باطنی گری

ویکی شیعہ سے
(باطنی‌ گری سے رجوع مکرر)

باطِنی‌گری یا باطنیت ایک ایسا عقیدہ ہے جس کے مطابق دین کے ظاہری پہلو کے علاوہ اس کا ایک باطنی پہلو بھی ہے جو کہ دین کے ظاہری پہلو سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس عقیدے کے حامی لوگ قرآنی آیات کی تاویل کرتے ہیں تاکہ اس کے باطنی معنی تک دسترسی حاصل کی جائے۔ اسلامی فِرق اور مذاہب میں سے اہل تصوف اور اسماعیلیہ باطنی گری کا عقیدہ رکھنے کے حوالے سے مشہور ہیں۔

صوفیہ کہتے ہیں کہ دین و شریعت کے ظاہری پہلو کے علاوہ اس کا ایک باطن بھی ہے اور وہی دین کی اصلی حقیقت اور مغز ہے؛ ہمیں اس تک پہنچنا ہے۔ اسماعیلیہ کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ آیات قرآنی کی صحیح تاویل کی جائے تاکہ اس کی حقیقت تک پہنچ جائے اور یہ امام کی ذمہ داری ہے۔ بعض لوگوں نے مذہب امامیہ کو بھی ایک باطن گرا مذہب سمجھا ہے، لیکن ان کی اس بات کو مسترد کیا گیا ہے۔

شیعہ کتب احادیث میں ایسی روایات موجود ہیں جن کے مطابق قرآن کی آیات کے لیے ظاہر و باطن ہیں؛ اسی طرح کچھ ایسی روایات بھی ہیں جن کے ذریعے قرآنی آیات کی تاویل کی جاتی ہے۔ علمائے شیعہ ان روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے اگرچہ قرآن کی تاویل کرنے کو درست سمجھتے ہیں لیکن صوفیہ اور اسماعیلیہ جیسا عقیدہ نہیں رکھتے بلکہ تاویل قرآن کے لیے خاص اصول و ضوابط مد نظررکھتے ہیں۔

معنی شناسی

باطنیت ایک ایسا تفکر ہے جس کے مطابق دین کا ایک ظاہری پہلو ہے تو اس کا ایک باطن بھی ہے۔ اس طرز فکر میں باطن دین زیادہ اہمیت کے حامل ہے اور انسان کا اصلی مقصد باطن دین تک پہنچنا ہے لہذا اس پہلو پر زیادہ تاکید کی جاتی ہے۔[1]

مسلمانوں کے باطن گرا فرق و مذاہب

فرانسیسی مسلمان فلسفی رنہ گنون (René Guennon) (1886-1951ء) مسلمانوں کے درمیان باطنیت کو اہل تصوف اور مسلمان عرفا سے منسوب کرتے ہیں[2] اور کہتے ہیں کہ یہ لوگ دین و شریعت کے لیے ظاہر و باطن قرار دیتے ہوئے انہیں الگ الگ حیثیت کے حامل سمجھتے ہیں اور باطن دین کو دین کی حقیقت سے تعبیر کرتےہیں۔ [3]

اسماعیلی فرقہ سے متعلق تحقیق کرنے والے محقق فرہاد دفتری (پیدائش: 1938ء) کے مطابق تمام اسلامی فرق و مذاہب میں اسماعیلیہ وہ واحد فرقہ ہے جو باطنی گری فکر رکھنے میں زیادہ مشہور ہے؛[4] اسماعیلیوں کے باور کے مطابق انبیاء کی اصلی ذمہ داری وحی کے ظاہری معنی کو لوگوں تک پہنچانا ہے جبکہ اس کی تاویل کرنا اور اس کے حقیقی اور باطنی معنی کی طرف لوگوں کو رہنمائی کرنا انبیاء کے اوصیاء اور اماموں کی ذمہ داری ہے۔[5]

