مندرجات کا رخ کریں

"اصحاب کہف" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 25: سطر 25:
سورہ کہف کی آیت نمبر 9 میں "الرقیم" کو "الکہف" پر عطف کر کے یوں آیا ہے: {{حدیث|"اَم ‌حَسِبتَ اَنَّ اَصحبَ الکهفِ والرَّقیمِ۔۔۔"}} یہاں پر مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا اصحاب کہف اور اصحاب رقیم ایک ہی گروہ کے دو نام ہیں یا دو علیحدہ گروہ ہیں۔ اگر ایک ہے تو اصحاب رقیم کیلئے کوئی الگ [[شأن نزول]] کی ضرورت نہیں لیکن اگر جدا ہیں تو علیحدہ شأن نزول کی ضرورت ہے۔ لفظ رقیم کے بارے میں بعض مفسرین نے کہا ہے که یہ اس غار کے نزدیک ایک دیہات کا نام ہے۔<ref>قمی، تفسیر قمی، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۳۱۔</ref>
سورہ کہف کی آیت نمبر 9 میں "الرقیم" کو "الکہف" پر عطف کر کے یوں آیا ہے: {{حدیث|"اَم ‌حَسِبتَ اَنَّ اَصحبَ الکهفِ والرَّقیمِ۔۔۔"}} یہاں پر مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا اصحاب کہف اور اصحاب رقیم ایک ہی گروہ کے دو نام ہیں یا دو علیحدہ گروہ ہیں۔ اگر ایک ہے تو اصحاب رقیم کیلئے کوئی الگ [[شأن نزول]] کی ضرورت نہیں لیکن اگر جدا ہیں تو علیحدہ شأن نزول کی ضرورت ہے۔ لفظ رقیم کے بارے میں بعض مفسرین نے کہا ہے که یہ اس غار کے نزدیک ایک دیہات کا نام ہے۔<ref>قمی، تفسیر قمی، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۳۱۔</ref>


===احادیث کی روشنی میں===<!--
===احادیث کی روشنی میں===
در روایات، اصحاب کہف جوانانی اشراف‌زادہ معرفی شدند کہ در عید بزرگی بہ بیرون شہر رفتند۔ خداوند در دل‌ہایشان نور ایمان برافروخت و آنان بہ خداوند ایمان آوردند، ہر چند در آغاز ایمان خود را از یکدیگر پوشیدہ می‌داشتند، امّا بہ تدریج ایمان خود را بہ یکدیگر اظہار کردند۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۵، ص۲۵۶۔</ref> بر پایہ برخی روایات دقیانوس بہ اصحاب کہف مدتی مہلت داد تا از ایمان خود بازگردند۔ آنان از این فرصت استفادہ کردہ و بہ غار پناہ بردند۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۵، ص۲۵۳۔</ref> برخی دیگر از روایات، آنان را امین و رازدار پادشاہ عصر خود قلمداد کردہ‌اند۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۵، ص۲۵۳۔</ref>
احادیث میں اصحاب کہف کو امیر اور حکمران گھرانے کے جوانوں کے طور پر جانا گیا ہے جو کسی بڑے عید کے دن شہر سے باہر چلے جاتے ہیں۔ خدا ان کے دلوں کو ہدایت کے نور سے منور فرماتے ہیں یوں یہ لوگ خدا پر ایمان لے آتے ہیں۔ اگرچہ جوانی کی ابتداء میں یہ لوگ ایک دوسرے سے اپنا ایمان چھپاتے تھے لیکن رفتہ رفتہ انہوں نے ایک دوسرے کو اپنے ایمان لانے سے باخبر کرائے۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۵، ص۲۵۶۔</ref> بعض احادیث کی روشنی میں دقیانوس نے اصحاب کہف کو ایک مدت تک مہلت دیا تاکہ وہ اپنے ایمان سے پلٹ آئیں۔ انہوں نے اس فرصت سے استفادہ کرتے ہوئے غار میں پناہگزین ہوئے۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۵، ص۲۵۳۔</ref> بعض اور احادیث میں انہیں بادشاہ کا امین اور رازدار قرار دیا ہے۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۵، ص۲۵۳۔</ref>


