سید علی حائری رضوی

ویکی شیعہ سے
(علی حائری سے رجوع مکرر)
سید علی حائری رضوی
فائل:آیت اللہ سید علی حائری.jpg
کوائف
مکمل نامسید علی حائری رضوی بن سید ابو القاسم رضوی
لقب/کنیتآیت اللہ شمس العلما
نسبامام علی بن موسی رضا کی نسل سے خاندان رضوی ۔
تاریخ ولادت1298 ھ (1881ء)
آبائی شہرلاہور
تاریخ وفات28 جون 1941ء 3 جمادی الثانیہ1360ھ
مدفنکربلا گامے شاہ (لاہور پاکستان)
نامور اقرباءسید ابو القاسم رضوی
علمی معلومات
مادر علمینجف اشرف
اساتذہسید ابوالقاسم رضوی مرزا محمد حسن شیرازی ؒ سید کاظم طباطبائی ؒ مرزا حبیب اللہ رشتی ؒ محمد کاظم خراسانی
شاگردمولوی مرزا احمد‌ علی صاحب امرتسری مولوی قائم حسین
اجازہ اجتہاد ازمرزا محمد حسن شیرازی ؒ آیت اللہ سید کاظم طباطبائی ؒ مرزا حبیب اللہ رشتی ؒ محمد کاظم خراسانی
تالیفاتتفسیر لوامع التنزیل سواطع التاویل غایت المقصود فتاوی حائری حصہ اول تا ہشتم بشارات احمدیہ بیان الجہر و الاخفات وغیرہ۔
خدمات
سماجیجامعہ حائریہ کے نام سے لائبریری کا قیام، جامعہ حائریہ کے بانی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام کی کوششوں میں شریک


سید علی حائری رضوی (1876-1941ء) برصغیر پاک و ہند معروف شیعہ عالم تھے۔ ابتدائی اور متوسط درجے تک اپنے والد ابو القاسم حائری کے پاس حاصل کی اور پھر عراق گئے جہاں مختلف اساتذہ سے اجازۂ اجتہاد حاصل کرنے کے بعد واپس آئے اور لاہور میں رہ کر مذہبی خدمات تبلیغ و تحریر کی صورت میں انجام دینا شروع کیں۔ علامہ اقبال لاہوری آپ کے پاس اکثر و بیشتر آتے۔ لوامع التنزیل کے نام سے قرآن پاک کی تفسیر کہ جسے آپ کے والد نے شروع کیا اور اسکی 12 جلدیں لکھیں آپ نے اسے تکمیل کرنا شروع کیا اور اسکی 15 جلدین لکھیں لیکن پھر بھی وہ تکمیل نہ ہو سکی۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے نظریات کے مخالف تھے اسکے خلاف علمی اقدام بھی کئے نیز اسکے مرتد ہونے کا فتوا صادر کیا۔ علمی ذخیرے میں 50 سے زیادہ آثار چھوڑے۔ بعض نے 72 تک تعداد بیان کی ہے۔ آپ کی رحلت کے دن لاہور کے تعلیمی ادارے بند رہے۔

زندگی نامہ

آپ کا اصل وطن مملکت ایران کا شہر قم تھا۔ سلسلہ نسب امام علی رضا ؑ تک پہنچتا ہے اس لئے رضوی کہلاتے ہیں۔ آپ کے جد امجد سید حسین قمی ایران سے وارد کشمیر ہوئے اور پشمینہ کا کاروبار کرنے لگے۔ آپ کی ایک شاخ اب تک کشمیر میں آباد ہے۔

علامہ سید علی حائری 1298ھ (1881ء) میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ فقہ، اصول فقہ، اور علم تفسیر و حدیث جیسے علوم اپنے والد ابو القاسم حائری سے پڑھے پھر بغرض تکمیل علوم عتبات عالیات (عراق و عرب) کو روانہ ہوئے۔ سامرا میں مرزا محمد حسن شیرازی اور مرزا حبیب اللہ رشتی نجفی کے درس میں شریک رہے، انکے علاوہ آقا سید کاظم طباطبائی، آقا مازندرانی ، ملا محمد کاظم خراسانی اور سید ابو القاسم طباطبائی نے آپ کو اجازت مرحمت فرمائے۔

دسمبر 1911ء میں شہنشاہ جارج پنجم کی تاجپوشی کے موقعہ پر آپ پنجاب کے شیعوں کی طرف سے دربار دہلی میں مدعو کئے گئے۔[1]

