نماز عید

ویکی شیعہ سے
(عید کی نماز سے رجوع مکرر)
عبدالکریم حائری یزدی کی امامت میں حرم حضرت معصومہؑ قم میں نماز عید،14ویں صدی ہجری کے اوائل میں

نماز عید یا نماز عیدین اس نماز کو کہا جاتا ہے جسے مسلمان ہر سال، عید فطر اور عید قربان کے دن پڑھتے ہیں۔ نماز عیدین زمان حضور امامؑ میں جماعت کے ساتھ پڑھنا واجب جبکہ زمان غیبت میں اس کا پڑھنا مستحب ہے لیکن جماعت کے ساتھ یا انفرادی طور پر پڑھنے کے بارے میں فقہا کے مختلف فتوے ہیں۔

تاریخ طبری کے مطابق سب سے پہلی نماز عید یکم شوال کو قائم ہوئی۔ امام رضاؑ نے آپ کی ولایت عہدی کے دوران مأمون عباسی کی درخواست پر عید فطر کی نماز پڑھانے کو قبول کیا۔ جب آپؑ نماز کے لئے روانہ ہوئے تو مأمون عباسی پشیمان ہوا۔

نماز عیدین کی دو رکعتیں ہیں۔ پہلی رکعت میں حمد و سورہ کے بعد پانچ قنوت اور دوسری رکعت میں چار قنوت پڑھی جاتی ہیں۔ نماز کے بعد دو خطبے پڑھے جاتے ہیں۔ نماز عیدین پڑھنے کا مناسب وقت طلوع آفتاب سے لیکر زوال آفتاب تک ہے۔ نماز عیدین کے کچھ خاص آداب ہیں ان میں سے ایک، عیدین کی نماز چھت کے نیچے نہ پڑھنا ہے اسی طرح اس کی قنوت میں مخصوص دعا پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔

اہمیت اور مقام

نماز عید سے مراد ایسی نماز ہے جسے مسلمان عید فطر اور عید قربان کے دن پڑھتے ہیں۔ فقہی اور روائی منابع میں اسے صلاۃ العیدین سے تعبیر کی جاتی ہے۔[1]

تاریخ طبری کے مؤلف اور تیسری صدی ہجری کے مورخ محمد بن جریر طیری کے مطابق سب سے پہلی نماز عید حضرت محمدؐ نے یکم شوال کو قائم کیا۔[2] عید کی نمازوں میں مسلمانوں کی کثیر تعداد شرکت کرتی ہے۔[3]

عید کی نماز مشہد میں امام رضا کے حرم میں[4]، نجف میں امام علیؑ کے روضے پر،[5] کربلا میں بین الحرمین میں،[6] اور کوفہ میں مسجد کوفہ میں[7] پڑھی جاتی ہے۔

نماز عید کے آداب اور احکام

فقہ شیعہ کے مطابق نماز عیدین امام کے حضور کے زمانے میں واجب ہے[8] اور اسے جماعت کے ساتھ پڑھی جانی چاہیے۔ [9] زمان غیبت امام زمانہ (عج)|امام زمانہؑ]] میں اس کا پڑھنا مستحب ہے۔[10] زمان غیبت امام میں اسے جماعت کے ساتھ پڑھنے کی مشروعیت کے سلسلے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔[11] امام خمینیؒ کے فتوا کے مطابق اگر ولی فقیہ یا وہ شخص جسے ولی فقیہ کی طرف سے امامت کرنے کی اجازت حاصل ہو، یا رجاء کی نیت سے عید کی نماز پڑھی جائے تو اس صورت میں جماعت کے ساتھ پڑھنے میں اشکال نہیں بصورت دیگر احتیاط واجب یہ ہے کہ جماعت کے ساتھ نہ پڑھی جائے۔[12]

