کتب ضالہ

ویکی شیعہ سے

کُتُب ضالّہ یا کُتُب ضَلال، ان کتابوں یا تحریروں کو کہا جاتا ہے جو ان کے پڑھنے والوں کی گمراہی کا سبب بنتی ہیں۔ البتہ بعض فقہاء صرف ان تحریروں کو کتب ضالہ سمجھتے ہیں جو مذکورہ صفت کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ اسی مقصد کے لئے لکھی گئی ہیوں۔ کتب ضَلال کی بحث کو سب سے پہلے شیخ مفید نے شیعہ فقہ میں مطرح کیا۔ ان کے بعد ہی اس مسئلے کو دوسرے تمام فقہاء کی کتابوں میں جگہ ملی اور باقاعدہ طور پر اس کے حکم شرعی سے متعلق تحقیق شروع ہوئی۔

کتب ضالہ سے مراد یہاں صرف گمراہ کرنے والی کتابیں ہی نہیں بلکہ مقالات، پیغامات، اخبارات، مجلات، رسالے، میگزین، غرض ہر وہ تحریر شامل ہیں جو مذکورہ صفت کے حامل ہوں۔ اور اسی طرح سے ضلال و گمراہی سے مراد صرف عقیدہ کی ہی گمراہی نہیں بلکہ احکام شرعی کو بھی شامل ہے۔

شیعہ امامیہ فقہاء کے مطابق کتب ضالہ کی حفاظت، خرید و فروخت، نسخہ برداری، طباعت، تعلیم و تعلم اور مطالعہ وغیرہ سب کے سب حرام ہیں مگر یہ کہ ان کے ذریعے حق کو ثابت کرنے یا باطل کی نفی مقصود ہو۔ اور کتب ضالہ کو نابود کرنا واجب ہے۔

فقہی تعریف

کتب ضالّہ یا کتب ضَلال عرف عام میں ان تحریروں کو کہا جاتا ہے جو پڑھنے والوں کی گمراہی کا سبب بنتی ہیں؛[1] لیکن فقہی کتابوں میں اس کی مختلف تعریفیں بیان ہوئی ہیں: بعض فقہاء فقہ میں بھی اس کے عرفی معنی کو ہی معتبر سمجھتے ہیں۔[2] جبکہ بعض دوسرے فقہاء گمراہی کے قصد سے لکھنے کو شرط قرار دیتے ہیں۔[3] اور بعض فقہاء کی نگاہ میں مذکورہ دونوں شرطوں کا محقق ہونا ضروری ہے یعنی گمراہی کے قصد سے لکھی گئی ہوں اور گمراہ کنندہ بھی ہو۔[4]

یہاں کتب ضلال سے مراد صرف کتابیں ہی نہیں بلکہ اس میں ہر طرح کی چھوٹی بڑی تحریریں سب شامل ہیں چاہے وہ کتابچہ ہو، مقالہ ہو یا کسی ایک چھوٹے سے خط کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو اگر گمراہی کے مقصد کے تحت لکھی گئی ہو اور موجب گمراہی بھی ہو تو کتب ضالہ کا عنوان اس پر صادق آتا ہے۔ [5]

اہمیت اور تاریخہ

بعض محققین کے بقول «کتب ضَلال» کی تعبیر سب سے پہلے شیخ مفید نے اپنی کتاب المُقنِعۃ[6] میں «کتب کفر» اور «کتب ضلال» کے عناوین کے ساتھ پیش کیا۔[7] ان کے بعد دوسرے فقیہ جیسے شیخ طوسی[8]، ابن‌ بَرّاج[9]، ابن‌ ادریس[10] اور علامہ حلی[11] نے ان دونوں تعبیروں کو استعمال کیا۔

«کتب ضلال» اور «کتب ضالہ» دو ایسے عنوان ہیں جو کثرت استعمال کی وجہ سے آہستہ آہستہ[12] فقہی کتابوں خاص کر موجودہ فقہی کتابوں میں داخل ہو چکے ہیں۔[13]