===در ادبیات===
===ادب میں ان کا تذکرہ===<!--
اصحاب کہف، خصوصا سگ ہمراہ‌شان در شعر فارسی از جملہ در اشعار [[سنائی|سنایی]]،<ref>[https://ganjoor۔net/sanaee/divans/ghaside-sanaee/sh14/ سایت گنجور سنائی، قصیدۂ شمارہ۱۴۔]</ref> عطار،<ref>[https://ganjoor۔net/attar/mosibatname/mbkhsh25/sh1/ سایت گنجور عطار، مصیبت‌نامہ بخش۲۵۔]</ref> مولوی<ref>[https://ganjoor۔net/moulavi/shams/ghazalsh/sh676/ سایت گنجور مولوی، غزلیات شمس، غزل۶۷۶۔]</ref> و سعدی بازتاب‌ہایی داشتہ است، بیت زیر از سعدی نمونہ‌ای از آن است:
اصحاب کہف، خصوصا سگ ہمراہ‌شان در شعر فارسی از جملہ در اشعار [[سنائی|سنایی]]،<ref>[https://ganjoor۔net/sanaee/divans/ghaside-sanaee/sh14/ سایت گنجور سنائی، قصیدۂ شمارہ۱۴۔]</ref> عطار،<ref>[https://ganjoor۔net/attar/mosibatname/mbkhsh25/sh1/ سایت گنجور عطار، مصیبت‌نامہ بخش۲۵۔]</ref> مولوی<ref>[https://ganjoor۔net/moulavi/shams/ghazalsh/sh676/ سایت گنجور مولوی، غزلیات شمس، غزل۶۷۶۔]</ref> و سعدی بازتاب‌ہایی داشتہ است، بیت زیر از سعدی نمونہ‌ای از آن است:
{{شعر۲
{{شعر۲

نسخہ بمطابق 10:53، 12 جولائی 2018ء

بوسنیا و ہرزیگووینا میں پتھر پر اصحاب کہف کی تصویر

اَصْحابِ کَہْف یا غار کے لوگ، ان با ایمان جوانوں کو کہا جاتا ہے جو روم باستان کے حکمران دقیانوس (201-251 ء) کے دور میں زندگی گزارتے تھے۔ یہ لوگ سوائے ایک چرواہا اور اس کے کتے کے سب کے سب امراء اور حکومت کے درباریوں میں سے تھے جنہوں نے اپنے ایمان کی حفاظت اور دقیانوس کے مظالم سے بچنے کیلئے ایک غار میں پناہ لیا۔ وہاں پہنچ کر تھکاوٹ کی وجہ سے سب پر نیند طاری ہو گئی جو 300 سال طول پکڑ گئی۔ قرآن کریم میں سورہ کہف کی آیت نمبر 8 سے 26 میں ان کی داستان کا ذکر کیا گیا ہے۔ اسی طرح عیسائی منابع میں بھی اس داستان سے متعلق وقایع کا تذکرہ ملتا ہے۔ شیعہ احادیث میں اصحاب کہف کو امام مہدیؑ کے اصحاب میں شمار کیا گیا ہے۔

یہ واقعہ کس جگہ رونما ہوا اور مذکورہ غار کہاں پر واقع ہے؟ اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ مشہور قول کی بنا پر یہ غار موجودہ ترکی کے صوبہ ازمیر میں اِفِسوس (اِفِسُس) نامی شہر میں واقع ہے۔ ایرانی ٹیلی ویژن پر مردان آنجلس نامی ٹی وی سیریل اسی واقعہ پر بنایا گیا ہے جس کا اردو میں ترجمہ، "اصحاب کہف" کے نام سے کیا گیا ہے۔

