قتل نفس زکیہ

ویکی شیعہ سے
(قتل نَفسِ زَکیّہ سے رجوع مکرر)

قتل نَفسِ زَکیّہ یہ امام مہدیؑ کے ظہور کی ایک علامت ہے کہ جس کے سلسلہ میں امام مہدیؑ کے ایک صحابی کے خانہ کعبہ کے کنارے قتل ہونے کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ روایت کی بنا پر نفس زکیہ امام حسینؑ کی نسل سے ہیں اور قیام امام زمانؑ سے پہلے مسجد الحرام میں قتل کئے جائیں گے۔

بعض روایات میں قتل نفس زکیہ کو ظہور امامؑ کی یقینی علامات میں شمار کیا گیا ہے۔ کتاب الکافی کے شارح ملا صالح مازندرانی نے یہ احتمال دیا ہے کہ سید حسنی اور نفس زکیہ ایک ہی ہیں۔

شخصیت

«نفس زَکیّہ» (پاک انسان) وہ شخص کہ جس کے بارے میں روایات میں مرد صالح اور متقی[1] کے طور پر پہچنوایا گیا ہے کہ جس کا قتل ظہور کی علامت سمجھا جاتا ہے۔[2] روایات کی روشنی میں وہ امام حسینؑ کی نسل[3] سے ہوں گے جن کا نام محمد بن حسن ہے۔[4]

نفس زکیہ امام مہدیؑ کے ساتھیوں میں سے ایک ہیں جسے امامؑ مکہ والوں کی رہنمائی کے لیے بھیجتے ہے۔ امام مہدیؑ اپنے ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مکہ کے لوگ مجھے نہیں چاہتے لیکن میں ایک ایسے کو ان کے پاس بھیج رہا ہوں تاکہ ان کے خلاف حجت تمام ہو جائے۔ جب نفس زکیہ اپنے آپ کو حضرت مہدی علیہ السلام کی نمائندگی کے طور پر متعارف کرواتے ہیں تو لوگ ان پر حملہ کرتے ہوئے رکن و مقام کے درمیان ان کا سر کاٹ دیتے ہیں۔[5]

ظہور امامؑ کی یقینی علامت

قَبْلَ قِيَامِ الْقَائِمِ خَمْسُ عَلَامَاتٍ مَحْتُومَاتٍ الْيَمَانِيُّ وَ السُّفْيَانِيُّ وَ الصَّيْحَةُ وَ قَتْلُ النَّفْسِ الزَّكِيَّةِ وَ الْخَسْفُ بِالْبَيْدَاءِ
امام قائمؑ کے قیام سے پہلے پانچ نشانیاں ہونگی جو سب کی سب ظہور کی یقینی علامات ہونگی: یمانی، سفیانی، صیحہ آسمانی، قتل نفس زکیہ اور خسف بَیداء

شیخ صدوق، کمال‌الدین، 1395ھ، ج2، ص650، ح7

امام صادقؑ کی ایک روایت کی بنا پر صیحہ آسمانی، خروج سفیانی، خروج یمانی اور خسف بیداء کے ساتھ ساتھ قتل نفس زکیہ بھی ظہور امامؑ کی یقینی علامات میں سے ایک ہے۔[6]

کمال‌الدین میں امام صادقؑ سے ایک روایت وارد ہوئی ہے کہ قیام قائم آل محمّد اور قتل نفس زکیہ کے درمیان 15 راتوں کا فاصلہ ہوگا۔[7] امام باقرؑ سے ایک دوسری روایت میں وارد ہوا ہے کہ ان کا قتل مسجد الحرام میں رکن و مقام ابراہیم کے درمیان ہوگا۔[8]


کتاب الکافی کے شارح ملا صالح مازندرانی نے علامات ظہور کی حدیث کی شرح کرتے ہوئے اس بات کا احتمال دیا ہے کہ نفس زکیہ ہی سید حسنی ہے کہ وہ بھی علامات ظہور میں سے ایک ہے۔[9] اس کی وجہ ایک روایت ہے جو مکہ کے لوگوں کے ہاتھوں حسنی کے قتل اور امام مہدی کے ظہور کے موقع پر سفیانی کو ان کے سر کو بھیجنے کی اطلاع دیتی ہے۔[10]

