ایثار

ویکی شیعہ سے
(فدا کاری سے رجوع مکرر)
اخلاق
اخلاقی آیات
آیات افکآیہ اخوتآیہ اطعامآیہ نبأآیہ نجواآیہ مشیتآیہ برآیہ اصلاح ذات بینآیہ ایثار
اخلاقی احادیث
حدیث قرب نوافلحدیث مکارم اخلاقحدیث معراجحدیث جنود عقل و جہل
اخلاقی فضائل
تواضعقناعتسخاوتکظم غیظاخلاصخشیتحلمزہدشجاعتعفتانصافاصلاح ذات البینعیب‌پوشی
اخلاقی رذائل
تکبرحرصحسددروغغیبتسخن‌چینیتہمتبخلعاق والدینحدیث نفسعجبعیب‌جوییسمعہقطع رحماشاعہ فحشاءکفران نعمت
اخلاقی اصطلاحات
جہاد نفسنفس لوامہنفس امارہنفس مطمئنہمحاسبہمراقبہمشارطہگناہدرس اخلاقاستدراج
علمائے اخلاق
ملامہدی نراقیملا احمد نراقیمیرزا جواد ملکی تبریزیسید علی قاضیسید رضا بہاءالدینیسید عبدالحسین دستغیبعبدالکریم حق‌شناسعزیزاللہ خوشوقتمحمدتقی بہجتعلی‌اکبر مشکینیحسین مظاہریمحمدرضا مہدوی کنی
اخلاقی مآخذ
قرآننہج البلاغہمصباح الشریعۃمکارم الاخلاقالمحجۃ البیضاءرسالہ لقاءاللہ (کتاب)مجموعہ وَرّامجامع السعاداتمعراج السعادۃالمراقبات

ایثار و فداکاری اخلاقی اوصاف میں سے ایک ہے جس کے معنی اپنی ضرورت کے باوجود دوسروں کو اپنے پر ترجیح دینا اور مقدم جاننا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں ایثار کو ایک اہم مقام حاصل ہے، جس کی مثالیں اور مصادیق قرآن نے متعدد بار بیان کی ہیں۔ احادیث کی شیعہ کتابوں میں اس موضوع کے لئے ایک مستقل اور پورا باب مختص کیا گیا ہے۔

لیلۃ المبیت کے واقعہ میں امام علیؑ کی ایثار و فداکاری، اسلام کی ترویج میں حضرت خدیجہؑ کی مالی قربانی اور واقعہ کربلا میں امام حسینؑ کی جانی قربانی تاریخِ اسلام میں ایثار و قربانی کی نمایاں مثالیں ہیں۔ صدر اسلام میں انصار کی اپنی ضرورت کے باوجود ان کا مہاجرین کو ترجیح دینا اور ان کو اپنے پر مقدم جاننا ایثار و قربانی کی اہم ترین صورتوں میں شمار کیا جاتی ہے اور کہا گیا ہے کہ آیہ ایثار انصار کی اسی ایثار و فداکاری کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

ایثار و قربانی کے لیے انفرادی اور سماجی جہتوں میں کچھ آثار بیان ہوئی ہیں جن میں سے انفرادی جہت میں سخاوت، خدا کی خوشنودی کا حصول اور دنیا پرستی سے آزادی جیسی چیزوں کا ذکر کر سکتے ہیں، اور سماجی جہت میں غربت کا خاتمہ، احسان، حسن معاشرت اور باہمی یکجہتی پیدا کرنا شامل ہیں۔

فقہاء کے نزدیک ایثار مستحب ہے؛ لیکن بعض صورتوں میں یہ واجب اور بعض صورتوں میں حرام ہوجاتا ہے۔ اسلامی عرفا کی نظر میں ایثار کو ایک اہم مقام حاصل ہے اور اسے تصوف کے ارکان میں ذکر کیا گیا ہے۔ اسی طرح ایثار کو بھی تہذیبوں کے قیام کی کنجی سمجھا گیا ہے۔

مفہوم شناسی

ایثار ایک انسانی نیکی ہے جس کی تعریف مختلف طریقوں سے کی جاتی ہے، جیسے اپنی ضرورت کے باوجود دوسروں کو اپنے پر مقدم رکھنا اور انہیں ترجیح دینا[1]، یا منفعت کے حصول اور نقصان سے بچاؤ میں دوسروں کو اپنے پر ترجیح دینا۔[2]

