مندرجات کا رخ کریں

"دجال" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>S.J.Mosavi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 122: سطر 122:
[[en:Dajjal]]
[[en:Dajjal]]
[[tr:Deccal]]
[[tr:Deccal]]
[[es:Dajjal]]


[[زمرہ:مہدویت]]
[[زمرہ:مہدویت]]
[[زمرہ:ظہور کی نشانیاں]]
[[زمرہ:ظہور کی نشانیاں]]

نسخہ بمطابق 10:31، 3 مئی 2018ء

دجال؛ ایک شخص یا ایک موجود کا نام ہے جو بعض احادیث کے مطابق امام مہدی علیہ السلام کے بڑے دشمنوں میں سے ہے۔ اسلامی روایات میں منقول ہے کہ دجال اصفہان کے یہودیہ نامی قریے سے خروج کرے گا، دشواریوں اور قحط کے زمانے میں ظاہر ہوگا اور ایک جماعت کو دھوکا دے کر اپنی جانب مائل کرے گا اور آخر کار امام مہدی علیہ السلام کے ہاتھوں ختم ہوجائے گا۔[1] ابن کثیر کا کہنا ہے کہ اس کا ظہور اصفہان کے یہودی محلے سے ہوگا۔[2]

لفظ مسیح دجال [عربی میں المسیح الدجال (= جھوٹا مسیح) طلوع اسلام سے 400 سال قبل سریانی کے لفظ "Mšīḥā Daggālā" سے عربی میں منتقل ہوا ہے جس کا یونانی مترادف لفظ "antichristos" ہے جس کو فارسی میں ضِدِّ مسیح کہا جاتا ہے۔[3] اسلامی روایات کے مطابق دجال آخر الزمان میں امام مہدی علیہ السلام کے ظہور سے قبل مشرق سے ظاہر ہوگا۔[4] وہ بعض حیرت انگیز افعال کے ذریعے بڑی تعداد میں لوگوں کو فریب دے گا۔ وہ بیت المقدس میں الوہیت کا دعوی کرے گا اور پھر چالیس دن یا چالیس سال تک حکمرانی کے بعد عیسی مسیح یا مہدی یا ان دونوں کے ہاتھوں ہلاک ہوجائے گا۔.۔[5]


لغوی معنی

لفظ دجال مادہ "د ج ل" سے ماخوذ ہے جس کے معنی بہت زیادہ جھوٹے اور فریبی شخص کے ہیں۔[6]

دجال دوسرے ادیان میں

دجال عیسائیت میں

عہدید جدید میں صرف رسالۂ یوحنا میں لفظ دجال متعدد بار آیا ہے اور اس سے مقصود ایسا شخص ہے جو مسیح کی مخالفت و مزاحمت کرے گا؛ اور یہ دعوی کرے گا کہ وہ خود مسیح ہے۔[7]

یوحنا کے مکتوب اول میں ہے: "جھوٹا کون ہے سوا اس شخص کے جو عیسی کے مسیح ہونے کا انکار کرے، وہ دجال ہے جو باپ بیٹے کا انکار کرتا ہے"۔ اسی رسالے میں مذکور ہے کہ "کیا تم نے سنا ہے کہ دجال آئے گا؛ اس وقت بھی بہت سے دجال ظاہر ہوچکے ہیں اور یہیں سے میں سمجھتا ہوں کہ یہ آخری گھڑی ہے"۔ اسی رسالے میں کہا گیا ہے: "جو شخص اس روح کا انکار کرے جو عیسی میں مجسم ہوا ہے اس کا خدا سے تعلق نہیں ہے اور یہی ہے دجال کی روح جس کے بارے میں تم نے سنا ہے کہ وہ آئے گا اور اس وقت بھی دنیا میں ہے"۔[8] صاحب کتاب قاموس کتاب مقدس" سمیت بعض عیسائی علماء، دجال کو اسم عام سمجھتے ہیں اور ان کے خیال میں دجال وہ لوگ ہیں جو مسیح کو جھٹلاتے ہیں اور انجیل کی عبارات سے بھی یہی بات سامنے آتی ہے۔ نیز کہا گیا ہے کہ "دجال یا دشمنِ مسیح وہ شخص ہے جو آخر الزمان میں اٹھے گا اور مسیح رجعت کرے گا اور اس کو ہلاک کر ڈالے گا۔[9]