داستان

اَصْحابِ کَہْف (غار کے لوگ) حضرت عیسی کے ماننے والے ان با ایمان جوانوں کو کہا جاتا ہے جو روم باستان کے حکمران دقیانوس (201-251 ء) کے دور میں زندگی گزارتے تھے۔[1] یہ لوگ سوائے ایک چرواہا اور اس کے کتے کے سب کے سب امراء اور حکومت کے درباریوں میں سے تھے جنہوں نے اپنے ایمان کی حفاظت اور دقیانوس کے مظالم سے بچنے کیلئے ایک غار میں پناہ لیا۔[2] وہاں پہنچ کر تھکاوٹ کی وجہ سے سب پر نیند طاری ہو گئی جو 300 سال طول پکڑ گئی۔[3]

خدا نے ان پر ایک ایسی حالت طاری کی تھی کہ جو بھی انہیں دیکھتے وہ یہی گمان کرتے تھے کہ یہ لوگ بیدار ہیں حالانکہ یہ لوگ سوئے ہوئے تھے۔[4] اتنی مدت سونے کے بعد جب یہ لوگ بیدار ہوئے تو یہی خیال کرتے تھے کہ وہ چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں سوئے ہیں۔[5] یہ خیال ان کے ذہن میں اس لئے آیا چونکہ جس وقت یہ لوگ غار میں داخل ہو رہے تھے تو اس وقت دن کا آغاز تھا اور جب بیدار ہوئے تو دن کا آخری پهر تھا۔[6]بیدار ہونے کے بعد انہوں نے ایک کو شہر بھیجا تاکہ کچھ کھانے پینے کا بندوبست کیا جا سکے۔[7]

کھانہ لینے کیلئے کون گیا تھا اس حوالے سے قرآن میں کچھ نہیں کہا گیا لیکن بعض احادیث کے مطابق یملیخا یا تملیخا اس کام کیلئے رضاکارانہ طور پر تیار ہوا تھا۔[8] جب وہ شہر میں داخل ہوا تو دیکھا شہر بالکل تبدیل ہو چکا ہے اس لئے وہ بہت حیران و پریشان ہوا۔[9]

نام اور تعداد

اصحاب کہف میں کتنے لوگ شامل تھے؟ اس حوالے سے تاریخی اور حدیثی منابع میں اختلاف‌ پایا جاتا ہے۔ عیسائی منابع میں ان کی تعداد 7، 5 اور 13 تک بتائی گئی ہے۔[10] اسی طرح ان منابع میں ان کا نام کچھ یوں ہے: مکسملینا، یلمیخا، دیمومدس (دیموس)، امبلیکوس، مرطونس، بیرونس اور کشطونس۔[11] لیکن طبری نے ان کا نام یوں ذکر کیا ہے: مکسلمینا، محسلمینا، یملیخا، مرطونس، کسطونس، ویبورس، ویکرنوس، یطبیونس اور قالوش۔[12]

قرآن کریم میں اصحاب کہف کی تعداد کی طرف کوئی تصریح موجود نہیں ہے صرف ان کی تعداد سے متعلق لوگوں کے اختلاف کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں آیا ہے کہ بعض کہتے ہیں کتے سمیت ان کی تعداد 4 ہیں، بعض ان کی تعداد 6 اور بعض آٹھ بتاتے ہیں۔[13] بعض مفسرین کا خیال ہے کہ قرآن مجید نے تیسرے نظریے کو اپنایا ہے۔[14]

قرآن کی روشنی میں

سورہ کہف کی آیت نمبر 8 سے 26 تک میں اصحاب کہف کی داستان بیان ہوئی ہے۔ ان آیات میں اصحاب کہف کے ہدایت یافتہ ہونے، خدا پر ایمان رکھنے، کافروں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے، غار میں پناہ لینے، خدا کے حکم ان کا سینکڑوں سال زندہ رہنے، اس کے بعد دوبارہ زندہ ہونے اور لوگوں کے ساتھ ان کی گفتگو اور آخر کار حقیقت کے آشکار ہونے کی طرف اشارہ کرنے کے ساتھ ساتھ کافروں کا پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ اس مسئلے میں ہونے والی گفتگوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔[15]