اس لفظ کو کنجوسی اور بُخل کا مخالف اور متضاد[3] نیز سخاوت، انفاق اور احسان جیسے مفاہیم سے مربوط سمجھا جاتا ہے، صرف فرق یہ ہے کہ ایثار کرنے والا جو چیز دوسروں کو دے رہا ہے اسے خود اس کی ضرورت ہے۔[4]

قرآن مجید کی بعض آیات کے مطابق اسلامی مفکرین نے ایثار و فداکاری کو دو قسموں[5] یعنی مالی قربانی اور جانی قربانی[یادداشت 1] میں تقسیم کیا ہے۔

اہمیت

مرتضی مطہری کا کہنا ہے کہ ایثار کی جڑیں انسانی فطرت میں ہیں اور اس کی تاریخی قدمت انسانی زندگی کے آغاز سے ہے۔[6]

بعض محققین نے غیر الہی مذاہب میں ایثار کے ظہور کو قربانی کے مسئلہ سے جوڑا ہے[7] اور ان کا خیال ہے کہ ایثار کا ذکر یہودی عرفانی مکتب (قبالا) میں کیا گیا ہے۔[8]

ماہرین الہیات کا خیال ہے کہ عیسائیت کے عقائد کی بنیاد، لوگوں کے گناہوں کی معافی کے لیے حضرت عیسیٰؑ کی قربانی اور ایثار کا نظریہ ہے[9] اور مورخین کا خیال ہے کہ جزیرہ نمائے عرب میں اسلام کے ظہور سے پہلے عرب لوگ اس تصور سے واقف تھے؛ لیکن قرآن کریم نے اسے مزید مضبوط کرنے کے لئے[10] کئی بار ایثار و قربانی کے مسئلے کو بیان کیا ہے جس کی واضح مثال انصار کے بارے میں آیت ایثار سرفہرست ہے[11] جس میں مہاجرین خود محتاج ہونے کے باوجود انصار کو اپنے پر مقدم کرنے کو ذکر کیا ہے۔[12]

بعض شیعہ روایات کی کتابوں میں ایثار کے لئے ایک الگ باب مختص کیا گیا ہے[13] اور اسے نہایت احسان، بہترین عبادت اور اسے نیک لوگوں کا طریقہ کار قرار دیا ہے۔[14] کتاب میزان الحکمہ میں ایثار سے مربوط احادیث کی جمع آوری ہوئی ہے جس کے ذیل میں ایثار کے لغوی معنی، ایثار قرآن و حدیث کے نقطہ نظر میں، ایثار کی قدر و قیمت، عوامل، آثار اور اس کے آداب بیان ہوئے ہیں۔[15]

13ویں صدی ہجری کے شیعہ عالم دین ملا احمد نَراقی نے ایثار کو بخشش اور دینے کا سب سے اعلی مرتبہ قرار دیا ہے[16] اور آٹھویں صدی ہجری کے مورخ اور ماہر عمرانیات ابن خَلدون کا خیال ہے کہ کسی بھی جغرافیہ میں تہذیبوں کا ظہور اس خطے کے لوگوں کی قربانیوں پر منحصر ہوتا ہے، اور ایثار کا فقدان ان کے لیے ذلت کا باعث بنتا ہے۔[17]

شیعہ فلسفی اور مفکر مرتضی مطہری کا کہنا ہے کہ اسلام کی عظیم تہذیب کے ایک حصہ کی بقا ایثار جیسے اخلاقی مفہوم پر قائم رہنے کو سمجھتے ہیں[18] اور امام خمینی ایثار و قربانی کے جذبے کو اسلام کی خدمت کا آغاز[19] اور مسلمانوں کے لئے استکبار سے نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔[20]

محققین کا خیال ہے کہ ایرانی اسلامی انقلاب کی کامیابی اور ایران و عراق جنگ اور اس کے بعد استحکام اور ثابت قدمی کے اہم اجزا میں سے ایک ایثار و قربانی کے کلچر کو فروغ دینا ہے۔[21]

کچھ محققین نے آبادی میں کمی کے مسئلے کو والدین کا ایثار سے گریز کرنے سے جوڑا ہے اور ان کا ماننا ہے کہ ان کی خود غرضی اور قربانی کے جذبے کے فقدان کی وجہ سے وہ اپنے بچے کی تنہائی پر توجہ دینے کے بجائے صرف اپنی زندگی کی آسائش اور سہولیات پر توجہ دیتے ہیں۔[22]