دجال عبرانی زبان میں

لفظ دجال عبرانی (یا عبری) نیز یہودی تعلیمات میں "دشمنِ خدا" کو کہا جاتا ہے اور دو الفاظ "دج" (= دشمن، معاند اور ضد) اور "ال" (= خدا) سے مرکب ہے۔ (عبری میں "ال" اور "ایل" کے معنی خدا کے ہیں بطور مثال لفظ "اسرائیل" کے معنی "خدا کا دوست" کے ہیں گوکہ یہودیوں کی تفسیر میں اس کے معنی "خدا پر غلبہ پانے والے شخص" کے بھی ہیں!)۔[10]۔[11]

دجال کتب مقدسہ میں

دجال کی داستان عیسائیوں کی مقدس کتابوں کے درمیان صرف مکتوبات یوحنا میں مذکور ہے۔ رسول اللہ(ص) نے فرمایا ہے کہ "دجال کا تذکرہ سابقہ امتوں کے ہاں ہوا ہے لیکن وہ آئے گا مستقبل میں"؛ ان ہی روایات میں سے ایک یہ ہے جہاں آپ(ص) نے فرمایا ہے: "...الدَّجَّالَ‏ اسْمُهُ فِی الْأَوَّلِینَ وَ یخْرُجُ فِی الْآخِرِینَ...... [12]

انجیل میں یہ لفظ یوحنا کے مکتوبات میں مذکور ہے اور کہا گیا ہے کہ جو شخص مسیح یا "باپ اور بیٹے" کا انکار کرے وہ دجال ہے۔ اسی بنا پر عیسائیوں کی مقدس کتب کے انگریزی تراجم میں اس کو [antichrist] (= دشمن مسیح) کے عنوان سے متعارف کرایا گیا ہے جو یونانی اصطلاح [antichristos] کا مترادف اور ہم معنی ہے۔ جیسا کہ یوحنا کے مکتوب اول آیت 18 میں کہا گیا ہے:

"اے بچو! یہ آخری گھڑی ہے اور جیسا کہ تم نے سنا ہے دجال آرہا ہے، فی الحال بھی بہت سے دجال ظاہر ہوچکے ہیں اور میں اس حقیقت کو جانتا ہوں کہ یہ آخری گھڑی ہے"۔ اسی رسالے کی آیات 22 اور 23 میں ہے کہ "اس شخص کے سوا کون جھوٹا ہے جو عیسی کے مسیح (= یعنی نجات دہندہ) ہونےکا انکار کرے اور وہ دجال ہے جو باپ اور بیٹے کا انکار کرتا ہے"۔

دجال اسلام میں، مغربی مآخذ کی روشنی میں

اسلامی روایات اور رسول اللہ(ص) سے منقول روایات میں ظہور امام مہدی(عج) اور آخر الزمان کی علامات میں سے ایک دجال کا خروج ہے۔ (اہل سنت کی) بعض روایات میں دجال کے خروج کو قیامت کی نشانی گردانا گیا ہے۔ دجال کی ظاہری صورت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ یک چشم (= کانا) شخص ہے جو گنگریالے بالوں والا شخص ہے اور اس کے ماتھے پر لفظ "کافر" لکھا ہوا ہے۔ دجال آخر الزمان میں امام زمانہ(عج) کے ظہور سے قبل مشرق سے اور ایک احتمال کے مطابق خراسان (یا اصفہان) سے خروج کرے گا؛ حیرت انگیز اقدامات کے ذریعے بہت سوں کو دھوکا دے گا اور لوگوں کی بڑی تعداد کو اپنے گرد اکٹھا کرے گا۔ دجال یروشلم (= بیت المقدس) میں الوہیت کا دعوی کرے گا۔ وہ چالیس دن یا چالیس سال تک حکومت کرے گا اور بحر ہند کے ایک جزیرے میں رہائش رکھے گا جہاں سے موسیقی کی صدا سنائی دیے گا۔ دوسری روایات کے مطابق وہ ہندوستان کے ایک جزیرے کے ایک پہاڑ میں رہائش پذیر ہے اور شیاطین اس کو کھانا کھلاتے ہیں۔ [13]