مذہب امامیہ میں باطنیت کی حقیقت

کہا جاتا ہے کہ فرانسیسی فلسفی اور شیعہ شناس ہانری کربن اور محمد علی امیر معزی امامیہ مذہب کو ایک باطن گرا اور تاویلی فکر کا حامل مذہب سمجھتے ہیں؛ لیکن بعض لوگ اسے مسترد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "شیعوں کے معتدل تفکر" اور باطنیت کے مابین نہایت درجہ اختلاف پایا جاتا ہے؛ ایک بنیادی فرق یہ کہ شیعہ مذہب دین و شریعت اور ظاہر آیات و روایات کے لیے مرجعیت کے قائل ہے اور ان سے انکار نہیں کرتے۔ اسی طرح ان کا عقیدہ ہے کہ دینداری کا جوہر شریعت کی اطاعت ہے اور شریعت پر عمل کرنے سے ہی انسان کی نجات ممکن ہے۔[6]

تاہم شیعہ علماء عموماً تاویل آیات قرآںی کو قبول کرتے ہیں؛ لیکن وہ اسماعیلی طرز تاویل کو درست نہیں سمجھتے اور درست تاویل کے لیے کچھ شرائط کا ذکر کرتے ہیں۔[7]شیعہ مذہب کے مطابق قرآن کی بعض آیات کے ظاہر و باطن کے حامل ہونے کےسلسلے میں پیغمبر اکرمؐ اور ائمہؑ سے احادیث منقول ہیں۔[8] اسی طرح ایسی روایات بھی موجود ہیں جن میں ائمہؑ نے قرآن کی بعض آیات کی تاویل کی ہے؛[9]جیسا کہ امام صادقؑ سے اس حدیث کو نقل کیا گیا ہے، جو اس آیت: "انصاف کے ساتھ وزن کو درست رکھو اور تول میں کمی نہ کرو" [10] کی یوں وضاحت کرتی ہے: عادل امام کی پیروی کرو اور اس کے حق میں کوتاہی نہ کرو۔"[11]

صوفیا کی باطنی گری کی بنیادیں

رنہ گنون اہل تصوف کی باطنی گری کی بنیادیں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے عقیدے کے مطابق شریعت، دین کی ظاہری شکل ہے جو فقہی احکام کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے؛ لیکن دین کی اصلی روح وہی حقیقت ہے جس تک ہم طریقت کو پل بنا کر اس حقیقت تک پہنچتے ہیں۔[12] شریعت صرف ایک دستور العمل ہے لیکن اس کی حقیقت «خالص معرفت» اور یہی معرفت شریعت کو پر معنی بنا دیتی ہے۔[13]

اسماعیلیہ باطنی گری کے اصول

تفصیلی مضمون: اسماعیلیہ

اسماعیلیہ فرقہ کی باطنی گری کے فکری منظومے میں «ظاہر و باطن» و «تنزیل و تأویل» اور «خاص و عام» جیسے اصول کارفرما ہیں.[14] اس لحاظ سے ان کی باطنی گری کے مندرجہ ذیل تین بنادی اصول ہیں:[15]

  • ظاہری معنی کے بجائے باطنی معنی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے: دینی تعلیمات کے ایک ظاہری پہلو اور ایک باطنی پہلو ہے اور باطنی پہلو زیادہ اہمیت کے حامل ہے۔[16]
  • تنزیل یا تفسیر کے بجائے تاویل کو برتری حاصل ہے: باطنیت کے عقیدے کو ماننے والوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ یہ لوگ قرآن و روایات کے ظاہر میں تاویل کرنے کے بعد ان کے باطن میں تک پہنچ جائیں۔[17]
  • لوگ یا عام ہیں یا خاص:

باطنی گرا اسماعیلیوں کے مطابق، تاویل کرنا اماموں کی ذمہ داری ہے، اور بہت کم لوگ اماموں کی تاویل کے ذریعے دین کے باطن تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس لیے انسانوں کو خاص و عام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ خواص وہی ہیں جو اسماعیلی مذہب کے ماننے والے ہیں جنہوں نے اسماعیلی اماموں کی امامت کو قبول کیا ہے اور غیر اسماعیلی لوگ عام لوگ ہیں جو دین کے صرف ظاہری پہلو کو سمجھ سکتے ہیں۔[18]

