سانحہ ٹھیری
پاکستان کی آزادی کے بعد سب سے پہلا شیعہ قتل عام | |
---|---|
واقعہ کی تفصیل | دیوبندی مدرسے کے طلاب اور سپاہ صحابہ نے خیرپور کے علاقہ ٹھیری میں شیعہ جلوس پر حملہ کیا۔ |
طرفین | دیوبندی وہابی اور شیعہ |
زمان | 3 جون سنہ 1963ء |
مکان | خیرپور، ٹھیڑی، پاکستان |
سبب | شیعہ اور وہابی مذہبی اختلافات |
عناصر | سپاہ صحابہ اور پاکستانی وہابی |
نتایج | 118 شہید |
عکس العمل | سید محسن حکیم کی طرف سے مذمت اور میڈیا کی خاموشی |
سانحہ ٹھیری، پاکستان کے صوبہ سندھ، ضلع خیرپور کے گاؤں ٹھیری میں شیعوں کے خلاف ہونے والا کا ایک قتل عام ہے جو 3 جون سنہ 1963ء کو یوم عاشورا کے موقع پر واقع ہوا۔ یہ قتل عام وہابیوں کی طرف سے ایک شیعہ جلوس پر حملے کی صورت میں واقع ہوا جس میں 118 عزادار شہید ہوئے۔ پاکستان کی آزادی کے بعد یہ شیعوں کا سب سے بڑا پہلا اجتماعی قتل عام سمجھا جاتا ہے۔
اہمیت
ٹھیری قتل عام، پاکستان میں شیعوں کا پہلا اجتماعی قتل ہے۔[1] اس قتل عام میں دیوبندیوں کا ایک گروہ ملوث تھا[2] جو اہل سنت کے ایک دیوبندی مدرسے سے منسوب تھا۔[3] اس قتل عام میں "تنظیم اہل سنت" نے بھی حصہ لیا، جسے بعد میں سپاہ صحابہ کا نام دیا گیا۔[4] اس سانحے کے برسوں بعد بھی پاکستان میں شیعہ، شدت پسند وہابیوں کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔[5]
واقعہ کی تفصیل
3 جون سنہ 1963ء کو عاشورا کے دن پاکستان کے صوبہ سندھ، ضلع خیرپور کے گاؤں ٹھیری میں امام حسینؑ کی عزاداری کا جلوس نکلا۔ جب جلوس ٹھیری نامی گاؤں کی گلیوں سے گزر رہا تھا تو وہابیوں کے ایک گروہ نے سوگواروں پر حملہ کیا، جس میں 100 سے زائد افراد شہید ہو گئے۔[6] بعض کا کہنا ہے کہ عزادار کسی پل سے گزر رہے تھے تو دونوں طرف سے دہشتگردوں نے انہیں گھیر لیا اور چاقو، کلہاڑی اور دیگر چیزوں سے حملہ کر کے انہیں شہید کیا۔[7] امامبارگاہ کو بھی آگ لگا دی گئی جس کے نتیجے میں وہاں پر موجود کوئی بھی زندہ نہیں بچ سکا۔[8]
ایک اور رپورٹ کے مطابق اس سانحے کا آغاز ٹھیڑی کے مکین مہدی شاہ نامی شخص کے گھر سے ہوا۔ نقل کے مطابق اس گاؤں میں یہی ایک گھرانہ شیعہ تھا اور عاشورا کے دن ان کے گھر پر مجلس تھی جس میں شرکت کے لئے عزادار ببرلو اور خیرپور شہر سے آئے ہوئے 20 سے 25 لوگ شریک تھے۔ مجلس کے دوران تکفیریوں کی کثیر تعداد نے ان پر حملہ کیا اور مالک مکان سمیت دیگر عزادار زخمی ہوئے اور عزا خانہ کو آگ لگا دی گئی۔ جب یہ خبر ساتھ کے گاؤں لقمان خیرپور کے لوگوں تک پہنچی تو وہ جلوس چھوڑ کر ٹھیڑی کی جانب روانہ ہوئے اور تقریباً 3 گھنٹے کی پیدل مسافت طے کر کے ٹھیڑی پہنچے اور قصبے کی تنگ گلیوں میں جب داخل ہوئے تو وہاں پر پہلے ہی سے انتظار میں بیٹھے دہشتگردوں نے ان پر ہر طرف سے حملہ کیا اور متعدد لوگ شہید اور زخمی ہوگئے۔[9]
کہا گیا ہے کہ اسی رات، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ سب مارے گئے ہیں، دہشتگرد واپس آئے، پانی کی خالی بالٹیاں لے کر زخمیوں اور مُردوں کے درمیان "یا حسینؑ" کا نعرہ لگاتے ہوئے پوچھتے تھے کہ "کیا کسی کو پانی کی ضرورت ہے؟" جب کوئی پانی مانگتا تھا تو اسے قتل کردیتے تھے۔ قتل عام کے بعد وہابیوں نے لاشوں کو کنویں میں پھینک کر جلانے کی کوشش کی لیکن پولیس کے پہنچنے پر یہ کوشش ناکام ہو گئی۔[10]
شہدا
ٹھیری واقعے میں شہادت پانے والوں کی تعداد 100 سے زائد بتائی گئی ہے۔[11] کچھ ذرائع نے شہدا کی صحیح تعداد 118 بتائی ہے،[12] جن میں سے زیادہ تر کم عمر جوان[13] اور بچے شامل تھے۔[14] کہا جاتا ہے کہ اس قتل عام میں ٹھیری کے تمام شیعہ مارے گئے۔[15]
رد عمل اور نتائج