دجال کی داستان اسلامی مآخذ میں

اہل سنت کی بہت سی روایات میں دجال کا خروج قیامت کے بپا ہونے کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ شیعہ کتب حدیث میں صرف چند روایات میں دجال کو امام مہدی علیہ السلام کے علائم ظہور مہدی(عج) کے زمرے میں شمار کیا گیا ہے جو سند کے لحاظ سے معتبر اور قابل قبول نہیں ہیں۔[14]


دجال اہل سنت کی روایات میں

اہل سنت کی روایات میں خروج دجال کو قیامت کی نشانی قرار دیا گیا ہے اور دجال سے متعلق زیادہ تر روایات کو احمد بن حنبل نے اپنی کتاب مسند میں، ترمذی نے اپنی کتاب سنن میں، ابن ماجہ قزوینی نے اپنی کتاب سنن میں، مسلم بن حجاج نے اپنی کتاب صحیح میں[15]۔[16]۔[17] نیز ابن اثیر نے اپنی کتاب "النہایۃ في غریب الحدیث" میں عبداللہ بن عمر، ابو سعید خُدری اور جابر بن عبداللہ انصاری سے نقل کی ہیں۔


اہل سنت کی روایات میں دجال کے لئے یہ اوصاف بیان کئے گئے ہیں:

  1. ربوبیت اور الوہیت کا دعوی کرتا ہے۔[18]
  2. طویل عمر کا مالک ہے۔[19]
  3. ان کی خواہش برآوردہ ہوتی ہے۔[20]
  4. اس کے پاس پانی اور آگ ہے اور اس کا پانی آگ ہے۔[21]
  5. اندھے کو بصارت لوٹاتا ہے اور مبروص کو شفا دیتا ہے۔[22]
  6. اس کے پاس جنت اور آگ ہے اور وہ بارش برساتا ہے اور مردے کو زندہ کرتا ہے۔[23]
  7. وہ لوگوں کو قتل کرتا ہے اور پھر زندہ کرتا ہے۔[24]
  8. اس کے پاس سفید پانی کی ایک نہر اور آگ کی ایک نہر ہے۔[25]

دجال شیعہ منابع و مآخذ میں

دجال کے معنی جھوٹے اور مکار شخص کے ہیں۔ دجال کی اصل داستان عیسائی مآخذ میں نقل ہوئی ہے۔ انجیل میں یہ لفظ بارہا استعمال ہوا ہے اور اس کا تذکرہ "مسیح کے دشمن" (= Antichrist) پر کیا گیا ہے۔ شیعہ میں اس کا تذکرہ بہت محدود ہے اور صرف چند ایک روایات میں اس کے خروج کو امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کی ایک علامت گردانا گیا ہے۔[26] زیادہ تر شیعہ محققین نے یہ روایات اہل سنت کے مآخذ سے نقل کی ہیں۔

کامل سلیمان بھی خطیب بغدادی کی کتاب المتفق والمفترق" اور سیوطی کی الحاوی للفتاوی وغیرہ کے حوالے سے لکھتے ہیں: دجال کے بارے میں مجھے شک ہے کیونکہ اس کے بارے میں منقولہ روایات غیر معتبر ہیں اور ان کے درمیان ایسی چیزیں ہیں جن سے رسول اللہ(ص) اور ائمہ(ع) بری ہیں۔ ان کے درمیان موضوعہ روایات ہیں اور سازشی لوگوں نے ان میں اپنی ریشہ دوانیاں کی ہیں...[27]

شیعہ کتب حدیث میں دجال کے خروج اور امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور سے قبل اس کے فتنوں کی طرف کوئی اشارہ نہیں ملتا؛ صرف ایک اشارہ پایا جاتا ہے اور وہ یہ کہ "دجال امام مہدی علیہ السلام کے ہاتھوں مارا جائے گا" اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ وہ حضرت عیسی علیہ السلام کے ہاتھوں ہلاک ہوگا۔ ان روایات میں دجال کے فتنے اور اسکے خدوخال یا اس کے پیروکاروں کی طرف کوئی اشارہ نہیں پایا جاتا۔