باطنی گری میں شرعی احکام کی پابندی

بعض فرقے اور مذاہب جنہیں باطنی کہا جاتا ہے، بعض حالات میں شرعی احکام پر عمل کرنے کو پابند نہیں سمجھتے۔ مثال کے طور پر یہ بتایا جاتا ہے ابتدائی اسماعیلیوں، قرمطیوں اور نزاریوں کے نزدیک امام اور باطنی حقائق کی معرفت رکھنے والوں کے لیے شرعی احکام پر عمل کرنا ضروری نہیں۔[19]

باطنیوں کی تاویل کے چند نمونے

باطن گرا لوگوں کی قرآنی آیات کے بارے میں تاویل کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:

  • «جس دن ہم آسمان کو لپیٹ لیں گے».[20] اس کی تأویل: جس دن ہم شریعت پر خط بطلان کھینچیں گے[21]
  • «پھر دو دن میں سات آسمان بنا دیے اور ہر آسمان میں اس کا حکم پہنچا دیا»[22] اس آیت کی تأویل: اس نے ظاہری اور باطنی دو ادوار کے لیے سات سردار مقرر کیے اور ان میں سے ہر ایک کو الگ الگ حصہ دیا۔[23]
  • [دعائے نوح]: «ظالموں کی گمراہی میں اضافہ فرما»[24] تأویل محی‌الدین عربی: اے اللہ جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے اور فنا فی اللہ کے مرحلے میں پہنچ گئے ہیں ان کے لیے ایک انسان کامل کے لیے حیرانی کا باعث بننے والی معرفت کے سوا کسی اور چیز میں اضافہ نہ فرما۔[25]

باطنی‌گری کا منبع

بعض لوگ دوسری صدی ہجری کے شیعہ غلات کے افکار کو اسماعیلیہ مذہب میں باطنی گری کی جڑ سمجھتے ہیں۔ بطور احتمال پہلا مسلمان جس نے باطنی گری اختیار کی اور آیات قرآنی کی تاویل کی مغیریہ خاندان کے رہبر مُغیرة بن سعید (وفات: 119ھ) تھا۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ فرقہ خطابیہ کے بانی ابوالخَطّاب(وفات: 138ھ) پہلا شخص ہے جس نے مسلمانوں کے درمیان باطنی گری خصوصیات کی حامل ایک تحریک کی بنیاد رکھی۔[26]

تصوف میں باطنی گری کو دوسری صدی ہجری اور پہلے صوفیاء کے ظہور سے بھی منسوب کیا جاتا ہے؛ یعنی حسن بصری، ابوہاشم کوفی (وفات: 150ھ)، سفیان ثوری (وفات: 161ھ) اور ابراہیم ادھم (وفات: 162ھ) وغیرہ[27]

باطنی‌گری کی تہمت

اسلام کی تاریخ میں، مذہبی مخالفین کے مواخذے یا سیاسی مخالفین کو زیر کرنے کے لیے "باطنیت" کو مذہبی یا سیاسی الزام کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مثال کے طور پر ابن تیمیہ؛ شیعوں، صوفیاء اور فلسفیوں کو باطنی گری عقیدہ کے حامل قرار دیتا تھا۔[28] اس کے علاوہ، چند لوگوں کو باطنی گری کے جرم میں قتل کیا گیا، جن میں سلطان محمود غزنوی کا وزیر حسنک وزیر سب سے زیادہ مشہور ہے جسے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے پھانسی دی گئی۔[29]