نماز عید دو رکعت ہے جسکی ہر رکعت میں حمد کے بعد کوئی بھی سورہ پڑھی جا سکتی ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ پہلی رکعت میں حمد کے بعد سورہ شمس اور دوسری رکعت میں سورہ غاشیہ پڑھی جائے یا پہلی رکعت میں سورہ اعلی اور دوسری رکعت میں سورہ شمس پڑھی جائے۔ حمد اور سورہ کے بعد پہلی رکعت میں پانچ تکبیریں اور پانج قنوت یعنی ہر تکبیر کے بعد ایک قنوت اور دوسری رکعت میں چار تکبیریں اور چار قنوت۔ قنوت میں جو ذکر بھی چاہے پڑھا جاسکتا ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ مخصوص دعا کو پڑھا جائے جو «اللّهُمَّ اَهْلَ الْکبْرِیاءِ وَالْعَظَمَةِ...» سے شروع ہوتی ہے۔[13]

دعائے قنوت نماز عید

"اَللّهُمَّ اَهْلَ الْکبْرِیاءِ وَالْعَظَمَةِ وَاَهْلَ الْجوُدِ وَالْجَبَروُتِ وَاَهْلَ الْعَفْوِ وَالرَّحْمَةِ وَاَهْلَ التَّقْوی وَالْمَغْفِرَةِ اَسْألُک بِحَقِّ هَذَا الْیوْمِ الَّذی جَعَلْتَهُ لِلْمُسْلِمینَ عیداً وَ لِمـُحَمَّد صلی الله علیه وآله ذُخراً وَشَرَفاً وَ کَرامَةً وَمَزیداً أَنْ تُصَلِّیَ عَلی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ اَنْ تُدْخِلَنی فی کُلِّ خَیرٍ أدْخَلْتَ فیهِ مُحَمَّداً وَآلَ مُحَمَّد وَ أَنْ تُخْرِجَنی مِنْ کلِّ سوُءٍ اَخْرَجْتَ مِنْهُ مُحَمَّداً وَ آلَ مُحَمَّد صَلَواتُک عَلَیهِ وَ عَلَیهِمْ اَللّهُمَّ إنّی اَسْألُکَ خَیرَ ما سَألَکَ بِهِ عِبَادُکَ الصَّالِحوُنَ وَأَعوُذُ بِکَ مِمَّا اسْتَعَاذَ مِنْهُ عِبَادُکَ الْمـُخْلَصوُنَ۔ ترجمہ: بارالہا بزرگیوں کا اور بڑائی کا مالک تو ہے اور بخشش کا اور دبدبے کا مالک تو ہے درگزر اور مہربانی کا مالک تو ہے، میں پناہ و پردہ پوشی کا سوال کرتا ہوں، میں بواسطہ آج کے دن کے جس کو تو نے مسلمانوں کے لیے عید قرار دیا اسے سرمایہ اور اضافہ کادن بنایا ہے آج محمدؐ وآل محمدؐپر رحمت نازل فرما اور یہ کہ داخل کر مجھے ہر اس نیکی میں جس میں تو نے محمدؐوآل ؑ محمدؐ کو داخل کیا اور یہ کہ دور کردے مجھے ہر اس بدی سے جس سے تو نے محمدؐو آل ؑمحمدؐ کو دور رکھا تیری رحمتیں ہوں آنحضرتؐ پر اور ان کی آلؑ پر اے معبود! میں سوال کرتاہوں تجھ سے ہر اس بھلائی کا جس کاسوال تجھ سے تیرے نیک بندوں نے کیا اور پناہ لیتا ہوں تیری جس سے تیرے نیکوکاربندوں نے پناہ چاہی ہے۔

شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1378ھ، ج1، ص296.

دو خطبے

نماز عیدین میں نماز جمعہ کی طرح دو خطبے پڑھے جاتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ نماز عیدین میں خطبے بعد از نماز پڑھے جاتے ہیں۔[14]اس فرق کی حکمت کو امام رضاؑ سے مروی ایک حدیث میں یوں کہا گیا ہے کہ چونکہ نماز جمعہ ہر ہفتہ منعقد ہوتی ہے اسمیں خطبے نماز کے بعد پڑھے جائیں تو لوگ ملال کا شکار ہوجائیں گے اور مسجد کو ترک کریں گے لیکن نماز عیدین چونکہ سال میں صرف دو مرتبہ منعقد ہوتی ہیں اس لیے لوگ خطبے کے آخر تک رہتے ہیں۔[15] دوسرا فرق یہ کہ نماز عیدین میں خطبے پڑھے جانے کے سلسلے میں فقہا کے درمیان اختلاف رائے پایا جاتا ہے جبکہ نماز جمعہ میں ایسا نہیں۔[16]