فقہی کتابوں میں کتب ضالہ اور ان کے احکامات کے سلسلہ میں الگ سے کوئی بحث نہیں ہوئی ہے بلکہ دوسری بحثوں مثلا ابواب تجارت، وقف، اجارہ، وصیت اور عاریہ کے ذیل میں اس سے بحث ہوئی ہے۔ شیخ انصاری نے اپنی کتاب المکاسب، میں «جن چیزوں کے حرام ہونے کی وجہ ان سے اکتساب کرنا حرام ہے» کے عنوان کے تحت «کتب ضالہ کی حفاظت» سے متعلق بحث کی ہیں۔[14]

گمراہی کی نوعیت

فقہاء کے مطابق اصول دین اور فروع دین دونوں میدانوں میں پیش آنے والی گمراہی شامل ہے۔[15] اسی طرح سے آیت‌ اللہ منتظری کی تحریر کے مطابق ضلال، سے مراد اکثر قارئین کی گمراہی مراد ہے؛ یعنی ایسا نہیں ہے کہ اگر کوئی ایک شخص کسی کتاب کو پڑھنے کی وجہ سے گمراہ ہوگیا تو وہ کتاب کتب ضالہ کے دائرہ میں آجائے گی ؛ کیونکہ تمام کتابیں یہاں تک کہ خود قرآن کریم اور احادیث کی تمام کتابیں بھی نادان اور کم علم لوگوں کو گمراہ کردیتی ہیں۔[16]

مصادیق

فقہی کتابوں میں کتب ضالہ کے مصادیق کے بیان میں بھی فقہاء کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے مثال کے طور پر علامہ حلی (648-726ھ) اور محقق کَرَکی (متوفی 940ھ) توریت اور اِنجیل کو کتب ضَلال میں شمار کرتے ہیں؛ اس دلیل کے ساتھ کہ یہ کتابیں تحریف ہو چکی ہیں؛[17] لیکن شیخ انصاری کے مطابق ان کتابوں کا مسلمانوں کے درمیان منسوخ ہونا ایک واضح سی بات ہے اس لئے یہ کتابیں ان کے لئے کسی گمراہی کا سبب قرار نہیں بنتیں۔[18]

اسی طرح یوسف بَحرانی (1107-1186ھ) جو شیعوں کے اخباری علماء میں سے ہیں، انھوں نے اصول فقہ میں اہل‌ سنت کی تالیفات اور اسی طرح سے ان شیعہ علماء کی تالیفات کو کتب ضالہ میں شمار کیا ہے جنھوں نے اصول فقہ میں اہل سنت کی پیروی کی ہیں؛ لیکن سید جواد عاملی (1160-1226ھ) کتاب مفتاح‌الکرامہ کے مئولف نے یوسف بحرانی کی خود اس بات کو گمراہی کا مصداق ٹھہرایا۔[19]

شیخ انصاری نے بھی یہی لکھا ہے کہ کتب ضالہ کی حفاظت کی حرمت کی دلیلیں صرف ان کتابوں کو شامل کرتی ہیں جو موجب گمراہی ہو جبکہ شیعہ مخالفین کی بہت سی کتابیں اس امر سے خارج ہیں۔[20] انھوں نے اہل سنّت کی صرف چند کتابوں کو جو عقیدہ جبر کے اثبات اور خلفا کی برتری کے اثبات میں ہیں ان کو کتب ضالہ کا مصداق قرار دیا ہے۔[21] بعض شیعہ فقہاء نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ فلسفی اور عرفانی کتابیں جو موجب گمراہی ہوں وہ بھی کتب ضالہ‌ میں شمار کی جائیں گی؛ چاہے ان کی باتیں کتنی بھی حق کیوں نہ ہوں۔ [22]