ایثار کے نمونے

تاریخ اسلام میں ایثار کی بہت سی متنوع مثالیں موجود ہیں جن میں سے چند ایک کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے:

ایثار کے آثار

محققین کا خیال ہے کہ قربانی کے آثار اور فوائد کو اس کی آیات اور روایات کے مطابق دو قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، انفرادی آثار اور سماجی آثار۔[30]

انفرادی آثار میں محققین نے "سخاوت"، "خدا کی خوشنودی کا حصول"، "دنیا پرستی سے نجات"، "اخلاقی خوبیوں کی آبیاری"، "حق کی تلاش" اور "خواہشات نفس سے نجات" جیسی چیزوں کا ذکر کیا ہے جبکہ سماجی اور اجتماعی آثار میں "وعدے کی پاسداری"، "جہاد کی ثقافت کی ترویج"، "قیادت کے حوالے سے سماجی رویے کی بہتری"، "الٰہی حکومت کا قیام اور استحکام"، "غفلت کا خاتمہ اور سماجی تعلقات میں شعور بیدار کرنا"، "غربت کا خاتمہ"، "احسان و نیکوکاری"، "حسن معاشرت" اور "یکجہتی قائم کرنے" کو ذکر کیا ہے۔[31]

اس کے علاوہ شیعہ روایات کے مطابق "آخروی اجر و پاداش"[32]، "دوسروں کے ہاں مقبولیت"[33] اور "مروت کا درجہ حاصل کرنا" [34]جیسے مسائل کو بھی ایثار کے اثرات میں ذکر کر سکتے ہیں۔[35]

ایثار کے فقہی آثار

ایثار کا عنوان فقہی کتابوں میں حج، صدقات اور اطعمہ و اشربہ جیسے ابواب میں مذکور ہے۔[36]

شیعہ فقہاء کے مطابق اصل ایثار مستحب ہے[37] لیکن بعض موقعوں پر واجب اور بعض دفعہ حرام ہوتا ہے:

  • واجب ایثار: مثال کے طور پر، جب کسی کو پیاس لگی ہو لیکن اضطرار کی حالت تک نہیں پہنچی ہے اور اسے ایک ایسے انسان کا سامنا ہو جو پیاس کی شدت سے مرنے کے قریب ہے تو یہ ایثار واجب ہے۔[38]
  • حرام ایثار: جیسے کسی شخص کو شدید پیاس لگی ہے اور اضطرار کی حد تک پہنچی ہے ایسے میں خود پر کسی کافر کو مقدم سمجھنا یہ حرام ہے۔[39]

ایثار عرفان کی نظر میں

عرفانی کتابوں میں ایثار کے لئے ایک مستقل باب بیان ہوا ہے اور پانچویں صدی ہجری کے عارف خواجہ عبداللہ انصاری ایثار کو عرفان کے مقامات میں شمار کرتے ہیں۔[40] اور کلاباذی (وفات: 380ھ) اسے تصوف کے ارکان میں شمار کرتا ہے۔[41]

کچھ مسلمان عرفا ایثار کو اللہ کی معرفت اور محبت سمجھتے ہیں[42] اور ان کا کہنا ہے کہ ایثار کرنے والا اپنے ایثار کے ذریعے اسمائے الہی سے متصف اور مزین ہوجاتا ہے۔[43]

مسلمان عرفا کی نظر میں، ایثار کے بعض درج ذیل درجات ہیں:

  1. اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دینا، ایسے معاملات میں جن میں ترجیح دینا حرام نہیں ہے؛
  2. خدا کی رضا کو دوسروں کی خوشنودی پر ترجیح دینا، خواہ اس میں مشکلات اور پریشانیاں ہی کیوں نہ ہو۔
  3. خود کو نظر انداز کرتے ہوئے ایثار کو خدا کی طرف سے سمجھنا جو ایثار کا اعلی درجہ ہے۔[44]

بعض عرفا نے ان درجات کو ایثارِ شریعت، ایثارِ طریقت اور ایثار حقیقت سے تعبیر کیا ہے۔[45]

امام خمینی نے ایثار کے درجوں کو انسان کے اخلاص پر منحصر سمجھا ہے[46] اور ان کا عقیدہ ہے کہ اگر ایثار کرنے والا خود کو نظر انداز کر کے صرف خدا کو مدنظر رکھے[47] تو وہ انسان ایثار و قربانی سے بالاتر ایک مرتبے تک پہنچے گا[48] جس کی قدر و قیمت کا اندازہ کسی بھی میزان سے نہیں لگایا جاسکتا ہے۔[49]

