ مال کے درمیان بہت فرق ہے کیونکہ حرام میں مخلوط مال کے بارے میں انسان جانتا ہے کہ اس کے مال میں حرام مل گیا ہے لیکن مشکوک مال میں اسے نہیں معلوم ہوتا کہ مال حرام ملا ہے یا نہیں۔

فقہاء، مشکوک مال کو حلال قرار دیتے ہیں۔ اس میں خمس، واجب نہیں ہوتا ہے اور اس سے حج انجام دیا جاسکتا ہے۔

کچھ روایات میں مشکوک مال کے سلسلہ میں احتیاط کا حکم دیا گیا ہے۔ محمد تقی مجلسی نے ان روایات کی بنیاد پر مشکوک مال، استعمال نہ کرنے کو مناسب سمجھا ہے۔ اس کے بر خلاف امام خمینی نے ان روایات کو ارشاد و رہنمائی پر حمل کیا ہے اور مشکوک مال کے استعمال کے لئے فقہی کراہت کو قبول نہیں کیا ہے۔

مشکوک مال کا مفہوم

فقہ[1] اور روایات[2] میں مشکوک مال اس مال کو کہا جاتا ہے جس کا حلال یا حرام ہونا معین نہ ہو۔[3]

روایات میں مشکوک مال کو «شبہہ» یا «شبہات» بھی کہا گیا ہے۔[4] مثلا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کی ایک روایت میں آیا ہے: «حَلَالٌ بَيِّنٌ وَ حَرَامٌ بَيِّنٌ وَ شُبُهاتٌ بَيْنَ ذَلِكَ...: واضح حلال اور واضح حرام بھی ہوتا ہے اور کچھ امور ان دونوں کے درمیان مشتبہ ہیں۔۔۔۔[5] کچھ لوگوں نے کھانا اور لقمہ مشتبہ کو بھی مشکوک مال میں شمار کیا ہے۔[6]

حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ شبہہ کو اس لئے شبہہ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ حق سے مشابہ ہوتا ہے۔[7] اور عربی زبان میں مشکوک مال (شبہہ ناک مال) وہ مال ہے جس کا حلال یا حرام ہونے میں شک ہو۔[8]

حرام مال میں مل جانے والے مال سے فرق

مشکوک مال اور مال حرام سے مخلوط شدہ مال کے درمیان بہت فرق ہے کیونکہ حرام میں مخلوط مال کے بارے میں انسان جانتا ہے کہ اس کے مال میں حرام مل گیا ہے لیکن مشکوک مال میں اسے نہیں معلوم ہوتا کہ مال حرام ملا ہے یا نہیں[9]

فقہی احکام

مشکوک مال کے کچھ احکام، ذکر کئے گئے ہیں:

  • حلیت: کہتے ہیں کہ مشکوک مال، حلال ہے۔[10] اس حکم شرعی کا استدلال[11] اس روایت سے ہے: «کُلُ‏ شَیْءٍ هوَ لَکَ‏ حَلَالٌ‏ حَتَّی‏ تَعْلَمَ‏ أَنَّه حَرَامٌ‏ بِعَیْنِه...: تمہارے لئے ہر چیز اس وقت تک حلال ہے جب تک تمہیں علم نہ ہو جائے کہ وہ بعینہ حرام ہے۔»[12] اس روایت کے معنی و مفہوم کو اصالۃ الاباحۃ کہا جاتا ہے۔[13]
  • خمس نہ ہونا: مشکوک مال میں مشکوک مال ہونے کی بنیاد پر خمس واجب نہیں ہے؛[14] اور یہ حرام سے مخلوط مال کے بر خلاف ہے کیونکہ اس میں حرام سے مخلوط ہونے کی وجہ سے ہی خمس واجب ہوجاتا ہے۔[15]
  • مشکوک مال سے حج کرنا: فقہاء کی نظر میں ایسے مشکوک مال سے حج کیا جاسکتا ہے جس کی حرمت کے بارے میں انسان کو یقین نہ ہو۔[16] آیت اللہ مکارم شیرازی نے اس شرط کا اضافہ فرمایا ہے کہ ظاہرا اس کو حلال طریقے سے کمایا ہو۔[17]

مشکوک مال میں احتیاط

جوامع حدیثی میں ایسی روایات نقل ہوئی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ مشکوک مال میں توقف اور احتیاط کرنا چاہئے، مثلا:

  • «دَعْ مَا یُرِیبُکَ إِلَی مَا لَا یُرِیبُکَ‏؛ مشکوک چیزیں چھوڑ کر غیر مشکوک چیزوں کو لے لو۔»[18]
  • «...فَمَنْ تَرَکَ الشُّبُهاتِ نَجَا مِنَ الْمُحَرَّمَاتِ وَ مَنْ أَخَذَ بِالشُّبُهاتِ ارْتَکَبَ الْمُحَرَّمَات‏...؛ جس نے مشکوک کو چھوڑ دیا وہ حرام سے بچ گیا اور جس نے مشکوک کو لے لیا وہ حرام میں گرفتار ہوگیا»[19]
  • «الْوُقُوفُ عِنْدَ الشُّبْہة خَیْرٌ مِنَ الِاقْتِحَامِ فِی الْہلَکَةِ؛‌ شبہہ کے وقت رک جانا ہلاکت میں پڑنے سے بہتر ہے»[20]