اگر دجال کی داستان صحیح ہو بھی تو اس کے لئے بیان ہونے والی اکثر خصوصیات افسانوں سے مشابہت رکھتی ہیں۔ قطب الدین راوندی نے عامہ کے طرق سے نقل کیا ہے اور علامہ مجلسی نے بھی یہ روایت قطب راوندی سے نقل کی ہے[28]۔[29] اور یہی روایت کامل سلیمان بھی اہل سنت کے منابع الحاوی للفتاوی، صحیح بخاری، صحیح مسلم، بشارۃ الاسلام اور دجال کے بارے میں روایت نقل کرنے والی کتب کے حوالے سے نقل کی ہے[30] جو کچھ یوں ہے: وایت یوں ہے کہ "عبداللہ بن عمر نے کہا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا: "رسول اللہ(ص) نے فرمایا: "نوح(ع) کے بعد ہر پیغمبر نے اپنی قوم کو دجال کے فتنے سے خبردار کیا ہے اور میں بھی تمہیں خبردار کرتا ہوں"۔

دجال کے لغوی معنی کو مد نظر رکھ کر ـ لگتا ہے کہ دجال ایک اسم خاص اور ایک خاص شخص کا نام نہیں ہے بلکہ ہر وہ شخص جو کھوکھلے دعوے کرے اور مختلف اسباب و وسائل بروئے کار لاکر لوگوں کو دھوکہ اور فریب دینا چاہے وہ دجال ہے۔ چنانچہ بہت سے مسلم دانشور اس لفظ کو ایک اصطلاح عام سمجھتے ہیں اور ہر اس شخص پر اس کا اطلاق کرتے ہیں جو دھوکا، فریب، مکاری اور عیاری کرتے ہیں، حق کو باطل میں مخلوط کرتے ہیں اور باطل کو حق کے لبادے میں لوگوں میں رائج کرتے ہیں اور اپنے شیطانی مقاصد کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔

اس لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ دجال ایک فرد نہیں بلکہ کئی دجالوں کا ہونا ممکن ہے جو مختلف ادوار میں ظاہر ہوئے ہیں اور فتنہ انگیزیاں کرچکے ہیں اور سست ایمان کے حامل افراد کو حیرت سے دوچار کرچکے ہیں۔ جن روایات میں دجال کے خروج کی طرف اشارہ ہوا ہے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ "دجال کے خروج سے قبل ستر دجال خروج کریں گے"۔[31] اس لحاظ سے دجال کا مسئلہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ گویا امام زمانہ(عج) کے ظہور سے کچھ عرصہ قبل ایک مکار شخص جاہلی ثقافت کو زندہ رکھنے کی غرض سے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لائے گا تاکہ مکر و فریب کے ذریعے لوگوں کو اس الہی اور آسمانی قیام و انقلاب اور اس کی حقیقت اور امام(عج) کی امامت کی استواری کی نسبت شک و شببہے سے دوچار کردے۔ دجال کے بارے میں افراد نے اپنے ذوق کے مطابق مختلف تجزیئے پیش کئے ہیں اور سب نے احتمال اور ظن و گمان کی بنیاد پر اس کے بارے میں بحث کی ہے۔

دجال کا خروج

علی کورانی اپنی کتاب معجم احادیث المہدی علیہ السلام میں خطیب بغدادی کی کتاب المتفق المفترق سے اور وہ سیوطی کی کتاب الحاوی للفتاوی سے اور وہ ابو ہریرہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا: "جب قسطنطنیہ کے غنائم تقسیم ہونگے دجال کے خروج کی خبر امام مہدی علیہ السلام اور آپ(عج) کے انصار و اصحاب کو پہنچے گی"۔[32]

شیخ حر عاملی سید ہبۃ اللہ موسوی کی کتاب مجموع الرائق کے حوالے سے اور وہ ابو سعید خدری، وہ جابر بن عبداللہ انصاری اور وہ امیرالمؤمنین علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ ظہور سے قبل بہت سی نشانیاں ظاہر ہونگی جن میں سے ایک دجال ہے۔[33]