پانچویں صدی کے عارف ابو الحسن ہُجویری ایثار کو دو قسموں میں تقسیم کرتے ہیں:

  1. محبت کی قربانی، جو خدا کے بارے میں بیان ہوئی ہے جس کے معنی حق اللہ کی رعایت میں اپنی روح کو بذل کرنا اور عطا کرنا اور اپنی مرضی پر اللہ کی مرضی کو ترجیح دینا ہے۔[50]
  2. صحبت کی قربانی، جو دوسروں انسان کے حوالے سے بیان ہوئی ہے اس کا مطلب دوسروں کو اپنے پر ترجیح دینا ہے۔[51]

حوالہ جات

  1. غزالی، احیاء علوم الدین، بی تا، ج10، ص47؛ نراقی، معراج السعادہ، 1378ش، ص409.
  2. جرجانی، التعریفات، 1370ش، ص18 و 104.
  3. جرجانی، التعریفات، 1370ش، ص19.
  4. ابن عربی، الفتوحات المکیہ، بی تا، ج1، ص585.
  5. فیض کاشانی، الوافی، 1417ق، ج1، ص78؛ نراقی، جامع السعادات، 1378ش، ج2، ص122.
  6. مطہری، مجموعہ آثار استاد شہید مطہری، 1386ش، ج22، ص382.
  7. منصوری لاریجانی، از قیام تا قیام، 1389ش، ص180.
  8. منصوری لاریجانی، از قیام تا قیام، 1389ش، ص173–174.
  9. ہینلز، راہنمای ادیان زندہ، 1378ش، ج1، ص263.
  10. علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، 1422ق، ج4، ص575–584.
  11. ملاحظہ کریں: قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 1364ش، ج19، ص20. زمخشری، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، 1407ق، ج4، ص504.
  12. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج23، ص517–518.
  13. ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ق، ج4، ص18؛ حر عاملی، تفصیل وسائل الشیعة الی تحصیل مسائل الشریعہ، 1409ق، ج9، ص429.
  14. آمدی، تصنیف غرر الحکم و درر الکلم، 1366ش، ص395–396.
  15. نکوییان، دانشنامہ میزان الحکمہ، 1384ش.
  16. نراقی، معراج السعادة، 1378ش، ص409.
  17. ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، 1408ق، ج1، ص197–199.
  18. مطہری، مجموعہ آثار استاد شہید مطہری، 1386ش، ج14، ص341–342.
  19. امام خمینی، صحیفہ، 1389ش، ج19، ص50.
  20. امام خمینی، صحیفہ، 1389ش، ج16، ص204، ج20، ص207 و 218.
  21. نیکروز، تأثیر فرہنگ ایثار و شہادت بر امنیت ملی جمہوری اسلامی ایران، 1394ش، ص79.
  22. «خودخواہی و عدم ایثار والدین عامل اصلی کاہش فرزند»، وبگاہ بلاغ.
  23. ملاحظہ کریں: نراقی، جامع السعادات، بی تا، ج2، ص123.
  24. ملاحظہ کریں: عیاشی، تفسیر العیاشی، مکتبہ علمیہ الاسلامیہ، ج1، ص101؛ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج2، ص183؛ طباطبایی، المیزان، 1973م، ج2، ص99-100.
  25. ملاحظہ کریں: حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، دار الکتب العلمیة، ج3، ص5؛ حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ق، ج1، ص123-131؛ زرکشی، البرہان، 1957م، ج1، ص206؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج5، ص350.
  26. ملاحظہ کریں: زمخشری، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل و عیون الاقاویل فی وجوہ التأویل، 1407ق، ج4، ص670؛ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1417ق، ج20، ص132.
  27. امام خمینی، صحیفہ، 1389ش، ج5، ص283.
  28. ملاحظہ کریں: زمخشری، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل و عیون الاقاویل فی وجوہ التأویل، ج4، ص670؛ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، ج20، ص132.
  29. امام خمینی، صحیفہ، 1389ش، ج18، ص86.
  30. عزیزی، شناسایی و تحلیل مفہوم ایثار در آیات و روایات و بررسی آثار تربیتی آن، 1393ش، ص221–223.
  31. عزیزی، شناسایی و تحلیل مفہوم ایثار در آیات و روایات و بررسی آثار تربیتی آن، 1393ش، ص221–223.
  32. کلینی، کافی، 1365ش، باب فضل فقراء المسلمین، ح15.
  33. کلینی، کافی، 1365ش، باب الاہتمام بامور المسلمین، ح6.
  34. آمدی، تصنیف غرر الحکم و درر الکلم، 1366ش، ص396.
  35. آمدی، تصنیف غرر الحکم و درر الکلم، 1366ش، ص396.
  36. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام، 1382ش، ج‏1، ص743.
  37. شہید اول، الدروس الشرعیہ، بی تا، ج1، ص255.
  38. شہید ثانی، مسالک الافہام، 1413ق، ج12، 118؛ النجفی، جواہر الکلام، بی تا، ج36، ص433.
  39. النجفی، جواہر الکلام، بی تا، ج36، ص433–434.
  40. انصاری، منازل السائرین، 1417ق، ص75–76.
  41. کلاباذی، التعرف، 1371ش، ص90.
  42. تستری، تفسیر التستری، 1423ق، ص167؛ مکی، قوت القلوب فی معاملة المحبوب، 1423ق، ج2، ص90.
  43. ابن عربی، الفتوحات المکیہ، بی تا، ج2، ص179.
  44. انصاری، منازل السائرین، 1417ق، ص75–76.
  45. کاشانی، لطائف الاعلام، 1379ش، ص128.
  46. امام خمینی، سرّ الصلاة، 1388ش، ص16؛ امام خمینی، صحیفہ، 1389ش، ج16، ص197–198.
  47. امام خمینی، صحیفہ، 1389ش، ج19، ص49.
  48. امام خمینی، صحیفہ، 1389ش، ج19، ص49.
  49. امام خمینی، 1389ش، صحیفہ، ج16، ص198.
  50. محسنی، تاریخی مفہوم ایثار نزد دانشمندان مسلمان تا قرن ہفتم، ص55
  51. ہجویری، کشف المحجوب، 1375ش، ص236.