معاصر مراجع تقلید میں سے آیت‌ اللہ مکارم شیرازی اور آیت‌ اللہ صافی گلپایگانی نے ان اخباروں اور میگزینوں کو کتب ضالہ کے مصادیق میں سے شمار کیا ہے جن میں فحش اور منکرات چھپتے ہیں جو معاشرے کی گمراہی اور فساد کا سبب بنتے ہیں۔ [23]

احکام

فقہاء کے مطابق کتب ضالہ کو ضائع کردینا واجب ہے۔[24] جبکہ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل امور حرام ہیں:

  • کتب ضالہ کی حفاظت اور ان سے کسب معاش کرنا [25]
  • نسخہ برداری اور ان کی نشر و اشاعت [26]
  • ان کی خرید و فروخت [27]
  • ان کا مطالعہ کرنا اور ان کی تعلیم و تعلم [28]
  • کتب ضالہ کی نشر و ترویج کے لئے مال وقف کرنا [29]
  • ان کتابوں کی حفاظت یا نشر و ترویج وغیرہ کے لئے وصیت کرنا[30]
  • ان کتابوں کی جلد سازی یا صحافی وغیرہ کے لئے اجرت لینا۔ [31]

البتہ فقہاء نے درج بالا امور کی حرمت سے اس شخص کو مستثناء قرار دیا ہے جس میں ان کتابوں کے ذریعے حق کے اثبات اور باطل کو رد کرنے کی اہلیت اور صلاحیت موجود ہو۔ [32] اسی طرح سے آیت اللہ وحید خراسانی کے فتوی کے مطابق کتب ضالہ کا خریدنا اور بیچنا اس وقت حرام ہے جب گمراہی کا احتمال پایا جاتا ہو۔[33]

ایک غیر معمولی فتوی

آیت اللہ منتظری کا خیال ہے کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں اشاعتی آلات کی ترقی کے ساتھ کتاب کو ضایع کرنا نہ صرف انہیں نابود اور محو نہیں کر سکتی بلکہ اس سے لوگوں کی دلچسپی اور خواہش میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ نیز گمراہ کن کتابیں چونکہ توہمات اور باطل چیزوں پر مشتمل ہوتی ہیں اس بنا پر یہ کتابیں خود اپنے بطلان کا سبب بنے گی لہٰذا اس دور میں نہ ان کی حفاظت کرنا حرام ہے اور ان کو تلف کرنا واجب ہے۔۔[34]

فقہی دلائل

کتب ضالّہ کے احکامات کے استنباط کے لئے فقہاء نے ادلّہ اربعہ سے استناد کیا ہے: اس سلسلے میں سورہ لقمان کی چھٹی [35] اور سورہ حج کی تیسویں آیت سے استنباط کیا جاتا ہے۔ [36] اسی طرح احادیث کے باب میں تحف العقول میں امام صادقؑ سے مروی حدیث سے استناد کیا جاتا ہے۔[37] اس کے علاوہ اجماع [38] اور عقلی دلائل جیسے فساد کی جڑوں کو ختم کرنا [39] اور احتمالی ضرر کو بھی روکنا وغیره سے استناد کیا جاتا ہے۔[40]

فقہاء میں سے یوسف بن احمد بَحرانی (1107-1186ھ) نے کتب ضالہ کی حفاظت کی حرمت اور اس کو ختم کردینے کے وجوب کے مسئلہ میں شک کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان احکام کے اثبات کے لئے ہمارے پاس کوئی دلیل شرعی موجود نہیں ہے۔[41]

ایران کے آئین میں کتب ضالہ کا حکم

ایران کے آئین میں سب سے پہلے سنہ 1906ء کو کی گئی آئینی ترمیم میں «کتب ضلال» کی تعبیر استعمال ہوئی ہے۔[42] اس سلسلے میں آئین کے بیسویں مادے میں مطبوعات اور نشریات کی آزادی کے سلسلہ میں آیا ہے: «کتب ضلال اور دین مبین اسلام کو نقصان پہچانے والے مواد کے علاوہ تمام مطبوعات آزاد ہیں اور ان کا محاسبہ ممنوع ہے۔»[43] اسی طرح آئین کے چوبیسویں مادّے میں «کتب ضلال» کا نام لئے بغیر آیا ہے کہ «نشریات‏ اور مطبوعات‏ پر کوئی روک ٹوک نہیں مگر یہ کہ وہ مبانی اسلام اور عمومی حقوق میں مخل ہوں۔[44]