پیدائش

بعض غیر قطعی و غیر یقینی روایات میں دجال کا مقام پیدائش اصفہان کا ایک قریہ ہے جس کا نام یہودیہ ہے</ref> بعض روایات میں ہے کہ یا سجستان[34] یا خراسان[35] میں پیدا ہوگا۔

خصوصیات اور عقائد و افکار

روایات میں [جن میں سے اکثر کا ماخذ اہل سنت کی کتب ہیں] منقول ہے کہ دجال الوہیت کا دعوی کرے گا اور اس کی وجہ سے دنیا میں فتنہ بپا ہوگا اور خونریزی واقع ہوگی۔ ان کتب میں مروی ہے کہ اس کی ایک آنکھ مَلی ہوئی اور ممسوح ہے اور اس کی بائیں آنکھ ماتھے کے بیچ میں واقع ہوئی ہے جو ستارے کی طرح چمکتی ہے اور خون کا ایک دھبہ اس کی آنکھ کے وسط میں ہے۔ وہ بہت ہی جسیم اور تناور ہے، اس کی شکل عجیب و غریب ہے اور سِحر میں بہت ماہر ہے۔ اس کے سامنے ایک سیاہ رنگ کا پہاڑ ہے جو لوگوں کو روٹی کے پہاڑ کی صورت، نظر آئے گا اور اس کے پیچھے سفید رنگ کا پہاڑ ہوگا جو اس کے سحر و جادو کی وجہ سے لوگوں کو صاف جاری پانی کی صورت، دکھائی دے گا۔ وہ چلا کر کہے گا: "اے میرے بندو میں تمہارا بڑا اور اعلی پروردگار ہوں"۔[36]

دجال ہر جگہ پہنچے گا لیکن مکہ، مدینہ اور بیت المقدس میں داخل نہیں ہوسکے گا۔[37] اس کے بیشتر پیروکار زنا زادہ یہودی اور صحرا نشین عرب ہونگے جن کے سروں پر تاج ہیں۔[38]

رسول اللہ الاعظم صلی اللہ علیہ و آلہ نے دجال کے بارے میں فرمایا: "مؤمنین میں سے جو بھی دجال کو دیکھے اس کے منہ پر تھوکیں اور سورہ مبارکہ حمد کی تلاوت کرے تا کہ اس ملعون کا سحر باطل ہو"۔[39]

طبق نقل امام صادق علیه‌السلام، امیر مؤمنان علی علیه‌السلام در ضمن خطبه‌ای طولانی فرمود: «حضرت مهدی (عج) با یارانش از مکّه به بیت المقدّس می‌آیند و در آنجا بین آن حضرت و دجّال و ارتش دجّال جنگ واقع می‌شود، دجال و ارتش او مفتضحانه شکست می‌خورند، به طوری که از اوّل تا آخر آنها به هلاکت می‌رسند و دنیا آباد می‌شود». [40]

آخر کار امام مہدی(عج) یا حضرت عیسی(ع) کے ہاتھوں ہلاک ہوجائے گا اور ایک روایت کے مطابق فلسطین میں بیت المقدس کے قریب "لد" کے دروازے کے قریب مارا جائے گا۔[41] ایک روایت میں ہے کہ دجال شام کے علاقے "عقبہ افیق" میں ہلاک کیا جائے گا۔[42]