سنہ 1915ء میں آل انڈیا شیعہ کانفرس لکھنؤ کے اجلاس میں آپ کو کرسئ صدارت پر بٹھایا گیا۔ شیعہ کالج لکھنؤ کے قیام کے سلسلے میں بھی آپ متعلقہ اجلاس کی روح رواں تھے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام کی خاطر ایک خطیر رقم اپنی جانب سے بطور نذر پیش کی۔ مولانا نہایت وجیہہ، بے حد جامہ زیب اور بہت ہی خوش گلو تھے۔ آپ کی تقاریر قرآن و حدیث کے تحت نہایت مدلل ہوتی تھیں۔جملہ مذاہب کے لوگ آپکے سامعین ہوتے۔ آپ کی ہر دلعزیزی اور علمی فضیلت کی بناء پر حکومت نے یکم جنوری 1927ء کو ایک نوٹیفیکیشن[2] کے ذریعے آپ کو شمس العلماء کا خطاب عطا کیا۔

آپ پہلے اندرون شہر چوک نواب صاحب متصل مسجد نواب صاحب قزلباش رہا کرتے تھے۔ 1930ء میں آپ نے شہر سے باہر وسن پورہ میں اپنا مکان تعمیر کرا لیا اور وہیں ایک وسیع و عریض مسجد بھی بنوائی جسے جامعہ حائری کہتے ہیں۔

اولاد

آپ کی اولاد میں تین بیٹے سید رضی رضوی، سید زکی رضوی، سید تقی رضوی، تھے جنہوں نے دنیاوی تعلیم حاصل کی۔

خصوصیات

مشہور فتاوا

مرزا غلام احمد قادیانی نے جب اسلام دشمنی میں اپنے ناپاک عزائم کا اظہار کرنا شروع کیا تو آپ نے اس کے خلاف قلم اٹھایا۔ آپ کے متعلق مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی تحریروں میں اس کی طرف اشارہ کیا اور بعض اوقات آپ کی نسبت نازیبا الفاظ استعمال کئے۔جب اس نے اسلام کے بنیادی عقائد کا انکار اور انہیں نشانہ بنایا تو آپ نے اس وقت اپنی فقہی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اور اسکی تعلیمات کے مسلمان معاشرے پر اثرات کو روکنے کیلئے اسے مرتد قرار دینے کا فتوی دیا۔ اسی طرح مسجد شہید گنج لاہور کو برقرار رکھنے کا فتوی دیا جس کی وجہ سے حکومت برطانیہ اس مسجد کو باقی رکھنے پر مجبور ہوئی۔ ان دونوں فتووں کو اس وقت کے اخباری میڈیا نے شہ سرخیوں سے نشر کیا۔ مسجد کے فتوے کی بدولت یہ مسجد اب بھی باقی ہے۔[3]

علامہ اقبال اور سید علی حائری

علامہ اقبال آپ کے ارادتمند تھے اور آپ سے ملاقات کیلئے آیا کرتے تھے۔ ایک ملاقات میں آپ نے علامہ اقبال سے کہا: مجھے آپ جیسے عالم و فاضل اور مفکر سے یہ امید نہیں تھی کہ آپ یوں اہل بیت اور آل محمد کی عظمت سے بے خبر ہونگے کیونکہ آپ نے ابھی تک ان کے بارے میں کچھ نہیں لکھا۔ چنانچہ اسکے بعد علامہ اقبال کئی مرتبہ آپ کے پاس تبادلہ خیال کیلئے آتے رہے اور پھر آخر عمر تک اقبال اہل بیت کی شان میں لکھتے رہے اور ایسا لکھا جسکی نظیر پیش کرنا مشکل ہے۔ علامہ اقبال آپ کے بہت قدر دان تھے یہی وجہ تھی کہ علامہ اقبال کی نماز جنازہ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کی گراؤند میں قبلہ علامہ حائری نے پڑھائی اور پھر دوبارہ بادشاہی مسجد میں کسی دیگر عالم دین نے پڑھائی۔[4]