کتب ضالہ اور آزادی بیان

بعض لوگ «کتب ضالہ» سے متعلق فقہی احکام کو آزادی فکر اور آزادی بیان کے منافی قرار دیتے ہیں۔۔[45] اس اعتراض کا جواب یوں دیا گیا ہے: دین اسلام نے حصول کو فرض قرار دیتے ہوئے اس کی ترغیب دیتے ہیں اور اس سلسلے میں کبھی بھی آزادی فکر و بیان کی مخالفت نہیں کی ہے؛ لیکن معاشرے میں لوگوں کے اعتقادات اور سلامت فکری سے بھی غافل نہیں ہے اس لئے معاشرے کے اعتقادی اور اخلاقی انحرافات کے سد باب کے لئے اسلام نے آزادی فکر اور آزادی بیان کے دائرے کا تعین کیا ہے۔[46]

حوالہ جات

  1. گرجی، «کتب ضلال: دیدگاہ‌ہای فقہی و حقوقی»، ص۴۵-۴۶۔
  2. گرجی، «کتب ضلال: دیدگاہ‌ہای فقہی و حقوقی»، ص۴۶؛ مراجعہ کیجئے منتظری، دراسات فی المکاسب المحرمۃ، ۱۴۱۵ ہجری، ج۳، ص۹۹؛سبحانی، المواہب، ۱۴۱۶ ہجری، ج۱، ص۴۴۳۔
  3. روحانی، منہاج‌الفقاہہ، ۱۴۲۹ ہجری، ج۱، ص۳۴۳۔
  4. خویی، مصباح الفقاہۃ، ۱۴۱۷ ہجری، ج۱، ص۴۰۱۔
  5. گرجی، «کتب ضلال: دیدگاہ‌ہای فقہی و حقوقی»، ص۴۶۔
  6. شیخ مفید، المقنعۃ، ۱۴۱۰ ہجری، ص۵۸۸-۵۸۹۔
  7. صانعی، «حریۃ الاعلام الفکر و الثقافی: مطالعۃ فقہیۃ فی الموقف من کتب الضلال»، ص۵۹۔
  8. شیخ طوسی، النہایہ، ۱۴۰۰ ہجری، ص۳۶۷۔
  9. ابن‌ براج، المہذب، ۱۴۰۶ ہجری، ج۱، ص۳۱۴و۳۴۵۔
  10. ابن‌ ادریس، السرائر، ۱۴۱۰ ہجری، ج۲، ص۲۲۵۔
  11. علامہ حلی، تذکرۃ الفقہاء، ۱۴۱۴ ہجری، ج۹، ص۱۲۷ و ج۱۲، ص۱۴۳؛ علامہ حلی، منتہی‌ المطلب، ۱۳۱۶ ہجری، ج۲، ص۱۰۲۰۔
  12. صانعی، «حریۃ الاعلام الفکر و الثقافی: مطالعۃ فقہیۃ فی الموقف من کتب الضلال»، ص۵۹۔
  13. مثال کے طور پہ مراجعہ کیجئے کتاب: خویی، استفتائات، مؤسسۃالخوئی الاِسلاميہ، ج۱، ص۲۶۰؛ سیستانی، منہاج‌ الصالحین، ۱۴۱۴ ہجری، ج۲، ص۱۴؛ فیاض، منہاج‌الصالحین، مکتب سماحۃ آیت‌اللہ حاج شیخ محمداسحاق فیاض، ج۲، ص۱۱۳؛ فاضل لنکرانی، جامع‌ المسائل، ۱۳۸۳شمسی ہجری، ج۱، ص۵۹۲؛ طباطبایی قمی، مبانی منہاج‌الصالحین، ۱۴۲۶ ہجری، ج۷، ص۲۸۸۔
  14. نمونہ کے طور پہ مراجعہ فرمائیں؛ شیخ انصاری، المکاسب، ۱۴۱۵ ہجری، ج۱، ص۲۳۳۔
  15. منتظری، دراساتٌ فی المکاسب المحرمۃ، ۱۴۱۵ ہجری، ج۳، ص۹۹-۱۰۰؛ خویی، مصباح‌ الفقاہۃ، ۱۴۱۷ ہجری، ج۱، ص۴۰۱۔
  16. منتظری، دراساتٌ فی المکاسب المحرمۃ، ۱۴۱۵ ہجری، ج۳، ص۹۹۔
  17. محقق کرکی، جامع‌المقاصد، ۱۴۱۴ ہجری، ج۴، ص۲۶۔
  18. شیخ انصاری، المکاسب، ۱۴۱۵ ہجری، ج۱، ص۲۳۵-۲۳۶۔
  19. حسینی عاملی، مفتاح‌الکرامۃ، ۱۴۲۶ ہجری، ج۱۲، ص۲۰۹۔
  20. شیخ انصاری، المکاسب، ۱۴۱۵ ہجری، ج۱، ص۲۳۶-۲۳۷۔