ٹھیری کے قتل عام متاثرین کا بدلہ لینے کے لئے کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور نہ ہی اس سلسلے میں کسی کو سزا دی گئی۔ پاکستانی حکومت نے میڈیا کو حکم دیا کہ وہ مزید جھڑپوں کو روکنے کے لیے اس خبر کو نہ دیں۔[16] اس سانحے کی تحقیقات کے لئے اسی سال جولائی میں ایک کمیشن تشکیل دی گئی جس نے دسمبر میں سانحے کی رپورٹ پیش کی جس میں میں کسی شخص یا کسی تنظیم کا نام نہیں لیا اور کسی کو مقصر اور مجرم بھی نہیں ٹھہرایا گیا۔[17] نجف میں مقیم شیعہ مرجع تقلید سید محسن حکیم نے اس واقعے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس وقت کے صدر پاکستان محمد ایوب خان کو لکھے گئے خط میں متاثرین کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا۔[18] اس حملے کے بعد بھی پاکستان میں شیعوں کے خلاف بڑے حملے ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں بہت سارے لوگ مارے گئے ہیں۔[19]
حوالہ جات
- ↑ On June 6, 1963, at least 116 Shia Muslims were massacred, lubpak news؛ Unsupervised madrassas have destroyed Sindh's pluralism, the nation.
- ↑ Longing For The Past And Learning From It: A Conversation With The Pioneers Of LUMS Historical Society, plums.
- ↑ Unsupervised madrassas have destroyed Sindh's pluralism, the nation.
- ↑ «3 جون 1963ء، سانحہ ٹھیری کی یاد»، الوہابیت.
- ↑ Unsupervised madrassas have destroyed Sindh's pluralism, the nation.
- ↑ «خرداد ۴۲: آتشہایی کہ از تعصب دینی برخاست»، خبرگزاری رادیو فرانسہ.
- ↑ On June 6, 1963, at least 116 Shia Muslims were massacred, lubpak news.
- ↑ «3 جون 1963ء، سانحہ ٹھیری کی یاد»، الوہابیت.
- ↑ معظمہ مظہر علی، سانحہ ٹھیڑی واقعہ کربلا کی یاد میں(1)، اسلام ٹائمز۔
- ↑ On June 6, 1963, at least 116 Shia Muslims were massacred, lubpak news.
- ↑ Unsupervised madrassas have destroyed Sindh's pluralism, the nation.
- ↑ Banned terrorist outfits trying to establish network in Interior Sindh, geo news.
- ↑ On June 6, 1963, at least 116 Shia Muslims were massacred, lubpak news.
- ↑ Banned terrorist outfits trying to establish network in Interior Sindh, geo news.
- ↑ On June 6, 1963, at least 116 Shia Muslims were massacred, lubpak news.
- ↑ On June 6, 1963, at least 116 Shia Muslims were massacred, lubpak news.
- ↑ «3 جون 1963ء، سانحہ ٹھیری کی یاد»، الوہابیت.
- ↑ «3 جون 1963ء، سانحہ ٹھیری کی یاد»، الوہابیت.
- ↑ «3 جون 1963ء، سانحہ ٹھیری کی یاد»، الوہابیت.
مآخذ
- «خرداد ۴۲: آتشہایی کہ از تعصب دینی برخاست»، خبرگزاری رادیو فرانسہ، تاریخ اشاعت: ۱۴ ژوئن ۲۰۲۴م، تاریخ مشاہدہ: 4 جنوری 2025ء۔
- «3 جون 1963ء، سانحہ ٹھیری کی یاد»، الوہابیت، تاریخ اشاعت: ۶ مئی ۲۰۲۲ء، تاریخ مشاہدہ: 4 جنوری 2025ء۔
- معظمہ مظہر علی، سانحہ ٹھیڑی واقعہ کربلا کی یاد میں(1)، اسلام ٹائمز، تاریخ انتشار: 13 دسمبر 2023ء، تاریخ مشاہدہ: 4 جنوری 2025ء۔
- Unsupervised madrassas have destroyed Sindh's pluralism, the nation, data: 27 March 2015, Visited in 27 june 2024
- Banned terrorist outfits trying to establish network in Interior Sindh, geo news, data: 31 january 2015, Visited in 27 june 2024
- On June 6, 1963, at least 116 Shia Muslims were massacred, lubpak news, data: 8 June 2018, Visited in 27 june 2024
- Longing For The Past And Learning From It: A Conversation With The Pioneers Of LUMS Historical Society, plums, Visited in 27 june 2024