نماز عیدین کا وقت

صاحب جواہر کے مطابق مشہور فقہا کا نظریہ یہ ہے کہ نماز عید کا وقت سورج کے طلوع سے اس کے زوال (ظہر شرعی) تک ہے۔[17] اگر اس وقت کے اندر ادا نہ کی جائے تو اس کی قضا نہیں ہے۔[18] لیکن امام خمینی کا فتوا یہ ہے کہ مستحب ہے نماز عید قربان کو سورج کے اوپر آنے کے بعد پڑھی جائے جبکہ عید فطر کی نماز میں سورج کے اوپر آنے کے بعد افطار کرے پھر زکات فطرہ ادا کرے اس کے بعد نماز عید ادا کی جائے۔[19]

صاحب جواہر "مدارک الاحکام فی شرح جواہر الاسلام" سے نقل کرتے ہیں کہ تمام فقہا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نماز عید فطر کو عید قربان کی نماز کی بنسبت تھوڑی دیر سے پڑھی جائے کیونکہ عید فطر کے دن نماز سے پہلے افطار کرنا مستحب ہے اور فطرانہ بھی ادا کیا جاتا ہے جبکہ عید قربان کے دن قربانی کرنا اور اس کے گوشت سے تناول کرنا نماز عید کے بعد مستحب ہے۔ [20]

آداب

  • عید کی نماز کے بعد ان تکبیروں کا کہنا مستحب ہے:"اَللّهُ اَکبرُ اَللّهُ اَکبرُ، لا اِلهَ اِلّا اللهُ وَ اللّهُ اَکبرُ، اَللّهُ اَکبرُ وَ لِلّهِ الحَمدُ، اَللّهُ اَکبَرُ عَلی ما هَدانا".[21] احادیث میں آیا ہے کہ حضرت علیؑ عید کے دن اپنے گھر سے باہر تشریف لاتے تھے اور بار بار تکبیر پڑھتے تھے یہاں تک کہ نماز عید کی جگہ پہنچ جاتے جو شہر کوفہ سے باہر واقع تھی۔ [22]
  • نماز عید میں اذان اور اقامہ مشروع نہیں ہے البتہ مؤذن کیلئے تین مرتبہ "الصلاۃ" کہنا مستحب ہے۔ [23]
  • نماز عید کا چھت کے نیچے پڑھنا مکروہ ہے۔[24]
  • اگر نماز عید کو رجاءً (یعنی ثواب حاصل ہونے کی امید سے) جماعت کے ساتھ پڑھی جائے تو نماز کے بعد دو خطبہ پڑھنا مستحب ہے لیکن زمان غیبت امام زمانہ(عج) میں ان خطبوں کو ترک کرنا بھی جایز ہے۔ [25]
  • عبداللہ بن عمر سے منقول ہے کہ پیغمبر خداؐ عید کی نماز کیلئے پیدل تشریف لے جاتے تھے اور پیدل ہی واپس آتے تھے۔[26] ابورافع سے منقول ہے: پیغمبر اکرمؐ عید کی نماز کیلئے با پائے برہنہ تشریف لے جاتے تھے اور نماز عید کو اذان و اقامہ کے بغیر پڑھتے تھے اور جس راستے سے جاتے تھے واپسی پر راستہ بدل دیتے تھے اور کسی اور راستے سے واپس تشریف لاتے تھے۔[27]
  • جو شخص نماز عید فطر پڑھتا ہے وہ نماز سے پہلے فطرہ ادا کرے یا بعض فقہا کے فتوے کے مطابق اس کو الگ کرے؛[28] کیونکہ احادیث کے مطابق سورہ اعلی کی آیت نمبر 14 اور 15 "قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَکیٰ"[29] اور "وَ ذَکرَ اسْمَ رَ بِّهِ فَصَلَّیٰ"[30] میں "تزکی" اور "فَصَلَّیٰ" سے مراد زکات فطرہ کی ادائیگی اور نماز عید پڑھنے کے ہیں۔[31]
  • نماز عید سے پہلے غسل کرنا مستحب ہے اسی طرح دعاوں کی کتابوں میں مذکور دعائیں جو نماز سے پہلے اور بعد میں پڑھنا مستحب ہے پڑھی جائے۔[32]
  • نماز عید میں زمین پر سجدہ کرنا مستحب ہے اسی طرح تکبیریں کہتے وقت ہاتھوں کا بلند کرنا اور نماز کو بلند آواز میں پڑھنا بھی مستحب ہے۔[33] امام صادقؑ کی ایک حدیث میں عید کی نماز کیلئے اپنے گھر سے باہر نکلتے ہوئے بہترین کپڑے پہننا اور اپنے آپ کو بہترین عطر سے معطر کرنے کی تاکید ہوئی ہے۔[34]