قرآن کے مطابق انہوں نے 309 سال غار میں نیند کی حالت میں گزاریں۔[16]

اصحاب کہف اور اصحاب رقیم

سورہ کہف کی آیت نمبر 9 میں "الرقیم" کو "الکہف" پر عطف کر کے یوں آیا ہے: "اَم ‌حَسِبتَ اَنَّ اَصحبَ الکهفِ والرَّقیمِ۔۔۔" یہاں پر مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا اصحاب کہف اور اصحاب رقیم ایک ہی گروہ کے دو نام ہیں یا دو علیحدہ گروہ ہیں۔ اگر ایک ہے تو اصحاب رقیم کیلئے کوئی الگ شأن نزول کی ضرورت نہیں لیکن اگر جدا ہیں تو علیحدہ شأن نزول کی ضرورت ہے۔ لفظ رقیم کے بارے میں بعض مفسرین نے کہا ہے که یہ اس غار کے نزدیک ایک دیہات کا نام ہے۔[17]

احادیث کی روشنی میں

احادیث میں اصحاب کہف کو امیر اور حکمران گھرانے کے جوانوں کے طور پر جانا گیا ہے جو کسی بڑے عید کے دن شہر سے باہر چلے جاتے ہیں۔ خدا ان کے دلوں کو ہدایت کے نور سے منور فرماتے ہیں یوں یہ لوگ خدا پر ایمان لے آتے ہیں۔ اگرچہ جوانی کی ابتداء میں یہ لوگ ایک دوسرے سے اپنا ایمان چھپاتے تھے لیکن رفتہ رفتہ انہوں نے ایک دوسرے کو اپنے ایمان لانے سے باخبر کرائے۔[18] بعض احادیث کی روشنی میں دقیانوس نے اصحاب کہف کو ایک مدت تک مہلت دیا تاکہ وہ اپنے ایمان سے پلٹ آئیں۔ انہوں نے اس فرصت سے استفادہ کرتے ہوئے غار میں پناہگزین ہوئے۔[19] بعض اور احادیث میں انہیں بادشاہ کا امین اور رازدار قرار دیا ہے۔[20]

ادب میں ان کا تذکرہ

حوالہ جات

  1. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۴، ص۴۱۱۔
  2. طبری، ترجمہ تفسیر طبری(جامع البیان)، ۱۳۵۶ش، ج‌۱۵، ص‌۲۲۵۔
  3. سورہ کہف،آیہ۲۵۔
  4. طباطبایی، المیزان، ۱۳۷۴ش، ج‌۱۳، ص‌۲۵۶۔
  5. سورہ کہف،آیہ۱۸و۱۹
  6. طبرسی، جوامع الجامع، ۱۳۷۲ش، ج‌۲، ص‌۳۵۷۔ و مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج‌۱۲، ص‌۳۷۳۔
  7. سورہ کہف،آیات۱۸و۱۹
  8. بحرانی، البرہان، ۱۳۳۴ش، ج‌۳، ص‌۶۲۴۔
  9. بحرانی، البرہان، ۱۳۳۴ش، ج‌۳، ص‌۶۲۴و۶۲۵۔
  10. الحکیم، اہل الکہف، ۱۳۸۲ش، ص‌۸۸۔
  11. الحکیم، اہل الکہف، ۱۳۸۲ش، ص‌۸۸۔
  12. طبری، ترجمہ تفسیر طبری(جامع البیان)، ۱۳۵۶ش، ج‌۱۵، ص‌۲۷۶۔
  13. سورہ کہف،آیات۲۲،۱۸۔
  14. طباطبایی، المیزان، ۱۳۷۴ش، ج‌۱۳، ص‌۲۶۷،۲۶۸ و مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج‌۱۲، ص‌۳۸۳۔
  15. معموری، تحلیل ساختار روایت در قرآن، ۱۳۹۲ش، ص۱۶۰۔
  16. سورہ کہف، آیہ۲۴۔
  17. قمی، تفسیر قمی، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۳۱۔
  18. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۵، ص۲۵۶۔
  19. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۵، ص۲۵۳۔
  20. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۵، ص۲۵۳۔