حوالہ جات

  1. مجلسی، بحار الانوار، ج52 ص194 و308۔
  2. ابن کثیر، النهایة في الفتن و الملاحم، ج1 ص128۔
  3. English wikipedia۔
  4. name="Britannica"۔
  5. name="Britannica"۔
  6. ابن منظور، لسان العرب، ج11، ص236۔
  7. قاموس کتاب مقدس، مسٹر هاکس۔
  8. نامه اول یوحناFirst Epistle of John 4:3۔
  9. دوم تسالونیکیان 2:8۔
  10. مرکز فرهنگ و معارف قرآن، اعلام قرآن، ص479۔
  11. پرتوی آملی، مهدی، ریشه‌های تاریخی امثال وحکم، ج1، ص436۔
  12. شیخ صدوق، الخصال، ج‏2، ص458۔
  13. Dajjal, Encyclopedia of world religions, Britannica p.275, Date 2006۔
  14. مجلسی، بحار الانوار، ج52، ص193۔
  15. ترمذی، سنن ترمذی، ج4، ص330۔
  16. ابن ماجه، سنن، ج2 ص1304۔
  17. مسلم نیسابوری، صحیح مسلم، ج2، ص96۔
  18. ابن ماجه، سنن، ج2، ص1360۔
  19. قشیری نیسابوری، صحیح مسلم، ج8، ص205۔
  20. قشیری نیسابوری، وہی ماخذ، ج8، ص197۔
  21. بخاری، صحیح، جلد4 ج7-9، ص60۔
  22. احمد بن حنبل، مسند، ج5، ص13۔
  23. احمد بن حنبل، وہی ماخذ، ج5، ص435۔
  24. حاکم نیسابوری، المستدرک، ج4، ص 537۔
  25. طبرانی، معجم الکبیر، ج2، ص56۔
  26. مجلسی، بحارالانوار, ج52, ص 181 اور بعد کے صفحات۔
  27. کامل سلیمان، یوم الخلاص، ص711۔
  28. بحارلانوارج52 ص195۔
  29. قطب راوندی، الخرائج والجرائح، ج3 ص1138۔
  30. کامل سلیمان، یوم الخلاص، ص714۔
  31. متقی هندی، کنزالعمال، ج14، ص200۔
  32. الکورانی، معجم احادیث الامام مهدی(عج)، ج2 ص50۔
  33. حر عاملی، اثبات الهداة ج3، ص82 ح 804۔
  34. صافی گلپایگانی، منتخب الاثر، ص430۔
  35. سید ابن طاؤس، الملاحم و الفتن، ص298۔
  36. محدث قمی، منتهی الآمال، باب 14، فصل 7۔
  37. قطب راوندی، الخرائج و الجرائج، ج3، 1142۔۔
  38. مقدسی شافعی، عقد الدّرر، ص274۔
  39. محدث قمی، منتهی الآمال، باب 14، فصل 7۔
  40. حر عاملی، اثبات الهداة، ج7، ص176۔
  41. الزام الناصب، ج1ص307۔
  42. نوری طبرسی، نجم الثّاقب، ص400۔