امام خمینی نے ان روایات کو محرمات سے بچنے کے لئے ارشاد اور رہنمائی پر حمل کیا ہے اور مال مشکوک کے استعمال کی کراہت کو قبول نہیں کیا ہے۔[21] گیارہویں صدی ہجری کے شیعہ عالم دین محمدتقی مجلسی کے بقول، مشکوک مال کا استعمال حلال ہونے کے باوجود، روایات کی بنیاد پر بہتر یہی ہے کہ اس سے پرہیز کیا جائے تاکہ حرام کا ارتکاب نہ ہو۔[22] کچھ لوگوں نے مذکورہ روایات کی بنیاد پر کہا ہے کہ مشکوک مال کے بارے میں توقف کرنا چاہئے اور جب تک اس کے حلال ہونے کا یقین نہ ہو جاتا تب تک سے استعمال نہیں کرنا چاہئے۔[23]

کہا گیا ہے کہ مشکوک کھانے اور مال کو ترک کرنا ورع کا ایک رتبہ ہے جو ورع صالحین کے نام سے مشہور ہے۔[24] بعض علماء سے نقل ہوا ہے کہ وہ مشکوک لقمہ کے موقع پر احتیاط کرتے تھے اور اگر اتفاق سے مشکوک کھانا کھا لیتے تھے اور بعد میں اس کے مشکوک ہونے کا پتہ چلتا تھا تو امکان کی صورت میں اسے الٹ دیتے تھے۔[25]

حوالہ جات

  1. نمونہ کے طور پر دیکھئے: شہید ثانی، مسالک الافہام، ۱۴۱۳ھ، ج۴،‌ ص۳۳۴؛ بحرانی، الحدائق الناضرۃ، ۱۴۰۵ھ، ج۲۱، ص۱۹۷؛ نراقی، عوائد الایام، ۱۴۱۷ھ، ص۱۴۴؛ نجفی، جواہر الکلام، دار احیاء‌التراث العربی، ج۲۶، ص۳۲۸.
  2. نمونہ کے طور پر دیکھئے: طوسی،‌ الامالی، ۱۴۱۴ھ، ص۳۸۱؛ ورام، مجموعہ ورام، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۶ و ج۲، ص۲۶۷.
  3. خمینی، المکاسب المحرمۃ، ۱۴۱۵ھ، ج۲، ص۳۴۳؛ مازندرانی، شرح الکافی، ۱۳۸۲ھ، ج۲، ص۴۱۵؛ مجلسی، مرآۃ العقول،‌ ۱۴۰۴ھ، ج۱، ص۲۲۵.
  4. دیکھئے: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۶۸؛ حرعاملی، وسائل الشیعۃ، ۱۴۰۹ھ، ج۲۷، ص۱۵۷و۱۵۸.
  5. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۶۸.
  6. ملک‌احمدی، درسنامہ رزق حلال، ۱۳۹۲ش، ص۱۷۸.
  7. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ ۳۸، ص۸۱.
  8. دهخدا، لغت‌نامه، ۱۳۷۷ش، ج۹، ذیل واژه شبهه‌ناک۔
  9. دیکھئے: منتظری، مبانی فقہی حکومت اسلامی، ۱۴۰۹ھ، ج۶، ص۱۸۴.
  10. انصاری، فرائد الاصول، ۱۴۱۹ھ، ج۲،‌ ص۲۰۱؛‌ نراقی، عوائد الایام، ص۱۴۴؛ مجلسی، روضۃ المتقین، ۱۴۰۶ھ، ج۶، ص۴۸۹.
  11. انصاری، فرائد الاصول، ۱۴۱۹ھ، ج۲،‌ ص۲۰۰و۲۰۱؛ مجلسی، روضۃ المتقین، ۱۴۰۶ھ، ج۶، ص۴۸۹.
  12. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۵، ص۳۱۳.
  13. دیکھئے: انصاری، فرائد الاصول، ۱۴۱۹ھ، ج۲،‌ ص۲۱۹.
  14. منتظری، مبانی فقہی حکومت اسلامی، ۱۴۰۹ھ، ج۶، ص۱۸۰و۱۸۴.
  15. طباطبایی یزدی، عروۃ‌الوثقی، ۱۴۱۹ھ، ج۴، ص۲۵۶و۲۵۷.
  16. محمودی، مناسک حج(محشی)، ۱۴۲۹ھ، ص۳۶.
  17. مکارم شیرازی، مناسک جامع حج، ۱۴۲۶ھ، ص۳۹۵.
  18. حرعاملی، وسائل الشیعۃ، ۱۴۰۹ھ، ج۲۷، ص۱۶۷.
  19. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱،‌ ص۶۸؛ حرعاملی، وسائل الشیعۃ، ۱۴۰۹ھ، ج۲۷، ص۱۵۷.
  20. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱،‌ ص۵۰؛ حرعاملی، وسائل الشیعۃ، ۱۴۰۹ھ، ج۲۷، ص۱۵۷و۱۵۸.
  21. خمینی، المکاسب المحرمۃ، ۱۴۱۵ھ، ج۲، ص۳۴۳و۳۴۴.
  22. مجلسی، روضۃ المتقین، ۱۴۰۶ھ، ج۶، ص۴۸۹.
  23. ملک‌احمدی، درسنامہ رزق حلال، ۱۳۹۲ش، ص۱۷۹.
  24. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۶۷، ص۱۰۰.
  25. ملک‌احمدی، درسنامہ رزق حلال، ۱۳۹۲ش، ص۱۷۹و۱۸۰.

