سَعد بن عُبادہ خَزرَجی (متوفی ۱۵ ق) انصار کے علمبردار، جنگ احزاب میں رسول اکرم (ص) کے مشاور اور دیگر کئی غزوات میں پیغمبر (ص) کے ساتھ رہے۔ سعد مدینہ کے بزرگان و اشراف اور قبیلۂ خزرج کے رئیس تھے۔ اسلام سے پہلے سعد کامل کے نام سے جانے جاتے تھے۔ رسول اکرم کے ساتھ پیمان عقبہ میں سعد بارہ نقبا میں سے ایک تھے۔

سعد بن عبادہ
کوائف
مکمل نامسَعد بن عُبادة بن دُلَیم بن حارثہ خَزرَجی
کنیتابو ثابت یا ابو قیس
لقبکامل
مہاجر/انصارانصار
کیفیت شہادتقتل ہوئے
دینی معلومات
جنگوں میں شرکتاکثر غزوات میں شریک
وجہ شہرتصحابی

رسول اللہ کے وصال کے بعد بعض انصار کے بزرگ سقیفہ میں جمع ہوئے اور خلافت کیلئے انکی نگاہ سعد بن عبادہ پر ٹھہری تھی لیکن حضرت ابو بکر، عمر اور ابو عبیدہ کے آنے سے سقیفہ کے مجمع نے حضرت ابو بکر کی طرف میلان پیدا کر لیا اور انہوں نے حضرت ابو بکر کی بیعت کر لی۔ لیکن سعد نے خلیفۂ اول و دوم کی بیعت نہیں کی اور آخرکار دوسری خلافت کے دوران قتل ہوئے اور ان کے قتل کو جنات کی طرف نسبت دی گئی۔

خاندان

  • نام: سَعد بن عُبادة بن دُلَیم بن حارثہ خَزرَجی
  • کنیت: ابو ثابت یا ابو قیس

سعد کا خاندان قبیلہ خزرج اشراف میں سے تھا اور ان کے والد عباده یثرب کے خزرج قبیلہ کے بزرگوں میں سے تھے۔ والدہ کا نام عمره بنت مسعود بن قیس، ان خواتین میں سے تھی جنہوں نے رسول اللہ کی بیعت کی اور ہجرت کے پانچویں سال فوت ہوئیں۔[1]

سعد خود پیامبر اسلام(ص) کے صحابہ میں سے ہیں۔ جاہلیت اور اسلام کے دور میں مدینہ میں خزرج قبیلے کے بزرگ مانے جاتے تھے۔ [2] ابن حزم کے بقول انہوں نے ۲۱ احادیث رسول اللہ سے نقل کی ہیں۔ [3] اسلام لانے سے پہلے لکھنے، پڑھنے، تیراندازی اور تیراکی جاننے کی بنا پر سعد کامل کے نام سے معروف تھے۔ [4]

زمانۂ جاہلیت میں سعد اور ان کے آباء و اجداد سخاوتمندی اور سرداری میں مشہور تھے۔[5] یہ شرافت اور سرداری اسلام قبول کرنے کے بعد بھی ان میں باقی رہی۔ یہ لوگ مدینہ میں لوگوں کو کھانا کھلانے والوں میں شمار ہوتے تھے۔[6] کہا گیا ہے کہ عربوں کے کسی خاندان کی چار نسلوں میں اس طرح مہمان نوازی کا سلسلہ جاری نہیں رہا جبکہ سعد کا بیٹا قیس سب سے زیادہ مہمان نواز تھا۔[7]

سعد کی سخاوتمندی کی اکثر حکایات معروف ہیں؛ مروی ہے کہ سعد کے جد دلیم کا ایک گھر تھا جس میں سے ہر روز کوئی آواز دیتا: جسے مرغن اور نرم غذا کھانا ہو وہ دلیم کے گھر پر آ جائے۔ دلیم کی موت کے بعد سعد نے یہی سلسلہ جاری رکھا اور ان کے بعد ان کے بیٹے قیس نے اپنے بزرگوں کی اس رسم کی پاسداری کی۔[8]

اسی طرح ابن سیرین نے نقل کیا ہے کہ پیامبر (ص) ہر رات اہل صفہ کے اصحاب میں کھانا تقسیم کرتے تھے۔ بعض ایک شخص کو بعض دو کو یا اس سے زیادہ جبکہ سعد ہر رات اسّی افراد کو کھانا کھلانے کیلئے اپنی منزل پر لے کر جاتے۔[9]سعد اور ان کے بیٹوں نے حضرت علی(ع) اور فاطمہ (س) کی شادی کے اسباب فراہم کرنے میں بہت مدد کی۔[10]