مآخذ

  • ابن ماجه، محمد بن يزيد القزويني، سنن ابن ماجه، تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقي، دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع ۔ لبنان بيروت ۔ ہجری قمری۔
  • ابن کثیر، بو الفداء إسماعيل بن عمر القرشي البصري ثم الدمشقي، النهایة / الفتن و الملاحم» ۔ تحقیق د. طه زینی۔ دار النصر للطباعة، الناشر دار الكتب الحديثة، مصر، الطبعة الاول۔
  • ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، ناشر: دار الفکر للطباعة والنشر و التوزیع- دار صادر ۔ بيروت۔ 1410هجری قمری۔
  • احمد بن حنبل، مسند احمد وبهامشه منتخب كنز العمال في سنن الاقوال والافعال، دار صادر بيروت۔
  • البخاری، ابو عبداللہ محمد بن اسمعیل بن ابراہیم بن المغیر الجعفی،صحیح البخاری، اشراف: محمد زهیر الناصر، دار طوق النجاة، مدینه منوره، الطبعة الاولی 1422هجری قمری۔
  • پرتوی آملی، مهدی، ریشه‌های تاریخی امثال وحکم۔
  • الترمذي، ابو عيسى محمد بن عيسى، سنن الترمذي، محقق: عبد الرحمان محمد عثمان، دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت الطبعة الثانية 1403هجری قمری / 1983عیسوی۔
  • الحاكم النيسابوري، الحافظ أبو عبد الله، المستدرك على الصحيحين وبذيله التلخيص للحافظ الذهبي، إشراف د۔ يوسف عبد الرحمن المرعشلى، دار المعرفة بيروت - لبنان۔
  • حر عاملی، محمدبن حسن، اثبات الهداة بالنصوص و المعجزات مع تکمله ابوابه ابوطالب، مکتبه علمیه، قم ۔ فهرست نویسی براساس جلد سوم، 1370هجری شمسی۔
  • السيد ابن طاؤس، أبو القاسم رضي الدين علي بن موسى بن جعفر، التشريف بالمنن في التعريف بالفتن المعروف بـ"الملاحم والفتن"، التحقيق: مؤسسة صاحب الامر (عج)، النشر: گلبهار أصفهان، الطبعة الأولى - 15 شعبان - 1416هجری قمری۔
  • الشيخ الصدوق أبو جعفر محمد بن علي بن الحسين بن بابويه القمى، خصال، تصحیح: على اكبر الغفاري، منشورات جماعة المدرسين في الحوزة العلمية قم المقدسة، 18 ذو القعدة الحرام 1403هجری قمری / 5 شهريور 1362هجری شمسی۔
  • الطبراني، ابى القاسم سليمان بن احمد، المعجم الكبير للحافظ، الطبعة الثانية، المحقق:حمدي عبد المجيد السلفي، الطبعة الثانية (کتابخانه تخصصی مهدویت و آینده پژوهی (دفتر تبليغات اسلامی حوزه علمیه قم))۔
  • قاموس کتاب مقدس، مسٹر هاکس۔
  • القشيرى النيسابوري، مسلم بن الحجاج ابن مسلم، صحیح مسلم، دار الفكر بيروت لبنان۔
  • قطب الدين الراوندي، أبو الحسين سعيد بن هبة الله، الخرائج والجرائح، تحقيق ونشر مؤسسة الامام المهدي عليه السلام قم المقدسة، الطبعة: الاولى، 1409هجری قمری۔
  • کامل سلیمان، یوم الخلاص في ظل القائم المهدی علیه السلام، دار الکتب اللبنانی، بیروت الطبعة السابعة 1411هجری قمری / 1991عیسوی۔
  • الكوراني، الشيخ علي، معجم أحاديث الامام المهدي عليه السلام، (الهيئة العلمية في مؤسسة المعارف الاسلامية تحت اشراف سماحة الشيخ الكوراني) ۔ مؤسسة المعارف الاسلامية الطبعة: الاولى 1411هجری قمری۔
  • المجلسي، الشيخ محمد باقر، بحار الانوار الجامعة لدرر أخبار الائمة الاطهار، مؤسسة الوفاء ۔ بيروت ۔ لبنان 1403هجری قمری / 1983عیسوی۔
  • المتقى الهندي، علاء الدين علي بن حسام الدين، تصحیح: بكري حياني، مؤسسة الرسالة - بيروت - 1409هجری قمری / 1989عیسوی۔
  • محدث قمی، منتهی الآمال، ناشر:موسسه انتشارات هجرت۔ قم ۔ ایران۔
  • مرکز فرهنگ و معارف قرآن، اعلام قرآن، قم، بوستان، کتاب، 1386هجری شمسی۔
  • المقدسی الشافعی، یوسف بن یحیی بن علی بن عبدالعزیز، عقد الدرر فی اخبار المنتظر (وهو المهدی(ع)) ۔ تعلیق: مهیب بن صالح البورینی ۔ مکتبة المنار ۔ الاردن - الزرقاء۔ الطبعة الثانیة ۔ 1310هجری قمری/ 1989عیسوی۔
  • نامه دوم تسالونیکیان 2:8 ۔
  • نوری طبرسی، حسین بن محمد، نجم ثاقب در احوال امام غایب علیه السلام۔ تحقیق: صادق برزگر، ناشر مسجد مقدس جمکران۔ محل نشر: قم ۔ 1384هجری شمسی۔
  • یزدی حائری، علی بن زین ‌العابدین، إلزام الناصب في إثبات الحجة الغائب‌ عجل الله فرجه، محقق: عاشور، علی ناشر: موسسة الاعلمی للمطبوعات۔ بيروت ۔ لبنان۔
  • English wikipedia۔
  • Dajjal. Encyclopedia of world religions. Britannica, 2006. 275.
  • First Epistle of John 3:4