تاریخی مطابقت

تاریخی مآخذ کے مطابق محمد بن عبداللہ محض (وفات سنہ 145 ہجری قمری) کے بعض حامی اس بات کے معتقد ہیں کہ وہی نفس زکیہ ہیں۔[11] یحیی بن زید کی شہادت کے بعد، جسے نفس زکیہ کا لقب دیا گیا تھا اس کی بعنوان مہدی بیعت کر لی۔[12] انہوں نے منصور عباسی کے خلاف سنہ 145 ہجری قمری میں قیام کیا اور مدینہ کے نزدیک احجار الزیت کے علاقہ میں قتل کر دئے گئے۔[13]

بعض روایات میں دو نفس زکیہ کے قتل کے سلسلہ میں وارد ہوا ہے کہ ایک کو مکہ میں اور دوسرے کو ستّر ساتھیوں کے ساتھ پشت کوفہ (نجف) میں قتل کیا جائے گا۔[14] علی کورانی نے اپنی کتاب عصر الظہور میں اس بات کا احتمال دیا ہے کہ سید محمد باقر الصدر (شہادت سنہ 1359 ہجری شمسی) ہی نفس زکیہ ہیں کہ جن کو روایات کی بنا پر پشت کوفہ شہید کیا جائے گا۔[15]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. محمدی‌ری شہری، دانشنانہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۷، ص۴۳۸۔
  2. نعمانی، الغیبۃ، ۱۳۹۷ھ، ص۲۶۴۔
  3. عیاشی، تفسیر العیاشی، ۱۳۸۰ھ، ج۱، ص۶۵۔
  4. شیخ صدوق، کمال‌الدین، ۱۳۹۵ھ، ج۱، ص۳۳۱، ح۱۶۔
  5. علامہ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۵۲، ص۳۰۷۔
  6. نعمانی، الغیبۃ، ۱۳۹۷ھ، ص۲۶۴، ح۲۶؛ شیخ صدوق، کمال‌الدین، ۱۳۹۵ھ، ج۲، ص۶۴۹، ح۱۔
  7. شیخ صدوھ، کمال‌الدین، ۱۳۹۵ھ، ج۲، ص۶۴۹، ح۲۔
  8. شیخ صدوھ، کمال‌الدین، ۱۳۹۵ھ، ج۱، ص۳۳۱، ح۱۶۔
  9. مازندرانی، شرح الکافی، ۱۳۸۰ھ، ج‏۱۲، ص۴۱۴۔
  10. دیکھئے سلیمیان، فرہنگنامہ مہدویت، ۱۳۸۸ش، ص۲۰۸۔
  11. ابوالفرج اصفہانی، مقاتل‏ الطالبيين، دارالمعرفہ، ص۲۰۷۔
  12. ابوالفرج اصفہانی، مقاتل‏ الطالبيين، دارالمعرفہ، ص۲۰۷۔
  13. ابوالفرج اصفہانی، مقاتل‏ الطالبيين، دارالمعرفہ، ص۲۰۷۔
  14. دیکھئے علامہ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۵۲، ص۲۷۳۔
  15. کورانی، عصرالظہور، ۱۴۰۸ھ، ص۱۲۶۔

مآخذ

  • ابوالفرج اصفہانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، تحقیق سید احمد صقر، بیروت،‌ دار المعرفۃ، بے‌تا۔
  • سلیمیان، خدا مراد، فرہنگنامہ مہدویت، قم، بنیاد فرہنگی حضرت مہدی موعود، چاپ دوم، ۱۳۸۸ ہجری شمسی۔۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، کمال‌ الدین و تمام النعمہ، تصحیح علی‌اکبر غفاری، تہران، اسلامیہ، چاپ دوم، ۱۳۹۵ھ۔
  • علامہ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، دار احیاء التراث العربی، بیروت، چاپ دوم، ۱۴۰۳ھ۔
  • عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، تصحیح رسولی محلاّتی، تہران، المطبعۃ العلمیۃ الاسلامیۃ، ۱۳۹۰ھ۔
  • کورانی، علی، عصر الظہور، مرکز النشر مکتب الاعلام الاسلامی، الطبعۃ الاولی، ۱۴۰۸ھ۔
  • مازندرانی، ملا محمد صالح بن احمد، شرح الکافی -الاصول و الروضہ، تصحیح ابوالحسن شعرانی، تہران، المکتبۃ الاسلامیۃ، ۱۳۸۲ھ۔
  • محمدی ری‌ شہری، محمد، دانشنامہ امام مہدی(عج)، قم، دار الحدیث، ۱۳۹۳ہجری شمسی۔
  • نعمانی، محمد بن ابراہیم، الغیبہ، تصحیح علی‌ اکبر غفاری، تہران، نشر صدوق، ۱۳۹۷ھ۔