پیغمبر (ص) نے ایک دن افطار کے بعد یوں دعا فرمائی:

روزه‌ دار اور نیک لوگ تمہارے دستر خوان پر کھانا کھا رہے ہیں اور فرشتے تم پر درود بھیجتے ہیں۔[11]

اسلام قبول کرنا

بیعت عقبہ کے موقع پر سعد بن عبادہ نے اہل یثرب کے انصار میں سے ستّر افراد کے ہمراہ رسول خدا(ص) کی بیعت کی۔ جب سعد نے اسلام قبول کیا تو منذر بن عمرو اور ابودُجانہ کے ساتھ مل کر بنی ساعده کے بتوں کو توڑا۔[12] سعد ان بارہ نقبا میں سے ہیں جنہیں رسول اللہ نے جبرائیل کے اشارے پر متعین فرمایا۔[13]

غزوات میں شرکت

سعد اکثر غزوات میں رسول خدا (ص) کے ساتھ شریک ہوئے۔ لیکن جنگ بدر میں ان کی شرکت محل اختلاف ہے۔[14] وہ رسول اللہ کے مورد اعتماد اور مشاور افراد میں تھے۔ جنگ احزاب میں پیغمبر (ص) نے سعد بن عباده اور سعد بن معاذ کے اسلام اور رسول خدا کی حیثیت اور دفاع کے سخت مؤقف اور مشورے کے بعد ہی مشرکین سے مذاکرات کی پیش کش کو رد کر دیا۔[15]

کتب میں انہیں اسلام کے پرچمداروں میں شمار کیا ہے۔ غزوات پیامبر (ص) میں مہاجرین کا علم امام علی(ع) اور انصار کا پرچم سعد میں رہا۔[16] اگرچہ فتح مکہ کے موقع پر بھی علم سعد بن عباده کے ہاتھوں میں ہی تھا۔[17] لیکن سعد بن عبادہ سے انتقام جوئی اور خونریزی پر مشتمل شعار رسول اللہ کے کانوں میں پڑے تو آپ نے علی سے فرمایا: اے علی(ع) جاؤ اور سعد سے پرچم لے لو، مرحمت اور عفو پر مشتمل شعار کہو۔ایک اور روایت کے مطابق قیس بن سعد بن عباده کو اس کام پر مامور کیا۔[18]

خلافت ابوبکر

پیامبر (ص) کے وصال کے بعد سعد بن عباده شہر مدینہ کے بزرگوں کے ساتھ سقیفہ بنی ساعده میں خلافت کے حصول کیلئے اکٹھے ہوئے۔[19] لیکن ابو بکر بن ابی قحافہ، عمر اور ابو عبیدہ جراح کے سقیفہ میں آنے کی وجہ سے حاضرین نے ابوبکر کی طرف رجحان پیدا کر لیا۔ سعد کی سخت مخالفت کے باوجود حاضرین نے ابو بکر کا خلیفہ کے عنوان سے انتخاب کیا اور ان کی بیعت کی البتہ بعض کا کہنا ہے کہ سعد نے اپنے لئے خلافت کا دعوی نہیں کیا تھا بلکہ خزرجی تھے جو سعد کے خلیفہ ہونے کو چاہتے تھے۔[20] حضرت ابوبکر کی بیعت کے بعد بھی سعد اور اس کے قبیلے نے سعد کی پیروی کرتے ہوئے ابو بکر کی بیعت نہیں کی۔[21] اس کے مقابلے میں بعض نے لکھا ہے کہ سعد خلافت کا خواہاں تھا لیکن جب اسے حاصل نہ کر سکا تو حضرت ابو بکر کی بیعت نہیں کی۔[22]

اس کے بعد خلافت اول نے ان سے بیعت لینے کوشش کی لیکن انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا:

اس جھوٹ کو اپنے لئے بھی نہیں چاہا، کسی دوسرے کیلئے بھی اس جھوٹ کو نہیں چاہتا ہوں اور کسی کی خاطر جہنم جانے کیلئے تیار نہیں ہوں۔ [23]