حوالہ جات

  1. دادبه، «باطنیه»، ص196؛ دفتری، تاریخ و عقاید اسماعیلیه، 1386ہجری شمسی، ص104.
  2. گنون، نگرشی به مشرب باطنی اسلام و آیین دائو، 1387ہجری شمسی، ص22، 24، 32.
  3. گنون، نگرشی به مشرب باطنی اسلام و آیین دائو، 1387ہجری شمسی، ص32.
  4. دفتری، تاریخ و عقاید اسماعیلیه، 1386ہجری شمسی، ص104.
  5. دفتری، تاریخ و عقاید اسماعیلیه، 1386ہجری شمسی، ص161-162.
  6. انصاری، «باطنی‌نگری در تشیع و تصوف در گفتگو با حسن انصاری»، وبگاه بررسی‌های تاریخی.
  7. معرفت، التأویل، 1412ھ، ص37-44.
  8. معرفت، التأویل، 1412ق، ص33-35.
  9. معرفت، التأویل، 1412ھ، ص62-67.
  10. سوره الرحمن، آیہ9.
  11. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج24، ص309.
  12. گنون، نگرشی به مشرب باطنی اسلام و آیین دائو، 1387ہجری شمسی، ص21-22.
  13. گنون، نگرشی به مشرب باطنی اسلام و آیین دائو، 1387ہجری شمسی، ص21-22.
  14. دفتری، «باطنیه»، ص554.
  15. دادبه، «باطنیه»، ص196.
  16. دفتری، تاریخ و عقاید اسماعیلیه، 1386ہجری شمسی، ص104.
  17. دادبه، «باطنیه»، ص196.
  18. دفتری، «باطنیه»، ص556.
  19. دفتری، «باطنیه»، ص556.
  20. سوره انبیا، آیه 104.
  21. کی.پوناوالا، «تأویل قرآن در نگاه اسماعیلیان»، ص142.
  22. سوره فصلت، آيه 12.
  23. کی.پوناوالا، «تأویل قرآن در نگاه اسماعیلیان»، ص142-143.
  24. سوره نوح، آیه 24.
  25. حسینی کوهساری، «بررسی نظریه تأویل ابن‌عربی و به‌کارگیری آن در تفسیر عرفانی قرآن»ص79.
  26. دفتری، «باطنیه»، ص555.
  27. سجادی، مقدمه‌ای بر مبانی عرفان و تصوف، 1372ہجری شمسی، ص50.
  28. دفتری، «باطنیه»، ص557.
  29. دادبه، «باطنیه»، ص198.

مآخذ

  • انصاری، حسن، «باطنی‌نگری در تشیع و تصوف در گفتگو با حسن انصاری»، وبگاه بررسی‌های تاریخی، تاریخ درج: 21 مهر 1398ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 28 خرداد 1401ہجری شمسی۔
  • حسینی کوهساری، سیدحسین، «بررسی نظریه تأویل ابن‌عربی و به‌کارگیری آن در تفسیر عرفانی قرآن»، در فلسفه دین، شماره 1، 1397ہجری شمسی۔
  • دادبه، اصغر، «باطنیه»، در دایرةالمعارف بزرگ اسلامی، ج11، مرکز دایرةالمعارف بزرگ اسلامی، چاپ اول، 1381ہجری شمسی۔
  • دفتری، فرهاد، «باطنیه»، در دانشنامه جهان اسلام، تهران، ج1، بنیاد دایرةالمعارف اسلامی، چاپ سوم، 1386ہجری شمسی.
  • دفتری، فرهاد، تاریخ و عقاید اسماعیلیه، ترجمه فریدون بدره‌ای، تهران، نشر و پژوهش فرزان روز، 1386ہجری شمسی.
  • کی.پوناوالا، اسماعیل، «تأویل قرآن در نگاه اسماعیلیان»، ترجمه محمدحسن محمدی مظفر، در هفت‌آسمان، شماره 34، 1386ہجری شمسی.
  • گنون، نگرشی به مشرب باطنی اسلام و آیین دائو، ترجمه دل‌آرا قهرمان، تهران، حکمت، 1387ہجری شمسی.
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار الجامعة لدرر اخبار الائمة الاطهار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ.
  • معرفت، محمدهادی، التأویل فی مختلف المذاهب و الآراء، تهران، پژوهشگاه مطالعات تقریبی، چاپ دوم، 1412ھ.