  • پاک و ہند میں آپ کی تقلید کی جاتی تھی۔ پنجاب و سندھ میں آپ کے مقلدین کی کافی تعداد تھی۔ نیز برما و افریقہ میں بھی مومنین آپ کی تقلید کرتے تھے۔
  • علامہ اقبال آپ کے ارادتمندوں میں سے تھے اور وہ اکثر و بیشتر آپ کے پاس آتے تھے۔
  • علامہ اقبال کی ایک نماز جنازہ آپ نے پڑھائی تھی۔[5]
  • آپکی تقریر میں سوز و گداز تھا۔ بعض اوقات آپ کی تقریر سن کر لوگ مجمعے ہی میں شیعت کا اعلان کر دیتے۔ جیسا کہ تقیہ کے عنوان کے خطاب کے بعد مجمع میں سے تین افراد نے کھڑے ہو کر شیعہ ہونے کا اعلان کیا۔
  • مرزا احمد قادیانی کی آپ نے شدید مخالفت کی۔ جس کی وجہ سے اس نے دیگر کتابوں کی طرح اپنی کتاب ضمیمہ اعجاز احمدی کے ٹائیٹل پر دوسرے دو افراد کے ساتھ آپ کا نام بھی لکھا اور اپنی تالیفات میں بعض مقامات پر آپکی جانب جھوٹی باتیں منسوب کیں۔
  • آپ کا کتب خانہ عمدہ تها۔
  • گورنمنٹ نے آپ کو شمس العلماء کا لقب دیا۔
  • آپ کی توجہ سے انجمن مواعظ صادقیہ، انجمن اثنا عشریہ، انجمن اعوان الوفا لاہور، انجمن مرتضوی امر تسر، انجمن امامیہ پیشاور، انجمن اتفاق امامیہ بٹالہ، انجمن تذکرۃ المعصومین فیروز پورہ وغیرہ قائم ہوئیں۔

اساتذہ

سامرا میں عرصہ تک سرکار جناب مرزا محمد حسن صاحب شیرازی کے درس خارج میں شرکت کی اور کچھ عرصہ مرزا حبیب اللہ رشتی نجفی مرحوم کے بھی درس میں شریک رہے اور ان دونوں بزر گواروں نےاور سید کاظم صاحب طباطبائی اور آقا عبد اللہ مازندرانی اور ملا محمد کاظم خراسانی اور السید ابوالقاسم طباطبائی معروف بعلامہ طباطبائی نے آپ کو اجازے دیئے ۔

  • آیت اللہ مرزا محمد حسن شیرازی
  • آیت اللہ مرزا حبیب اللہ رشتی
  • آیت اللہ سید کاظم طباطبائی
  • آیت اللہ محمد کاظم خراسانی

آپ کے شاگردوں میں مولوی مرزا احمد‌ علی امرتسری مصنف رسالہ دلیل العرفان اور مولوی قائم حسین ہیں۔

تالیفات

سید علی حائری رضوی نے فقہ، تفسیر، کلام، دعا اور اخلاق کے موضوعات پر عربی، اردو اور فارسی زبان میں کتابیں لکھی ہیں۔ آپ کی مشہور تالیفات میں سے ایک لوامع التنزیل سواطع التاویل ہے اس تفسیر کی 15 جلدیں لکھیں جن میں سے 26 تک کو مکمل کیا اور 27 ویں جلد کو جزوی طور پر لکھا تھا کہ وفات پاگئے۔

وفات

سید علی حائری نے تفسیر لوامع التنزیل کی 27 ویں جلد میں سورۂ قمر کی تکمیل کرتے ہوئے وفات پائی۔ آپکی وفات کا دن 28 جون 1941ء 3 جمادی الثانی 1360ھ بروز ہفتہ تھا۔ کربلا گامے شاہ بیرون بھاٹی گیٹ لاہور میں دفن ہوئے۔

آپ کی وفات پر اخبارات نے خاص شمارے نکالے اور آپ کی جنازے میں بہت زیادہ لوگوں کی تعداد شریک تھی۔ کسی نے اشعار کی صورت میں تاریخ وفات کہی:

بتاریخ وفات سیدہ ؑ روزی کہ بد شنبہ رسیدہ روح آن مرحوم نزد حضرت احمد
چو شد امر رقم حاصل ہم آواز ملک گشتہ بگو در خلد علامہ علی حائری آمد

حوالہ جات

  1. ورود شہنشاہی ترجمہ عزیز الدین احمد، لاہور، منشی گلاب سنگھ، ۱۹۱۱ء، ص ۵۸۶
  2. پنجاب گزٹ (انگریزی)، حصہ اول ، ۱۴ جنوری ۱۹۲۷ ء ، ص ۱۱۷۔
  3. مجلۂ میراث برصغیر حائرین نمبر ص 175
  4. مجلہ میراث برصغیر حائرین نمبرص174
  5. مولانا مرتضی حسین فاضل، مطلع الانوار، ص 375۔

مآخذ

  • بزرگ تہرانی، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، ناشر : دار الأضواء - بيروت - لبنان
  • بزرگ تہرانی، نقباء البشر، ناشر : دار المرتضی للنشر مشہد۔
  • مجلۂ میراث برصغیر (حائرین نمبر) ناشر: مرکز احیاء آثار برصغیر قم۔
  • سید حسین عارف نقوی، تذکرہ علماء امامیہ پاکستان،
  • تذکرہ علماء پنجاب
  • سید مرتضی حسین صدر الافاضل، مطلع الانوار (ترجمہ ڈاکٹر محمد ہاشم )چاپ و انتشارات آستان قدس رضوی، مشہد۔