خلافت عمر

خلیفہ اول کیلئے بیعت لینے اور سعد کے انکار کا واقعہ دوبارہ خلافت ثانیہ میں پھر تکرار ہوا۔ ہرچند خلیفہ دوم نے سعد سے بیعت لینے کا اصرار کیا لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوئے۔ منقول ہے کہ سعد کے قبیلے کی طاقت اور قوت کے پیش نظر حکومت وقت اس کا سامنا کرنے سے کتراتی تھی۔[24]

ایک روز سعد کا بیٹا عمر کو نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہے: سعد نے قسم اٹھائی ہے کہ وہ تمہاری بیعت نہیں کرے گا اور تم زبردستی اس سے بیعت نہیں لے سکتے ہو مگر یہ کہ تم اسے قتل کر دو! سعد کا قتل تمام خزرج قبیلے کے قتل پر موقوف اور خزرج کا قتل تمام اوس کے قتل پر اور ان کا قتل تمام یمنی قبیلوں کے قتل پر موقوف ہے اور یہ تمہارے بس کی بات نہیں ہے۔ پس سعد کے ساتھ حالات بہتر رکھو۔[25]

قیس بن سعد

قیس بن سعد ان پہلےافراد میں سے تھے کہ جنہوں نے وفات پیغمبر کے بعد واقعہ سقیفہ اور حضرت ابوبکر کے انتخاب خلافت میں ابوبکر کی بیعت نہیں کی تھی۔ انہوں نے امیرالمؤمنین(ع) کا ساتھ دیا اور انکے اصحاب میں رہے۔[26]

وفات

سعد بن عبادہ کی وفات ۱۵ ق[27] میں شام کے علاقے حوران کے راستے میں واقع ہوئی۔ البتہ تاریخ وفات ۱۱ ق، ۱۴ق بھی ذکر ہوئی ہے لیکن ۱۵ ق درست تر معلوم ہوتی ہے۔

ان کی کیفیت وفات میں اختلاف مذکور ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ جب انہوں نے عمر کی بیعت سے انکار کیا تو ان کے کہنے پر مدینہ سے باہر آئے اور حوران شام [28] کے راستے میں ان کی موت طبیعی واقع ہوئی۔[29] لیکن کچھ معتقد ہیں کہ انہیں قتل کیا گیا۔ ان کے قتل میں دو آرا پائی جاتی ہیں۔ کچھ اہل سنت مآخذوں کے مطابق پہلی رائے یہ ہے کہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی وجہ سے جنات نے اسے قتل کیا[30]ان کے قتل کے بعد دف بجاتے ہوئے یہ شعر پڑھ رہے تھے:[31]

قد قَتَلنا سیدَ الخزرجِ سَعدَ بن عُبادةورَمَیناهُ بسهمین فلم یخطِ فُؤادَه
ہم نے خزرج کے سردار سعد بن عبادہ کو قتل کر دیاہم نے اسے دو تیر مارے کسی ایک نے دل سے خطا نہیں کیا

اس داستان کو بعض اہل سنت شک و تردید کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مروی ہے کہ ایک اہل سنت شخص نے شیعہ سے سوال کیا: اگر خلافت علی کا حق تھا اور ابوبکر نے اسے غصب کیا تھا تو علی نے کیوں اس کے حصول کیلئے قیام نہیں کیا؟ شیعہ نے جواب دیا: علی اس بات سے ڈر گئے کہ کہیں انہیں بھی جنات قتل نہ کر دیں۔[32] جنات کے ہاتھوں سعد کے قتل کی داستان کے رد میں درج ذیل شعر کہا گیا:

یقولون سعد شقت الجن بطنهالا ربما حققت فعلک بالغدر
وہ کہتے ہیں:جنات نے سعد کا شکم پارہ کیاآگاہ رہو تم نے کس قدر چالاکی سے اپنا فعل انجام دیا
و ماذنب سعد انه بال قائماًو لکن سعداً لم یبایع ابابکر
سعد کا یہ گناہ نہیں تھا کہ اسنے کھڑے ہو کر پیشاب کیابلکہ ان کا ( گناہ یہ تھا کہ) انہوں نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی تھی

بعض معتقد ہیں کہ خالد بن ولید اور محمد بن سلمہ انصاری عمر کی طرف مامور ہوئے کہ وہ شام میں اس سے بیعت لیں۔ جب سعد کے روبرو ہوئے تو انہوں نے بیعت کی مخالفت کی۔ ان دونوں نے انہیں تیر مارے جس سے انکی موت واقع ہوئی۔[33]