  21. شیخ انصاری، المکاسب، ۱۴۱۵ ہجری، ج۱، ص۲۳۷۔
  22. روحانی، منہاج‌الفقاہہ، ۱۴۲۹ ہجری، ج۱، ص۳۴۳۔
  23. مکارم شیرازی، استفتائات، ۱۴۲۷ ہجری، ج۲، ص۲۶۵؛ صافی گلپایگانی، ہدایۃالعباد، ۱۴۱۶ ہجری، ج۱، ص۲۹۳۔
  24. شہید ثانی، مسالک‌ الافہام، ۱۴۱۳ھ، ج۳، ص۱۲۷۔
  25. شیخ مفید، المقنعۃ، ۱۴۱۰ھ، ص۵۸۹؛ علامہ حلی، تذکرۃالفقہاء، ۱۴۱۴ھ، ج۱۲، ص۱۴۳؛ نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲شمسی ہجری، ج۲۲، ص۵۶؛ شیخ انصاری، المکاسب، ۱۴۱۵ھ، ج۱، ص۲۳۳۔
  26. شیخ طوسی، النہایۃ، ۱۴۰۰ھ، ص۳۶۵؛ شہید ثانی، مسالک الافہام، ۱۴۱۳ھ، ج۳، ص۱۲۷؛ محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ھ، ج۴، ص۲۶؛ حسینی عاملی، مفتاح‌ الکرامۃ، ۱۴۱۹ھ، ج۱۲، ص۲۰۴؛ محقق اردبیلی، مجمع الفایدۃ و البیان، ۱۴۰۳ھ، ج۸، ص۷۵؛ تبریزی، صراط النجاۃ في أجوبۃ الإستفتائات، ۱۴۱۶ھ، ج۱، ص۱۳۹۔
  27. خویی، منہاج الصالحین، مؤسسۃ الخوئي الإسلاميۃ، ج۲، ص۱۰؛ شیخ انصاری، المکاسب، ۱۴۱۵ھ، ج۱، ص۲۳۶۔
  28. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۳، ص۲۱۴؛ طباطبایی، ریاض المسائل، ۱۴۱۲ھ، ج۱، ص۵۰۳۔
  29. خویی، منہاج الصالحین، مؤسسۃ آثار الامام الخویی، ج۲، ص۲۴۰۔
  30. خویی، منہاج الصالحین، مؤسسۃ آثار الامام الخویی، ج۲، ص۲۱۷۔
  31. شیخ مفید، المقنعہ، ۱۴۱۰ھ، ص۵۸۸۔
  32. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۳، ص۲۱۴؛ طباطبایی، ریاض المسائل، ۱۴۱۲ھ، ج۱، ص۵۰۳۔
  33. وحید خراسانی، منہاج الصالحین، مدرسۃ الامام باقر العلوم، ج۲، ص۱۵۔
  34. منتظری، دراسات فی مکاسب المحرمۃ، ۱۴۱۵ھ، ج۳، ص۱۰۴۔
  35. شیخ انصاری، المکاسب، ۱۴۱۵ھ، ج۱، ص۲۳۳۔
  36. شیخ انصاری، المکاسب، ۱۴۱۵ھ، ج۱، ص۲۳۳۔
  37. ابن شعبہ حرانی، تحف‌العقول، ۱۴۰۴ھ، ج۱، ص۳۳۵۔ ، شیخ انصاری، المکاسب، ج۱، ص۲۳۳۔
  38. طباطبایی، ریاض‌ المسائل، ۱۴۱۲ھ، ج۸، ص۶۹۔
  39. شیخ انصاری، المکاسب، ۱۴۱۵ھ، ج۱، ص۲۳۳۔
  40. طباطبایی، ریاض‌المسائل، ۱۴۱۲ھ، ج۸، ص۶۹۔
  41. بحرانی، حدائق‌ الناضرۃ، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج۱۸، ص۱۴۱۔
  42. ابریشمی‌ راد، شرح مبسوط قانون اساسی، ۱۳۹۴شمسی ہجری، ص۶۔
  43. ابریشمی‌ راد، شرح مبسوط قانون اساسی، ۱۳۹۴شمسی ہجری، ص۶۔
  44. «قانون اساسی جمهوری اسلامی ایران»، سایت مرکز پژوهش‌های مجلس شورای اسلامی.
  45. مکارم شیرازی، پاسخ بہ پرسش‌ہای مذہبی، ۱۳۷۷شمسی ہجری، ص۳۳۷۔
  46. مصباح یزدی، پاسخ استاد بہ جوانان پرسشگر، ۱۳۹۴شمسی ہجری، ص۵۸۔