مآخذ

  • المجدوب، احمد علی، اصحاب کہف در تورات، انجیل و قرآن، مترجم: سیدمحمد صادق عارف، تہران، رشد، ۱۳۸۰ش۔
  • الحکیم، توفیق، اصحاب الکہف، ترجمہ: بتول مشیریان، چاپ اول، تہران، ارمغان، ۱۳۸۲۔
  • بحرانی، سیدہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، چاپ محمودبن جعفر موسوی زرندی، تہران ۱۳۳۴ش۔
  • بی‌آزار شیرازی، عبدالکریم، باستان شناسی و جغرافیای تاریخی قصص قرآن، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، ۱۳۸۰ش۔
  • دیلمی، حسن بن ابی الحسن، ارشاد القلوب، ترجمہ ترجمہ رضایی، تہران، اسلامیہ، ۱۳۷۷ش۔
  • سامی، شمس‌الدین، قاموس الاعلام ترکی، تہران، بنیاد اندیشہ اسلامی، ۱۳۸۲ش۔
  • صافی گلپایگانی، لطف اللہ، منتخب الأثر فی أحوال الإمام الثانی عشر، قم، دفتر آیت اللہ صافی، ۱۳۸۰ش۔
  • طباطبایی، سیدمحمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ترجمہ محمدباقر موسوی، قم، دفتر نشر اسلامی، چاپ پنجم، ۱۳۷۴ش۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصرخسرو، ۱۳۷۲ش۔
  • طبری، محمد بن جریر، ترجمہ تفسیر طبری، تصحیح: حبیب یغمایی، تہران، توس، ۱۳۵۶ش۔
  • طبسی، نجم‌الدین، چشم‌اندازی بہ حکومت مہدی(عج)، قم، بوستان کتاب، ۱۳۹۱ش۔
  • قمی، علی‌بن ابراہیم، تفسیر قمی، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۱۲ق۔
  • گیپون، ادوارد، انحطاط و سقوط امپراطوری روم، مترجم: فرنگیس شادمان، تہران، ققنوس، ۱۳۹۳ش۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بہ تحقیق جمعی از محققان، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ق۔
  • معموری، علی، تحلیل ساختار روایت در قرآن، تہران، نگاہ معاصر، ۱۳۹۲ش۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۴ش۔
  • پایگاہ گنجور، سنائی،قصیدۂ شمارۂ ۱۴۔ تاریخ بازدید: ۲۰ دی ۱۳۹۶۔
  • پایگاہ گنجور، مولوی،غزل شمارۂ ۶۷۶۔ تاریخ بازدید: ۲۰ دی ۱۳۹۶۔
  • پایگاہ گنجور، گلستان سعدی،باب اول در سیرت پادشاہان، حکایت شمارۂ ۴۔ تاریخ بازدید: ۲۰ دی ۱۳۹۶۔
  • پایگاہ اطلاع رسانی روزنامہ شرق،خیلی دور، خیلی نزدیک۔ تاریخ بازدید: ۲۰ دی ۱۳۹۶۔
  • پایگاہ اطلاع رسانی افکار نیوز،مخالفت سلفی‌ہا با پخش سریال «مردان آنجلس»۔ تاریخ درج خبر: ۱۳۹۲/۰۳/۲۲، تاریخ بازدید: ۲۰ دی ۱۳۹۶۔