حوالہ جات

  1. رکـ: مزی، تہذیب الکمال، ج۱۰، ص۲۷۸؛ ابن حجر، تہذیب التہذیب، ج۳، ص۴۱۲؛ ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۶۱۳.
  2. تستری، قاموس الرجال، ج۵، ص۴۸؛ رکـ: ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۱۶۱.
  3. ابن حزم، اسماء الصحابہ الرواة، ص۱۱۹.
  4. ابن حجر، تہذیب التہذیب، ج۳، ص۴۱۲؛ مزی، تہذیب الکمال، ج۱۰، ص۲۷۸؛ زرکلی، الاعلام، ج۳، ص۸۵؛ ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۶۱۳.
  5. رکـ: حائری، منتہی المقال، ج۳، صص۳۲۲-۳۲۳؛ مزی، تہذیب الکمال، ج۱۰، ص۲۷۸؛ ابن حجر، تقریب التہذیب، ص۲۸۰؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۲، ص۲۹۹؛ زرکلی، الاعلام، ج۳، ص۸۵.
  6. تستری، قاموس الرجال، ج۵، ص۴۸.
  7. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۳، صص۳۵۰-۳۵۱؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۲، ص۳۰۰.
  8. رکـ: ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۱۶۱؛ تستری، قاموس الرجال، ج۵، ص۵۴؛ مزی، تہذیب الکمال، ج۱۰، ص۲۷۸؛ ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۶۱۳.
  9. تستری، قاموس الرجال، ج۵، ص۵۴؛ ابن حجر، تہذیب التہذیب، ج۳، ص۴۱۲؛ مزی، تہذیب الکمال، ج۱۰، ص۲۸۰.
  10. شوشتری، مجالس المؤمنین، ص۲۳۳.
  11. تستری، قاموس الرجال، ج۵، صص۵۳-۵۴.
  12. رکـ: ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۱۶۱؛ مزی، تہذیب الکمال، ج۱۰، ص۲۷۸، ص۲۷۹؛ ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۶۱۴.
  13. رکـ: مزی، تہذیب الکمال، ج۱۰، ص۲۷۸؛ ابن حجر، تہذیب التہذیب، ج۳، ص۴۱۲؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۱۶۱؛ ابن حجر، تقریب التہذیب، ص۲۸۰؛ ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۶۱۴؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۲۹۳.
  14. رکـ: ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۱۶۱؛ بخاری، التاریخ الکبیر، ج۴، ص۴۴؛ ابن حجر، تقریب التہذیب، صص۲۸۰-۲۸۱؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۲، ص۲۹۹؛ مزی، تہذیب الکمال، ج۱۰، ص۲۷۸.
  15. رکـ: ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، صص۱۶۲-۱۶۳؛ تستری، قاموس الرجال، ج۵، ص۴۸؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۲، ص۳۰۰.
  16. مزی، تہذیب الکمال، ج۱۰، ص۲۸۰؛ طبرانی، العجم الکبیر، ج۶، ص۱۵، ح۵۳۵۶؛ سیوطی، جامع الاحادیث، جزء۳۶، ص۱۷۳، باب مسند عبدالله بن عباس، ح۳۹۰۳۲؛ ابن عساکر، تاریخ دمشق، ج۲۰، ص۲۴۹.
  17. رکـ: ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۱۶۲.
  18. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، صص۱۶۳-۱۶۴؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۲، صص۳۰۰-۳۰۱.
  19. ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۲، ص۳۰۱؛ ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۶۱۶.
  20. رکـ: شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۲، صص۲۳۳-۲۳۵؛ تستری، قاموس الرجال، ج۵، صص۴۹-۵۲.
  21. شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۲، ص۲۳۳.
  22. رکـ: ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۱۶۴؛ ابن حجر، تہذیب التہذیب، ج۳، ص۴۱۲؛ مزی، تہذیب الکمال، ج۱۰، ص۲۸۱؛ زرکلی، الاعلام، ج۳، ص۸۵.
  23. شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۲، ص۲۳۳.
  24. شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۲، ص۲۳۳.
  25. رکـ: شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۲، صص۲۳۳-۲۳۴؛ تستری، قاموس الرجال، ج۵، صص۵۱-۵۲؛ ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۶۱۳.
  26. رکـ: حائری، منتہی المقال، ج۵، ص۲۴۳؛ ابن داوود، رجال، ص۱۵۵؛ طوسی، رجال، ص۵۴؛ علامہ حلی، خلاصہ الاقوال، ص۲۳۱؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۳، ص۳۵۰.
  27. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۱۶۴؛ ابن حجر، تہذیب التہذیب، ج۳، ص۴۱۲؛ مزی، تہذیب الکمال، ج۱۰، ص۲۸۰؛ ابن حجر، تقریب التہذیب، ص۲۸۱؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۲، ص۳۰۱.
  28. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۶۱۳.
  29. ابوحاتم، کتاب الثقات، ج۳، ص۱۴۹؛ زرکلی، الاعلام، ج۳، ص۸۵.
  30. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۶۱۷
  31. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۱۶۴؛ ابن حجر، تہذیب التہذیب، ج۳، ص۴۱۲؛ شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۲، ص۲۳۵؛ مزی، تہذیب الکمال، ج۱۰، ص۲۸۰؛ ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۶۱۷.
  32. تستری، قاموس الرجال، ج۵، ص۴۹.
  33. شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۲، ص۲۳۵.