مآخذ

  • ابریشمی‌راد، محمدامین، شرح مبسوط قانون اساسی، تہران، پژوہشکدہ شورای نگہبان، ۱۳۹۴شمسی ہجری۔
  • ابن‌براج، عبدالعزیز، المہذب، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ۱۴۰۶ھ۔
  • ابن‌ادریس، محمد بن احمد، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، چاپ دوم، ۱۴۱۰ھ۔
  • ابن‌شعبہ حرانی، حسن بن علی، تحف‌العقول، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ۱۴۰۴ھ۔
  • بحرانی، یوسف بن احمد، حدائق‌الناضرۃ، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، بے تا۔
  • تبریزی، میرزا جواد، صراط النجاۃ فی اَجوبۃ الاِستفتائات، قم، انتشارات سلمان فارسی، ۱۴۱۶ھ۔
  • حسینی، سید محمدجواد، مفتاح‌الکرامۃ، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، چاپ اول، ۱۴۱۹ھ۔
  • خویی، ابوالقاسم، استفتائات، قم، مؤسسۃ الخوئی الاِسلامیہ، بے تا۔
  • خویی، سیدابوالقاسم، منہاج‌الصالحین، قم، مؤسسۃ الخوئی الاِسلامیۃ، بے تا۔
  • خویی، مصباح‌الفقاہہ، قم، انتشارات انصاریان، ۱۴۱۷ھ۔
  • روحانی، سید محمدصادق، منہاج‌الفقاہہ، قم، انوارالہدی، چاپ پنجم، ۱۴۲۹ھ۔
  • سبحانی، جعفر، المواہب فی تحریر احکام المکاسب، قم، مؤسسۃ الامام الصادق(ع)، ۱۴۱۶ھ۔
  • سیستانی، سیدعلی، منہاج‌الصالحین، قم، مكتب آيت‌اللہ العظمى السيد السيستانی، ۱۴۱۴ھ۔
  • شہید ثانی، زین‌الدین محمد بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، قم، مکتب الاِعلام الاِسلامی، ۱۴۱۰ھ۔
  • شیخ انصاری، مرتضی، مکاسب، قم، مجمع الفکر الاسلامی، چاپ اول، ۱۴۱۵ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، المقنعۃ، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ۱۴۱۰ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، النہایہ، بیروت، دار الکتاب العربی، ۱۴۰۰ھ۔
  • صانعی، یوسف، «حریۃ الاعلام الفکر و الثقافی: مطالعۃ فقہیۃ فی الموقف من کتب الضلال»، در مجلہ الاجتہاد و التقلید، شمارہ ۹و۱۰، ۱۴۲۹ھ۔
  • صافی گلپایگانی، لطف‌اللہ، ہدایۃالعباد، قم، دار القرآن الكريم، ۱۴۱۶ھ۔