نوٹ

  1. مالی ایثار کے لئے ملاحظہ کریں: آیہ 9 سورہ حشر اور آیہ 8 سورہ انسان اور جانی قربانی کے لئے ملاحظہ کریں: آیہ 207 بقرہ و آیہ 111 سورہ توبہ.

مآخذ

  • ابن عربی، محی الدین، الفتوحات المکیہ، بیروت، دار صادر، بی تا.
  • ابن خلدون، عبدالرحمن بن محمد، تاریخ ابن خلدون، تحقیق خلیل شحادہ، بیروت، دارالفکر، چاپ دوم، 1408ق.
  • النجفی، محمد حسن، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، تہران، دار الکتب الاسلامیہ و المکتبہ الاسلامیہ، بی تا.
  • آمدی، عبدالواحد، تصنیف غرر الحکم و درر الکلم، تحقیق مصطفی درایتی، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، چاپ اول، 1366ش.
  • امام خمینی، سیدروح اللہ، سرِّ الصلاة (معراج السالکین و صلاة العارفین)، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چاپ سیزدہم، 1388ش.
  • امام خمینی، سیدروح اللہ، صحیفہ امام، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چاپ پنجم، 1389ش.
  • انصاری، خواجہ عبداللہ، منازل السائرین، تحقیق علی شیروانی، تہران، دارالعلم، چاپ اول، 1417ق.
  • تستری، سہل بن عبداللہ، تفسیر التستری، تحقیق باسل عیون السود، بیروت، دارالکتب العلمیہ، چاپ اول، 1423ق.
  • حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، تحقیق مصطفی عبد القادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیة، بی تا.
  • حر عاملی، محمدبن حسن، تفصیل وسائل الشیعة الی تحصیل مسائل الشریعہ، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، چاپ اول، 1409ق.
  • حسکانی، عبیداللہ بن عبداللہ، شواہد التنزیل لقواعد التفضیل، تحقیق محمد باقر محمودی، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد، چاپ اول، 1411ق.
  • جرجانی، سیدشریف، کتاب التعریفات، تہران، ناصرخسرو، چاپ چہارم، 1370ش.
  • «خودخواہی و عدم ایثار والدین عامل اصلی کاہش فرزند»، وبگاہ بلاغ، تاریخ درج مطلب: 6 دی1400ش، تاریخ بازدید: 7 فروردین 1403ش.
  • زرکشی، محمد بن عبداللہ، البرہان فی علوم القرآن، تحقیق محمد ابراہیم، بیروت، دار احیاءالکتب العربیہ، چاپ اول، 1957م.
  • زمخشری، محمود، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل و عیون الاقاویل فی وجوہ التأویل، تحقیق مصطفی حسین احمد، بیروت، دارالکتاب العربی، چاپ سوم، 1407ق.
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، تصحیح احمد حبیب عاملی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ اول، بی تا.
  • شہید اول، محمد بن جمال الدین مکی، الدروس الشرعیہ فی فقہ الامامیہ، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی التابعہ لجماعہ المدرسین، بی تا.
  • شہید ثانی، زین الدین بن علی، مسالک الافہام، قم، مؤسسة المعارف الاسلامیة، 1413ق.
  • طباطبایی، سیدمحمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، 1417ق.