مآخذ

  • ابن اثیر، اسدالغابہ فی معرفہ الصحابہ، دارالمعرفہ، بیروت، ۱۴۲۲ق/۲۰۰۱م.
  • ابن حجر، تقریب التہذیب، تحقیق خلیل مأمون شیحا، دارالمعرفہ، بیروت، ۱۴۲۲ق/۲۰۰۱م.
  • ایضا، تہذیب التہذیب، دارالفکر، بیروت، ۱۴۰۴ق/۱۹۸۴م.
  • ابن حزم، اسماء الصحابہ الرواة و مالکل واحد من العدد، تحقیق سید کسروی حسن، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ۱۴۱۲ق/۱۹۹۲م.
  • ابن داوود حلی، تقی الدین حسین بن علی، کتاب الرجال، منشورات رضی، قم.
  • ابن سعد، الطبقات الکبری، دارالفکر، بیروت، ۱۴۰۵ق/۱۹۸۵م.
  • ابن عبدالبر قرطبی، الاستیعاب فی معرفہ الاصحاب، تحقیق علی محمد معوض و عادل احمد عبدالموجود، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵م.
  • ابوحاتم تمیمی، کتاب الثقات، وزارة المعارف و الشؤون للحکومہ العالیہ الہندیہ، دارالفکر للطباعہ و النشر و التوزیع، بیروت.
  • ابوعلی حائری، منتہی المقال فی احوال الرجال، مؤسسہ آل البیت(ع) لاحیاء التراثف قم، ۱۴۱۶ق.
  • بخاری، محمد بن ابراہیم، التاریخ الکبیر، زیر نظر محمد عبدالمعبد خان، دارالفکر للطباعہ و النشر و التوزیع، بیروت.
  • صحیح البخاری باختلاف الروایات، دارالفکر للطباعہ و النشر و التوزیع، بیروت، ۱۴۱۸ق/۱۹۹۷م.
  • صحیح البخاری، شرح و تحقیق قاسم الشماعی الرفاعی، دارالقلم، بیروت، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۷م.
  • بلاذری، کتاب جمل من انساب الاشراف، تحقیق و تقدیم سہیل زکار، ریاض زرکلی، دارالفکر، بیروت، ۱۴۱۷ق/۱۹۹۶م.
  • تستری، محمدتقی، قاموس الرجال، موسسہ نشر الاسلامی، قم، ۱۴۱۴ق.
  • زرکلی، خیرالدین، الاعلام قاموس تراجم لاشہر الرجال و النساء من العرب و المستعربین و المسشترقین، دارالعلم للملایین، بیروت، ۱۹۹۲م.
  • سیوطی،
  • شوشتری، نوراللہ، مجالس المؤمنین، کتابفروشی اسلامیہ، تہران، ۱۳۷۷ش.
  • طبرانی، العجم الکبیر، تحقیق حمدی بن عبدالمجید السلفی، مکتبہ ابن التیمیہ، قاهره‍.
  • طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، تحقیق سید محمدصادق بحرالعلوم، مکتبہ الحیدریہ، نجف، ۱۳۸۱ق/۱۹۶۱م.
  • علامہ حلی، خلاصہ الاقوال فی معرفہ الرجال، تحقیق جواد قیومی، نشر اسلامی، ۱۴۱۷ق.
  • مزی، یوسف، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال، تحقیق بشار عواد معروف، مؤسسہ الرسالہ، بیروت، ۱۴۰۹ق/۱۹۹۸م.