مآخذ

  • ‌ انصاری، شیخ مرتضی، فرائد الاصول، قم، مجمع الفکر الاسلامی،‌ چاپ اول، ۱۴۱۹ھ۔
  • بحرانی، یوسف بن احمد، الحدائق الناضرۃ فی أحکام العترۃ الطاہرۃ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ اول، ۱۴۰۵ھ۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ، قم،‌ مؤسسہ آل البیت(ع)، چاپ اول، ۱۴۰۹ھ۔
  • خمینی، سید روح ‌اللہ، المکاسب المحرمۃ، قم، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چاپ اول، ۱۴۱۵ھ۔
  • دہخدا، علی‌ اکبر، لغت ‌نامہ، تہران، دانشگاہ تہران، چاپ دوم، ۱۳۷۷ش.
  • ‌ شریف رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح،‌ قم، ہجرت، چاپ اول، ۱۴۱۴ھ۔
  • شہید ثانی، زین الدین بن علی، مسالک الافہام الی تنقیح شرائع الإسلام، قم، مؤسسۃ المعارف الإسلامیۃ، چاپ اول، ۱۴۱۳ھ۔
  • ‌ طباطبایی یزدی، سید محمد کاظم، عروۃ ‌الوثقی فیما تعم بہ البلوی (محشی)، تحقیق و تصحیح احمد محسنی سبزواری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ اول، ۱۴۱۹ھ۔
  • طوسی،‌ محمد بن حسن، الامالی، قم، دار الثقافۃ، چاپ اول، ۱۴۱۴ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ھ۔
  • مازندرانی، محمد صالح بن احمد، شرح الکافی (الاصول و الروضۃ)، تحقیق و تصحیح ابوالحسن شعرانی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، چاپ اول، ۱۳۸۲ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دار احیاء ‌التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر، مرآۃ العقول فی شرح اخبار آل الرسول(ع)،‌ تحقیق سید ہاشم رسولی محلاتی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ دوم، ۱۴۰۴ھ۔
  • مجلسی، محمد تقی، روضۃ المتقین فی شرح من لا یحضرہ الفقیہ، تحقیق و تصحیح حسین موسوی کرمانی و علی‌ پناہ اشتہاردی، قم،‏ مؤسسہ فرہنگی اسلامی کوشانپور، چاپ دوم، ۱۴۰۶ھ۔
  • محمودی، محمد رضا، مناسک حج(محشی)، تہران، نشر مشعر، ۱۴۲۹ق (ویرایش جدید).
  • مکارم شیرازی، ناصر، مناسک جامع حج، قم، مدرسہ امام علی بن ابی‌ طالب، چاپ اول، ۱۴۲۶ھ۔
  • ‌ ملک‌ احمدی، علی‌ اصغر، درسنامہ رزق حلال، مشہد، مؤسسہ مطالعات راہبردی علوم و معارف اسلام، چاپ اول، ۱۳۹۲ش.
  • منتظری، حسین علی، مبانی فقہی حکومت اسلامی، ترجمہ محمود صلواتی و ابوالفضل شکوری، قم، مؤسسہ کیہان،‌ چاپ اول، ۱۴۰۹ھ۔
  • نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الإسلام، بیروت، دار احیاء ‌التراث العربی، چاپ ہفتم، بی‌تا.
  • نراقی، احمد بن محمد مہدی، عوائد الایام فی بیان قواعد الأحکام، قم، مؤسسۃ المعارف الإسلامیۃ، چاپ اول، ۱۴۱۷ھ۔
  • ورام، ورام بن أبی ‌فراس، مجموعہ ورام(تنبیہ الخواطر و نزہۃ النواظر‏)، قم، مکتبہ فقہیہ، چاپ اول، ۱۴۱۰ھ۔