امام رضا کو عید کی نماز میں امامت سے روکنا

کتاب کافی کی ایک روایت کے مطابق عباسی خلیفہ مامون نے امام رضاؑ کی ولایت عہدی کے دوران آپؑ سے نماز عید کی امامت کی درخواست کی اور امام نے اس شرط پر مان لیا کہ وہ رسول اللہؐ کی سنت کے مطابق بجا لائیں گے۔[35] جب مأمون کے وزیر فضل بن سہل نے لوگوں کا استقبال دیکھا تو مأمون سے کہا کہ علی بن موسی الرضا اگر عید گاہ تک پہنچے تو لوگ ان کے عاشق ہونگے، اسی لئے مأمون نے امام کو واپس بلا لیا۔[36] مرتضی مطہری کہتے ہیں امام رضا کو نماز عید سے روکنے کی وجہ آپؑ سے لوگوں کا اظہار محبت اور استقبال تھا۔ مامون کو اندازہ ہوگیا کہ امام رضا، عباسی خلفاء کے طریقے کے برخلاف سادہ طریقے سے مصلی کی جانب کیوں نکلے اور لوگوں کا استقبال کا سامنا ہوا۔[37]

حوالہ جات

  1. ملاحظہ کریں: نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج11، ص333.
  2. طبری، تاریخ الطبری، بی‌تا، ج2، ص418.
  3. «نماز عید فطر در سراسر کشور اقامہ شد»، خبرگزاری ایرنا.
  4. «جزئیات نماز عید فطر در حرم مطہر رضوی»، پایگاہ حوزہ‌نیوز.
  5. «نماز عید فطر در حرم امام علی»، پایگاہ خبری شفقنا.
  6. «نماز عید در بین الحرمین»، خبرگزاری ابنا.
  7. «نماز عید در مسجد جامع کوفہ»، پایگاہ خبری شفقنا.
  8. ملاحظہ کیجیے: نجفی، جواہر الکلام،1362شمسی، ج11، ص333.
  9. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل (مراجع)، دفتر انتشارات اسلامی، ج1، ص824.
  10. نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج11، 333.
  11. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل (مراجع)، ص234.
  12. بنی‌ہاشمی خمینی،‌ توضیح المسائل (مراجع)، دفتر انتشارات اسلامی، ج1، ص824.
  13. خمینی، تحریر الوسیلہ، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ج1، ص227.
  14. نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج11، ص337-338.
  15. ملاحظہ کریں: نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج11، ص338.
  16. ملاحظہ کریں: نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج11، ص337-338.
  17. نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج11، ص351.
  18. نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج11، ص51.
  19. توضیح المسائل امام خمینی، ص234
  20. نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج11، ص354-355.
  21. توضیح المسائل امام خمینی، ص235
  22. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج88، ص118؛ متقی الہندی، کنزالعمال، 1413ھ، ج7، ص88.
  23. تحریرالوسیلہ، ج1، ص274
  24. توضیح المسائل امام خمینی، ص235
  25. تحریر الوسیلہ، ج1 ص247
  26. متقی الہندی، کنزالعمال، 1413ھ، ج7، ص88.
  27. متقی الہندی، کنزالعمال، 1413ھ، ج7، ص88
  28. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح‌المسائل (مراجع)، دفتر انتشارات اسلامی، ج2، ص182.
  29. اعلی، 14
  30. اعلی 15
  31. طباطبائی، المیزان، ج 20، ص269
  32. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح‌المسائل (مراجع)، دفتر انتشارات اسلامی، ج1، ص826.
  33. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل (مراجع)، دفتر انتشارات اسلامی، ج1، ص826.
  34. قاضی نعمان، دعائم الاسلام، 1385ھ، ج1، ص185.
  35. کلینی، الكافی، 1407ھ، ج1، ص489.
  36. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص490.
  37. مطہری، مجموعہ آثار، 1390شمسی، ج17، ص174-176.