  • ظہوری لوشانی، فریبا، ایثار و فداکاری در پنج گنج نظامی گنجوی، پایان نامہ دورہ کارشناسی ارشد، رشت، دانشکدہ ادبیات و علوم انسانی، 1395ش.
  • عزیزی، بیتا، شناسایی و تحلیل مفہوم ایثار در آیات و روایات و بررسی آثار تربیتی آن، پایان نامہ دورہ کارشناسی ارشد الہیات گرایش علوم قرآن و حدیث، تہران، دانشگاہ شاہد، دانشکدہ ادبیات و علوم انسانی، 1393ش.
  • علی، جواد، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، بیروت، دارالساقی، چاپ چہارم، 1422ق.
  • غزالی، ابوحامد، احیاء علوم الدین، تحقیق عبدالرحیم بن حسین عراقی، بیروت، دارالکتاب العربی، بی تا.
  • عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، تحقیق سید ہاشم رسولی محلاتی، تہران، مکتبہ علمیہ الاسلامیہ، بی تا.
  • فیض کاشانی، ملامحسن، المحجة البیضاء فی تہذیب الاحیاء، تصحیح علی اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ چہارم، 1417ق.
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر (مفاتیح الغیب)، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ سوم، 1420ق.
  • کاشانی، عبدالرزاق، لطائف الاعلام فی اشارات اہل الالہام، تصحیح مجید ہادی زادہ، تہران، میراث مکتوب، چاپ اول، 1379ش.
  • کلاباذی، محمدبن ابراہیم، کتاب التعرف لمذہب التصوف، بہ کوشش محمدجواد شریعت، تہران، اساطیر، چاپ اول، 1371ش.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، تہران، دراالکتب الاسلامیہ، 1365 ہ‍.ش.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، 1407ق.
  • محسنی، محسن، تحلیل تطبیقی ـ تاریخی مفہوم ایثار نزد دانشمندان مسلمان تا قرن ہفتم، پژوہش نامہ اخلاق، ش33، پاییز 1395ش.
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار استاد شہید مطہری، ج14، تہران، صدرا، چاپ دہم، 1386ش.
  • مکی، ابوطالب محمدبن علی، قوت القلوب فی معاملة المحبوب، تصحیح باسل عیون السود، بیروت، دارالکتب العلمیہ، چاپ اول، 1417ق.
  • منصوری لاریجانی، اسماعیل، از قیام تا قیام، قیام امام حسین(ع)، و قیام امام خمینی(رہ)، قم، خادم الرضا(ع)، چاپ اول، 1389ش.
  • نراقی، ملااحمد، معراج السعادہ، تحقیق محمد نقدی، قم، ہجرت، چاپ ششم، 1378ش.
  • نراقی، ملامہدی، جامع السعادات، تصحیح سیدمحمد کلانتر، بیروت، اعلمی، چاپ چہارم، بی تا.
  • نیکروز، حسن، تأثیر فرہنگ ایثار و شہادت بر امنیت ملی جمہوری اسلامی ایران، پایان نامہ دورہ کارشناسی ارشد رشتہ علوم سیاسی، یاسوج، دانشکدہ ادبیات و علوم انسانی، 1394ش.
  • نیکوبیان، نرگس، دانشنامہ میزان الحکمہ، کتاب ہای اسلامی، شمارہ 22 و 23، پاییز و زمستان 1384ش.
  • ہاشمی شاہرودی، سیدمحمود، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام، قم، مؤسسہ دایرةالمعارف فقہ اسلام، 1382ش.
  • ہجویری، ابوالحسن علی، کشف المحجوب، تہران، طہوری، 1375ش.
  • ہینلز، جان. ر، راہنمای ادیان زندہ، ترجمہ عبدالرحیم گواہی، قم، بوستان کتاب، چاپ سوم، 1378ش.