  • طباطبایی، سیدعلی، ریاض‌المسائل، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، چاپ اول، ۱۴۱۲ھ۔
  • طباطبایی قمی، سیدتقی، مبانی منہاج الصالحین، قم، قلم‌الشرق، ۱۴۲۶ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، تذکرۃالفقہاء، قم، مؤسسۃ آل‌البيت عليہم‌السلام، ۱۴۱۴ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، منتہی‌المطلب، مشہد، مجمع البحوث الاسلامیۃ، ۱۳۱۶ھ۔
  • فاضل لنکرانی، محمد، جامع‌المسائل، قم، انتشارت امیر، چاپ یازدہم، ۱۳۸۳شمسی ہجری۔
  • فیاض، محمداسحاق، منہاج‌الصالحین، قم، مکتب سماحۃ آیت‌اللہ العظمی الحاج الشیخ محمداسحاق الفیاض، بے تا۔
  • «قانون اساسی جمہوری اسلامی ایران»، سایت مرکز پژوہش‌ہای مجلس شورای اسلامی، تاریخ بازدید: ۱۰ اسفند ۱۳۹۹شمسی ہجری۔
  • گرجی، ابوالقاسم، «میزگرد کتب ضلال: دیدگاہ‌ہای فقہی و حقوقی»، کتاب ماہ، شمارہ ۵، اردیبہشت ۱۳۸۲شمسی ہجری۔
  • متمم قانون اساسی مشروطہ، مصوب ۱۲۵۸شمسی ہجری، اصل۲۰۔
  • محقق اردبیلی، احمد بن محمد، مجمع الفائدۃ و البیان، قم، مؤسسۃ النشر الاِسلامی، ۱۴۰۳ھ۔
  • مصباح یزدی، محمدتقی، پاسخ استاد بہ جوانان پرسشگر، قم، انتشارات مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی(رہ)، چاپ نہم، ۱۳۹۴شمسی ہجری۔
  • محقق کرکی، شیخ نوالدین علی بن حسین، جامع‌المقاصد، قم، مؤسسہ آل‌البيت عليہم‌السلام، چاپ دوم، ۱۴۱۴ھ۔‌
  • مکارم شیرازی، ناصر، استفتائات جدید، قم، مدرسہ امام على بن ابی‌طالب(ع)، چاپ دوم، ۱۴۲۷ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، پاسخ بہ پرسش‌ہای مذہبی، قم، مدرسہ امام علی بن ابی‌طالب(ع)، چاپ اول، ۱۳۷۷شمسی ہجری۔
  • منتظری، حسینعلی، دراساتً فی المکاسب المحرمۃ، قم، انتشارات تفکر، ۱۴۱۵ھ۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہرالکلام، بیروت، دار اِحياء التراث العربی، چاپ ہفتم، ۱۳۶۲شمسی ہجری۔
  • وحید خراسانی، حسین، منہاج‌الصالحین، قم، مدرسۃ الامام باقر العلوم، بے تا۔