مآخذ

  • باشکوہ‌ترین نمازہای عید در کجا برگزار می‌شود؟، خبرگزاری ایرنا، تاریخ درج مطلب: 2 اردیبہشت 1402شمسی، تاریخ بازدید: 4 اردیبہشت 1402ہجری شمسی۔
  • بنی‌ہاشمی خمینی، محمدحسن، توضیح المسائل (مراجع)، قم، دفتر انتشارات اسلامی، بی‌تا.
  • «پایان سہ‌ سال وقفہ»، پایگاہ خبرآنلاین، تاریخ درج مطلب: 1 اردیبہشت 1402شمسی، تاریخ بازدید: 1 اردیبہشت 1402ہجری شمسی۔
  • «حواشی متفاوت آخرین نماز عید فطر زمان شاہ»، پایگاہ اطلاعات آنلاین، تاریخ درج مطلب: 3 اردیبہشت 1402شمسی، تاریخ بازدید: 4 اردیبہشت 1402ہجری شمسی۔
  • خمینی، سید روح‌اللہ، تحریر الوسیلہ، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، بی‌تا.
  • خمینی، سید روح‌اللہ، صحیفہ امام، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1378ہجری شمسی۔
  • طباطبائی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، انتشارات جامعہ مدرسین، بی‌تا.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت،‌ بی‌تا.
  • قاضی نعمان مغربی، دعائم الاسلام، تحقیق عاصف فیضی، قم، مؤسسہ آل‌البیت علیہم السلام، 1385ہجری۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، 1407ہجری۔
  • «گزارش نماز عید فطر سال 1357 در مرکز بررسی اسناد تاریخی»، تاریخ درج مطلب: 29 فروردین 1402شمسی، تاریخ بازدید: 2 اردیبہشت 1402ہجری شمسی۔
  • متقی الہندی، علی بن حسام، کنز العمّال فی سنن الاقوال و الافعال، بیروت، مؤسسة الرسالہ، 1413ہجری۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، داراحیاء التراث العربی، 1403ہجری۔
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، تہران، صدرا، 1390ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمدحسن بن محمدباقر، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، تحقیق عباس قوچانی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1362ہجری شمسی۔
  • «نماز عید فطر در دہہ 60»، پایگاہ خبرآنلاین، تاریخ درج مطلب: 25 خرداد 1397شمسی، تاریخ بازدید: 2 اردیبہشت 1402ہجری شمسی۔
  • نیکبخت، رحیم، «رمضان 1357 و مسجد قبا»، ماہنامہ زمانہ، شمارہ 26، آبان 1383ہجری شمسی۔
  • ہاشمی رفسنجانی،‌ اکبر، آرامش و چالش: کارنامہ و خاطرات ہاشمی رفسنجانی سال 1362، بہ‌اہتمام مہدی ہاشمی، تہران، دفتر نشر معارف انقلاب، 1386ہجری شمسی۔
  • ہاشمی رفسنجانی،‌ اکبر، امید و دلواپسی: کارنامہ و خاطرات ہاشمی رفسنجانی سال 1364، بہ‌اہتمام سارا لاہوتی، تہران، دفتر نشر معارف انقلاب، 1387ہجری شمسی۔
  • ہاشمی رفسنجانی،‌ اکبر، پس از بحران: کارنامہ و خاطرات ہاشمی رفسنجانی سال 1361، بہ‌اہتمام فاطمہ ہاشمی، تہران، دفتر نشر معارف انقلاب، 1386ہجری شمسی۔
  • ہاشمی رفسنجانی،‌ اکبر، عبور از بحران: کارنامہ و خاطرات ہاشمی رفسنجانی سال 1360، بہ‌اہتمام یاسر ہاشمی، تہران، دفتر نشر معارف انقلاب، 1378ہجری شمسی۔